جنگِ دفاع کے 6 اہم واقعات
1965 ایک ایسی جنگ تھی جب ایک قوم نے اچانک ہونے والے حملے کو اپنے عزم و ہمت سے ناکام بناکر دشمن کو عبرتناک شکست دی۔
وطن وہ سہ حرفی لفظ ہے، جہاں ایک قوم جنم لیتی ہے۔ پروان چڑھتی ہے اور وفاداری بشرطِ استواری کی تصدیق کرتے ہوئے اسی مٹی کا حصہ بن جاتی ہے۔ 1965 کی مختصر جنگ پاکستانی تاریخ میں ایک طلسماتی داستان سے ذیادہ کا درجہ رکھتی ہے جب ایک قوم نے اچانک ہونے والے حملے کو اپنے عزم و ہمت سے ناکام بناکر اسے عبرتناک شکست دی۔
سپاہیوں نے شجاعت و جرات کی نئی داستانیں رقم کیں تو شاعروں نے لہوگرمادینے والا کلام لکھا، عام افراد کا حوصلہ ساتویں آسمان پر اس وقت دیکھا گیا جب 80 سال کا ایک عام بوڑھا گھر سے خندق کھودنے نکلا ۔ مائیں اور بہنیں مصلے پر بیٹھ کر دعا گو رہیں اور پوری قوم یک جان و یک قالب ہوگئی۔ اور اس عظیم جذبے کا اظہار کیا جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ آج کی نوجوان نسل بھی ایسے ہی چند اہم واقعات سے اپنے دلوں کو گرما سکتی ہے جو نہ صرف دفاعِ پاکستان بلکہ استحکامِ پاکستان کا وسیلہ بھی بنیں گے۔
1965 کا پہلا فائر اور پہلا شہید
مصنف ایم آر شاہد نے اپنی کتاب ''شہیدانِ وطن'' میں بہت تحقیق کے بعد پاکستانی شہداء کا احوال پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 6 ستمبر کی صبح ٹھیک 3 بج کر 45 منٹ پر ہندوستان کی جانب سے واہگہ پر ایک گولہ آکر گرا جسے بھارت کی جانب سے پہلا فائر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر ایس جے سی پی پوسٹ پر موجود پلاٹون کمانڈر محمد شیراز چوکنا ہوگئے اور پوسٹ پر بھارت کی جانب سے مزید فائرنگ شروع ہوگئی۔ محمد شیراز نے جوابی فائرنگ کی اور یوں دونوں اطراف سے فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا جو ستمبر کی تاریخی جنگ کی ابتدا تھی۔ لڑائی اتنی شدید ہوگئی کہ بھارتی فوجیوں نے قریب آکر دستی بم بھی پھینکنے شروع کردیے۔ اگرچہ یہ حملہ اچانک تھا لیکن پاکستانی سپاہیوں نے اس کا دلیرانہ مقابلہ کیا۔ جب پاکستانی دستی بموں کی ضرورت پڑتی تو سپاہی رینگ کر کمک کے پاس آتے اور رینگ کر آگے موجود سپاہیوں کو بم تھماتے تھے۔ اسی اثناء میں محمد شیراز دشمن کی گولیوں سے شہید ہوکر جنگِ ستمبر کے پہلے شہید کا اعزاز حاصل کرگئے۔
ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ
اگرچہ جنگِ عظیم دوم میں کئی ممالک کے لاتعداد ٹینک استعمال ہوئے تھے لیکن 1965 کی جنگ میں بہت کم دنوں میں لگ بھگ 600 ٹینکوں نے حصہ لیا تھا۔ جس میں بھارت کے سنچورین ٹینک بھی شامل تھے۔ عددی برتری کے لحاظ سے بھارت کے پاس بہت اسلحہ تھا اور ان ٹینکوں کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کے عظیم سپاہیوں نے مادرِ وطن کی حفاظت کے لیے اپنے سینوں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر انہیں تباہ کرکے ناکارہ بنادیا۔ بھارت میں چاونڈا کا مقام اب بھی ٹینکوں کے قبرستان کے نام سے مشہور ہے کیونکہ پاکستانی سپاہی نے بھارتی صفوں میں گھس کر ان کی سفلی تدابیر کو ناکام بنایا تھا۔ دوسری جانب میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نے اسی طرح کے معرکے میں شجاعت اور عظمت کی نئی داستان رقم کی تھی۔
نشانِ حیدر کا اعزاز پانے والے واحد شہید، میجر عزیز بھٹی
