65ء کا سترہ روزہ لازوال جنگی دفاع
جہاں ہم رہتے تھے پورا علاقہ ہندوؤں اور سکھوں کے مکانات تھے، جو کرشن نگر کے نام سے پورے لاہور میں مشہور تھا
ستمبر 1965 کی 6 تاریخ کو رات کے تقریباً آٹھ بجے کے وقت ہم گھر میں بیٹھے اپنی والدہ سے اسکول کا دیا ہوا ہوم ورک میں مصروف تھے۔ ہمارا بچپنا تھا، یہی کوئی میری عمر 7 برس کے قریب ہوگی۔
جہاں ہم رہتے تھے پورا علاقہ ہندوؤں اور سکھوں کے مکانات تھے، جو کرشن نگر کے نام سے پورے لاہور میں مشہور تھا، یہاں کی آبادی متوسط طبقہ پر مشتمل تھی۔ اسی اثنا میں یکدم ہمارے محلہ میں شور اُٹھا کہ اپنے گھروں میں بالکل اندھیرا کردو، انڈیا نے لاہور پر حملہ کردیا ہے۔ عجب افراتفری کا عالم تھا، ہمارے ہی محلہ میں دو قریب ترین گھر پاکستان آرمی کے کیپٹن رؤف اور دوسرا گھر کیپٹن ادریس کا تھا۔ اتفاق سے یہ دونوں قومی سپوت اپنے ماں باپ کے اکلوتے نوجوان تھے۔
ہم ان کے گھر بھاگے کہ معلوم کریں کہ کیا واقعہ ہے۔ مگر ہم نے دیکھا بیٹے محاذ پر تھے اور مائیں مصلوں پر بیٹھی عبادت الٰہی میں مصروف تھیں۔ لوگوں میں محب وطنیت کا کیا جذبہ تھا، قابل رشک اور قابل دید بھی تھا۔ چونکہ ہم اس وقت بہت چھوٹے تھے، ہماری والدہ مغرب سے پہلے سورج کی روشنی میں ہمارے لیے کھانا تیار کرلیتی تھیں کیونکہ رات کو بلیک آؤٹ ہونا ہوتا تھا۔ میں اکثر اپنی والدہ سے پوچھتا کہ امی یہ ہندو کون ہیں؟
ہم سے کیوں لڑتے ہیں؟ کہیں اس لیے تو نہیں کہ ہم ان کے بنائے ہوئے مکانوں میں رہتے ہیں؟ امی خاموش رہتیں۔ اس زمانہ میں ہر بچہ یہی کہتا تھا کہ میں بڑے ہو کر فوجی بنوں گا اور ہندو کا مقابلہ کروں گا۔ میڈم نورجہاں، مہدی حسن اور دیگر گلوکاروں نے جنگوں پر لڑنے والے فوجی بھائیوں کے لیے وہ جوشیلے گیت گائے جن سے مزید خون میں جوش و ولولہ پیدا ہوجایا کرتا تھا۔
ویسے تو مسلمانوں کی پوری تاریخ جنگ و جدل اور جہاد سے بھری پڑی ہے، فوج کے شانہ بشانہ شہریوں نے دشمن کے ساتھ لڑائی میں مختلف انداز میں حصہ لیا۔ اسکاؤٹس اور شہری دفاع کے رضاکار کی حیثیت سے شہر میں خدمات انجام دیں۔ میں بھی شہری دفاع کے رضاکارکی حیثیت سے رات کو ڈیوٹی پر رہتا تھا۔ ایک جذبہ تھا۔ ایک لگن تھی۔ ایک جستجو تھی جس سے ہر شخص وطن کی محبت سے سرشار تھا۔ قوم متحد تھی۔ ٹی وی کا زمانہ نہیں تھا۔
صرف بیٹری سے چلنے والے ٹرانسسٹر ریڈیو گنی چنی تعداد میں ہوا کرتے تھے۔ روپے پیسے کی ریل پیل تک نہیں تھی۔ حملہ کے خطرہ کے وقت بالخصوص رات کو گاڑیوں کی لائٹوں پر چکنی مٹی مل دی جاتی تھی اور شہری جس میں عورتیں، بچے، بوڑھے، جوان خندقوں میں پناہ لیا کرتے تھے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ دشمن کا ہدف دریائے راوی کے پل کو بم سے اڑانا ہے جو ہمارے گھر سے تقریباً مشکل سے سات میل کے فاصلہ پر ہوگا۔ بھارتی فضائیہ کے لڑاکا طیارے اس پل کو نشانہ بناتے ہوئے بمباری کرکے بھاگ جاتے تھے۔ ہماری افواج کے جوان کی بہادری دیکھئے کہ وہ بم براہ راست پانی کے اندر گرا کر زائل کر دیا کرتے تھے۔
