آرمی چیف اوردوسرے اداروں سے اپیل ہے کہ سسٹم کو بہتری کی طرف چلنے دیا جائے خورشید شاہ
نوازشریف سے ملاقات کا کوئی شوق نہیں، حملہ نواز شریف کی طرف سے ہوا ہے، وہ اگر خود ملنا چاہیں تو ضرور ملیں گے،خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ وہ آرمی چیف اور دوسرے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ کہ سسٹم کو بہتری کی طرف چلنے دیا جائے کیونکہ ریاست ہیں تو ادارے ہیں اورریاست نہیں ہوگی تو ادارے بھی نہیں ہوں گے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ رینجرزکو وفاق نے اختیارات آئین کے تحت دئیے اورآئین کے تحت سندھ حکومت مجبورہے،دہشت گردی میں سب سے زیادہ مار پیپلز پارٹی نے کھائی، پھر بھی ہمیں دہشت گردوں کا حمایتی کہنا کیا شرم کی بات نہیں ہے، نوازشریف کو خود کہنا چاہئے یہ الزام غلط ہے جب کہ ہم آرمی چیف اور دوسرے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ خدارا سسٹم کو بہتری کی طرف چلنے دیا جائے، تمام ادارے آگے بڑھ کر ریاست کو بچائیں، ریاست ہیں تو ادارے ہیں، ریاست نہیں تو ادارے بھی نہیں ہوں گے۔
قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ حكومت نے پیٹرولیم مصنوعات كی قیمتوں میں معمولی كمی كركے عوام كی جیبوں پر ڈاكہ مارا ہے جسے اپوزیشن مسترد كرتی ہے اور پیٹرولیم مصنوعات كی قیمتوں كے حوالے سے معمولی ریلیف كے خلاف پارلیمنٹ میں احتجاج كریں گے کیونکہ حكومت 55 فیصد ٹیكس وصول كررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ والی بات میڈیا نے اپنے پاس سے شائع كی تھی کیونکہ میں نے كہا تھا كہ ڈاكٹر عاصم پر ہاتھ ڈال كر حكومت نے ایك نئی جنگ چھیڑ دی ہے ،یہ لفاظی اور قانونی جنگ ہو گئی جسے میڈیا نے لفظ جنگ كو اپنے اندازمیں جاری كردیا۔
خورشید شاہ نے کہا کہ جب یہ قانون بنا تھا تو اس وقت یہ شامل تھا كہ ''جیكٹ بلیک دہشت گرد'' قراردیا جائیگا كیا ڈاكٹر عاصم اس زمرے میں آتے ہیں، دنیا میں ایسا كہیں نہیں ہے كہ پہلے مجرم بنا دو بعد میں الزام لگاؤ۔ انہوں نے كہا كہ اگر ڈاكٹر عاصم دہشت گرد ہیں تو پنجاب میں بھی ایک ایسا وزیر ہے جس كے بارے میں كہا جاتا ہے كہ وہ دہشت گردوں كو سپورٹ كرتا ہے كیا اس كے خلاف بھی كاروائی ہو گی جب کہ وزیر اعظم بتائیں كیا باقی صوبوں میں كرپشن نہیں ہے، حكومت پیپلز پارٹی كے رہنماؤں پر دہشت گردی كے الزامات كو واپس لے، پیپلز پارٹی كرپشن كو سپورٹ نہیں كر رہی ہم ملک كی بہتری چاہتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ ہمیں نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ہم خود دہشت گردی كا شكار ہوئے اب پھر الزامات كے ذریعے كس كو خوش كیا جارہا ہے، شہباز شریف كا دہشت گردوں سے اپیل پر مبنی یہ بیان ریكارڈ پر موجود ہے كہ پنجاب كو دہشت گردی كا كیوں نشانہ بنایا جارہا ہے ہم اور آپ تو ایک ہیں جب کہ یہ بیان انتہائی شرم ناک تھا، وزیر اعظم پریس كانفرس میں اس الزام كی وضاحت كریں۔ انہوں نے كہا كہ پیپلز پارٹی احتجاج كے لیے اسمبلیوں سے استعفوں جیسا انتہائی اقدام نہیں اُٹھائے گی نہ كوئی ایسا ارادہ ہے، ہم كسی صورت اسمبلیوں كو نہیں چھوڑیں گے اور سیاسی جنگ پارلیمنٹ میں رہ كر لڑیں گے۔
خورشید شاہ نے کہا کہ ہمیں ریاست كو مضبوط كرنا ہوگا کیونکہ ریاست ہو گی تو ہم ہوں گے ورنہ خون بہے گا، ہمیں وزیر اعظم نواز شریف سے ملنے كا شوق نہیں، نواز شریف حملہ آور ہوئے ہیں، آصف علی زرداری سمیت قیادت سے رابطہ كرنا بھی ان كی ذمہ داری ہے اگر مجھ سے رابطہ كیا گیا تو تحفظات سے آگاہ كردوں گا۔ انہوں نے کہا کہ تمام ادارے وزیر اعظم كے كنٹرول میں ہیں ہم چاہتے ہیں كہ وزیر اعظم بااختیار ہوں۔ ایک سوال كے جواب میں انہوں نے كہا كہ الیكشن كمیشن كے ممبران از خود استعفیٰ دے كر عزت بچائیں جب کہ الیكشن كمیشن ٹوٹ جانے سے كوئی فرق نہیں پڑے گا بلكہ قائد حزب اختلاف اور قائد ایوان كی مشاورت سے نیا الیكشن كمیشن تشكیل دیا جا سكتا ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x3426ba_khursheed-shah_news
پارلیمنٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ رینجرزکو وفاق نے اختیارات آئین کے تحت دئیے اورآئین کے تحت سندھ حکومت مجبورہے،دہشت گردی میں سب سے زیادہ مار پیپلز پارٹی نے کھائی، پھر بھی ہمیں دہشت گردوں کا حمایتی کہنا کیا شرم کی بات نہیں ہے، نوازشریف کو خود کہنا چاہئے یہ الزام غلط ہے جب کہ ہم آرمی چیف اور دوسرے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ خدارا سسٹم کو بہتری کی طرف چلنے دیا جائے، تمام ادارے آگے بڑھ کر ریاست کو بچائیں، ریاست ہیں تو ادارے ہیں، ریاست نہیں تو ادارے بھی نہیں ہوں گے۔
قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ حكومت نے پیٹرولیم مصنوعات كی قیمتوں میں معمولی كمی كركے عوام كی جیبوں پر ڈاكہ مارا ہے جسے اپوزیشن مسترد كرتی ہے اور پیٹرولیم مصنوعات كی قیمتوں كے حوالے سے معمولی ریلیف كے خلاف پارلیمنٹ میں احتجاج كریں گے کیونکہ حكومت 55 فیصد ٹیكس وصول كررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ والی بات میڈیا نے اپنے پاس سے شائع كی تھی کیونکہ میں نے كہا تھا كہ ڈاكٹر عاصم پر ہاتھ ڈال كر حكومت نے ایك نئی جنگ چھیڑ دی ہے ،یہ لفاظی اور قانونی جنگ ہو گئی جسے میڈیا نے لفظ جنگ كو اپنے اندازمیں جاری كردیا۔
خورشید شاہ نے کہا کہ جب یہ قانون بنا تھا تو اس وقت یہ شامل تھا كہ ''جیكٹ بلیک دہشت گرد'' قراردیا جائیگا كیا ڈاكٹر عاصم اس زمرے میں آتے ہیں، دنیا میں ایسا كہیں نہیں ہے كہ پہلے مجرم بنا دو بعد میں الزام لگاؤ۔ انہوں نے كہا كہ اگر ڈاكٹر عاصم دہشت گرد ہیں تو پنجاب میں بھی ایک ایسا وزیر ہے جس كے بارے میں كہا جاتا ہے كہ وہ دہشت گردوں كو سپورٹ كرتا ہے كیا اس كے خلاف بھی كاروائی ہو گی جب کہ وزیر اعظم بتائیں كیا باقی صوبوں میں كرپشن نہیں ہے، حكومت پیپلز پارٹی كے رہنماؤں پر دہشت گردی كے الزامات كو واپس لے، پیپلز پارٹی كرپشن كو سپورٹ نہیں كر رہی ہم ملک كی بہتری چاہتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ ہمیں نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ہم خود دہشت گردی كا شكار ہوئے اب پھر الزامات كے ذریعے كس كو خوش كیا جارہا ہے، شہباز شریف كا دہشت گردوں سے اپیل پر مبنی یہ بیان ریكارڈ پر موجود ہے كہ پنجاب كو دہشت گردی كا كیوں نشانہ بنایا جارہا ہے ہم اور آپ تو ایک ہیں جب کہ یہ بیان انتہائی شرم ناک تھا، وزیر اعظم پریس كانفرس میں اس الزام كی وضاحت كریں۔ انہوں نے كہا كہ پیپلز پارٹی احتجاج كے لیے اسمبلیوں سے استعفوں جیسا انتہائی اقدام نہیں اُٹھائے گی نہ كوئی ایسا ارادہ ہے، ہم كسی صورت اسمبلیوں كو نہیں چھوڑیں گے اور سیاسی جنگ پارلیمنٹ میں رہ كر لڑیں گے۔
خورشید شاہ نے کہا کہ ہمیں ریاست كو مضبوط كرنا ہوگا کیونکہ ریاست ہو گی تو ہم ہوں گے ورنہ خون بہے گا، ہمیں وزیر اعظم نواز شریف سے ملنے كا شوق نہیں، نواز شریف حملہ آور ہوئے ہیں، آصف علی زرداری سمیت قیادت سے رابطہ كرنا بھی ان كی ذمہ داری ہے اگر مجھ سے رابطہ كیا گیا تو تحفظات سے آگاہ كردوں گا۔ انہوں نے کہا کہ تمام ادارے وزیر اعظم كے كنٹرول میں ہیں ہم چاہتے ہیں كہ وزیر اعظم بااختیار ہوں۔ ایک سوال كے جواب میں انہوں نے كہا كہ الیكشن كمیشن كے ممبران از خود استعفیٰ دے كر عزت بچائیں جب کہ الیكشن كمیشن ٹوٹ جانے سے كوئی فرق نہیں پڑے گا بلكہ قائد حزب اختلاف اور قائد ایوان كی مشاورت سے نیا الیكشن كمیشن تشكیل دیا جا سكتا ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x3426ba_khursheed-shah_news