چیف جسٹس کا تاریخی کارنامہ اور بابائے اردو کی برسی
الحمدللہ محب وطن پاکستانیوں کی کاوشیں رنگ لے آئیں اور اس سال اردو کو قومی زبان کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا
الحمدللہ محب وطن پاکستانیوں کی کاوشیں رنگ لے آئیں اور اس سال اردو کو قومی زبان کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا۔ جناب چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے چیف جسٹس ناصر الملک کی ریٹائرمنٹ کے بعد الوداعی تقریب کے موقع پر اردو میں تقریر کی، اس کے علاوہ بھی انھوں نے اردو میں ہی حلف اٹھا کر ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا اور اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا حکم صادر کیا۔
اس سے قبل انھوں نے حکومت کی توجہ اس سنگین مسئلے کی طرف مبذول کراتے ہوئے سوالات کیے کہ اردو کو سرکاری و دفتری زبان بنانے کے لیے کیبنیٹ کا اجلاس کتنی مرتبہ بلایا گیا اور کیا یہ معاملہ کیبنیٹ میں اٹھایا گیا تھا؟ یوں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت آئین و قانون پر عمل نہیں کر رہی ہے جب کہ 1973ء کے آئین کے مطابق اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جا چکا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ 43 سال گزرنے کے باوجود یہ معاملہ کھٹائی میں پڑا رہا کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی۔
اردو زبان میں مختلف علوم کے خزانے موجود ہیں انھیں درخور اعتنا نہ جان کر اپنا ہی نقصان کیا۔ زبان اردو کے ارتقا میں بزرگان دین اور علما و محققین کا بڑا ہاتھ رہا ہے، سرسید احمد خان بابائے اردو مولوی عبدالحق اور علامہ اقبال کی کاوشوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں نے نہ صرف اردو کی بنیاد رکھی بلکہ اس کے فروغ اور تدریجی عمل میں ان کا ذہن و دماغ کارفرما رہا۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ ''کسی قوم کی زبان اس کی قومی حیثیت کی علمبردار ہوتی ہے، کسی قوم کے اولین آثار انحطاط کا مطالعہ کرنا ہو تو اس قوم کی زبان پر نظر ڈالیے، آپ پر یہ حقیقت جلد آشکار ہو جائے گی کہ قومی زوال کی ابتدا ہمیشہ زبان کے زوال سے ہوئی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ان ہی حقائق کو مدنظر رکھا ہے۔
چھوٹے فرعونوں کا دور اقتدار کوئی نہیں بھولا ہے۔ جب افراتفری، چھینا جھپٹی اوپری سطح سے نچلے اداروں تک عروج پر تھی، ان دنوں یوں لگتا تھا گویا ساری زندگی کے لیے وہ اقتدار کی کرسیوں سے چمٹے رہیں گے، ان سے پوچھ بالکل نہیں ہو گی اور وہ سیاہ سفید کے مالک بن گئے ہیں۔
جس کو چاہیں موت کی وادی میں دھکیل دیں اور دولت پیسہ، سونا چاندی، ہیرے جواہرات کو دوسرے ملکوں میں منتقل کر دیں، اپنے سلوک سے غربا و مساکین کے نیم مردہ جسموں کو تڑپتا اور سسکتا ہوا چھوڑ دیں، ان کے مرنے کا تماشا دیکھیں اور ان کے مسائل حل کرنے کی بجائے انھیں دکھوں اور افلاس کے جنگل میں زندہ درگور کر دیا جائے، ان کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا ہے۔
بے شک اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، جیسا کیا جاتا ہے، ویسا ہی بھگتنا بھی پڑتا ہے، اللہ کی مہربانی سے جنرل راحیل شریف آ گئے، پھر بہت کچھ بدل گیا، سیاہ رات کی تاریکی چھٹنے لگی اور لوگ اپنے ''کل'' سے پر امید نظر آنے لگے اور اب جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ملک اور اپنی زبان سے محبت اور اپنی دھرتی کے مظلوم انسانوں پر احسان عظیم کیا ہے۔
ان کے اس اقدام سے تمام لوگوں کو فوائد حاصل ہوں گے، اس بات سے سب واقف ہیں کہ پاکستان میں ناخواندگی کی شرح بہت زیادہ ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ بے حد کم اور معمولی تعلیم حاصل کرنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں، البتہ جہلا سے یہ ملک بھرا پڑا ہے، اسی وجہ سے جرائم بھی زیادہ ہیں، غربت انسان کا کچھ نہیں بگاڑتی ہے لیکن جہالت انسان کا سب کچھ بگاڑ دیتی ہے۔ گھر بار، آل اولاد سب کچھ برباد ہو جاتا ہے۔
آج حال یہ ہے غیر تعلیم یافتہ لوگ پنشن یا دوسری و مراعات جن کا ذکر کاغذات تک محدود ہے، اسے حاصل کرنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں، پتہ معلوم نہیں، انگریزی تو دور کی بات ہے، اردو پڑھنی نہیں آتی، کہیں جاتے ہیں تو انگریزی کا فارم پکڑا دیا جاتا ہے جسے وہ پُر نہیں کر سکتے، اس طرح اردو لکھنے پڑھنے والے بنا انگریزی کورے رہ جاتے ہیں۔
بینکوں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے، انگریزی سے ناواقف حضرات کسی دوسرے سے اپنا فارم بھرواتے اور مطلوبہ پتہ سمجھتے ہیں، بینک ملازمین کی ہدایات کو بھی نہیں سمجھ پاتے ہیں، اس لیے اکاؤنٹ کھولنے میں بھی دشواریاں درپیش ہوتی ہیں۔ اسپتالوں کے نسخے پڑھنا بھی ان کے بس کی بات نہیں، انگریزی پڑھے لکھے لوگوں سے دواؤں کی قیمتیں پتہ کرتے ہیں، ایکسپائری تاریخ جاننا چاہتے ہیں، میڈیکل اسٹورز پر اس قدر رش ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ دکاندار سے ضروری معلومات حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
انگریزی زبان رائج ہونے کی وجہ سے بے شمار مسئلے پیدا ہوئے ہیں۔ احساس کمتری اور احساس برتری نے آپس میں ہی تفریق پیدا کر دی۔ جو الجھن اپنی زبان میں حل ہو سکتی ہے وہ پرائی زبان میں نہیں۔ باوقار اور غیور قوموں کو اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنے مذہب سے بے پناہ محبت ہوتی ہے لیکن ہمارے ملک میں سب کچھ الٹ ہے، اس کی وجہ نوکر شاہی، حکمرانوں اور بیوروکریٹس کی نااہلی ہے، چین کی ترقی کا راز یہ ہے کہ آزادی کے پہلے سال ہی چینی کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا۔ دوسرے ملکوں میں یہ ہی صورتحال ہے۔
محض دولت کے حصول کے لیے انگریزی اسکول کھولے گئے، او لیول اور اے لیول کی تعلیم دی جانے لگی اور دی جا رہی ہے، اس کی وجہ پرائیویٹ ادارے بڑی بڑی فیسیں وصول کرتے ہیں اور والدین اپنے بچوں کو انگریزی میں بات کرتے ہوئے پھولے نہیں سماتے ہیں۔
اس بات پر کوئی غور نہیں کرتا ہے کہ بچے اور زیادہ تر اساتذہ بھی غلط انگریزی بولتے ہیں۔ اس طرح نہ تیتر اور نہ بٹیر والا معاملہ درپیش رہتا ہے۔ ظاہر ہے جو اپنی زبان میں علم حاصل کیا جا سکتا ہے وہ پرائی زبان میں ہرگز نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انگریزی نہ سیکھی جائے۔ تمام زبانوں کو سیکھنا علم میں اضافے کا باعث ہے لیکن اپنی قومی زبان کی قدر کرنی چاہیے۔
اردو سے بغض و عناد رکھنے والے اس بات سے کم ہی واقف ہیں، سچی بات تو یہ ہے کہ وہ واقف ہونا ہی نہیں چاہتے، ایسے لوگوں کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اردو کا شمار دنیا کی بڑی اور اہم ترین زبانوں میں ہوتا ہے، پوری دنیا میں اردو بولنے والوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ تقریباً ہر ملک میں اردو بولی اور لکھی پڑھی جاتی ہے وہاں کی یونیورسٹیوں میں اردو سے محبت کرنے والے اور اسے سیکھنے والے موجود ہیں، ابن انشا نے بھی اس کا تذکرہ اپنے سفرنامے میں کیا ہے اور اردو سے محبت کو اجاگر کیا ہے۔