جس سے پورے علاقے میں زلزلے کی سی کیفیت پیدا ہوجایا کرتی تھی۔ شہر راوی کی سرحد میں واقعے بی این آر نہر بھی تھی جہاں دشمن کی فوجوں اور ہماری فوجوں کے درمیان خون ریز اور گھمسان کی لڑائی ہوئی دشمن کی چار گنا فوج کا مقابلہ اور سامان حرب بھی تعداد میں ہم سے کہیں زیادہ معنی رکھتا تھا۔
ہماری افواج جذبہ ایمانی سے لیس تھی۔ ہم نے یہاں تک دیکھا کہ جب بھی کسی فوجی کا محاذ پر جانے سے پہلے داتا صاحب کے مزار پر حاضری دیا کرتے تھے۔ لاہور کے چاروں اطراف دشمن نے گھیراؤ تنگ کیا ہوا تھا اور بھرپور عسکری قوت سے حملوں کا سلسلہ جاری تھا۔ وہ تاریخ انسانی کا قیمتی حصہ بن گیا۔ پاک بھارت جنگ عہد ایوبی کا ایک اہم ترین اور ناقابل فراموش واقعہ ہے، دراصل 6 ستمبر کا بھارت کی طرف سے حملہ پاکستان کی طرف سے ''آپریشن جیرالڈ'' کا پیش خیمہ تھا جو جولائی 1965 میں آزاد کشمیر اور پاکستان کی مسلح افواج نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آزاد کرانے کے لیے ایک گوریلا آپریشن شروع کیا تھا جو کامیاب نہ ہوسکا تھا۔
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اب تک دنیا میں قوموں کے درمیان جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں تمام کا نقطہ نگاہ ایک دوسرے سے مختلف رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھارت ہی ایک واحد ملک ہے جس سے پاکستان سے سرحدی معاملات سنگین حد تک خراب رہے ہیں۔ اسی سلسلہ میں اس کے درمیان میں جنگوں کا سلسلہ بھی جاری رہ چکا ہے۔ مگر ستمبر 1965 کی جنگ وہ واحد جنگ ہے جو عجیب و غریب انسانی نفسیات پر لڑی گئی۔ یہ جنگ اپنی نوعیت کی منفرد اور لاثانی جنگ تھی۔ کہتے ہیں طاقتور قومیں ہمیشہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں کمزور اقوام کو محکوم بناتی ہیں۔
یہی نفسیات اس جنگ میں ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی بھی تھی جس کے پاس نہ صرف ہم سے چار گنا زائد افرادی اور عسکری قوت موجود تھی بلکہ جدید سامان حرب بھی موجود تھا اور دوسری طرف پاکستانی فوج کے پاس قوت ایمانی کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ جب کہ بھارت نے کراچی، وزیرآباد، چنیوٹ، سانگلہ ہل، چک جھمرہ کے علاقوں میں اپنی چھاتہ بردار فوج تک اتارنے میں عار محسوس نہ کی۔ سیالکوٹ سیکٹر میں چونڈہ کے علاقے میں 12 ستمبر ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ لڑی گئی۔