میجر عزیز بھٹی اپنے جانثاروں کے ساتھ بی آر بی نہر کے پاس ڈٹے تھے، جس پر بھارتی افواج قبضہ کرنا چاہتی تھی۔ 7 ستمبر کو بھارت نے پوری طاقت کے ساتھ اس پر حملہ کیا اور میجر عزیز بھٹی اور میجر شفقت بلوچ نے صرف 110 سپاہیوں کی مدد سے بھارت کی پوری بریگیڈ کو 10 گھنٹوں تک روک کر رکھا اور دن رات مورچے پر ڈٹے رہے۔ یہ اعصاب شکن معرکہ جب 12 ستمبر کو پانچویں روز میں داخل ہوا تو اس وقت تک میجر عزیز بھٹی بھارت کے چھ حملے روک چکے تھے۔ آگے جانے والے پاکستانی سپاہی اور ٹینک ایک مقام پر پھنس گئے تھے جنہیں واپس لانا ضروری تھا۔ اس پر انہوں نے اپنی فوج کو منظم کرکے کئی اطراف سے حملہ کیا اور پاکستانی فوجی گاڑیوں اور سپاہیوں کو واپس لانے میں کامیاب ہوگئے لیکن اندھا دھند گولہ باری اور فائرنگ کے دوران ایک شیل نے ان کے کندھے کو شدید زخمی کردیا اور وہ صرف 42 سال کی عمر میں جامِ شہادت نوش کرگئے۔
یونس حسن خان شہید
1965 کے ایک اور ہیرو یونس خان شہید کا نام سنہرے حرفوں سے زندہ رہے گا۔ انہوں نے پٹھان کوٹ بھارت کے فضائی اڈے پر حملہ کیا اور اپنی مہارت سے بھارتی فضائیہ کے 15 طیارے تباہ کردیے جن میں کینبرا اور دوسرے طیارے شامل تھے۔ بعض ذرائع کے مطابق وہ جب بھارتی حدود میں داخل ہوئے تو ان کے طیارے پر بھارتی طیاروں کی جانب سے فائرنگ ہوئی اور طیارے کو نقصان پہنچا لیکن کچھ حوالہ جات کہتے ہیں کہ انہوں نے بھارتی علاقے پٹھان کوٹ کے پاس فضائی اڈے پر موجود پاکستانی حملے کے لیے کھڑے طیاروں سے اپنا طیارہ ٹکرادیا جس میں بھارت کے 15 طیارے جل کر راکھ ہوگئے اوردشمن کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔
سینے پر گولی کھانے کا عزم
1965 کی ولولہ انگیز جنگ میں زخمی فوجیوں کے علاج پر معمور بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) نصرت جہاں سلیم نے آئی ایس پی آر کے شمارے میں لکھا ہے کہ جنگ کے دوسرے روز ایک لمبا تڑنگا فوجی اسٹریچر پر لایا گیا جو اپنی نحیف آواز میں بڑبڑا رہا تھا کہ اس نے ماں سے سینے پر گولی کھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن خود ڈاکٹر یہ جاننے سے قاصر تھے کہ اسے گولی کہاں لگی ہے۔ اس کی سانس اکھڑ رہی تھی اور بلڈ پریشر گرتا جارہا تھا۔ جب ٹانگ کا زخم کھولا گیا تو وہاں سے گولی کا ایک سوراخ جلد کو چیرتا ہوا پیٹ کی جانب جاتا معلوم ہوا۔ پھر یکایک معلوم ہوا کہ گولی اس کی خواہش کے مطابق عین اس کے سینے پر لگی ہے۔ اس تصدیق کے بعد اس فوجی نے آخری سانس لیا اور شہید ہوگیا۔
نصرت جہاں کے مطابق جب خون کے عطیات کی اپیل کی گئی تو ایک شہر اُمڈ آیا اور سب کی خواہش تھی کہ فوجیوں کو اسی کا خون لگایا جائے۔ خون کی اشد ضرورت تھی کیونکہ گہرے زخم اہم رگوں کو مجروح کررہے تھے اور زخمیوں کی لگاتار آمد سے اسپتال کا پورا فرش لہو کی سرخ چادر میں چُھپ گیا تھا۔ ان کے مطابق زخموں سے چور ہوکر شہید ہونے والے اکثر فوجی آخری دم تک پرسکون رہے۔ وہ اللہ سے مدد مانگتے اور پاکستان کی سلامتی کے لیے دعا کرتے تھے۔
جنگی قیدی کا علاج
ایک پاکستانی میجر کو محاذ پر ایک بھارتی فوجی ملا جو شدید زخمی تھا اور اسے اپنے سپاہی بھی چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ وہ کئی روز سے ایک پل کے نیچے زخمی پڑا تھا کہ اسے ایک پاکستانی میجر نے اٹھایا، پانی پلایا اور وعدہ کیا کہ ابھی تو وہ ایک بڑے مشن پر جارہا ہے لیکن واپس آکر ضرور علاج کی غرض سے اسے کمبائنڈ ملٹری اسپتال ( سی ایم ایچ) لے جائے گا اور یہ وعدہ پورا ہوا۔ یہ زخمی بھارتی سپاہی لاہور لایا گیا اور کئی ماہ کے علاج کے بعد صحتیاب ہوا کیونکہ زخم علاج نہ ہونے کی وجہ سے ایک ناسور بن چکا تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
