چراغ
حارث بن اشرف کی عمر صرف17برس ہے۔ اس عمر میںجب تک بچے شام کوگھرواپس نہیں آجاتے
حارث بن اشرف کی عمر صرف17برس ہے۔ اس عمر میںجب تک بچے شام کوگھرواپس نہیں آجاتے، مائیں جاگتیں رہتی ہیں۔اس نوجوان کو تحقیق کاشوق ہے۔
سائنسی تجربات اس کی زندگی ہیں۔صرف سترہ برس کی عمر میں، حارث نے پلاسٹک کے بیکارتھیلوں اور فرسودہ قسم کی پلاسٹک کی اشیاء کواکھٹاکیا۔ایک تجربہ کے ذریعہ اس کوڑے کرکٹ سے خام تیل پیداکردیا۔یہ خام تیل بالکل ویساہی ہے،جیسے زمین سے نکالاہواتیل!یہ بذات خودایک انقلابی قدم ہے۔امریکا میں انٹل آئی ایس ای ایف(Intel ISEF)نے اس تحقیق کونہ صرف تسلیم کیابلکہ گزشتہ دوبرس سے بین الاقوامی سطح پرحارث کوانعامات اورتعظیم سے نوازاجارہاہے۔
پوری دنیامیں اس کی کامیابی کاچرچہ ہے۔اس کے علاوہ،حارث ایک اورسائنسی تحقیق میں کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ فالج کے مریضوں میں آنکھوں کی پتلیوں سے جڑی ہوئی یہ موثرتحقیق،طب کی دنیا میں ایک انقلاب برپاکرسکتی ہے۔اس کے لیے وہ ای ڈی جی (Electro Oculo Graphy)کااستعمال کررہاہے۔
صدف امین فیصل آبادزرعی یونیورسٹی کی طالبہ ہے۔ عمر صرف22برس ہے۔ زرعی انجینئرنگ کے شعبہ میں ایم ایس سی کررہی ہے۔صدف امین نے زرعی شعبہ میں ایک اچھوتا خیال پیش کیاہے۔اس نے ایک نظام ترتیب دیاہے جسکانام "Mobile Agriculture Farming System" ہے۔ آپ اپنے موبائل فون میں محض ایک پروگرام ڈال کراپنی زرعی زمین کی دیکھ بھال کرسکتے ہیں۔اس پروگرام کے ذریعے آپ دنیاکے کسی بھی حصہ میں مقیم، اپنے دورترین زرعی رقبہ پرکھادکی مقدار اور ترتیب پرنظررکھ سکتے ہیں۔پانی کی مقدار کو بھی دیکھ سکتے ہیں بلکہ کنٹرول کرسکتے ہیں۔
اس پروگرام کوبین الاقوامی سطح پربے حدپذیرائی ملی ہے۔ صدف امین کوبین الاقوامی سطح پرروشناس کروانے کا سارا کام بھی ایک پاکستانی موبائل کمپنی نے سرانجام دیا ہے۔ حکومتی سطح پرکسی جگہ پراس بچی کوکوئی سہولت ملی ہے یانھیں۔میرے علم میں نہیں! میرا گمان ہے کہ حکومت نے شائدپلٹ کربھی صدف کی جانب نہیں دیکھا ہوگا۔ نابینالوگ،ستاروں کو نہیں دیکھ سکتے،اورنہ ہی انھیں گن سکتے ہیں۔
عزیر اکرام کی عمر23برس ہے۔وہ ایک عام ساپاکستانی نوجوان تھا۔سارادن سوتاتھا۔شام کووالدہ کی جھڑکیاں کھانا، اسکاروزمرہ کامعمول تھا۔والدہ تمام دن ٹی وی دیکھتی تھی۔ جب عزیرشام کواپنے کمرے سے بیدارہوکرلاؤنج میں آتا تھا توپہلی بات اسے یہ سننے کوملتی تھی کہ دیکھو،تم سارادن سوتے رہتے ہو۔خاندان کے اکثربچے ترقی کررہے ہیں اورتم وہیں کے وہیں کھڑے ہو۔تمہاراکیابنے گا!تمہارامستقبل کیاہوگا! یہ روزانہ ہوتا تھا۔ایک شام کواسی طرح کی محبت بھری ڈانٹ کھانے کے بعد،عزیرنے سوچناشروع کردیاکہ اس کی ماں ٹھیک کہتی ہے۔وہ واپس اپنے کمرہ میں آیا۔اپناکمپیوٹرآن کیا۔اسے کچھ سمجھ نہیں آرہاتھاکہ کیاکرے۔
