جنگ ستمبر اور پاک بھارت کشیدگی کا ذمہ دار کون
برصغیر کے امن کو یرغمال بنانے والے مسئلے کے اصل حقائق اورقانونی پہلوؤں پر تفصیلی رپورٹ
جنگِ ستمبر پاکستان کی مختصر تاریخ کا نہایت اہم باب ہے۔ اس جنگ کی اہمیت کے کئی پہلو ہیں۔ پاکستان ابھی آزادی کے ابتدائی دور میں پوری طرح سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ اُسے ایک مکمل جنگ سے گزرنا پڑا۔ یہ جنگ اس لحاظ سے بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں پاکستان کے لوگوں نے ایک قوم ہونے کا شاندار مظاہرہ کیا اور پاک فوج نے میدان جنگ میں غیر متوقع اور غیر معمولی چیلنجوں کا کامیابی کے ساتھ سامنا کرکے وہ اعتماد اور یقین حاصل کیا جو ہمیشہ ایک قیمتی اثاثے کے طور پر ان کے جذبۂ حب الوطنی کی آبیاری کرتا رہے گا۔
جنگیں تباہ کُن ہوتی ہیں۔ یہ آگ اور خون کا کھیل ہے جس میں سانحے جنم لیتے ہیں۔ کوئی ذی ہوش جنگ کو پسند نہیں کرتا لیکن کیا کیجئے کہ انسان کی ہٹ دھرمی، جھوٹی انا، حب الوطنی کا منفی تصور اور نسلی و سیاسی برتری کا جنون کروڑوں انسانوں کو جنگ کا ایندھن بنا چکا ہے لیکن اس کے باوجود انسان نے عمومی طور پر اس سیاہ ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جہاں دو ملکوں کے درمیان کوئی تنازع ہووہاں جنگ کا اندیشہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ پاکستان بھی دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جو اپنے قیام کے ساتھ ہی علاقائی تنازع کا فریق بنا اور جنگ ستمبر نے اس تنازع کے بطن سے جنم لیا۔
ہمارے ہاں جنگ ستمبر کے تذکرے میں ہمیشہ جذباتی رزمیہ کا رنگ غالب رہتا ہے۔ عوامی سطح پر سنجیدہ استدلال اور قانونی نقاط کی روشنی میں ان تنازعات کے پس منظر اور پیش منظر پر بات خال خال ہی نظر آتی ہے۔ شاید یہاں بھی یہی مجبوری پیش نظر رہی ہو کہ ڈرامائی تفصیلات اور جذباتی منظرکشی زیادہ بکتی ہے۔
موجودہ دور میں اس بات کی اہمیت سے صرف نظر ممکن ہی نہیں کہ قوم کو اپنے قومی مفادات کے بارے میں مکمل آگاہی ہونی چاہیے۔ عام لوگوں کو اس بات کا کامل یقین ہونا لازم ہے کہ جس مقصد کے لیے ماضی میں خون بہایا گیا اور اب بھی ہم مرنے مارنے پر آمادہ ہیں اس میں ہم سو فیصد حق پر ہیں اور حق کے لیے تلوار اٹھانا بالکل جائز اور پسندیدہ عمل ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان دو ہمسایوں کے مابین معمول کے تعلقات جیسی صورتحال کے برعکس مسلسل محاذ آرائی، مسلح تصادم اور جنگوں کی وجہ بننے والے مسئلہ کشمیر کوزیادہ تر سیاسی اور تاریخی حوالوں سے بحث کا موضوع بنایا جاتا ہے جبکہ اس معاملے کا سب سے اہم، قانونی پہلو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
بھارت کی جانب سے مسئلے کے قانونی پہلوؤں پر مختلف کتابوں میں جو استدلال سامنے آتا ہے وہ ذہن کومثبت انداز میں متاثر کرنے کے بجائے بذات خود متنازعہ لگتا ہے یا پھر نام نہاد قانونی نقاط کو استعمال کرکے بھارتی پوزیشن درست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خسارہ اٹھانے کے خوف سے بین الاقوامی قانون کے تناظر میں اس مسئلے کا سنجیدہ اور منظم انداز میں تجزیہ کہیں نظر نہیں آتا۔ ہم نے یہاں کوشش کی ہے کہ قانونی حوالوں سے معاملے کا تجزیہ کیا جائے۔
برصغیر کی تقسیم کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان اور غیر مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان کے نام سے دو خود مختار ریاستوں کی شکل میںوجود پذیر ہوں گے۔ 1947ء میں برصغیر میں موجود 560 نیم خود مختار اور خود مختار ریاستیں بھی موجود تھیں جن کے مستقبل کا فیصلہ بھی ہونا تھا۔ برصغیر کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے تشکیل پانے والے کیبنٹ مشن نے 1946ء میں ایک بیان جاری کیا تھا۔
جس میں کہا گیا تھا ''مطلق اختیار اب نہ تو تاج برطانیہ برقرار رکھ سکتا ہے نہ ہی اسے کسی حکومت کو تفویص کیا جاسکتا ہے۔'' مطلق اختیار کا معاملہ اب 1947ء کے آزادیٔ ہند ایکٹ کی رو سے طے کیا جانا تھا جس کے آرٹیکل 7 کے مطابق شہنشاہ برطانیہ کا ہندوستان کی ریاستوں پر اختیار ختم ہوچکا تھا اور اب قانونی تقاضہ یہ تھا کہ یہ ریاستیں بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک مملکت کے اقتدار اعلیٰ کے ماتحت آجائیں۔ یعنی دونوں میں سے ایک ریاست کا حصہ بن جائیں۔
برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز میں خطاب کرتے ہوئے برصغیر کے امور کے وزیر لارڈ لسٹوول نے کہا تھا ''ہم برصغیر کی کسی ریاست کو بین الاقوامی سطح پر مکمل طور پر خود مختار حیثیت میں تسلیم کرنے کے حق میں نہیں۔''
خود مختار ریاستوں کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے بارے میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے رہنما اصول وضع کیے تھے۔ جن کا اظہار انہوں نے 25 جولائی 1947ء کو چیمبر آف پرنسز (برصغیر کی ریاستوں کے فرمانرواؤں کے اجتماع) سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ریاستوں کے فرمانروا پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرتے ہوئے جغرافیائی صورتحال کا خیال رکھیں۔ دوسرے نمبر پر وہ یہ دیکھیں کہ ریاست کی آبادی میں مسلم اور غیر مسلم تناسب کس کے حق میں ہے اور تیسرے یہ کہ ریاست کے لوگوں کی خواہش کیا ہے کہ وہ دونوں میں سے کس ملک کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔
15 اگست 1947ء تک جوناگڑھ، حیدر آباد دکن اور کشمیر کے سوا باقی تمام ریاستوں نے اوپر بیان کیے گئے اصولوں کے مطابق بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک ریاست کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیا تھا۔
4 ہزار مربع میل (10360 مربع کلومیٹر) پر پھیلی ہوئی ریاست جوناگڑھ نے جس کی آبادی تقریباً 80 لاکھ تھی، پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا۔ ریاست کا فرمانروا مسلمان جبکہ 80 فیصد آبادی ہندوؤں پرمشتمل تھی۔ پاکستان سے الحاق کے اعلان کو حکومت پاکستان نے منظور کرتے ہوئے 12 ستمبر 1947ء کو بھارتی حکومت کو آگاہ کردیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 'جو اب بھارت کے گورنر جنرل تھے، پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح کو 22 ستمبر 1947ء کو ایک ٹیلی گرام بھیجا جس میں خبردار کیا گیا کہ جوناگڑھ کے پاکستان سے الحاق کے فیصلے کو منظور کرنا برصغیر کی تقسیم کے ان رہنما اصولوں کی خلاف ورزی ہے ۔
