امریکا کو پی پی کیخلاف کرپشن کیسزپرسیاسی نظام پٹڑی سے اترنے کا خدشہ
سوزن کاموقف تھا پی پی قیادت کیخلاف مقدمات سے محاذآرائی میں اضافہ،جمہوری نظام کوخطرہ ہوسکتا ہے
امریکا نے پاکستان کی سیاسی اورفوجی قیادت پر پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کیخلاف بدعنوانی کے مقدمات کی پیروی نہ کرنے پر زوردیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے سیاسی نظام پٹڑی سے اترسکتا ہے۔
امریکا کی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس کے حالیہ دورہ اسلام آباد کے دوران وزیراعظم نوازشریف اورآرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقاتوں میں یہ معاملہ زیربحث آیا ہے۔صورتحال سے باخبرسرکاری ذرائع نے ایکسپریس کونام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ امریکی مشیرقومی سلامتی سے ملاقاتوں میں بھارتی رویے اور افغان امن عمل، دوطرفہ اورعلاقائی معاملات پرگفتگوکے علاوہ سیاسی استحکام کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ان ذرائع نے بتایا کہ امریکا نے پاکستان میں سیاسی استحکام کوخطے کے مجموعی استحکام اورقیام امن کیلیے اہم قراردیا ہے۔
سوزن رائس کاموقف تھاکہ پاکستان میں جمہوریت کااستحکام اہم ہے اورکراچی میں دہشتگردوں کیخلاف آپریشن بلاتفریق جاری رہ سکتا ہے لیکن اب پیپلزپارٹی کی قیادت کیخلاف بدعنوانی کے الزامات پرکارروائی آگے بڑھانے سے تصادم کو ہوا مل سکتی ہے جس سے سیاسی استحکام متاثراورملک میں جمہوری نظام کوخطرہ ہوسکتا ہے۔
اس معاملے پرایک سیاسی تجزیہ کارنے تبصرہ کیا ہے کہ امریکا بظاہرکہتا ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا لیکن ہیلری کلنٹن کی سامنے آنے والی حالیہ ای میلز سے پاکستان کے معاملات میں امریکی دخل اندازی کا پتہ چلتا ہے۔کرپشن چاہے کسی کی ہو اس کیخلاف کارروائی وقت کاتقاضااورپاکستان کااندرونی معاملہ ہے ،امریکا کوکسی سیاسی جماعت یا رہنماکے تحفظ کیلئے سامنے آنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے ۔ڈاکٹر عاصم حسین کی حالیہ گرفتاری کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت نے حکومت پر سخت تنقیدکی ہے۔
ڈاکٹر عاصم سے اب دہشت گردوں کے تحفظ اورانھیں مالی وسائل فراہم کرنے کی تفتیش کی جارہی ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی مسلم لیگ ن کیخلاف چارج شیٹ اورسخت بیان جاری کیا۔پی پی کے حالیہ بیانات سے لگتا ہے کہ وہ اپنے رہنماؤں پر بدعنوانی کے الزامات کاسامناکرنے کیلیے تیار نہیں ہے اور 2007سے جاری مصالحتی پالیسی کوچھوڑکر حکومت سے تصادم کاراستہ اختیارکرسکتی ہے۔
امریکا کی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس کے حالیہ دورہ اسلام آباد کے دوران وزیراعظم نوازشریف اورآرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقاتوں میں یہ معاملہ زیربحث آیا ہے۔صورتحال سے باخبرسرکاری ذرائع نے ایکسپریس کونام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ امریکی مشیرقومی سلامتی سے ملاقاتوں میں بھارتی رویے اور افغان امن عمل، دوطرفہ اورعلاقائی معاملات پرگفتگوکے علاوہ سیاسی استحکام کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ان ذرائع نے بتایا کہ امریکا نے پاکستان میں سیاسی استحکام کوخطے کے مجموعی استحکام اورقیام امن کیلیے اہم قراردیا ہے۔
سوزن رائس کاموقف تھاکہ پاکستان میں جمہوریت کااستحکام اہم ہے اورکراچی میں دہشتگردوں کیخلاف آپریشن بلاتفریق جاری رہ سکتا ہے لیکن اب پیپلزپارٹی کی قیادت کیخلاف بدعنوانی کے الزامات پرکارروائی آگے بڑھانے سے تصادم کو ہوا مل سکتی ہے جس سے سیاسی استحکام متاثراورملک میں جمہوری نظام کوخطرہ ہوسکتا ہے۔
اس معاملے پرایک سیاسی تجزیہ کارنے تبصرہ کیا ہے کہ امریکا بظاہرکہتا ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا لیکن ہیلری کلنٹن کی سامنے آنے والی حالیہ ای میلز سے پاکستان کے معاملات میں امریکی دخل اندازی کا پتہ چلتا ہے۔کرپشن چاہے کسی کی ہو اس کیخلاف کارروائی وقت کاتقاضااورپاکستان کااندرونی معاملہ ہے ،امریکا کوکسی سیاسی جماعت یا رہنماکے تحفظ کیلئے سامنے آنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے ۔ڈاکٹر عاصم حسین کی حالیہ گرفتاری کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت نے حکومت پر سخت تنقیدکی ہے۔
ڈاکٹر عاصم سے اب دہشت گردوں کے تحفظ اورانھیں مالی وسائل فراہم کرنے کی تفتیش کی جارہی ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی مسلم لیگ ن کیخلاف چارج شیٹ اورسخت بیان جاری کیا۔پی پی کے حالیہ بیانات سے لگتا ہے کہ وہ اپنے رہنماؤں پر بدعنوانی کے الزامات کاسامناکرنے کیلیے تیار نہیں ہے اور 2007سے جاری مصالحتی پالیسی کوچھوڑکر حکومت سے تصادم کاراستہ اختیارکرسکتی ہے۔