جسے جنگِ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ کہا جاتا ہے اور جس میں بھارت نے 600 بھاری سنچورین ٹینکوں اور کئی لاکھ فوج کے ساتھ حملہ کیا تھا۔ لیکن ہمارے تھوڑے سے بہادر فوجیوں نے بھارت کے ٹینکوں کی صفوں میں گھس کر اور گولے جسم پر باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر ایسی زبردست اور عبرتناک تباہی مچائی کہ پوری دنیا اش اش کر اٹھی اور یوں اس جنگ کے ہیرو کا اعزاز میجر راجا عزیز بھٹی کے حصے میں آیا جن کو ملک کا سب سے بڑا جنگی اعزاز نشانِ حیدر ملا۔
لاہور سیکٹر کے واہگہ اور برکی محاذ، سیالکوٹ سیکٹر کا چونڈہ محاذ، کھیم کرن سیکٹرز، راجستھان سیکٹر، جہاں ہماری شجاع اور بہادر فضائیہ کے جوانوں نے وہ وہ کارنامے انجام دیے ہیں جو رہتی دنیا تک یادگار رہیں گے۔ 20 ستمبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کو حکم دیا کہ وہ 22 ستمبر 1965 کو جنگ بند کردیں۔ لہٰذا دونوں ممالک کی رضامندی پر 23 ستمبر کو جنگ بندی کا باضابطہ اعلان ہوا۔
اس جنگ میں 1033 افراد شہید اور 2271 افراد زخمی ہوئے۔ 14 طیارے اور 165 ٹینک تباہ ہوئے۔ پاک فضائیہ کی دنیا میں اسکواڈرن لیڈران ایم ایم عالم (جنھوں نے اس جنگ میں دشمن کے گیارہ جنگی جہاز مار گرائے)، سرفراز رفیقی، منیر احمد کے نام قابلِ ذکر ہیں اور دیگر غازی، شہداء جنھوں نے اپنے پیشہ ورانہ فضائی جنگوں کا ثبوت پیش کیا۔ تحفظ پاکستان دفاع پاکستان۔ نظریاتی سرحدوں کے نگہبان و پاسبان، پاک فوج، زندہ باد، پایندہ باد۔
جہاں ہم رہتے تھے پورا علاقہ ہندوؤں اور سکھوں کے مکانات تھے، جو کرشن نگر کے نام سے پورے لاہور میں مشہور تھا، یہاں کی آبادی متوسط طبقہ پر مشتمل تھی۔ اسی اثنا میں یکدم ہمارے محلہ میں شور اُٹھا کہ اپنے گھروں میں بالکل اندھیرا کردو، انڈیا نے لاہور پر حملہ کردیا ہے۔ عجب افراتفری کا عالم تھا، ہمارے ہی محلہ میں دو قریب ترین گھر پاکستان آرمی کے کیپٹن رؤف اور دوسرا گھر کیپٹن ادریس کا تھا۔ اتفاق سے یہ دونوں قومی سپوت اپنے ماں باپ کے اکلوتے نوجوان تھے۔
ہم ان کے گھر بھاگے کہ معلوم کریں کہ کیا واقعہ ہے۔ مگر ہم نے دیکھا بیٹے محاذ پر تھے اور مائیں مصلوں پر بیٹھی عبادت الٰہی میں مصروف تھیں۔ لوگوں میں محب وطنیت کا کیا جذبہ تھا، قابل رشک اور قابل دید بھی تھا۔ چونکہ ہم اس وقت بہت چھوٹے تھے، ہماری والدہ مغرب سے پہلے سورج کی روشنی میں ہمارے لیے کھانا تیار کرلیتی تھیں کیونکہ رات کو بلیک آؤٹ ہونا ہوتا تھا۔ میں اکثر اپنی والدہ سے پوچھتا کہ امی یہ ہندو کون ہیں؟