جس پر دونوں ملکوں نے اتفاق کیا تھا۔ حکومت ہند نے جوناگڑھ کے اس اعلان کو مسترد کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ جوناگڑھ جغرافیائی اعتبار سے بھارت کے ساتھ منسلک ہے اور پھر اس کی آبادی کی اکثریت ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ لہٰذا اس ریاست کے الحاق کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے ہوگا جس کا انتظام بھارت اور جوناگڑھ کی حکومتیں مشترکہ طور پر کریں گی۔ 17 ستمبر 1947ء کو بھارتی فوج نے امن و امان کے تحفظ کے نام پر جوناگڑھ کا محاصرہ کرلیا۔ اس کے بعد فوج ریاست کے اندر داخل ہوگئی اور بزور قبضہ کرلیا۔ بعد میں وہاں استصواب رائے کرایا گیا اور اعلان کردیا گیا کہ ریاست کے عوام کی اکثریت نے بھارت سے الحاق کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔
حیدر آباد دکن کا نظام (فرمانروا) بھی مسلمان تھا جبکہ 85 فیصد آبادی ہندو تھی۔ نظام چاہتا تھا کہ ریاست پاکستان کا حصہ بنے یا پھر اسے مکمل آزادی دی جائے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے نظام کو خبردار کیا کہ وہ یہ دونوں راستے اختیار نہ کرے اور اسے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ بھارت سے الحاق کی صورت میں اسے کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔
جب نظام نے واضح انکار کردیا تو بھارت کا رویہ انتہائی جارحانہ ہوگیا۔ بھارت کے ریاستی امور کے وزیر وی پی مینن نے نظام کو واضح الفاظ میں بتا دیا کہ ''حیدر آباد دکن کا بھارت سے الگ رہنا وہاں کی ہندو آبادی کے حقوق کی پامالی کے مترادف ہوگا''۔ 24 اگست کو حیدر آباد دکن کی حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مداخلت کی اپیل کردی لیکن اس سے پہلے کہ اس اپیل کی سنوائی ہوتی بھارت نے فرقہ وارانہ فسادات پھیلنے کے خطرے کا بہانہ بناکر ریاست پر چڑھائی کردی اور اس پر بزور قبضہ کرلیا۔
اسی طرح جودھ پور کے مہاراجہ نے پاکستان سے الحاق کا قصد کیا جس پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مداخلت کرتے ہوئے مہاراجہ کو خبردار کیا کہ اس کا یہ فیصلہ ہندو یا مسلم اکثریت کے اصول سے متصادم ہے لہٰذا مہاراجہ نے اپنا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ الحاق کرلیا۔ ایک اور اہم نقطہ یہ ہے کہ مسلم لیگ بنگال اور پنجاب کے صوبوں میں مسلم اکثریت کی بنا پر دونوں صوبوں کو مکمل طور پر پاکستان کا حصہ بنانے پر اصرار کرتی تھی لیکن ان صوبوں کو بھی آبادی کے تناسب کی بنیاد پر دونوں ملکوں میں تقسیم کیا گیا۔
اب آتے ہیں جموں و کشمیر کی طرف۔ ریاست میں مسلم اکثریت کا تناسب 78 فیصد جبکہ وادی میں مسلم اکثریت کا تناسب 93 فیصد تھا۔ ریاست کا ہندوستان سے سڑک اور ریل کا رابطہ پاکستان کے راستے قائم تھا۔ سڑک راولپنڈی سے جبکہ ریل سیالکوٹ کے راستے کشمیر سے منسلک تھی۔ ڈاک اور ٹیلی گراف رابطے بھی پاکستان کے ذریعے منسلک تھے۔
تمام اشیائے ضرورت صرف پاکستان کے راستے کشمیر میں پہنچتی تھیں۔ علاقے میں سیاحت بھی پاکستان کے راستے ہوتی جبکہ تجارتی لکڑی بھی اسی راستے باہر آسکتی تھی، تاریخی اعتبار سے 14 ویں صدی سے 19 ویں صدی کے آغاز تک کشمیر پر مسلمانوں کی حکومت رہی۔ 1819ء میں پنجاب کے حاکم رنجیت سنگھ نے یہ علاقہ افغانوں سے چھین لیا، اس نے ایک ڈوگرا راجپوت گلاب سنگھ کو جموں کا علاقہ سونپ دیا۔ گلاب سنگھ نے اپنے اقتدار کو کشمیر کے دیگر علاقوں تک وسعت دی جبکہ وادی اس کے زیر انتظام نہ تھی۔ 1846ء میں وادی اپنے مکینوں سمیت انگریز حکومت نے ساڑھے سات لاکھ روپے کے عوض گلاب سنگھ کو بیچ دی۔
ریاست کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کی معمول کی کارروائی سے ہٹ کر کشمیر کے معاملے پر سرگرمیاں بہت پہلے سے جاری تھیں۔ مئی 1947ء کو کانگریس پارٹی کے صدر اچاریہ کرپلانی نے کشمیر جاکر مہاراجہ کو بھارت سے الحاق پر قائل کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ مل سکی۔
اس کے بعد یہ ذمہ داری بھارت کے ساتھ الحاق کرنے والی قریبی ریاستوں فریدکوٹ، کپور تھلہ، پٹیالہ اور پنجاب کے پہاڑی علاقوں کی ریاستوں کے فرمانرواؤں کو سونپی گئی لیکن وہ بھی مہاراجہ کو مائل نہ کرسکے۔ جون 1947ء میں ماؤنٹ بیٹن بھی کشمیر گیا اور بظاہر مہاراجہ سے کہا کہ وہ الحاق کا فیصلہ لوگوں کی خواہشات کے مطابق کرے۔
اس کے بعد گاندھی جی کشمیر پہنچے۔ ان کے دورے کے نتیجے میں کامیابی کے آثار پیدا ہونے شروع ہوئے کیونکہ کشمیر کی مکمل آزادی کے حامی وزیراعظم رام چندر کاک کو ہٹا کر ڈوگرا جنک سنگھ کو وزیراعظم بنا دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی بھارت نواز مسلم رہنما شیخ عبداللہ کو جیل سے رہائی مل گئی۔ اکتوبر میں ایک اور بڑی تبدیلی آئی کہ جنک سنگھ کی جگہ کانگریس کے نامزد مہر چند مہاجن کو وزیراعظم بنا دیا گیا اور یہ وعدہ کیا گیا کہ مہاجن کی درخواست پر بھارتی فوجی مدد میسر ہوگی۔
جولائی کے آخری دنوں میں مہاراجہ نے ریاست کے صرف مسلمان باشندوں کو حکم دیا کہ جس کسی کے پاس اسلحہ ہے وہ سرکار کے حوالے کردے۔ اس کے بعد ریاست کی فوج کے تمام مسلمان افسروں اور جوانوں کو بھی غیر مسلح کر دیا گیا جس کے بعد آنے والے حالات کے بارے میں رتی برابر شبہ باقی نہیں رہا تھا۔ اگست کے وسط میں راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور سکھ گروہ درگروہ پونچھ میں بڑھتے ہوئے تناؤ کو دیکھتے ہوئے جموں کے علاقے میں جمع ہونا شروع ہوگئے۔ منصوبہ یہ تھا کہ مسلم آبادی کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا جائے۔ قتل و غارتگری کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
ٹائمز آف لندن کے مطابق 2 لاکھ 37 ہزار مسلمانوں کو منصوبہ بندی کے تحت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جو بچ گئے وہ پاکستان بھاگ آئے۔ اخبار سٹیٹس مین کے ایڈیٹر آئن سٹیفن کے مطابق ''1947ء کے موسم خزاں میں 5 لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کو بری طرح سے کھدیڑ دیا گیا تھا، ان میں سے دو لاکھ سے زائد تو بلاک ہوگئے جو بچ گئے وہ پاکستانی پنجاب بھاگ گئے۔
اس صورتحال کا ردعمل لازم تھا۔ کشمیری جنگجوؤں نے 21/22 اکتوبر کو مہاراجہ کی فوج پر حملوں سے اس ظلم کا جواب دیا۔ ادھر پاکستان کے قبائلی علاقوں سے جنگجوؤں کے لشکر کشمیری مسلمانوں کی مدد کے لیے کشمیر میں داخل ہوگئے۔ 24 اکتوبر کو مہاراجہ نے بھارت سے فوجی مدد مانگ لی۔ 25 اکتوبر کو مہاراجہ اپنے خاندان اور قیمتی اثاثوں سمیت سری نگر سے جموں فرار ہوگیا۔ فوج اور پولیس میں بغاوت ہوچکی تھی اور مسلمان جوان اور افسر فوج چھوڑ کر حریت پسندوں سے جاملے تھے۔
وی پی مینن پہلے ہی کشمیر آچکا تھا۔ جموں پہنچ کر مہاراجہ نے بھارت کے گورنر جنرل کو فوج بھیجنے کی درخواست لکھ کر مینن کے حوالے کی اور ساتھ ہی کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کرکے منین کے سپرد کردی۔
27 اکتوبر کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے جو جواب مہاراجہ کو لکھا وہ بہت اہم اور دلچسپ ہے۔ ماؤنٹ بیٹن نے لکھا ''عزت مآب مہاراجہ آف کشمیر نے جن غیر معمولی حالات کا تذکرہ کیا ہے اس کے پیش نظر میری حکومت نے الحاق کی درخواست قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
میری حکومت اپنی اس پالیسی پر کاربند ہے کہ اگر الحاق کے بارے میں کوئی تنازع پیدا ہوتا ہے تو اس کا حل ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا۔ میری حکومت کی خواہش ہے کہ جیسے ہی ریاست میں حالات معمول پر آجائیں الحاق کے سوال کو لوگوں کی خواہشات کے مطابق طے کیا جائے گا۔''
27 اکتوبر کو صبح 9 بجے بھارتی فوج سری نگر ایئرپورٹ پر اُتر گئی۔ پونچھ اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے بہت سے فوجی مزاحمت کے لیے سرحد پار کرگئے۔
قبل ازیں 24 اکتوبر کو مسلم کانفرنس نے جو پہلے 19 جولائی کو کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کرچکی تھی، نوآزاد شدہ علاقے میں آزاد کشمیر حکومت قائم کی۔ اس دوران ماؤنٹ بیٹن اور محمد علی جناح کی ملاقات لاہور میں ہوئی جو اس وجہ سے ناکام ہوگئی کیونکہ قائداعظم کے خیال میں کشمیر میں بھارتی فوج کی موجودگی میں آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے ممکن نہیں تھا۔
ایلسٹر لیمب (Alastair Lamb)نے اپنی کتاب ''نامکمل بٹوارہ'' میں لکھا ہے۔ اگر برطانوی حکام نے دانشمندی کا ثبوت دیا ہوتا تو پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے منطق کو استعمال کرتے ہوئے کشمیر کے معاملے کو حل کیا جاسکتا تھا جس کے تحت مسلم اکثریت والے ریاست کے مغربی حصے پاکستان جبکہ ہندو اور بدھ اکثریتی مشرقی حصے بھارت میں شامل ہوتے۔ برصغیر کی تقسیم اور برطانوی راج کے خاتمے کے موقع پر جو مذہبی بنیادوں پر قتل و غارتگری کا بازار گرم ہوا۔ ریاست جموں بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکی تھی۔
پورے برصغیر میں جاری مارا ماری سے ہٹ کر کشمیر میں ہونے والی سرگرمیاں اس حوالے سے مختلف تھیں کہ یہاں کشمیر کی مسلح افواج کو باقاعدہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ بزور طاقت جتنے مسلمانوں کو ریاست بے دخل کرسکتے ہیں انہیں نکال باہر کریں۔ جلد ہی یہ بات واضح ہوگئی کہ ریاست میں مسلمان فیصلہ کن اکثریت میں موجود ہیں اس لیے ان کا مکمل صفایا کرنا ناممکن ہے اور یہ علاقہ ہمیشہ مسلم اکثریتی علاقہ رہے گا۔
ایک اندازے کے مطابق اگست/ ستمبر 1947 کے دو مہینوں کے دوران 5 لاکھ مسلمانوں کو ریاست سے بے دخل کردیا گیا جبکہ 2 لاکھ سے زائد اپنی جانوں سے ہاتھ دو بیٹھے۔ جلد ہی مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں پونچھ کے علاقے میں پہنچیں۔ جہاں برطانوی فوج میں خدمات انجام دینے والے 60 ہزار ریٹائرڈ فوجی آباد تھے۔ ستمبر 1947ء میں پونچھ میں مہاراجہ کشمیر کے خلاف کھلی بغاوت پھوٹ پڑی۔ یہ بغاوت ایک ڈھیلے ڈھالے تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ کام کررہی تھی جبکہ نو آزاد مملکت پاکستان کی فوج کی جانب سے بھی انہیں بہت معمولی نوعیت کی مدد مل رہی تھی۔
اس موقع پر بھارت اور پاکستان کی مسلح افواج کشمیر کے معاملے میں بہت معمولی حد تک ملوث تھیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ پورے برصغیر میں جس بڑے پیمانے میں ہولناک قتل و غارتگری جاری تھی کشمیر کے یہ واقعات نمایاں نہیں ہوسکے۔
25 اکتوبر کو نہرو کی جانب سے ایک تار برطانیہ کے وزیراعظم کلمینٹ ایٹلی کو بھیجا گیا۔ تار کا متن اس طرح سے تھا۔
''ہمیں ریاست کشمیر کی حکومت کی جانب سے ہنگامی مدد کی درخواست موصول ہوئی ہے۔ ہم خود کو ایسی کسی درخواست پر مثبت ردعمل دکھانے کا پابند پاتے ہیں کیونکہ کشمیر کی سلامتی جس کا تمام تر دارومدار کشمیر میں داخلی امن و امان کی لازمی ضمانت فراہم کرنے پر ہے، خود بھارت کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔
میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اس ہنگامی صورتحال میں کشمیر کی مدد و اعانت کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اس موقع کو کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی راہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔ کسی بھی متنازع علاقے کے الحاق کا سوال ہر صورت وہاں کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق طے کیا جانا چاہیے۔''
ایٹلی کی جانب سے اس تار کا جواب دو روز بعد موصول ہوا جس میں نہرو پر زور دیا گیا تھا کہ وہ کسی بھی صورت کشمیر میں فوجی مداخت نہ کرے کیونکہ ایسا اقدام صورتحال کو مزید خراب کرے گا لیکن بھارت جواب آنے سے پہلے ہی فوجی اقدام کرچکا تھا اور بھارت کی جانب سے اس بات کا اظہار بھی کردیا گیا کہ برطانوی وزیراعظم کو تار محض آگاہ کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ تار کا مقصد اجازت طلب کرنا نہیں تھا۔
26 اکتوبر کو دہلی سے بھاری مقدار میں فوجی سازو سامان اور بڑی تعداد میں بری فوج کے دستے جہازوں کے ذریعے سری نگر اتارنے کا عمل شروع ہوا۔ اسی روز شام سے پہلے پہلے بھارتی فوج کی پوری دو بٹالینیں سری نگر کے ہوائی اڈے پر اترچکی تھیں۔ ہوائی رسد کی اتنی بڑی کارروائی اچانک ممکن نہیں ہوا کرتی۔ اس کا مطلب ہے کہ بھارت سری نگر میں فوج اتارنے کی تیاری پہلے سے کرچکا تھا۔
27 اکتوبر کو جب بھارتی فوج کشمیر میں کارروائی کا آغاز کررہی تھی۔ بھارت کے گورنر جنرل لارڈ مونٹ بیٹن نے مہاراجہ کشمیر کی جانب سے الحاق کی درخواست کو قبول کرلیا اور الحاق کی درخواست کی قبولیت کے مراسلے میں لکھا۔
''میری حکومت اپنی اس پالیسی پر قائم ہے کہ کوئی بھی ریاست جس کے الحاق کا معاملہ متنازعہ ہے وہ اس ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔ میری حکومت کی خواہش ہے کہ جیسے ہی کشمیر میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوجاتی ہے اور کشمیر کی سرزمین کو حملہ آوروں سے پاک کردیا جاتا ہے۔ کشمیر کے الحاق کے سوال پر ریاست کے عوام سے رجوع کیا جائے گا۔''
2 نومبر 1944ء کو ماؤنٹ بیٹن کے مراسلے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے آل انڈیا ریڈیو پر بھارتی وزیراعظم نہرو نے کہا ''کشمیر کے الحاق کا فیصلہ وہاں کے لوگوں کے ذریعے کرنے کا عہد ہم نے دیا ہے اور ہم اپنے عہد سے انحراف نہیں کریں گے اور نہ ہم ایسا کرسکتے ہیں۔''
بھارت کی اس پوزیشن کے بارے میں کچھ تاریخ دانوں کا تجزیہ بہت دلچسپ ہے۔ ان کی رائے میں اس زمانے میں ریاست جموں و کشمیر کی کل آبادی کا صرف 7 فیصد حصہ ووٹرز کے طور پر رجسٹرڈ تھا اور ان میں بھی غالب اکثریت ہندوؤں پر مشتمل تھی۔
اس صورتحال کے بعد پاکستان پر لازم ہوگیا تھا کہ وہ ردعمل ظاہر کرے کیونکہ بھارتی اقدام نے یہ بات صاف کردی تھی کہ ایک ایسی ریاست جہاں مسلم غالب اکثریت میں آباد ہیں پوری کی پوری بھارت کے زیر تسلط جارہی ہے۔ بھارتی فوج کی ریاست میں آمد کا مطلب تھا کہ پونچھ کی بغاوت کے نتیجے میں سری نگر پر باغیوں کے قبضے کی راہ روک لی جائے گی۔
یہ ایک تلخ حقیقت تھی کہ پاک فوج بالکل بے سروسامانی کی حالت میں تھی اور تنظیم نو کے ابتدائی مراحل سے گزر رہی تھی ایسی حالت میں کسی جنگ میں شامل ہونا مشکل فیصلہ تھا لیکن 24 اکتوبر کو گورنر جنرل قائداعظم نے کشمیر میں بھارتی فوجی مداخلت کو بزور طاقت کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے پاک فوج کو کشمیر میں داخل ہونے کا حکم دے دیا۔
اس وقت فیلڈ مارشل سر کلاڈ اکنلیک بھارت اور پاکستان دونوں کی مسلح افواج کے مشترکہ سربراہ تھے۔ وہ اگلے ہی روز یعنی 28 اکتوبر کو لاہور پہنچے اور پاکستانی حکام کو بتایا کہ اگر قائداعظم کشمیر میں فوج بھیجنے پر اصرار کریں گے تو میں پاک فوج کے انگریز سربراہ جنرل سرڈگلس گیریسی سمیت تمام انگریز افسروں کو حکم دوں گا کہ وہ پاک فوج کو چھوڑ دیں کیونکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور میں خود یہ نہیں چاہتے کہ کسی تصادم میں برطانوی فوجی افسر آمنے سامنے آئیں۔
ممتاز محقق اور برصغیر پر اتھارٹی مانے جانے والے مصنف سٹینلے وال پرٹ کے مطابق ''جناح کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردیا گیا تھا اور بالآخر قائداعظم کو معلوم ہوا کہ دونوں نوزائیدہ مملکتوں کے مشترکہ گورنر جنرل بننے کی ماؤنٹ بیٹن کی شدید خواہش کے پورا ہونے میں رکاوٹ ڈالنے کی انہیں کس قدر بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔''
اس جعلی الحاق کے بعد بھی کشمیریوں سے انتقام کا سلسلہ رکا نہیں۔ 5 اور 6 نومبر کی درمیانی رات جموں شہر سے 5 ہزار مسلمانوں کو زبردستی نکالا گیا اور ایک قافلے کی صورت میں پہلے سے طے شدہ مقام پر لاکر قتل کردیا گیا۔ اس واقع پر نہرو کی طرف سے دکھی ہونے کی شاندار اداکاری کے باوجود کسی ذمہ دار کو سزا نہیں دی گئی۔
پاک فوج کے لڑائی میں شامل نہ ہونے کے باعث سرکاری سرپرستی میں لڑنے والے رضا کاروں اور دیگر جنگجوؤں پر بھارتی فوج کی برتری کے اثرات ظاہر ہونے لگے۔ 1948ء کے وسط تک واضح ہونے لگا کہ بھارتی فوج پوری ریاست کشمیر پر قبضہ کرلے گی۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے تباہ کن ہوتی۔
اس موقع پر پاک فوج کے سربراہ جنرل گریسی نے سابقہ فیصلے کے برعکس پاک فوج کو کشمیر میں داخل ہونے کے احکامات دے دیئے۔ یقینا اس فیصلے کے پیچھے لندن میں حکومت سے صلاح مشورے کا عمل دخل تھا اور برطانیہ یہاں توازن کو مکمل طور پر خراب کردینے کے حق میں نہ تھا۔ پاک فوج کے کشمیر میں داخل ہونے سے یہ ممکن ہوگیا کہ پونچھ اور میر پور کے علاقے کے بیچوں بیچ کشمیر کے اندر نئی لائن وجود میں آگئی اور بھارتی فوج کو واپس سری نگر کی طرف دھکیل دیا گیا۔
پاک فوج کی کارروائی کے نتیجے میں گلگت، بلتستان کے علاوہ کشمیر کی ایک تنگ پٹی اور پونچھ اور میر پور کے علاقے پاکستان کے پاس آگئے۔
دوسری جانب پونچھ کا کچھ علاقہ، سری نگر سمیت کشمیر کا زیادہ تر حصہ لداخ اور جموں بھارت کے زیر قبضہ آگئے۔
یکم جنوری 1949ء کو فائر بندی کے معاہدے پر دستخط ہوگئے اور 27 جولائی 1949ء کو فائر بندی لائن پر اتفاق ہوگیا۔
31 دسمبر 1947ء کو بھارت ہی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے کر گیا۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ حالانکہ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ کشمیر کے معاملے میں اس کے ساتھ زیادتی ہوئی اور بھارت نے جارحیت کا ارتکاب کیا لیکن اس تنازع کو اقوام متحدہ میں بھارت لے کر گیا تاکہ پاکستان کو جارح ثابت کرکے الحاق کشمیر کی دستاویز کو قانونی قرار دلوا سکے۔
کشمیر پر اقوام متحدہ کی پہلی قرار داد 17 جنوری 1948ء کو منظور ہوئی جس میں دونوں فریقوں پر زور دیا گیا کہ وہ علاقے میں حالات کو معمول پر لائیں تین روز بعد بھارت اور پاکستان کے معاملات پر اقوام متحدہ کی کمیٹی (UNCIP) کا قیام عمل میں آیا۔
21 اپریل 1948ء کی قرارداد میں فوری جنگ بندی پر زور دیا گیا تاکہ جموں کشمیر کے عوام استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔ استصواب کے عمل کو غیر جانبدارای کی ضمانت فراہم کرنے کے لیے پاکستان سے کہا گیا کہ وہ تمام قبائلی جنگجوؤں کو کشمیر سے واپس بلائے جبکہ بھارت سے کہا گیا کہ وہ اپنی فوج کی صرف اتنی تعداد کشمیر میں رہنے دے جو کشمیر میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اقوام متحدہ جتنی تعداد میں چاہے مبصرین کشمیر بھیج سکے گی۔
پاکستان نہیں چاہتا تھا کہ جو علاقہ اس نے آزاد کروایا ہے وہ پھر بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔ پاکستان کا مؤقف تھا کہ اقوام متحدہ کی فوج پہلے کشمیر میں داخل ہو اس کے بعد پاکستان علاقے خالی کرے گا۔ بھارت نے اس بات کو بنیاد بناکر استصواب رائے کی قرارداد کے نفاذ کو رد کردیا۔
اقوام متحدہ کی کوششوں کا سب سے اہم حصہ اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اگلے چند برسوں میں مزید چار قراردادیں منظور کی گئیں جن میں بیک وقت دونوں ملکوں کی فوجوں کے انخلاء کا کہا گیا۔ اقوام متحدہ کے مصالحت کاروں نے پاک بھارت فوجوں کے انخلاء کے گیارہ مختلف منصوبے پیش کیے۔ یہ گیارہ کے گیارہ منصوبے پاکستان نے تسلیم کیے لیکن ان تمام کو بھارت نے مسترد کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت ایک مرتبہ فائر بندی ہوجانے کے بعد معاملے کو جوں کا توں رکھنے کا خواہش مند تھا۔
قبل ازیں ستمبر 1947ء میں نہرو نے بھارت کے وزیر داخلہ ولبھائی پٹیل کو ایک خط میں لکھا تھا ''موسم سرما کے آغاز سے پہلے پہلے ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔۔۔ ہمارے لیے یہ ایک بہت بڑے خزانے کی طرح ہے۔۔۔ اور ہمیں معاملات کو اس انداز میں آگے بڑھانا ہے کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق جس قدر جلد ممکن ہوسکے ہوجائے۔''
اکتوبر 1947ء میں نہرو نے جموں کشمیر کے وزیراعظم سی مہاجن کو لکھا ''مسقبل میں ریاست کشمیر کے الحاق کا فیصلہ میرے لیے ذاتی لحاظ سے بھی اور عوامی لحاظ سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔
جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق میرے لیے ایک بڑا المیہ ہوگا۔''ان تحریری شواہد کے بعد یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ بھارتی وزیراعظم اور دیگر قیادت بہت پہلے سے کشمیر پر قبضے کا منصوبہ بنا چکے تھے اور ان کے تمام وعدے بدنیتی پر مبنی تھے۔
جنگیں تباہ کُن ہوتی ہیں۔ یہ آگ اور خون کا کھیل ہے جس میں سانحے جنم لیتے ہیں۔ کوئی ذی ہوش جنگ کو پسند نہیں کرتا لیکن کیا کیجئے کہ انسان کی ہٹ دھرمی، جھوٹی انا، حب الوطنی کا منفی تصور اور نسلی و سیاسی برتری کا جنون کروڑوں انسانوں کو جنگ کا ایندھن بنا چکا ہے لیکن اس کے باوجود انسان نے عمومی طور پر اس سیاہ ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جہاں دو ملکوں کے درمیان کوئی تنازع ہووہاں جنگ کا اندیشہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ پاکستان بھی دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جو اپنے قیام کے ساتھ ہی علاقائی تنازع کا فریق بنا اور جنگ ستمبر نے اس تنازع کے بطن سے جنم لیا۔
ہمارے ہاں جنگ ستمبر کے تذکرے میں ہمیشہ جذباتی رزمیہ کا رنگ غالب رہتا ہے۔ عوامی سطح پر سنجیدہ استدلال اور قانونی نقاط کی روشنی میں ان تنازعات کے پس منظر اور پیش منظر پر بات خال خال ہی نظر آتی ہے۔ شاید یہاں بھی یہی مجبوری پیش نظر رہی ہو کہ ڈرامائی تفصیلات اور جذباتی منظرکشی زیادہ بکتی ہے۔
موجودہ دور میں اس بات کی اہمیت سے صرف نظر ممکن ہی نہیں کہ قوم کو اپنے قومی مفادات کے بارے میں مکمل آگاہی ہونی چاہیے۔ عام لوگوں کو اس بات کا کامل یقین ہونا لازم ہے کہ جس مقصد کے لیے ماضی میں خون بہایا گیا اور اب بھی ہم مرنے مارنے پر آمادہ ہیں اس میں ہم سو فیصد حق پر ہیں اور حق کے لیے تلوار اٹھانا بالکل جائز اور پسندیدہ عمل ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان دو ہمسایوں کے مابین معمول کے تعلقات جیسی صورتحال کے برعکس مسلسل محاذ آرائی، مسلح تصادم اور جنگوں کی وجہ بننے والے مسئلہ کشمیر کوزیادہ تر سیاسی اور تاریخی حوالوں سے بحث کا موضوع بنایا جاتا ہے جبکہ اس معاملے کا سب سے اہم، قانونی پہلو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
بھارت کی جانب سے مسئلے کے قانونی پہلوؤں پر مختلف کتابوں میں جو استدلال سامنے آتا ہے وہ ذہن کومثبت انداز میں متاثر کرنے کے بجائے بذات خود متنازعہ لگتا ہے یا پھر نام نہاد قانونی نقاط کو استعمال کرکے بھارتی پوزیشن درست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خسارہ اٹھانے کے خوف سے بین الاقوامی قانون کے تناظر میں اس مسئلے کا سنجیدہ اور منظم انداز میں تجزیہ کہیں نظر نہیں آتا۔ ہم نے یہاں کوشش کی ہے کہ قانونی حوالوں سے معاملے کا تجزیہ کیا جائے۔
برصغیر کی تقسیم کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان اور غیر مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان کے نام سے دو خود مختار ریاستوں کی شکل میںوجود پذیر ہوں گے۔ 1947ء میں برصغیر میں موجود 560 نیم خود مختار اور خود مختار ریاستیں بھی موجود تھیں جن کے مستقبل کا فیصلہ بھی ہونا تھا۔ برصغیر کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے تشکیل پانے والے کیبنٹ مشن نے 1946ء میں ایک بیان جاری کیا تھا۔
جس میں کہا گیا تھا ''مطلق اختیار اب نہ تو تاج برطانیہ برقرار رکھ سکتا ہے نہ ہی اسے کسی حکومت کو تفویص کیا جاسکتا ہے۔'' مطلق اختیار کا معاملہ اب 1947ء کے آزادیٔ ہند ایکٹ کی رو سے طے کیا جانا تھا جس کے آرٹیکل 7 کے مطابق شہنشاہ برطانیہ کا ہندوستان کی ریاستوں پر اختیار ختم ہوچکا تھا اور اب قانونی تقاضہ یہ تھا کہ یہ ریاستیں بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک مملکت کے اقتدار اعلیٰ کے ماتحت آجائیں۔ یعنی دونوں میں سے ایک ریاست کا حصہ بن جائیں۔
برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز میں خطاب کرتے ہوئے برصغیر کے امور کے وزیر لارڈ لسٹوول نے کہا تھا ''ہم برصغیر کی کسی ریاست کو بین الاقوامی سطح پر مکمل طور پر خود مختار حیثیت میں تسلیم کرنے کے حق میں نہیں۔''
خود مختار ریاستوں کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے بارے میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے رہنما اصول وضع کیے تھے۔ جن کا اظہار انہوں نے 25 جولائی 1947ء کو چیمبر آف پرنسز (برصغیر کی ریاستوں کے فرمانرواؤں کے اجتماع) سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ریاستوں کے فرمانروا پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرتے ہوئے جغرافیائی صورتحال کا خیال رکھیں۔ دوسرے نمبر پر وہ یہ دیکھیں کہ ریاست کی آبادی میں مسلم اور غیر مسلم تناسب کس کے حق میں ہے اور تیسرے یہ کہ ریاست کے لوگوں کی خواہش کیا ہے کہ وہ دونوں میں سے کس ملک کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔
15 اگست 1947ء تک جوناگڑھ، حیدر آباد دکن اور کشمیر کے سوا باقی تمام ریاستوں نے اوپر بیان کیے گئے اصولوں کے مطابق بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک ریاست کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیا تھا۔
4 ہزار مربع میل (10360 مربع کلومیٹر) پر پھیلی ہوئی ریاست جوناگڑھ نے جس کی آبادی تقریباً 80 لاکھ تھی، پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا۔ ریاست کا فرمانروا مسلمان جبکہ 80 فیصد آبادی ہندوؤں پرمشتمل تھی۔ پاکستان سے الحاق کے اعلان کو حکومت پاکستان نے منظور کرتے ہوئے 12 ستمبر 1947ء کو بھارتی حکومت کو آگاہ کردیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 'جو اب بھارت کے گورنر جنرل تھے، پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح کو 22 ستمبر 1947ء کو ایک ٹیلی گرام بھیجا جس میں خبردار کیا گیا کہ جوناگڑھ کے پاکستان سے الحاق کے فیصلے کو منظور کرنا برصغیر کی تقسیم کے ان رہنما اصولوں کی خلاف ورزی ہے ۔
جس پر دونوں ملکوں نے اتفاق کیا تھا۔ حکومت ہند نے جوناگڑھ کے اس اعلان کو مسترد کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ جوناگڑھ جغرافیائی اعتبار سے بھارت کے ساتھ منسلک ہے اور پھر اس کی آبادی کی اکثریت ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ لہٰذا اس ریاست کے الحاق کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے ہوگا جس کا انتظام بھارت اور جوناگڑھ کی حکومتیں مشترکہ طور پر کریں گی۔ 17 ستمبر 1947ء کو بھارتی فوج نے امن و امان کے تحفظ کے نام پر جوناگڑھ کا محاصرہ کرلیا۔ اس کے بعد فوج ریاست کے اندر داخل ہوگئی اور بزور قبضہ کرلیا۔ بعد میں وہاں استصواب رائے کرایا گیا اور اعلان کردیا گیا کہ ریاست کے عوام کی اکثریت نے بھارت سے الحاق کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔
حیدر آباد دکن کا نظام (فرمانروا) بھی مسلمان تھا جبکہ 85 فیصد آبادی ہندو تھی۔ نظام چاہتا تھا کہ ریاست پاکستان کا حصہ بنے یا پھر اسے مکمل آزادی دی جائے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے نظام کو خبردار کیا کہ وہ یہ دونوں راستے اختیار نہ کرے اور اسے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ بھارت سے الحاق کی صورت میں اسے کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔
جب نظام نے واضح انکار کردیا تو بھارت کا رویہ انتہائی جارحانہ ہوگیا۔ بھارت کے ریاستی امور کے وزیر وی پی مینن نے نظام کو واضح الفاظ میں بتا دیا کہ ''حیدر آباد دکن کا بھارت سے الگ رہنا وہاں کی ہندو آبادی کے حقوق کی پامالی کے مترادف ہوگا''۔ 24 اگست کو حیدر آباد دکن کی حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مداخلت کی اپیل کردی لیکن اس سے پہلے کہ اس اپیل کی سنوائی ہوتی بھارت نے فرقہ وارانہ فسادات پھیلنے کے خطرے کا بہانہ بناکر ریاست پر چڑھائی کردی اور اس پر بزور قبضہ کرلیا۔
اسی طرح جودھ پور کے مہاراجہ نے پاکستان سے الحاق کا قصد کیا جس پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مداخلت کرتے ہوئے مہاراجہ کو خبردار کیا کہ اس کا یہ فیصلہ ہندو یا مسلم اکثریت کے اصول سے متصادم ہے لہٰذا مہاراجہ نے اپنا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ الحاق کرلیا۔ ایک اور اہم نقطہ یہ ہے کہ مسلم لیگ بنگال اور پنجاب کے صوبوں میں مسلم اکثریت کی بنا پر دونوں صوبوں کو مکمل طور پر پاکستان کا حصہ بنانے پر اصرار کرتی تھی لیکن ان صوبوں کو بھی آبادی کے تناسب کی بنیاد پر دونوں ملکوں میں تقسیم کیا گیا۔
اب آتے ہیں جموں و کشمیر کی طرف۔ ریاست میں مسلم اکثریت کا تناسب 78 فیصد جبکہ وادی میں مسلم اکثریت کا تناسب 93 فیصد تھا۔ ریاست کا ہندوستان سے سڑک اور ریل کا رابطہ پاکستان کے راستے قائم تھا۔ سڑک راولپنڈی سے جبکہ ریل سیالکوٹ کے راستے کشمیر سے منسلک تھی۔ ڈاک اور ٹیلی گراف رابطے بھی پاکستان کے ذریعے منسلک تھے۔
تمام اشیائے ضرورت صرف پاکستان کے راستے کشمیر میں پہنچتی تھیں۔ علاقے میں سیاحت بھی پاکستان کے راستے ہوتی جبکہ تجارتی لکڑی بھی اسی راستے باہر آسکتی تھی، تاریخی اعتبار سے 14 ویں صدی سے 19 ویں صدی کے آغاز تک کشمیر پر مسلمانوں کی حکومت رہی۔ 1819ء میں پنجاب کے حاکم رنجیت سنگھ نے یہ علاقہ افغانوں سے چھین لیا، اس نے ایک ڈوگرا راجپوت گلاب سنگھ کو جموں کا علاقہ سونپ دیا۔ گلاب سنگھ نے اپنے اقتدار کو کشمیر کے دیگر علاقوں تک وسعت دی جبکہ وادی اس کے زیر انتظام نہ تھی۔ 1846ء میں وادی اپنے مکینوں سمیت انگریز حکومت نے ساڑھے سات لاکھ روپے کے عوض گلاب سنگھ کو بیچ دی۔
ریاست کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کی معمول کی کارروائی سے ہٹ کر کشمیر کے معاملے پر سرگرمیاں بہت پہلے سے جاری تھیں۔ مئی 1947ء کو کانگریس پارٹی کے صدر اچاریہ کرپلانی نے کشمیر جاکر مہاراجہ کو بھارت سے الحاق پر قائل کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ مل سکی۔
اس کے بعد یہ ذمہ داری بھارت کے ساتھ الحاق کرنے والی قریبی ریاستوں فریدکوٹ، کپور تھلہ، پٹیالہ اور پنجاب کے پہاڑی علاقوں کی ریاستوں کے فرمانرواؤں کو سونپی گئی لیکن وہ بھی مہاراجہ کو مائل نہ کرسکے۔ جون 1947ء میں ماؤنٹ بیٹن بھی کشمیر گیا اور بظاہر مہاراجہ سے کہا کہ وہ الحاق کا فیصلہ لوگوں کی خواہشات کے مطابق کرے۔
اس کے بعد گاندھی جی کشمیر پہنچے۔ ان کے دورے کے نتیجے میں کامیابی کے آثار پیدا ہونے شروع ہوئے کیونکہ کشمیر کی مکمل آزادی کے حامی وزیراعظم رام چندر کاک کو ہٹا کر ڈوگرا جنک سنگھ کو وزیراعظم بنا دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی بھارت نواز مسلم رہنما شیخ عبداللہ کو جیل سے رہائی مل گئی۔ اکتوبر میں ایک اور بڑی تبدیلی آئی کہ جنک سنگھ کی جگہ کانگریس کے نامزد مہر چند مہاجن کو وزیراعظم بنا دیا گیا اور یہ وعدہ کیا گیا کہ مہاجن کی درخواست پر بھارتی فوجی مدد میسر ہوگی۔
جولائی کے آخری دنوں میں مہاراجہ نے ریاست کے صرف مسلمان باشندوں کو حکم دیا کہ جس کسی کے پاس اسلحہ ہے وہ سرکار کے حوالے کردے۔ اس کے بعد ریاست کی فوج کے تمام مسلمان افسروں اور جوانوں کو بھی غیر مسلح کر دیا گیا جس کے بعد آنے والے حالات کے بارے میں رتی برابر شبہ باقی نہیں رہا تھا۔ اگست کے وسط میں راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور سکھ گروہ درگروہ پونچھ میں بڑھتے ہوئے تناؤ کو دیکھتے ہوئے جموں کے علاقے میں جمع ہونا شروع ہوگئے۔ منصوبہ یہ تھا کہ مسلم آبادی کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا جائے۔ قتل و غارتگری کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
ٹائمز آف لندن کے مطابق 2 لاکھ 37 ہزار مسلمانوں کو منصوبہ بندی کے تحت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جو بچ گئے وہ پاکستان بھاگ آئے۔ اخبار سٹیٹس مین کے ایڈیٹر آئن سٹیفن کے مطابق ''1947ء کے موسم خزاں میں 5 لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کو بری طرح سے کھدیڑ دیا گیا تھا، ان میں سے دو لاکھ سے زائد تو بلاک ہوگئے جو بچ گئے وہ پاکستانی پنجاب بھاگ گئے۔
اس صورتحال کا ردعمل لازم تھا۔ کشمیری جنگجوؤں نے 21/22 اکتوبر کو مہاراجہ کی فوج پر حملوں سے اس ظلم کا جواب دیا۔ ادھر پاکستان کے قبائلی علاقوں سے جنگجوؤں کے لشکر کشمیری مسلمانوں کی مدد کے لیے کشمیر میں داخل ہوگئے۔ 24 اکتوبر کو مہاراجہ نے بھارت سے فوجی مدد مانگ لی۔ 25 اکتوبر کو مہاراجہ اپنے خاندان اور قیمتی اثاثوں سمیت سری نگر سے جموں فرار ہوگیا۔ فوج اور پولیس میں بغاوت ہوچکی تھی اور مسلمان جوان اور افسر فوج چھوڑ کر حریت پسندوں سے جاملے تھے۔
وی پی مینن پہلے ہی کشمیر آچکا تھا۔ جموں پہنچ کر مہاراجہ نے بھارت کے گورنر جنرل کو فوج بھیجنے کی درخواست لکھ کر مینن کے حوالے کی اور ساتھ ہی کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کرکے منین کے سپرد کردی۔
27 اکتوبر کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے جو جواب مہاراجہ کو لکھا وہ بہت اہم اور دلچسپ ہے۔ ماؤنٹ بیٹن نے لکھا ''عزت مآب مہاراجہ آف کشمیر نے جن غیر معمولی حالات کا تذکرہ کیا ہے اس کے پیش نظر میری حکومت نے الحاق کی درخواست قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
میری حکومت اپنی اس پالیسی پر کاربند ہے کہ اگر الحاق کے بارے میں کوئی تنازع پیدا ہوتا ہے تو اس کا حل ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا۔ میری حکومت کی خواہش ہے کہ جیسے ہی ریاست میں حالات معمول پر آجائیں الحاق کے سوال کو لوگوں کی خواہشات کے مطابق طے کیا جائے گا۔''
27 اکتوبر کو صبح 9 بجے بھارتی فوج سری نگر ایئرپورٹ پر اُتر گئی۔ پونچھ اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے بہت سے فوجی مزاحمت کے لیے سرحد پار کرگئے۔
قبل ازیں 24 اکتوبر کو مسلم کانفرنس نے جو پہلے 19 جولائی کو کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کرچکی تھی، نوآزاد شدہ علاقے میں آزاد کشمیر حکومت قائم کی۔ اس دوران ماؤنٹ بیٹن اور محمد علی جناح کی ملاقات لاہور میں ہوئی جو اس وجہ سے ناکام ہوگئی کیونکہ قائداعظم کے خیال میں کشمیر میں بھارتی فوج کی موجودگی میں آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے ممکن نہیں تھا۔
ایلسٹر لیمب (Alastair Lamb)نے اپنی کتاب ''نامکمل بٹوارہ'' میں لکھا ہے۔ اگر برطانوی حکام نے دانشمندی کا ثبوت دیا ہوتا تو پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے منطق کو استعمال کرتے ہوئے کشمیر کے معاملے کو حل کیا جاسکتا تھا جس کے تحت مسلم اکثریت والے ریاست کے مغربی حصے پاکستان جبکہ ہندو اور بدھ اکثریتی مشرقی حصے بھارت میں شامل ہوتے۔ برصغیر کی تقسیم اور برطانوی راج کے خاتمے کے موقع پر جو مذہبی بنیادوں پر قتل و غارتگری کا بازار گرم ہوا۔ ریاست جموں بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکی تھی۔
پورے برصغیر میں جاری مارا ماری سے ہٹ کر کشمیر میں ہونے والی سرگرمیاں اس حوالے سے مختلف تھیں کہ یہاں کشمیر کی مسلح افواج کو باقاعدہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ بزور طاقت جتنے مسلمانوں کو ریاست بے دخل کرسکتے ہیں انہیں نکال باہر کریں۔ جلد ہی یہ بات واضح ہوگئی کہ ریاست میں مسلمان فیصلہ کن اکثریت میں موجود ہیں اس لیے ان کا مکمل صفایا کرنا ناممکن ہے اور یہ علاقہ ہمیشہ مسلم اکثریتی علاقہ رہے گا۔
ایک اندازے کے مطابق اگست/ ستمبر 1947 کے دو مہینوں کے دوران 5 لاکھ مسلمانوں کو ریاست سے بے دخل کردیا گیا جبکہ 2 لاکھ سے زائد اپنی جانوں سے ہاتھ دو بیٹھے۔ جلد ہی مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں پونچھ کے علاقے میں پہنچیں۔ جہاں برطانوی فوج میں خدمات انجام دینے والے 60 ہزار ریٹائرڈ فوجی آباد تھے۔ ستمبر 1947ء میں پونچھ میں مہاراجہ کشمیر کے خلاف کھلی بغاوت پھوٹ پڑی۔ یہ بغاوت ایک ڈھیلے ڈھالے تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ کام کررہی تھی جبکہ نو آزاد مملکت پاکستان کی فوج کی جانب سے بھی انہیں بہت معمولی نوعیت کی مدد مل رہی تھی۔
اس موقع پر بھارت اور پاکستان کی مسلح افواج کشمیر کے معاملے میں بہت معمولی حد تک ملوث تھیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ پورے برصغیر میں جس بڑے پیمانے میں ہولناک قتل و غارتگری جاری تھی کشمیر کے یہ واقعات نمایاں نہیں ہوسکے۔
25 اکتوبر کو نہرو کی جانب سے ایک تار برطانیہ کے وزیراعظم کلمینٹ ایٹلی کو بھیجا گیا۔ تار کا متن اس طرح سے تھا۔
''ہمیں ریاست کشمیر کی حکومت کی جانب سے ہنگامی مدد کی درخواست موصول ہوئی ہے۔ ہم خود کو ایسی کسی درخواست پر مثبت ردعمل دکھانے کا پابند پاتے ہیں کیونکہ کشمیر کی سلامتی جس کا تمام تر دارومدار کشمیر میں داخلی امن و امان کی لازمی ضمانت فراہم کرنے پر ہے، خود بھارت کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔
میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اس ہنگامی صورتحال میں کشمیر کی مدد و اعانت کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اس موقع کو کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی راہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔ کسی بھی متنازع علاقے کے الحاق کا سوال ہر صورت وہاں کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق طے کیا جانا چاہیے۔''
ایٹلی کی جانب سے اس تار کا جواب دو روز بعد موصول ہوا جس میں نہرو پر زور دیا گیا تھا کہ وہ کسی بھی صورت کشمیر میں فوجی مداخت نہ کرے کیونکہ ایسا اقدام صورتحال کو مزید خراب کرے گا لیکن بھارت جواب آنے سے پہلے ہی فوجی اقدام کرچکا تھا اور بھارت کی جانب سے اس بات کا اظہار بھی کردیا گیا کہ برطانوی وزیراعظم کو تار محض آگاہ کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ تار کا مقصد اجازت طلب کرنا نہیں تھا۔
26 اکتوبر کو دہلی سے بھاری مقدار میں فوجی سازو سامان اور بڑی تعداد میں بری فوج کے دستے جہازوں کے ذریعے سری نگر اتارنے کا عمل شروع ہوا۔ اسی روز شام سے پہلے پہلے بھارتی فوج کی پوری دو بٹالینیں سری نگر کے ہوائی اڈے پر اترچکی تھیں۔ ہوائی رسد کی اتنی بڑی کارروائی اچانک ممکن نہیں ہوا کرتی۔ اس کا مطلب ہے کہ بھارت سری نگر میں فوج اتارنے کی تیاری پہلے سے کرچکا تھا۔
27 اکتوبر کو جب بھارتی فوج کشمیر میں کارروائی کا آغاز کررہی تھی۔ بھارت کے گورنر جنرل لارڈ مونٹ بیٹن نے مہاراجہ کشمیر کی جانب سے الحاق کی درخواست کو قبول کرلیا اور الحاق کی درخواست کی قبولیت کے مراسلے میں لکھا۔
''میری حکومت اپنی اس پالیسی پر قائم ہے کہ کوئی بھی ریاست جس کے الحاق کا معاملہ متنازعہ ہے وہ اس ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔ میری حکومت کی خواہش ہے کہ جیسے ہی کشمیر میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوجاتی ہے اور کشمیر کی سرزمین کو حملہ آوروں سے پاک کردیا جاتا ہے۔ کشمیر کے الحاق کے سوال پر ریاست کے عوام سے رجوع کیا جائے گا۔''
2 نومبر 1944ء کو ماؤنٹ بیٹن کے مراسلے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے آل انڈیا ریڈیو پر بھارتی وزیراعظم نہرو نے کہا ''کشمیر کے الحاق کا فیصلہ وہاں کے لوگوں کے ذریعے کرنے کا عہد ہم نے دیا ہے اور ہم اپنے عہد سے انحراف نہیں کریں گے اور نہ ہم ایسا کرسکتے ہیں۔''
بھارت کی اس پوزیشن کے بارے میں کچھ تاریخ دانوں کا تجزیہ بہت دلچسپ ہے۔ ان کی رائے میں اس زمانے میں ریاست جموں و کشمیر کی کل آبادی کا صرف 7 فیصد حصہ ووٹرز کے طور پر رجسٹرڈ تھا اور ان میں بھی غالب اکثریت ہندوؤں پر مشتمل تھی۔