اچانک ایک ویب سائٹ پرپہنچاتواسے لگاکہ یہ کام وہ کربھی سکتا ہے اورماہرین کی مددسے کروابھی سکتاہے۔اس سائٹ کانام E-lance تھا اوریہ ترجمے کاکام کرتی تھی۔ عزیر نے اپنے آپکواس سائٹ پر رجسٹرکروایا۔ تھوڑے عرصے میں اندازہ ہواکہ مختلف زبانوںمیں ترجمہ کرنے والی کمپنیاں اپنے کام کابہت زیادہ معاوضہ وصول کرتی ہیں۔
ترجمہ کے مرحلہ میں وقت بھی بہت لیتی ہیں اور اپنے کام کوبہت عمدہ طریقے سے سرانجام نہیں دیتیں۔ عزیرنے فوراًایک کمپنی بناڈالی۔ اس کا نام "Universal Translation Studio"رکھ دیا۔اس نے ترجمہ کے کام کے معاوضہ کو بہت کم رکھا۔اس کی مدت کوبھی بہت کم کردیا۔دیکھتے ہین دیکھتے اس پرکام کی بارش ہونے لگی۔آج اس کی کمپنی،Elanceپرسب سے مصروف کمپنی ہے۔اب عزیراس کمپنی کے دفاترپوری دنیامیں کھول رہا ہے۔
اس کی کمپنی،دنیاکی ہرزبان میںمستندترجمہ کرسکتی ہے۔عزیرکی والدہ ششدرہوچکی ہے کہ اس کے بیٹے نے کیاکارنامہ سرانجام دیا ہے۔ عزیر کسی بھی ادارے سے وابستہ نہیں۔وہ ایک فری لانسر ہے۔مگرانتہائی کامیاب کاروباری شخص۔اب وہ محض کاروباری نہیں،بلکہ ایک امیرتاجرکاروپ دھار چکاہے۔
خالدہ بروہی صرف پچیس برس کی ہے۔اس کی ایک قریبی دوست کوسولہ برس کی عمرمیں صرف اس بنیادپرقتل کردیاگیاکہ اپنی مرضی سے شادی کرنے کاخواب دیکھتی تھی۔جس ماحول میں بچی رہتی تھی،وہاں یہ ایک ناقابل معافی گناہ تھا۔چنانچہ اس لڑکی کو اس کے اپنے خاندان نے سزائے موت سنادی۔خالدہ بروہی کی عمراس وقت بہت چھوٹی تھی۔اس نے یہ ظلم اپنے سامنے ہوتے ہوئے دیکھاتھا۔وہ یہ سب کچھ برداشت نہ کرپائی۔اس کے پاس ایک راستہ تویہ تھاکہ خاموش ہوجائے۔
مگر اس نے خاموش رہنے سے انکار کردیا۔اس نے مشکل اورکٹھن راستہ کاانتخاب کیااور عورتوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے ایک ادارہ تشکیل دے ڈالا۔ اسکانام "سگھڑ فاؤنڈیشن" رکھا گیا۔
ادارہ کامقصدتھاکہ خواتین کوتعلیم دی جائے۔ انکوایسے ہنر سکھائے جائیں جس سے وہ معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکیں۔خالدہ بروہی نے نوجوان لڑکیوں کو اعتماد دیا کہ وہ اپنے ذاتی حقوق کی حفاظت کر سکیں۔انکامقدرصرف چولہے پھٹنے سے جھلسنااورکسی مردکے ہاتھوں قتل ہونانھیںبلکہ ان کے اپنے ہاتھ میں ہو۔ "سگھڑفاؤنڈیشن"ایک چھوٹاساادارہ ہے۔یہ صرف 23 دیہاتوں تک محیط ہے۔مگرخالدہ بروہی کے عزم اورمحنت کی بدولت یہ تیزی سے مزیدکامیابی کی جانب گامزن ہے۔
یہ ان بچیوں کی آوازہے،جودیوارکے پیچھے ہر اس ناکردہ گناہ کی سزاپاتی ہیں،جس سے انکاکوئی تعلق ہی نہیں۔23دیہاتوں میں اب کوئی عورت بیکارنہیں ہے۔تمام لڑکیاں اپنے ہنرکی بدولت اب معاشی طور پر مستحکم ہیں۔اپنے خاندان کے لیے باعثِ عزت اورباعثِ فخربھی!