ہم سے کیوں لڑتے ہیں؟ کہیں اس لیے تو نہیں کہ ہم ان کے بنائے ہوئے مکانوں میں رہتے ہیں؟ امی خاموش رہتیں۔ اس زمانہ میں ہر بچہ یہی کہتا تھا کہ میں بڑے ہو کر فوجی بنوں گا اور ہندو کا مقابلہ کروں گا۔ میڈم نورجہاں، مہدی حسن اور دیگر گلوکاروں نے جنگوں پر لڑنے والے فوجی بھائیوں کے لیے وہ جوشیلے گیت گائے جن سے مزید خون میں جوش و ولولہ پیدا ہوجایا کرتا تھا۔
ویسے تو مسلمانوں کی پوری تاریخ جنگ و جدل اور جہاد سے بھری پڑی ہے، فوج کے شانہ بشانہ شہریوں نے دشمن کے ساتھ لڑائی میں مختلف انداز میں حصہ لیا۔ اسکاؤٹس اور شہری دفاع کے رضاکار کی حیثیت سے شہر میں خدمات انجام دیں۔ میں بھی شہری دفاع کے رضاکارکی حیثیت سے رات کو ڈیوٹی پر رہتا تھا۔ ایک جذبہ تھا۔ ایک لگن تھی۔ ایک جستجو تھی جس سے ہر شخص وطن کی محبت سے سرشار تھا۔ قوم متحد تھی۔ ٹی وی کا زمانہ نہیں تھا۔
صرف بیٹری سے چلنے والے ٹرانسسٹر ریڈیو گنی چنی تعداد میں ہوا کرتے تھے۔ روپے پیسے کی ریل پیل تک نہیں تھی۔ حملہ کے خطرہ کے وقت بالخصوص رات کو گاڑیوں کی لائٹوں پر چکنی مٹی مل دی جاتی تھی اور شہری جس میں عورتیں، بچے، بوڑھے، جوان خندقوں میں پناہ لیا کرتے تھے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ دشمن کا ہدف دریائے راوی کے پل کو بم سے اڑانا ہے جو ہمارے گھر سے تقریباً مشکل سے سات میل کے فاصلہ پر ہوگا۔ بھارتی فضائیہ کے لڑاکا طیارے اس پل کو نشانہ بناتے ہوئے بمباری کرکے بھاگ جاتے تھے۔ ہماری افواج کے جوان کی بہادری دیکھئے کہ وہ بم براہ راست پانی کے اندر گرا کر زائل کر دیا کرتے تھے۔
جس سے پورے علاقے میں زلزلے کی سی کیفیت پیدا ہوجایا کرتی تھی۔ شہر راوی کی سرحد میں واقعے بی این آر نہر بھی تھی جہاں دشمن کی فوجوں اور ہماری فوجوں کے درمیان خون ریز اور گھمسان کی لڑائی ہوئی دشمن کی چار گنا فوج کا مقابلہ اور سامان حرب بھی تعداد میں ہم سے کہیں زیادہ معنی رکھتا تھا۔
ہماری افواج جذبہ ایمانی سے لیس تھی۔ ہم نے یہاں تک دیکھا کہ جب بھی کسی فوجی کا محاذ پر جانے سے پہلے داتا صاحب کے مزار پر حاضری دیا کرتے تھے۔ لاہور کے چاروں اطراف دشمن نے گھیراؤ تنگ کیا ہوا تھا اور بھرپور عسکری قوت سے حملوں کا سلسلہ جاری تھا۔ وہ تاریخ انسانی کا قیمتی حصہ بن گیا۔ پاک بھارت جنگ عہد ایوبی کا ایک اہم ترین اور ناقابل فراموش واقعہ ہے، دراصل 6 ستمبر کا بھارت کی طرف سے حملہ پاکستان کی طرف سے ''آپریشن جیرالڈ'' کا پیش خیمہ تھا جو جولائی 1965 میں آزاد کشمیر اور پاکستان کی مسلح افواج نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آزاد کرانے کے لیے ایک گوریلا آپریشن شروع کیا تھا جو کامیاب نہ ہوسکا تھا۔