جاپان، ترکی، جرمنی، برطانیہ، امریکا اور دوسرے بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں کے محققین نے اردو زبان کی خدمت کی ہے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ (جاری ہے)
اس سے قبل انھوں نے حکومت کی توجہ اس سنگین مسئلے کی طرف مبذول کراتے ہوئے سوالات کیے کہ اردو کو سرکاری و دفتری زبان بنانے کے لیے کیبنیٹ کا اجلاس کتنی مرتبہ بلایا گیا اور کیا یہ معاملہ کیبنیٹ میں اٹھایا گیا تھا؟ یوں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت آئین و قانون پر عمل نہیں کر رہی ہے جب کہ 1973ء کے آئین کے مطابق اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جا چکا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ 43 سال گزرنے کے باوجود یہ معاملہ کھٹائی میں پڑا رہا کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی۔
اردو زبان میں مختلف علوم کے خزانے موجود ہیں انھیں درخور اعتنا نہ جان کر اپنا ہی نقصان کیا۔ زبان اردو کے ارتقا میں بزرگان دین اور علما و محققین کا بڑا ہاتھ رہا ہے، سرسید احمد خان بابائے اردو مولوی عبدالحق اور علامہ اقبال کی کاوشوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں نے نہ صرف اردو کی بنیاد رکھی بلکہ اس کے فروغ اور تدریجی عمل میں ان کا ذہن و دماغ کارفرما رہا۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ ''کسی قوم کی زبان اس کی قومی حیثیت کی علمبردار ہوتی ہے، کسی قوم کے اولین آثار انحطاط کا مطالعہ کرنا ہو تو اس قوم کی زبان پر نظر ڈالیے، آپ پر یہ حقیقت جلد آشکار ہو جائے گی کہ قومی زوال کی ابتدا ہمیشہ زبان کے زوال سے ہوئی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ان ہی حقائق کو مدنظر رکھا ہے۔
چھوٹے فرعونوں کا دور اقتدار کوئی نہیں بھولا ہے۔ جب افراتفری، چھینا جھپٹی اوپری سطح سے نچلے اداروں تک عروج پر تھی، ان دنوں یوں لگتا تھا گویا ساری زندگی کے لیے وہ اقتدار کی کرسیوں سے چمٹے رہیں گے، ان سے پوچھ بالکل نہیں ہو گی اور وہ سیاہ سفید کے مالک بن گئے ہیں۔
جس کو چاہیں موت کی وادی میں دھکیل دیں اور دولت پیسہ، سونا چاندی، ہیرے جواہرات کو دوسرے ملکوں میں منتقل کر دیں، اپنے سلوک سے غربا و مساکین کے نیم مردہ جسموں کو تڑپتا اور سسکتا ہوا چھوڑ دیں، ان کے مرنے کا تماشا دیکھیں اور ان کے مسائل حل کرنے کی بجائے انھیں دکھوں اور افلاس کے جنگل میں زندہ درگور کر دیا جائے، ان کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا ہے۔
بے شک اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، جیسا کیا جاتا ہے، ویسا ہی بھگتنا بھی پڑتا ہے، اللہ کی مہربانی سے جنرل راحیل شریف آ گئے، پھر بہت کچھ بدل گیا، سیاہ رات کی تاریکی چھٹنے لگی اور لوگ اپنے ''کل'' سے پر امید نظر آنے لگے اور اب جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ملک اور اپنی زبان سے محبت اور اپنی دھرتی کے مظلوم انسانوں پر احسان عظیم کیا ہے۔
ان کے اس اقدام سے تمام لوگوں کو فوائد حاصل ہوں گے، اس بات سے سب واقف ہیں کہ پاکستان میں ناخواندگی کی شرح بہت زیادہ ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ بے حد کم اور معمولی تعلیم حاصل کرنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں، البتہ جہلا سے یہ ملک بھرا پڑا ہے، اسی وجہ سے جرائم بھی زیادہ ہیں، غربت انسان کا کچھ نہیں بگاڑتی ہے لیکن جہالت انسان کا سب کچھ بگاڑ دیتی ہے۔ گھر بار، آل اولاد سب کچھ برباد ہو جاتا ہے۔