معیزجاویدصرف چوبیس برس کانواجوان ہے۔ 2010ء کے سیلاب کے وقت وہ یونیورسٹی کے سال دوم میں زیرِتعلیم تھا۔طلباء اورطالبات کے ساتھ ملکراس نے سیلاب زدگان کی مددکے لیے کام کرناشروع کردیا۔ جب سیلاب زدہ علاقے میں گیاتواسے پہلی باراس تلخ سچ کااندازہ ہوا،کہ یہ لوگ تو بالکل بے یارومددگار ہیں۔
ان کا کوئی والی وارث نہیں۔حکومت کی امداد، سرکاری عمال کی کرپشن کی نذرہوجاتی ہے۔یہ لاچارلوگ صرف اپنے مقدرکی ناکام لکیروں کودیکھتے رہتے ہیں۔ معیز جاویدنے ایک عجیب فیصلہ کیا۔اس نے کپڑوں کی ایک دکان یاشوروم کھول لیا۔ اس کا نامVirgin Teesرکھا۔ شوروم کی امتیازی بات یہ تھی کہ منافع کاایک خاص حصہ مجبور اور لاچار لوگوں کی مددکے لیے مختص تھا۔اپنے منافع میں سے غریب بچوں کی تعلیم اوردیگراخراجات کاخرچہ بھی برداشت کرتا تھا۔
معیز صرف یہاں نہیں رُکا۔اس نے اپنے کاروبار کو ایک نیارنگ دیدیا۔لوگوں کوذاتی تقریبات کے لیے جگہیں مہیاکرنی شروع کردیں۔اپنے کمپیوٹر پر اشتہار دیتا تھاکہ کوئی بھی شخص اپنے گھرکے لان یا جگہ کوکسی بھی تقریب کے لیے کرایہ پردینا چاہتا ہے تووہ اس کے لیے صارف یاگاہک تلاش کریگا۔
اس منصوبہ کا نام "P"رکھ ڈالا۔معیزکاکمال یہ ہے کہ تقریبات کے لیے یہ تمام جگہیں،دیگرہوٹلوں اورشادی ہالوں سے بہت کم نرخ پر مہیا کرتاہے۔اسکایہ منصوبہ بھی کامیاب ہوچکا ہے۔ جو شرط اس نے اپنے کپڑوں کی دکان کے منافع پررکھی ہے۔ بالکل وہی شرط،اس نے "P" کے منافع پربھی عائدکردی ہے۔ منصوبہ کے منافع کاایک خاص حصہ غریب لوگوں کی فلاح وبہبودکے لیے استعمال ہورہاہے۔
میرے سامنے نوجوان بچوں اوربچیوں کی ایک طویل فہرست موجودہے۔ان تمام لوگوں نے کسی قسم کی سرکاری مددکا انتظارکیے بغیر،اپنے خواب خوداپنے ہاتھوں سے تعبیر کرڈالے ہیں۔صرف چندنام اور لکھنا چاہتاہوں کیونکہ کالم میں بہرحال ان قابل فخرلوگوں کا مکمل ذکرناممکن ہے۔پچیس سالہ،زین اشرف نے "Seed Out"کے نام سے ایک ادارہ بنایاہے جو غریب اورمستحق افرادکوچھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے سرمایہ فراہم کرتاہے۔
مزمل حسن کی عمر،محض24برس ہے۔اس نے ایک اسٹوڈیوبنایاہے جسکا نام LOLZ اسٹوڈیوہے۔یہ انتہائی معیاری،معلوماتی اورمزاح سے بھرپور ویڈیو بناتا ہے۔ اس نوجوان نے سب کویہ بتانے کی کوشش بھی کی ہے کہ اگرآپ ٹی وی پرتشددبھری فلمیں دیکھتے رہینگے تو تشدد آپکے ذاتی مزاج کا حصہ بن سکتا ہے۔اس بنیاد پر مزمل نے انتہائی کم خرچے پر، انتہائی معیاری کام کرکے اپنی ساکھ بنائی ہے۔
کس کس ہیرے کے متعلق لکھوں،اورکس کو چھوڑ دوں۔واقعی سمجھ نہیں آرہا!مسنداقتدارپربدقسمتی سے وہ لوگ قابض ہیں،جنکے دل میں نفرت،غصہ،انتقام،ذاتی دولت کا بڑھاؤاوردکھاوے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ میری نظرمیں یہ تمام لوگ ہمیں روشن منزل کی دہلیز پر پہنچانے کی بھی اسطاعت نہیں رکھتے۔ ہمارا سنہرا اور شاندارسفرتوان نوجوان چراغوں کی بدولت ممکن ہے جواپنے اندرخودروشنی ہیں۔یہ جگمگاتے چراغ بذات خودہمارامستقبل ہیں!
