آپریشن ضرب عضب فیصلہ کن مرحلے میں داخل

آپریشن میں اب تک 3500 سے زائد شدت پسند مارے جب کہ ان کے متعدد ٹھکانے اور اسلحے کے ڈپو تباہ کیے جا چکے ہیں

پاکستان اور افغانستان کا استحکام دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں باہمی تعاون اور مربوط رابطہ کاری میں مضمر ہے۔ فوٹ : فائل

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے اسلام آباد میں جمعرات کو ہونے والے ان کیمرہ اجلاس میں سیکریٹری دفاع اور اعلیٰ فوجی حکام نے کمیٹی اراکین کو فوجی آپریشن ضرب عضب پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ سال جون میں شروع ہونیوالے فوجی آپریشن کا فیصلہ کن مرحلہ شمالی وزیرستان کے علاقے شوال میں جاری ہے۔

اس آپریشن میں اب تک 3500 سے زائد شدت پسند مارے جب کہ ان کے متعدد ٹھکانے اور اسلحے کے ڈپو تباہ کیے جا چکے ہیں، شوال میں جاری کارروائی میں بھی 200 سے زائد شدت پسند مارے جا چکے ہیں۔ آپریشن میں 300 سے زائد فوجی جوان اور افسران بھی شہید ہوچکے ہیں۔ شوال کی پہاڑیوں پر اب فورسز کا کنٹرول ہے' اس علاقے کی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے مشکلات پیش آرہی ہیں تاہم فوج کو کامیابیاں مل رہی ہیں اور فضائیہ کی مدد سے دہشتگردوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ قبائلی علاقوں میں آپریشنز کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں میں بھی شدت پسندوں کے خلاف گھیرا تنگ ہو رہا ہے، اب تک ملک بھر میں 60 ہزار سے زائد خفیہ آپریشنز کیے جاچکے ہیں، دہشتگردوں کی کمر توڑی جاچکی ہے، شدت پسندوںسے کلیئر کرائے گئے علاقوں پر سیکیورٹی فورسزکا مکمل کنٹرول ہے۔

اس موقع پر قائمہ کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروںکا بھی صفایا کیا جانا چاہیے، آپریشن کے موجودہ مرحلے میں اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، چند سیاست دانوںکی گرفتاری سے کوئی فرق نہیں پڑتا، دہشتگردوں کے معاونت کاروں کو بھی پکڑنا ہوگا، دہشتگرد افغانستان جاکر داعش میں شامل ہو رہے ہیں، اس خطرے کو روکنے کی ضرورت ہے، فوجی آپریشن ختم ہو بھی جائے تو بھی سرحد کو ایسے نہیں چھوڑا جاسکتا، پاک فوج کو 2019ء تک شمالی وزیرستان میں رہنا پڑیگا۔


پاک فوج اس وقت دہشتگردی کے خاتمے کی اس جنگ میں دو بڑے محاذوں شمالی وزیرستان اور اندرون ملک چھپے ہوئے بے چہرہ دشمن اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف نبردآزما ہے۔اس نے آپریشن ضرب عضب میں دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی اور اب وہ اس آپریشن کے آخری مرحلے شوال میں مصروف عمل ہے ۔

شوال جنگلات میں گھرا ہوا پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث کافی دشوار گزار سمجھا جاتا ہے اس وجہ سے دہشت گردوں کو گمان تھا کہ اس مشکل ترین علاقے میں پاک فوج ان کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی کیونکہ آج تک کبھی کسی فوج نے اس علاقے میں داخل ہونے کی جرأت نہیں کی حتیٰ کہ ماضی میں انگریز فوج بھی اس علاقے میں داخل نہیں ہوئی تھی لیکن پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب میں اپنے 300 سے زائد فوجی جوانوں اور افسروں کی شہادت کے باوجود اپنی پیشقدمی جاری رکھتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ اس کے حوصلے ان دشوار گزار پہاڑوں سے بھی کئی گنا بلند ہیں اور اس نے دہشت گردی کے خاتمے کا جو پختہ عزم کر رکھا ہے کوئی بھی مشکل اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔

ایک جانب پاک فوج ان پہاڑوں میں دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما ہے تو دوسری جانب ایسی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ اندرون ملک کچھ بااثر گروہ اور افراد دہشت گردوں کے سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں اس لیے جب تک ان سہولت کاروں کو بھی گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتا دہشت گردی پر قابو پانا ایک مشکل امر ہے۔ اندرون ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حائل سب سے بڑی مشکل ان دہشت گردوں کا بے چہرہ ہونا اور ان کے سہولت کاروں کا مذہبی یا سیاسی لبادے کی آڑ میں عوام کے ہمدرد بن کر ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنا ہے۔

دوسری جانب افغانستان سے دہشت گردوں کی آمدورفت بھی پاکستان کے مسائل میں اضافہ کر رہی ہے، یہ دہشت گرد نہ صرف اندرون پاکستان دہشت گردوں کی معاونت کر رہے بلکہ سرحدی سیکیورٹی اہلکاروں پر حملے کر کے چیلنج کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ پاکستانی حکومت کئی بار افغان حکومت سے اس سلسلے میں بات چیت کر چکی ہے کہ وہ اپنے ملک میں دہشت گردوں پر قابو پانے کے لیے بھر پور اقدامات کرے اور سرحدی علاقوں کی نگرانی سخت بنائے۔ اشرف غنی نے صدر بننے کے بعد نہ صرف خطے میں امن بلکہ پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن اب کچھ عرصے سے وہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کی طرح پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہے ہیں۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ افغان اداروں میں موجود پاکستان مخالف اور بھارت کی حامی لابی نے نئے افغان صدر اشرف غنی کو بھی ٹریپ کر لیا ہے۔ افغان حکومت کو یہ حقیقت نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ پورا خطہ دہشت گردی سے متاثر ہو رہا ہے اور پاکستان نے اپنے علاقے میں موجود دہشت گردوں کے مضبوط اڈے تباہ کر دیے جب کہ اس کے برعکس افغانستان میں دہشت گردوں کے اڈے اور تربیتی کیمپ اب بھی موجود ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کا استحکام دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں باہمی تعاون اور مربوط رابطہ کاری میں مضمر ہے اس لیے افغان حکومت کو پاکستان کے خلاف الزامات عائد کرنے سے ہر ممکن گریز کرنا چاہیے۔
Load Next Story