آج حال یہ ہے غیر تعلیم یافتہ لوگ پنشن یا دوسری و مراعات جن کا ذکر کاغذات تک محدود ہے، اسے حاصل کرنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں، پتہ معلوم نہیں، انگریزی تو دور کی بات ہے، اردو پڑھنی نہیں آتی، کہیں جاتے ہیں تو انگریزی کا فارم پکڑا دیا جاتا ہے جسے وہ پُر نہیں کر سکتے، اس طرح اردو لکھنے پڑھنے والے بنا انگریزی کورے رہ جاتے ہیں۔
بینکوں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے، انگریزی سے ناواقف حضرات کسی دوسرے سے اپنا فارم بھرواتے اور مطلوبہ پتہ سمجھتے ہیں، بینک ملازمین کی ہدایات کو بھی نہیں سمجھ پاتے ہیں، اس لیے اکاؤنٹ کھولنے میں بھی دشواریاں درپیش ہوتی ہیں۔ اسپتالوں کے نسخے پڑھنا بھی ان کے بس کی بات نہیں، انگریزی پڑھے لکھے لوگوں سے دواؤں کی قیمتیں پتہ کرتے ہیں، ایکسپائری تاریخ جاننا چاہتے ہیں، میڈیکل اسٹورز پر اس قدر رش ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ دکاندار سے ضروری معلومات حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
انگریزی زبان رائج ہونے کی وجہ سے بے شمار مسئلے پیدا ہوئے ہیں۔ احساس کمتری اور احساس برتری نے آپس میں ہی تفریق پیدا کر دی۔ جو الجھن اپنی زبان میں حل ہو سکتی ہے وہ پرائی زبان میں نہیں۔ باوقار اور غیور قوموں کو اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنے مذہب سے بے پناہ محبت ہوتی ہے لیکن ہمارے ملک میں سب کچھ الٹ ہے، اس کی وجہ نوکر شاہی، حکمرانوں اور بیوروکریٹس کی نااہلی ہے، چین کی ترقی کا راز یہ ہے کہ آزادی کے پہلے سال ہی چینی کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا۔ دوسرے ملکوں میں یہ ہی صورتحال ہے۔
محض دولت کے حصول کے لیے انگریزی اسکول کھولے گئے، او لیول اور اے لیول کی تعلیم دی جانے لگی اور دی جا رہی ہے، اس کی وجہ پرائیویٹ ادارے بڑی بڑی فیسیں وصول کرتے ہیں اور والدین اپنے بچوں کو انگریزی میں بات کرتے ہوئے پھولے نہیں سماتے ہیں۔
اس بات پر کوئی غور نہیں کرتا ہے کہ بچے اور زیادہ تر اساتذہ بھی غلط انگریزی بولتے ہیں۔ اس طرح نہ تیتر اور نہ بٹیر والا معاملہ درپیش رہتا ہے۔ ظاہر ہے جو اپنی زبان میں علم حاصل کیا جا سکتا ہے وہ پرائی زبان میں ہرگز نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انگریزی نہ سیکھی جائے۔ تمام زبانوں کو سیکھنا علم میں اضافے کا باعث ہے لیکن اپنی قومی زبان کی قدر کرنی چاہیے۔
اردو سے بغض و عناد رکھنے والے اس بات سے کم ہی واقف ہیں، سچی بات تو یہ ہے کہ وہ واقف ہونا ہی نہیں چاہتے، ایسے لوگوں کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اردو کا شمار دنیا کی بڑی اور اہم ترین زبانوں میں ہوتا ہے، پوری دنیا میں اردو بولنے والوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ تقریباً ہر ملک میں اردو بولی اور لکھی پڑھی جاتی ہے وہاں کی یونیورسٹیوں میں اردو سے محبت کرنے والے اور اسے سیکھنے والے موجود ہیں، ابن انشا نے بھی اس کا تذکرہ اپنے سفرنامے میں کیا ہے اور اردو سے محبت کو اجاگر کیا ہے۔
جاپان، ترکی، جرمنی، برطانیہ، امریکا اور دوسرے بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں کے محققین نے اردو زبان کی خدمت کی ہے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ (جاری ہے)