سائنسی تجربات اس کی زندگی ہیں۔صرف سترہ برس کی عمر میں، حارث نے پلاسٹک کے بیکارتھیلوں اور فرسودہ قسم کی پلاسٹک کی اشیاء کواکھٹاکیا۔ایک تجربہ کے ذریعہ اس کوڑے کرکٹ سے خام تیل پیداکردیا۔یہ خام تیل بالکل ویساہی ہے،جیسے زمین سے نکالاہواتیل!یہ بذات خودایک انقلابی قدم ہے۔امریکا میں انٹل آئی ایس ای ایف(Intel ISEF)نے اس تحقیق کونہ صرف تسلیم کیابلکہ گزشتہ دوبرس سے بین الاقوامی سطح پرحارث کوانعامات اورتعظیم سے نوازاجارہاہے۔
پوری دنیامیں اس کی کامیابی کاچرچہ ہے۔اس کے علاوہ،حارث ایک اورسائنسی تحقیق میں کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ فالج کے مریضوں میں آنکھوں کی پتلیوں سے جڑی ہوئی یہ موثرتحقیق،طب کی دنیا میں ایک انقلاب برپاکرسکتی ہے۔اس کے لیے وہ ای ڈی جی (Electro Oculo Graphy)کااستعمال کررہاہے۔
صدف امین فیصل آبادزرعی یونیورسٹی کی طالبہ ہے۔ عمر صرف22برس ہے۔ زرعی انجینئرنگ کے شعبہ میں ایم ایس سی کررہی ہے۔صدف امین نے زرعی شعبہ میں ایک اچھوتا خیال پیش کیاہے۔اس نے ایک نظام ترتیب دیاہے جسکانام "Mobile Agriculture Farming System" ہے۔ آپ اپنے موبائل فون میں محض ایک پروگرام ڈال کراپنی زرعی زمین کی دیکھ بھال کرسکتے ہیں۔اس پروگرام کے ذریعے آپ دنیاکے کسی بھی حصہ میں مقیم، اپنے دورترین زرعی رقبہ پرکھادکی مقدار اور ترتیب پرنظررکھ سکتے ہیں۔پانی کی مقدار کو بھی دیکھ سکتے ہیں بلکہ کنٹرول کرسکتے ہیں۔
اس پروگرام کوبین الاقوامی سطح پربے حدپذیرائی ملی ہے۔ صدف امین کوبین الاقوامی سطح پرروشناس کروانے کا سارا کام بھی ایک پاکستانی موبائل کمپنی نے سرانجام دیا ہے۔ حکومتی سطح پرکسی جگہ پراس بچی کوکوئی سہولت ملی ہے یانھیں۔میرے علم میں نہیں! میرا گمان ہے کہ حکومت نے شائدپلٹ کربھی صدف کی جانب نہیں دیکھا ہوگا۔ نابینالوگ،ستاروں کو نہیں دیکھ سکتے،اورنہ ہی انھیں گن سکتے ہیں۔
عزیر اکرام کی عمر23برس ہے۔وہ ایک عام ساپاکستانی نوجوان تھا۔سارادن سوتاتھا۔شام کووالدہ کی جھڑکیاں کھانا، اسکاروزمرہ کامعمول تھا۔والدہ تمام دن ٹی وی دیکھتی تھی۔ جب عزیرشام کواپنے کمرے سے بیدارہوکرلاؤنج میں آتا تھا توپہلی بات اسے یہ سننے کوملتی تھی کہ دیکھو،تم سارادن سوتے رہتے ہو۔خاندان کے اکثربچے ترقی کررہے ہیں اورتم وہیں کے وہیں کھڑے ہو۔تمہاراکیابنے گا!تمہارامستقبل کیاہوگا! یہ روزانہ ہوتا تھا۔ایک شام کواسی طرح کی محبت بھری ڈانٹ کھانے کے بعد،عزیرنے سوچناشروع کردیاکہ اس کی ماں ٹھیک کہتی ہے۔وہ واپس اپنے کمرہ میں آیا۔اپناکمپیوٹرآن کیا۔اسے کچھ سمجھ نہیں آرہاتھاکہ کیاکرے۔