سپاہیوں نے شجاعت و جرات کی نئی داستانیں رقم کیں تو شاعروں نے لہوگرمادینے والا کلام لکھا، عام افراد کا حوصلہ ساتویں آسمان پر اس وقت دیکھا گیا جب 80 سال کا ایک عام بوڑھا گھر سے خندق کھودنے نکلا ۔ مائیں اور بہنیں مصلے پر بیٹھ کر دعا گو رہیں اور پوری قوم یک جان و یک قالب ہوگئی۔ اور اس عظیم جذبے کا اظہار کیا جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ آج کی نوجوان نسل بھی ایسے ہی چند اہم واقعات سے اپنے دلوں کو گرما سکتی ہے جو نہ صرف دفاعِ پاکستان بلکہ استحکامِ پاکستان کا وسیلہ بھی بنیں گے۔
1965 کا پہلا فائر اور پہلا شہید
مصنف ایم آر شاہد نے اپنی کتاب ''شہیدانِ وطن'' میں بہت تحقیق کے بعد پاکستانی شہداء کا احوال پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 6 ستمبر کی صبح ٹھیک 3 بج کر 45 منٹ پر ہندوستان کی جانب سے واہگہ پر ایک گولہ آکر گرا جسے بھارت کی جانب سے پہلا فائر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر ایس جے سی پی پوسٹ پر موجود پلاٹون کمانڈر محمد شیراز چوکنا ہوگئے اور پوسٹ پر بھارت کی جانب سے مزید فائرنگ شروع ہوگئی۔ محمد شیراز نے جوابی فائرنگ کی اور یوں دونوں اطراف سے فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا جو ستمبر کی تاریخی جنگ کی ابتدا تھی۔ لڑائی اتنی شدید ہوگئی کہ بھارتی فوجیوں نے قریب آکر دستی بم بھی پھینکنے شروع کردیے۔ اگرچہ یہ حملہ اچانک تھا لیکن پاکستانی سپاہیوں نے اس کا دلیرانہ مقابلہ کیا۔ جب پاکستانی دستی بموں کی ضرورت پڑتی تو سپاہی رینگ کر کمک کے پاس آتے اور رینگ کر آگے موجود سپاہیوں کو بم تھماتے تھے۔ اسی اثناء میں محمد شیراز دشمن کی گولیوں سے شہید ہوکر جنگِ ستمبر کے پہلے شہید کا اعزاز حاصل کرگئے۔
ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ
اگرچہ جنگِ عظیم دوم میں کئی ممالک کے لاتعداد ٹینک استعمال ہوئے تھے لیکن 1965 کی جنگ میں بہت کم دنوں میں لگ بھگ 600 ٹینکوں نے حصہ لیا تھا۔ جس میں بھارت کے سنچورین ٹینک بھی شامل تھے۔ عددی برتری کے لحاظ سے بھارت کے پاس بہت اسلحہ تھا اور ان ٹینکوں کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کے عظیم سپاہیوں نے مادرِ وطن کی حفاظت کے لیے اپنے سینوں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر انہیں تباہ کرکے ناکارہ بنادیا۔ بھارت میں چاونڈا کا مقام اب بھی ٹینکوں کے قبرستان کے نام سے مشہور ہے کیونکہ پاکستانی سپاہی نے بھارتی صفوں میں گھس کر ان کی سفلی تدابیر کو ناکام بنایا تھا۔ دوسری جانب میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نے اسی طرح کے معرکے میں شجاعت اور عظمت کی نئی داستان رقم کی تھی۔
نشانِ حیدر کا اعزاز پانے والے واحد شہید، میجر عزیز بھٹی