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اب تک دنیا میں قوموں کے درمیان جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں تمام کا نقطہ نگاہ ایک دوسرے سے مختلف رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھارت ہی ایک واحد ملک ہے جس سے پاکستان سے سرحدی معاملات سنگین حد تک خراب رہے ہیں۔ اسی سلسلہ میں اس کے درمیان میں جنگوں کا سلسلہ بھی جاری رہ چکا ہے۔ مگر ستمبر 1965 کی جنگ وہ واحد جنگ ہے جو عجیب و غریب انسانی نفسیات پر لڑی گئی۔ یہ جنگ اپنی نوعیت کی منفرد اور لاثانی جنگ تھی۔ کہتے ہیں طاقتور قومیں ہمیشہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں کمزور اقوام کو محکوم بناتی ہیں۔
یہی نفسیات اس جنگ میں ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی بھی تھی جس کے پاس نہ صرف ہم سے چار گنا زائد افرادی اور عسکری قوت موجود تھی بلکہ جدید سامان حرب بھی موجود تھا اور دوسری طرف پاکستانی فوج کے پاس قوت ایمانی کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ جب کہ بھارت نے کراچی، وزیرآباد، چنیوٹ، سانگلہ ہل، چک جھمرہ کے علاقوں میں اپنی چھاتہ بردار فوج تک اتارنے میں عار محسوس نہ کی۔ سیالکوٹ سیکٹر میں چونڈہ کے علاقے میں 12 ستمبر ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ لڑی گئی۔
جسے جنگِ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ کہا جاتا ہے اور جس میں بھارت نے 600 بھاری سنچورین ٹینکوں اور کئی لاکھ فوج کے ساتھ حملہ کیا تھا۔ لیکن ہمارے تھوڑے سے بہادر فوجیوں نے بھارت کے ٹینکوں کی صفوں میں گھس کر اور گولے جسم پر باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر ایسی زبردست اور عبرتناک تباہی مچائی کہ پوری دنیا اش اش کر اٹھی اور یوں اس جنگ کے ہیرو کا اعزاز میجر راجا عزیز بھٹی کے حصے میں آیا جن کو ملک کا سب سے بڑا جنگی اعزاز نشانِ حیدر ملا۔
لاہور سیکٹر کے واہگہ اور برکی محاذ، سیالکوٹ سیکٹر کا چونڈہ محاذ، کھیم کرن سیکٹرز، راجستھان سیکٹر، جہاں ہماری شجاع اور بہادر فضائیہ کے جوانوں نے وہ وہ کارنامے انجام دیے ہیں جو رہتی دنیا تک یادگار رہیں گے۔ 20 ستمبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کو حکم دیا کہ وہ 22 ستمبر 1965 کو جنگ بند کردیں۔ لہٰذا دونوں ممالک کی رضامندی پر 23 ستمبر کو جنگ بندی کا باضابطہ اعلان ہوا۔
اس جنگ میں 1033 افراد شہید اور 2271 افراد زخمی ہوئے۔ 14 طیارے اور 165 ٹینک تباہ ہوئے۔ پاک فضائیہ کی دنیا میں اسکواڈرن لیڈران ایم ایم عالم (جنھوں نے اس جنگ میں دشمن کے گیارہ جنگی جہاز مار گرائے)، سرفراز رفیقی، منیر احمد کے نام قابلِ ذکر ہیں اور دیگر غازی، شہداء جنھوں نے اپنے پیشہ ورانہ فضائی جنگوں کا ثبوت پیش کیا۔ تحفظ پاکستان دفاع پاکستان۔ نظریاتی سرحدوں کے نگہبان و پاسبان، پاک فوج، زندہ باد، پایندہ باد۔