اچانک ایک ویب سائٹ پرپہنچاتواسے لگاکہ یہ کام وہ کربھی سکتا ہے اورماہرین کی مددسے کروابھی سکتاہے۔اس سائٹ کانام E-lance تھا اوریہ ترجمے کاکام کرتی تھی۔ عزیر نے اپنے آپکواس سائٹ پر رجسٹرکروایا۔ تھوڑے عرصے میں اندازہ ہواکہ مختلف زبانوںمیں ترجمہ کرنے والی کمپنیاں اپنے کام کابہت زیادہ معاوضہ وصول کرتی ہیں۔
ترجمہ کے مرحلہ میں وقت بھی بہت لیتی ہیں اور اپنے کام کوبہت عمدہ طریقے سے سرانجام نہیں دیتیں۔ عزیرنے فوراًایک کمپنی بناڈالی۔ اس کا نام "Universal Translation Studio"رکھ دیا۔اس نے ترجمہ کے کام کے معاوضہ کو بہت کم رکھا۔اس کی مدت کوبھی بہت کم کردیا۔دیکھتے ہین دیکھتے اس پرکام کی بارش ہونے لگی۔آج اس کی کمپنی،Elanceپرسب سے مصروف کمپنی ہے۔اب عزیراس کمپنی کے دفاترپوری دنیامیں کھول رہا ہے۔
اس کی کمپنی،دنیاکی ہرزبان میںمستندترجمہ کرسکتی ہے۔عزیرکی والدہ ششدرہوچکی ہے کہ اس کے بیٹے نے کیاکارنامہ سرانجام دیا ہے۔ عزیر کسی بھی ادارے سے وابستہ نہیں۔وہ ایک فری لانسر ہے۔مگرانتہائی کامیاب کاروباری شخص۔اب وہ محض کاروباری نہیں،بلکہ ایک امیرتاجرکاروپ دھار چکاہے۔
خالدہ بروہی صرف پچیس برس کی ہے۔اس کی ایک قریبی دوست کوسولہ برس کی عمرمیں صرف اس بنیادپرقتل کردیاگیاکہ اپنی مرضی سے شادی کرنے کاخواب دیکھتی تھی۔جس ماحول میں بچی رہتی تھی،وہاں یہ ایک ناقابل معافی گناہ تھا۔چنانچہ اس لڑکی کو اس کے اپنے خاندان نے سزائے موت سنادی۔خالدہ بروہی کی عمراس وقت بہت چھوٹی تھی۔اس نے یہ ظلم اپنے سامنے ہوتے ہوئے دیکھاتھا۔وہ یہ سب کچھ برداشت نہ کرپائی۔اس کے پاس ایک راستہ تویہ تھاکہ خاموش ہوجائے۔
مگر اس نے خاموش رہنے سے انکار کردیا۔اس نے مشکل اورکٹھن راستہ کاانتخاب کیااور عورتوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے ایک ادارہ تشکیل دے ڈالا۔ اسکانام "سگھڑ فاؤنڈیشن" رکھا گیا۔
ادارہ کامقصدتھاکہ خواتین کوتعلیم دی جائے۔ انکوایسے ہنر سکھائے جائیں جس سے وہ معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکیں۔خالدہ بروہی نے نوجوان لڑکیوں کو اعتماد دیا کہ وہ اپنے ذاتی حقوق کی حفاظت کر سکیں۔انکامقدرصرف چولہے پھٹنے سے جھلسنااورکسی مردکے ہاتھوں قتل ہونانھیںبلکہ ان کے اپنے ہاتھ میں ہو۔ "سگھڑفاؤنڈیشن"ایک چھوٹاساادارہ ہے۔یہ صرف 23 دیہاتوں تک محیط ہے۔مگرخالدہ بروہی کے عزم اورمحنت کی بدولت یہ تیزی سے مزیدکامیابی کی جانب گامزن ہے۔
یہ ان بچیوں کی آوازہے،جودیوارکے پیچھے ہر اس ناکردہ گناہ کی سزاپاتی ہیں،جس سے انکاکوئی تعلق ہی نہیں۔23دیہاتوں میں اب کوئی عورت بیکارنہیں ہے۔تمام لڑکیاں اپنے ہنرکی بدولت اب معاشی طور پر مستحکم ہیں۔اپنے خاندان کے لیے باعثِ عزت اورباعثِ فخربھی!