میجر عزیز بھٹی اپنے جانثاروں کے ساتھ بی آر بی نہر کے پاس ڈٹے تھے، جس پر بھارتی افواج قبضہ کرنا چاہتی تھی۔ 7 ستمبر کو بھارت نے پوری طاقت کے ساتھ اس پر حملہ کیا اور میجر عزیز بھٹی اور میجر شفقت بلوچ نے صرف 110 سپاہیوں کی مدد سے بھارت کی پوری بریگیڈ کو 10 گھنٹوں تک روک کر رکھا اور دن رات مورچے پر ڈٹے رہے۔ یہ اعصاب شکن معرکہ جب 12 ستمبر کو پانچویں روز میں داخل ہوا تو اس وقت تک میجر عزیز بھٹی بھارت کے چھ حملے روک چکے تھے۔ آگے جانے والے پاکستانی سپاہی اور ٹینک ایک مقام پر پھنس گئے تھے جنہیں واپس لانا ضروری تھا۔ اس پر انہوں نے اپنی فوج کو منظم کرکے کئی اطراف سے حملہ کیا اور پاکستانی فوجی گاڑیوں اور سپاہیوں کو واپس لانے میں کامیاب ہوگئے لیکن اندھا دھند گولہ باری اور فائرنگ کے دوران ایک شیل نے ان کے کندھے کو شدید زخمی کردیا اور وہ صرف 42 سال کی عمر میں جامِ شہادت نوش کرگئے۔
یونس حسن خان شہید
1965 کے ایک اور ہیرو یونس خان شہید کا نام سنہرے حرفوں سے زندہ رہے گا۔ انہوں نے پٹھان کوٹ بھارت کے فضائی اڈے پر حملہ کیا اور اپنی مہارت سے بھارتی فضائیہ کے 15 طیارے تباہ کردیے جن میں کینبرا اور دوسرے طیارے شامل تھے۔ بعض ذرائع کے مطابق وہ جب بھارتی حدود میں داخل ہوئے تو ان کے طیارے پر بھارتی طیاروں کی جانب سے فائرنگ ہوئی اور طیارے کو نقصان پہنچا لیکن کچھ حوالہ جات کہتے ہیں کہ انہوں نے بھارتی علاقے پٹھان کوٹ کے پاس فضائی اڈے پر موجود پاکستانی حملے کے لیے کھڑے طیاروں سے اپنا طیارہ ٹکرادیا جس میں بھارت کے 15 طیارے جل کر راکھ ہوگئے اوردشمن کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔
سینے پر گولی کھانے کا عزم
1965 کی ولولہ انگیز جنگ میں زخمی فوجیوں کے علاج پر معمور بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) نصرت جہاں سلیم نے آئی ایس پی آر کے شمارے میں لکھا ہے کہ جنگ کے دوسرے روز ایک لمبا تڑنگا فوجی اسٹریچر پر لایا گیا جو اپنی نحیف آواز میں بڑبڑا رہا تھا کہ اس نے ماں سے سینے پر گولی کھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن خود ڈاکٹر یہ جاننے سے قاصر تھے کہ اسے گولی کہاں لگی ہے۔ اس کی سانس اکھڑ رہی تھی اور بلڈ پریشر گرتا جارہا تھا۔ جب ٹانگ کا زخم کھولا گیا تو وہاں سے گولی کا ایک سوراخ جلد کو چیرتا ہوا پیٹ کی جانب جاتا معلوم ہوا۔ پھر یکایک معلوم ہوا کہ گولی اس کی خواہش کے مطابق عین اس کے سینے پر لگی ہے۔ اس تصدیق کے بعد اس فوجی نے آخری سانس لیا اور شہید ہوگیا۔
نصرت جہاں کے مطابق جب خون کے عطیات کی اپیل کی گئی تو ایک شہر اُمڈ آیا اور سب کی خواہش تھی کہ فوجیوں کو اسی کا خون لگایا جائے۔ خون کی اشد ضرورت تھی کیونکہ گہرے زخم اہم رگوں کو مجروح کررہے تھے اور زخمیوں کی لگاتار آمد سے اسپتال کا پورا فرش لہو کی سرخ چادر میں چُھپ گیا تھا۔ ان کے مطابق زخموں سے چور ہوکر شہید ہونے والے اکثر فوجی آخری دم تک پرسکون رہے۔ وہ اللہ سے مدد مانگتے اور پاکستان کی سلامتی کے لیے دعا کرتے تھے۔
جنگی قیدی کا علاج
ایک پاکستانی میجر کو محاذ پر ایک بھارتی فوجی ملا جو شدید زخمی تھا اور اسے اپنے سپاہی بھی چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ وہ کئی روز سے ایک پل کے نیچے زخمی پڑا تھا کہ اسے ایک پاکستانی میجر نے اٹھایا، پانی پلایا اور وعدہ کیا کہ ابھی تو وہ ایک بڑے مشن پر جارہا ہے لیکن واپس آکر ضرور علاج کی غرض سے اسے کمبائنڈ ملٹری اسپتال ( سی ایم ایچ) لے جائے گا اور یہ وعدہ پورا ہوا۔ یہ زخمی بھارتی سپاہی لاہور لایا گیا اور کئی ماہ کے علاج کے بعد صحتیاب ہوا کیونکہ زخم علاج نہ ہونے کی وجہ سے ایک ناسور بن چکا تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس