ہمارا انتخابی نظام ہی مشکوک ہے…

اس سے پہلے سعد رفیق کے حلقے 125کا فیصلہ بھی ایسا ہی آیا تھا، جس میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے تھے

جہاندار شاہ 1712 میں مغلیہ سلطنت کا آٹھواں بادشاہ تھا۔ مشہور ہے کہ وہ کٹھ پتلی بادشاہ تھا ۔جہاندار شاہ نے صرف ایک سال حکومت کی اور 49 برس کی عمر میں اگلے حاکم فرخ سیر کے ہاتھوں قتل ہوا۔ جہاندار شاہ نے نعمت خان کلاؤنت کو ملتان کا گورنر مقرر کیا۔ نعمت خان کی قابلیت اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ وہ ایک کلاؤنت اور مشہور گویا تھا۔ وزیر اعظم ذوالفقار خان اس کے تقرر کے سخت خلاف تھا۔ بادشاہ نے نعمت خاں کی تقرری منظور کر کے کاغذات وزیر کو بھیج دیے۔

وزیر نے تقرری کے کاغذات دبا لیے، عملدرآمد میں غیرمعمولی تاخیر ہو گئی تو نعمت خاں نے وزیراعظم سے ملاقات کی اور تاخیر کی وجہ دریافت کی۔ اس نے بتایاکہ میرے دفتر کا یہ دستور ہے کہ کسی کے تقرری کے کاغذات اس وقت تک جاری نہیں کیے جاتے جب تک وہ نقد رقم ادا نہ کردے لیکن میں آپ سے نقد رقم نہیں لینا چاہتا، آپ مجھے ایک ہزارسارنگیاں فراہم کردیں۔ نعمت خاں ایک ہفتے بعد سودوسو سارنگیاں لے کر وزیر اعظم کے پاس آیا۔

وزیراعظم نے کہا ''نعمت خاں تقرری کے کاغذات اسی صورت میں مل سکتے ہیں کہ تم پوری ایک ہزار سارنگیاں دو''۔ نعمت خاں بادشاہ کے پاس پہنچا اور اسے بتایا کہ وزیر اتنی بھاری رشوت مانگ رہا ہے۔ دوسرے روز جب وزیراعظم جہاندار شاہ کے سامنے حاضر ہوا تو جہاندار شاہ نے پوچھا ''ذوالفقار خاں اس قدر سارنگیاں لے کر کیا کرو گے''۔

اس نے جواب دیا ''جہاں پناہ! جب مطربوں کو صوبوں کی گورنری پر بھیجا جارہا ہے تو پھر امرائے دربار اپنے اسلحہ اُتار دیں گے اور سارنگی بجانا سیکھیں گے''۔ یہ جواب سُن کر جہاندار شاہ نے اپنی غلطی محسوس کی اور نعمت خاں کا تقرر منسوخ کردیا۔

یہی حالات اس وقت ہمارے حکومتی اداروں کے ہیں۔ کرپٹ، نااہل، نالائق، ناموزوں، ناقابل اعتبار، بے کار، ناتجربہ کار، غیرتربیت یافتہ، نامواقف، نادان، کند ذہن اور نہ جانے کس کس طرح کے افسران و سیاستدان اداروں کو چلا رہے ہیں، جب ایسے لوگ ملک چلائیں گے تو ملک کے باسیوں کو واقعی سارنگیوں کی ضرورت ہوگی۔گزشتہ دنوں عمران خان اور اس کی پارٹی کی اس وقت خوشی کی انتہا نہ رہی جب ایک ہفتے میں قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 122 اور 154 میں جیتنے والے امیدواروں کے خلاف فیصلہ آیا۔

اس سے پہلے سعد رفیق کے حلقے 125کا فیصلہ بھی ایسا ہی آیا تھا، جس میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے تھے۔ میں عمران خان صاحب سے کہتا ہوں کہ جس حلقے سے جیتے ہیں، اس پر بھی الیکشن ٹریبیونل بٹھا لیں تو فیصلہ ان کے خلاف ہی آئے گا، کیونکہ ہمارا الیکشن سٹم ہی ''مشکوک'' ہے۔ مشکوک اس لیے کہ بوسیدہ نظام کے تحت ہونے والے الیکشن کا یہی حال ہوگا۔ مجال ہے کہ الیکشن کمیشن نے بوسیدہ نظام سے نکلنے کی کوشش کی ہو۔

یہ ادارہ ہری پور الیکشن کے صرف 30 پولنگ اسٹیشن میں بائیو میٹرک انتخابات کرا دیتا ہے لیکن میڈیا کو ڈرا دیتا ہے کہ الیکٹرونک مشینوں سے ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جائیں گے۔اس لیے عمران خان کو ان فیصلوں پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

میں دنیا کے انتخابی نظام کو دیکھتا ہوں، تو مجھے اپنے حکمرانوں پر شرم آتی ہے۔ افغانستان جیسے ملک میں صدارتی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد دوبارہ گنتی کے عمل کو صرف 4 دن میں مکمل کرلیا گیا تھا۔ جب کہ یہاں اگر کوئی امیدوار اپنے حلقے میں دوبارہ گنتی کے لیے کہہ دے جو کسی بھی امیدوار کا بنیادی حق بنتا ہے تو ''تھیلہ سیاست'' شروع ہوجاتی ہے کہ تھیلے کھولیں یا نہ۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں بینکوں کا آئی ٹی نظام کس مہارت کے ساتھ چلایا جا رہا ہے۔


ایک روپے کی ہیرا پھیری نہیں کی جا سکتی اور اگر کہیں اس طرح کا وقوعہ ہو بھی جائے تو ماہرین اس کا سدباب ڈھونڈنے میں دن رات ایک کر دیتے ہیں۔۔۔ لیکن یہاں الیکشن کمیشن میں جب آئی ٹی کے استعمال کی بات آتی ہے تو خدشات کے انبار لگا دیے جاتے ہیں جیسے گزشتہ سال ''آئی ٹی ماہرین'' نے انتخابی اصلاحات سے متعلقہ پالیمانی کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کو بتایا تھا ''ملک میں شفاف،منصفانہ و غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے کے لیے بائیو میٹرک سسٹم اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر 19ارب 25کروڑ روپے لاگت آئے گی جب کہ ان مشینوں کے استعمال کے باوجود انتخابات کا 100فیصد شفاف انعقاد ممکن نہیں ہوگا اورکوئی بھی ماہر ماسٹرڈیٹا انڈیکس میں گھس کر ووٹوں کی تعداد میں ردوبدل کر سکتا ہے۔

مشینوں کو چلانے والے بھی اگر گڑ بڑ کرنا چاہیں تو یہ ان کے بس میں ہوگا'' خدارا! اگر ایسی ہی بات ہے تو دنیا بھر کے ممالک اس سسٹم کو کیسے اپنائے ہوئے ہیں؟ اگر کسی نظام میں کہیں کوئی رکاوٹ یا اندیشہ آتا ہے تو ہمیں اسے دور کرنا چاہیے نہ کہ ٹیکنالوجی کو سرے سے ہی رد کر دیا جائے اور دوبارہ اسی بوسیدہ نظام کا سہارا لے لیا جائے۔ ہماری بیوروکریسی اور حکمرانوں کو نظام کی بہتری کے لیے کوئی ایک تو اقدام اُٹھانا چاہیے جس سے عوام کو ریلیف ملے، کاش کہ ہمارے حکمرانوں کو قتیل شفائی کا یہ شعر سمجھ آجائے اور موقعے کو غنیمت جانتے ہوئے سچ بول لیں۔

کُھلا ہے جُھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ سچ بولیں

یہاں تو حال یہ ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی کم و بیش ہزار سے زائد سیٹوں کے انتخاب میں 99فیصد سیٹوں کے نتائج ہارنے والے امیدوار کے لیے ناقابل قبول ہوتے ہیں، اسی لیے تو اس نظام کی وجہ سے سب سے بڑی خرابی جو پیدا ہوئی وہ یہ ہے کہ ملک میں پارٹی کے بجائے شخصیات کو فروغ ملا ہے۔ہمیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں انتخابی نظام اگر دیکھنا ہے تو ہمسایہ ملک انڈیا کا دیکھ لیں، حالانکہ میں بھارت کو اس کی شر انگیزیوں کی وجہ سے سخت نا پسند کرتا ہوں لیکن وہاں کے الیکشن کے نظام سے میں بہت متاثر ہوں، منصفانہ الیکشن کرانے کے لیے بھارتی آئین نے الیکشن کمیشن کو بے پناہ اختیارات دے رکھے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ کمیشن دلیری اور بہادری سے یہ اختیارات استعمال کرتا ہے۔ اسی باعث وہ دنیا میں سب سے بڑا انتخابی میلا بھی کامیابی سے منعقد کرا لیتا ہے۔ بھارت میں 80کروڑ سے زیادہ ووٹر بستے ہیں۔ پھر لسانی، جغرافیائی اور دیگر مسائل مدنظر رکھے جائیں، تو انتخابات کا عمل دماغ چکرا دینے والی سرگرمی بن جاتا ہے۔ اس کے باوجود بھارتی الیکشن کمیشن کامیابی سے انتخابات کراتا ہے۔ اور سبھی امیدوار و جماعتیں انتخابی نتائج تسلیم کر لیتی ہیں۔ ادھر الیکشن کمیشن آف پاکستان ہر انتخابات کے موقع پر تنازعات و اسکینڈلز کا نشانہ بن جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ازروئے آئین پاکستان الیکشن کمیشن کو بھی بھارتی کمیشن جیسی خودمختاری اور اختیارات حاصل ہیں۔ تاہم ان کے مابین کچھ فرق بھی ہیں۔

کیا اسی تناظر میں پاکستان کو اپنا الیکشن سسٹم بہتر نہیں بنانا چاہیے۔ کیا ہمیں بھی بھارت کی طرح الیکٹرانک ووٹنگ مشین نہیں اپنانی چاہیے، بھارت میں یہ مشینیں 2004ء سے زیر استعمال ہیں۔

ان کی وجہ سے نہ صرف کمیشن کو کروڑوں بیلٹ پیپر چھاپنے کے خرچے سے نجات ملی بلکہ ووٹ گننے کا عمل بھی گنتی کی طرح آسان بنا دیا۔اسی طرح امریکا و برطانیہ میں بھی مخصوص مدتوں کے بعد شفاف الیکشن کروائے جاتے ہیں جنھیں ہر پارٹی تسلیم کرتی ہے اور عوامی سطح پر مخالف امیدوار کو مبارکبادی پیغامات بھی بھیجتی ہے،،، اور یہ عہد کرتے ہیں کہ سب ملکر ملک کی ترقی اور عوام کی بہبود کے لیے کام کریں گے۔

ابھی بھی اگلے عام انتخابات میں دو سے ڈھائی سال کا عرصہ رہتا ہے، تمام سیاسی پارٹیاں ایسا لائحہ عمل تشکیل دیں جس سے امیدواروں کے انتخاب میں کسی سے زیادتی نہ ہو، الیکشن میں پیسے کے بے دریغ استعمال کو روکا جائے، ووٹ خریدنے کے عمل پر پابندی لگادینی چاہیے، الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہو، جس پارٹی کا عسکری ونگ ہو اسے الیکشن میں حصہ لینے سے روک دیا جائے۔

کم از کم امیدوار کو اس کے بنیادی حق ''ری کاؤنٹنگ'' سے محروم نہ رکھا جائے، ایسا سسٹم بنایا جائے جس سے الیکشن شفاف ہو اور ہر پارٹی کو اس پر اعتماد حاصل ہو۔ اللہ تبارک و تعالٰی سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے پیارے وطن کو ترقی عطا فرمائے اور اس دھرتی کو دوبارہ عظیم لیڈر عنایت فرما۔(آمین)۔
Load Next Story