معیزجاویدصرف چوبیس برس کانواجوان ہے۔ 2010ء کے سیلاب کے وقت وہ یونیورسٹی کے سال دوم میں زیرِتعلیم تھا۔طلباء اورطالبات کے ساتھ ملکراس نے سیلاب زدگان کی مددکے لیے کام کرناشروع کردیا۔ جب سیلاب زدہ علاقے میں گیاتواسے پہلی باراس تلخ سچ کااندازہ ہوا،کہ یہ لوگ تو بالکل بے یارومددگار ہیں۔
ان کا کوئی والی وارث نہیں۔حکومت کی امداد، سرکاری عمال کی کرپشن کی نذرہوجاتی ہے۔یہ لاچارلوگ صرف اپنے مقدرکی ناکام لکیروں کودیکھتے رہتے ہیں۔ معیز جاویدنے ایک عجیب فیصلہ کیا۔اس نے کپڑوں کی ایک دکان یاشوروم کھول لیا۔ اس کا نامVirgin Teesرکھا۔ شوروم کی امتیازی بات یہ تھی کہ منافع کاایک خاص حصہ مجبور اور لاچار لوگوں کی مددکے لیے مختص تھا۔اپنے منافع میں سے غریب بچوں کی تعلیم اوردیگراخراجات کاخرچہ بھی برداشت کرتا تھا۔
معیز صرف یہاں نہیں رُکا۔اس نے اپنے کاروبار کو ایک نیارنگ دیدیا۔لوگوں کوذاتی تقریبات کے لیے جگہیں مہیاکرنی شروع کردیں۔اپنے کمپیوٹر پر اشتہار دیتا تھاکہ کوئی بھی شخص اپنے گھرکے لان یا جگہ کوکسی بھی تقریب کے لیے کرایہ پردینا چاہتا ہے تووہ اس کے لیے صارف یاگاہک تلاش کریگا۔
اس منصوبہ کا نام "P"رکھ ڈالا۔معیزکاکمال یہ ہے کہ تقریبات کے لیے یہ تمام جگہیں،دیگرہوٹلوں اورشادی ہالوں سے بہت کم نرخ پر مہیا کرتاہے۔اسکایہ منصوبہ بھی کامیاب ہوچکا ہے۔ جو شرط اس نے اپنے کپڑوں کی دکان کے منافع پررکھی ہے۔ بالکل وہی شرط،اس نے "P" کے منافع پربھی عائدکردی ہے۔ منصوبہ کے منافع کاایک خاص حصہ غریب لوگوں کی فلاح وبہبودکے لیے استعمال ہورہاہے۔
میرے سامنے نوجوان بچوں اوربچیوں کی ایک طویل فہرست موجودہے۔ان تمام لوگوں نے کسی قسم کی سرکاری مددکا انتظارکیے بغیر،اپنے خواب خوداپنے ہاتھوں سے تعبیر کرڈالے ہیں۔صرف چندنام اور لکھنا چاہتاہوں کیونکہ کالم میں بہرحال ان قابل فخرلوگوں کا مکمل ذکرناممکن ہے۔پچیس سالہ،زین اشرف نے "Seed Out"کے نام سے ایک ادارہ بنایاہے جو غریب اورمستحق افرادکوچھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے سرمایہ فراہم کرتاہے۔
مزمل حسن کی عمر،محض24برس ہے۔اس نے ایک اسٹوڈیوبنایاہے جسکا نام LOLZ اسٹوڈیوہے۔یہ انتہائی معیاری،معلوماتی اورمزاح سے بھرپور ویڈیو بناتا ہے۔ اس نوجوان نے سب کویہ بتانے کی کوشش بھی کی ہے کہ اگرآپ ٹی وی پرتشددبھری فلمیں دیکھتے رہینگے تو تشدد آپکے ذاتی مزاج کا حصہ بن سکتا ہے۔اس بنیاد پر مزمل نے انتہائی کم خرچے پر، انتہائی معیاری کام کرکے اپنی ساکھ بنائی ہے۔
کس کس ہیرے کے متعلق لکھوں،اورکس کو چھوڑ دوں۔واقعی سمجھ نہیں آرہا!مسنداقتدارپربدقسمتی سے وہ لوگ قابض ہیں،جنکے دل میں نفرت،غصہ،انتقام،ذاتی دولت کا بڑھاؤاوردکھاوے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ میری نظرمیں یہ تمام لوگ ہمیں روشن منزل کی دہلیز پر پہنچانے کی بھی اسطاعت نہیں رکھتے۔ ہمارا سنہرا اور شاندارسفرتوان نوجوان چراغوں کی بدولت ممکن ہے جواپنے اندرخودروشنی ہیں۔یہ جگمگاتے چراغ بذات خودہمارامستقبل ہیں!