اس صورتحال کے بعد پاکستان پر لازم ہوگیا تھا کہ وہ ردعمل ظاہر کرے کیونکہ بھارتی اقدام نے یہ بات صاف کردی تھی کہ ایک ایسی ریاست جہاں مسلم غالب اکثریت میں آباد ہیں پوری کی پوری بھارت کے زیر تسلط جارہی ہے۔ بھارتی فوج کی ریاست میں آمد کا مطلب تھا کہ پونچھ کی بغاوت کے نتیجے میں سری نگر پر باغیوں کے قبضے کی راہ روک لی جائے گی۔
یہ ایک تلخ حقیقت تھی کہ پاک فوج بالکل بے سروسامانی کی حالت میں تھی اور تنظیم نو کے ابتدائی مراحل سے گزر رہی تھی ایسی حالت میں کسی جنگ میں شامل ہونا مشکل فیصلہ تھا لیکن 24 اکتوبر کو گورنر جنرل قائداعظم نے کشمیر میں بھارتی فوجی مداخلت کو بزور طاقت کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے پاک فوج کو کشمیر میں داخل ہونے کا حکم دے دیا۔
اس وقت فیلڈ مارشل سر کلاڈ اکنلیک بھارت اور پاکستان دونوں کی مسلح افواج کے مشترکہ سربراہ تھے۔ وہ اگلے ہی روز یعنی 28 اکتوبر کو لاہور پہنچے اور پاکستانی حکام کو بتایا کہ اگر قائداعظم کشمیر میں فوج بھیجنے پر اصرار کریں گے تو میں پاک فوج کے انگریز سربراہ جنرل سرڈگلس گیریسی سمیت تمام انگریز افسروں کو حکم دوں گا کہ وہ پاک فوج کو چھوڑ دیں کیونکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور میں خود یہ نہیں چاہتے کہ کسی تصادم میں برطانوی فوجی افسر آمنے سامنے آئیں۔
ممتاز محقق اور برصغیر پر اتھارٹی مانے جانے والے مصنف سٹینلے وال پرٹ کے مطابق ''جناح کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردیا گیا تھا اور بالآخر قائداعظم کو معلوم ہوا کہ دونوں نوزائیدہ مملکتوں کے مشترکہ گورنر جنرل بننے کی ماؤنٹ بیٹن کی شدید خواہش کے پورا ہونے میں رکاوٹ ڈالنے کی انہیں کس قدر بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔''
اس جعلی الحاق کے بعد بھی کشمیریوں سے انتقام کا سلسلہ رکا نہیں۔ 5 اور 6 نومبر کی درمیانی رات جموں شہر سے 5 ہزار مسلمانوں کو زبردستی نکالا گیا اور ایک قافلے کی صورت میں پہلے سے طے شدہ مقام پر لاکر قتل کردیا گیا۔ اس واقع پر نہرو کی طرف سے دکھی ہونے کی شاندار اداکاری کے باوجود کسی ذمہ دار کو سزا نہیں دی گئی۔
پاک فوج کے لڑائی میں شامل نہ ہونے کے باعث سرکاری سرپرستی میں لڑنے والے رضا کاروں اور دیگر جنگجوؤں پر بھارتی فوج کی برتری کے اثرات ظاہر ہونے لگے۔ 1948ء کے وسط تک واضح ہونے لگا کہ بھارتی فوج پوری ریاست کشمیر پر قبضہ کرلے گی۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے تباہ کن ہوتی۔
اس موقع پر پاک فوج کے سربراہ جنرل گریسی نے سابقہ فیصلے کے برعکس پاک فوج کو کشمیر میں داخل ہونے کے احکامات دے دیئے۔ یقینا اس فیصلے کے پیچھے لندن میں حکومت سے صلاح مشورے کا عمل دخل تھا اور برطانیہ یہاں توازن کو مکمل طور پر خراب کردینے کے حق میں نہ تھا۔ پاک فوج کے کشمیر میں داخل ہونے سے یہ ممکن ہوگیا کہ پونچھ اور میر پور کے علاقے کے بیچوں بیچ کشمیر کے اندر نئی لائن وجود میں آگئی اور بھارتی فوج کو واپس سری نگر کی طرف دھکیل دیا گیا۔
پاک فوج کی کارروائی کے نتیجے میں گلگت، بلتستان کے علاوہ کشمیر کی ایک تنگ پٹی اور پونچھ اور میر پور کے علاقے پاکستان کے پاس آگئے۔
دوسری جانب پونچھ کا کچھ علاقہ، سری نگر سمیت کشمیر کا زیادہ تر حصہ لداخ اور جموں بھارت کے زیر قبضہ آگئے۔
یکم جنوری 1949ء کو فائر بندی کے معاہدے پر دستخط ہوگئے اور 27 جولائی 1949ء کو فائر بندی لائن پر اتفاق ہوگیا۔
31 دسمبر 1947ء کو بھارت ہی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے کر گیا۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ حالانکہ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ کشمیر کے معاملے میں اس کے ساتھ زیادتی ہوئی اور بھارت نے جارحیت کا ارتکاب کیا لیکن اس تنازع کو اقوام متحدہ میں بھارت لے کر گیا تاکہ پاکستان کو جارح ثابت کرکے الحاق کشمیر کی دستاویز کو قانونی قرار دلوا سکے۔
کشمیر پر اقوام متحدہ کی پہلی قرار داد 17 جنوری 1948ء کو منظور ہوئی جس میں دونوں فریقوں پر زور دیا گیا کہ وہ علاقے میں حالات کو معمول پر لائیں تین روز بعد بھارت اور پاکستان کے معاملات پر اقوام متحدہ کی کمیٹی (UNCIP) کا قیام عمل میں آیا۔
21 اپریل 1948ء کی قرارداد میں فوری جنگ بندی پر زور دیا گیا تاکہ جموں کشمیر کے عوام استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔ استصواب کے عمل کو غیر جانبدارای کی ضمانت فراہم کرنے کے لیے پاکستان سے کہا گیا کہ وہ تمام قبائلی جنگجوؤں کو کشمیر سے واپس بلائے جبکہ بھارت سے کہا گیا کہ وہ اپنی فوج کی صرف اتنی تعداد کشمیر میں رہنے دے جو کشمیر میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اقوام متحدہ جتنی تعداد میں چاہے مبصرین کشمیر بھیج سکے گی۔
پاکستان نہیں چاہتا تھا کہ جو علاقہ اس نے آزاد کروایا ہے وہ پھر بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔ پاکستان کا مؤقف تھا کہ اقوام متحدہ کی فوج پہلے کشمیر میں داخل ہو اس کے بعد پاکستان علاقے خالی کرے گا۔ بھارت نے اس بات کو بنیاد بناکر استصواب رائے کی قرارداد کے نفاذ کو رد کردیا۔
اقوام متحدہ کی کوششوں کا سب سے اہم حصہ اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اگلے چند برسوں میں مزید چار قراردادیں منظور کی گئیں جن میں بیک وقت دونوں ملکوں کی فوجوں کے انخلاء کا کہا گیا۔ اقوام متحدہ کے مصالحت کاروں نے پاک بھارت فوجوں کے انخلاء کے گیارہ مختلف منصوبے پیش کیے۔ یہ گیارہ کے گیارہ منصوبے پاکستان نے تسلیم کیے لیکن ان تمام کو بھارت نے مسترد کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت ایک مرتبہ فائر بندی ہوجانے کے بعد معاملے کو جوں کا توں رکھنے کا خواہش مند تھا۔
قبل ازیں ستمبر 1947ء میں نہرو نے بھارت کے وزیر داخلہ ولبھائی پٹیل کو ایک خط میں لکھا تھا ''موسم سرما کے آغاز سے پہلے پہلے ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔۔۔ ہمارے لیے یہ ایک بہت بڑے خزانے کی طرح ہے۔۔۔ اور ہمیں معاملات کو اس انداز میں آگے بڑھانا ہے کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق جس قدر جلد ممکن ہوسکے ہوجائے۔''
اکتوبر 1947ء میں نہرو نے جموں کشمیر کے وزیراعظم سی مہاجن کو لکھا ''مسقبل میں ریاست کشمیر کے الحاق کا فیصلہ میرے لیے ذاتی لحاظ سے بھی اور عوامی لحاظ سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔
جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق میرے لیے ایک بڑا المیہ ہوگا۔''ان تحریری شواہد کے بعد یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ بھارتی وزیراعظم اور دیگر قیادت بہت پہلے سے کشمیر پر قبضے کا منصوبہ بنا چکے تھے اور ان کے تمام وعدے بدنیتی پر مبنی تھے۔