سوشل میڈیا ڈرامے اور فلمیں بچوں پرمنفی اثرات مرتب کرنے لگے

فکرمعاش میں مصروف والدین بچوں کووقت دینے سے قاصر

والدین نے بچوں کوٹی وی،انٹرنیٹ اورموبائل فون تومہیاکردیے لیکن تربیت سے غافل ہوگئے،والدین بچوں کی مصروفیات پرنظر رکھیں،مہناز رحمن فوٹو : فائل

سماجی ویب سائٹس فیس بک ، ٹویٹر، ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں کرداروں کی تمثیل نگاری کے ذریعے تشدد، جرائم اور فحاشی کا پہلو اجاگر ہونے سے کم عمر بچوں کی ذہنی نشونما اور شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

والدین کی بچوں پر عدم توجہی کے باعث بچوں میں اپنے مسائل خود حل کرنے کے لیے فیصلے کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جس سے معاشرے میں شدید بگاڑ پیدا ہورہا ہے گزشتہ روز پٹیل پاڑہ میں عشق کی داستان سامنے آئی ہے جس میں اسکول کی ایک طالبہ اور طالب علم نے خودکشی کرلی، اس حوالے سے بیشتر والدین کا کہنا ہے کہ 15برس قبل جب سوشل میڈیا اور سیٹلائٹ چینلز اور فلموں کا رجحان زیادہ نہ تھا تو والدین اپنے بچوں کے روزمرہ امور پر نظر رکھتے تھے لیکن معاشرے میں جدید ٹیکنالوجی کے فروغ کے باعث والدین اور بچوں میں فاصلہ بڑھ گیا ہے اب والدین اور بچوں کے درمیان گفتگو بھی نہیں ہوتی، والدین بچوں کی ضروریات اور تفریح کے لیے ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اورموبائل فون جیسی چیزیں مہیا کررہے ہیں ۔

لیکن والدین بچوں کی اخلاقی تربیت سے غافل ہوگئے ہیں معاشرے میں معاشی استحکام کے لیے والدین کاموں میں اس قدر مصروف ہیں کہ بچوں کو وقت دینے سے قاصر ہیں جس کے بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں ، عورت فاؤنڈیشن کی مہناز رحمٰن کا کہنا تھا کہ بچوں اور نوجوانوں کو بلوغت کے دوران مناسب رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، والدین اور اولاد کے درمیان دوستی کا رشتہ ہونا چاہیے، گھر کا ماحول دوستانہ ہونا چاہیے تاکہ بچے اور نوجوان اپنے تمام مسائل پر بلاخوف والدین اور بہن بھائیوں سے گفتگو کرسکیں ، والدین کو بچوں کی تمام مصروفیات پر کڑی نظر رکھنی چاہیے، سماجی رابطوں کی ویب سائٹس،موبائل فون پرگفتگو، میسیجز پر بچوں کی مصروفیت پر والدین کو نظر رکھنی چاہیے۔


کالم نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کہا کہ والدین کو بچوں کی بہتر تربیت کے لیے سختی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، بچوں کی اصلاح کے دروازے کھلے رکھنے چاہیے، حکومت کو ہتھیاروں کی بآسانی دستیابی کی روک تھام کے حوالے سے فوری اقدامات کرنے چاہیے کھلونا بندوقوں پر سختی سے پابندی عائد کردی جائے ، تجزیہ و کالم نگار مقتدا منصور نے کہا کہ معاشرے میں منافقت کا عنصر نمایاں ہے۔

والدین بچوں کی تربیت میں دہرا معیار اپناتے ہیں ایک طرف والدین بچوں کو آزادی دیتے ہیں ان کی سوچ کوجدید اور روشن خیال بنانے کے دعوے کرتے ہیں دوسری طرف بچوں میں مذہبی اور لسانی بنیاد پر سوچ کو پروان چڑھایا جاتا ہے جس سے بچوں میں مذہبی اور لسانی انتہا پسندی بڑھتی ہے اور بچوں میں نسلی و لسانی تعصب بھی پیداہوتا ہے۔

ہیومن راٹس کمیشن برائے انسانی حقوق کے اسد بٹ کا کہنا تھا کہ والدین کو جدید دور میں روایتی انداز فکر سے باہر آنا ہوگا، بچوں کے جذبات کوبرادری نظام، معاشرتی دباؤ اور خاندانی رسم و رواج کے تناظر میں قربان نہیں کرنا چاہیے، والدین کو بچوں کی بات غور سے سننی چاہیے اور مضبوط دلائل سے انہیں مطمئن کرنا چاہیے۔
Load Next Story