چھ ستمبر… پاکستان کی فتح و کامرانی کا دن
1965 کی جنگ کو رکواتے وقت بھی اس نے کشمیریوں کو حق خود اختیاری دینے کا وعدہ دہرایا تھا
بھارت اس وقت 1965 کی جنگ میں فتح کا جشن منا رہا ہے۔ یہ جشن 28 اگست کو دہلی کے انڈیا گیٹ پر صدر پرناب مکھرجی کے اس جنگ کے شہیدوں کی یادگار پر پھول چڑھانے سے شروع ہوچکا ہے۔
یہ 26 روز تک جاری رہ کر 22 ستمبر کو اختتام پذیر ہوگا۔ اتنا طویل جشن وہ بھی ایک ہاری ہوئی جنگ کا جس میں وہ اپنے ایک چھوٹے پڑوسی سے شکست فاش کھا کر کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ کیا اس جنگ میں بھارت کو فتح مند کہا جاسکتا ہے جس کے شروع ہوتے ہی دوسرے دن اس کے ایک اہم سرحدی شہر کھیم کرن پر پاکستانی افواج نے قبضہ کرلیا تھا۔17 دن تک جاری رہنے والی اس جنگ میں پاکستان نے بھارت کے 1617 مربع میل علاقے پر قبضہ کرلیا تھا۔
مجموعی طور پر اس کے 141 لڑاکا طیارے تباہ کردیے گئے تھے ایک پاکستانی پائلٹ ایم ایم عالم مرحوم نے صرف30 سیکنڈ کی فضائی جھڑپ میں دشمن کے پانچ لڑاکا طیارے مار گرا کر عالمی ریکارڈ قائم کردیا تھا۔ بھارت کے 510 ٹینک تباہ ہوگئے تھے۔
اس کا دوارکا جیسا اہم بحری اڈہ پاک بحریہ کے ایک جہاز کی توپوں سے کھنڈر میں تبدیل ہوگیا تھا۔ چونڈہ کے مقام پر دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ لڑی گئی تھی جس میں بھارت کے درجنوں ٹینک تباہ کردیے گئے تھے پے درپے شکست کی تاب نہ لاکر بالآخر بھارت کو جنگ رکوانے کے لیے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا تھا۔کشمیر کی پہلی جنگ 1948 میں بھی اسی طرح وہ پاکستانی جانبازوں کا مقابلہ نہ کرپا کر بالآخر اپنی عزت کو بچانے کے لیے اقوام متحدہ میں چیخ پکار کرکے جنگ بند کرانے میں کامیاب ہوگیا تھا مگر اس وقت اسے جنگ بندی کے بدلے میں کشمیریوں کو حق خود اختیاری دینے کی قراردادوں کو قبول کرنا پڑا تھا مگر افسوس کہ اب 68 برس گزرنے کے بعد بھی اس نے ان قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کیا ہے۔
1965 کی جنگ کو رکواتے وقت بھی اس نے کشمیریوں کو حق خود اختیاری دینے کا وعدہ دہرایا تھا مگر افسوس کہ اس کے حکمرانوں کی نیت ہی خراب ہے۔ وہ دراصل ہوس ملک گیری کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ کشمیر کی آزادی تو دور کی بات ہے وہ تو پاکستان پر ہی قبضہ کرنے کے درپے ہیں اور دراصل 6 ستمبر 1965 کو انھوں نے پاکستان پر قبضہ کرنے کے لیے ہی حملہ کیا تھا۔ ان کا پہلا ہدف لاہور تھا۔ دشمن کو اپنی فوجی طاقت پر حد درجہ غرور تھا چنانچہ اسے پورا یقین تھا کہ اسے لاہور پر قبضہ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
مغربی ذرائع ابلاغ جو ہمیشہ سے بھارت کے طرفدار رہے ہیں بھارت کی نام نہاد فتوحات کی خبریں نشر کر رہے تھے بی بی سی جو بھارت کا زرخرید غلام جیسا کردار ادا کرتا چلا آرہا ہے نے لاہور پر بھارت کے قبضے کی خبر بھی نشر کردی تھی مگر بعد میں بھارت کی طرح بی بی سی کو بھی ندامت کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔1965 کی جنگ پاکستان نے خود تن تنہا لڑی تھی جب کہ بھارت کو امریکا اور روس کی مدد حاصل تھی۔
عین جنگ کے دوران امریکا نے بھارت کی طرفداری کرتے ہوئے پاکستان کو ضروری اسلحہ اور فاضل پرزہ جات دینے سے انکار کردیا تھا۔ خوش قسمتی سے اب اس وقت پاکستان 1965 والا ملک نہیں ہے۔ آج پاکستان ہر قسم کا جدید اسلحہ خود تیار کر رہا ہے حتیٰ کہ عالمی معیار کے ٹینک اور لڑاکا طیارے تیار کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان میزائل سازی کی ٹیکنالوجی میں اپنا لوہا منوا چکا ہے۔ پھر پاکستان ایک اہم ایٹمی قوت بھی ہے۔
ایٹمی قوت بھی ایسی کہ جس پر پوری دنیا کو رشک ہے۔ ہمارا دشمن تو ہم سے کئی گنا زیادہ وسائل کا حامل ہے مگر ہم جیسا نہ ایٹمی پروگرام رکھتا ہے اور نہ میزائل سازی میں ہمارا ہم پلہ ہے۔ بھارت کے ایک نامور ایٹمی سائنسدان مسٹر سنتھیانام بھارت کے ایٹمی پروگرام میں شامل رہ چکے ہیں۔ وہ پوکھران میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے وقت بھی وہاں موجود تھے۔
انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت کے دھماکے قطعی ناکام تھے مگر بھارت نے صرف اپنی عزت کو بچانے کے لیے انھیں کامیاب قرار دیا تھا۔ بھارتی سائنسدان کی اس حق گوئی کے بعد بھارت کے ایٹمی پروگرام کی پول کھل گئی ہے۔ اس کے باوجود بھارت کو اپنے ایٹمی پروگرام پر بہت ناز ہے۔ اس نے دراصل اپنے پڑوسیوں کو مرعوب کرنے کے لیے اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا تھا وہ اپنے ایٹمی پروگرام کے ذریعے خاص طور پر پاکستان کو اپنے رعب میں لینا چاہتا تھا تاکہ مسئلہ کشمیر کو سبوتاژ کیا جاسکے مگر یہ اس کی ایک بڑی بھول تھی۔
نہ تو کشمیری عوام اس کے ایٹم بم سے مرعوب ہوئے تھے اور نہ ہی پاکستانی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اکثر بھارتی پاکستانی ایٹم بم سے مرعوب ہی نہیں بلکہ خوفزدہ ہیں۔ حال ہی میں بھارت کے بزرگ نامور صحافی کلدیپ نیئر اپنے ایک حالیہ مضمون میں برملا انکشاف کرچکے ہیں کہ بھارتی عوام پاک بھارت جنگ کے ہونے کی صورت میں پاکستانی ایٹم بم سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔
بدقسمتی سے اس وقت بھارت جنگ کی جانب حالات کا رخ موڑنے پر تلا ہوا ہے۔ جب سے نریندر مودی کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے اس نے خطے میں جنگ جیسے حالات پیدا کردیے ہیں۔ لائن آف کنٹرول اور انٹرنیشنل باؤنڈری پر بلااشتعال فائرنگ بھارتی فوج کا روز کا معمول بن گیا ہے۔ کئی پاکستانی سرحدی گاؤں تباہ کردیے گئے ہیں۔ درجنوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔
بھارت کو دراصل شروع سے ہی سپرپاور بننے کا خبط سوار ہے وہ اس سلسلے میں اپنے قومی وسائل کو اپنے غریب عوام کی حالت زار کو سدھارنے کے بجائے فوجی طاقت کو بڑھانے میں صرف کر رہا ہے وہ اس وقت پوری دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ وہ اپنے جنگی جنون کی تسکین کے لیے اپنے قومی بجٹ کا 50 فی صد حصہ جھونک رہا ہے۔
جدید اسلحہ درآمد کرنے کے علاوہ اس کے اپنے اسلحہ ساز کارخانے دن رات کام کر رہے ہیں آخر یہ تمام تیاریاں کس کے لیے ہیں؟ لگتا ہے بھارتی حکمرانوں نے ہوس ملک گیری کے اپنے پرانے منصوبے کو ابھی بھی ترک نہیں کیا ہے وہ اس منصوبے کے تحت افغانستان سے لے کر چین تک تمام علاقے پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر اسے ان کا پاگل پن ہی کہا جائے گا۔کیونکہ ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ چین پہلے سے ہی اپنے علاقے واپس لینے کے لیے اس پر دباؤ ڈال رہا ہے۔
واضح ہو کہ اس مسئلے پر بھارت اور چین کے مابین 1962 میں خونریز جنگ ہوچکی ہے جس میں بھارت کو ہزیمت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ بھارتی حکمراں اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کہ ان کی جنگ و جدل کی پالیسیوں سے بھارتی عوام کی مشکلات میں کس قدر اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں غربت کا گراف بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق اس وقت بھارت میں 60 فی صد سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ بھارتی حکمرانوں کو اپنے جنگی جنون اور ہوس ملک گیری کے مذموم منصوبوں کو اپنے عوام کی بہتری کی خاطر ترک کرنا ہوگا۔ انھیں چاہیے کہ وہ 1965 میں پاکستان کے ہاتھوں شکست کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھیں کہ اس جنگ میں ان کی ٹڈی دل فوج اور بھاری فوجی ساز و سامان ان کے کسی کام نہیں آسکا تھا۔ 1965 کے بعد کارگل کی جنگ میں بھی پاکستانی فوج نے اس کے چھکے چھڑا دیے تھے۔
اس محدود جنگ میں بھارت کے اتنی تعداد میں فوجی مارے گئے تھے کہ ان کی ڈیڈ باڈی رکھنے کے لیے بھارت میں تابوت کم پڑگئے تھے جنھیں دوسرے ممالک سے درآمد کرنا پڑا تھا۔جنگوں سے بچنے کے لیے مذاکرات ہی بہترین ذریعہ ہوتے ہیں۔ بھارت کا مذاکرات اور کشمیریوں کے حق خود اختیاری سے راہ فرار اختیار کرنے سے جنوبی ایشیا میں مزید حالات خراب ہوں گے اور نوبت جنگ تک پہنچ سکتی ہے تاہم جنگ سے اجتناب اس لیے بھی ضروری ہے کہ اب ایٹمی جنگ کا شدید خطرہ ہے لیکن اگر ایٹمی جنگ تک نوبت پہنچتی ہے تو یہ دونوں ہی ممالک کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی تاہم نیویارک ٹائمز کے مطابق اس جنگ سے بھارت کو پاکستان سے کہیں زیادہ نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے چنانچہ اب اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ دوسرا 6 ستمبر برپا نہ ہونے پائے۔
یہ 26 روز تک جاری رہ کر 22 ستمبر کو اختتام پذیر ہوگا۔ اتنا طویل جشن وہ بھی ایک ہاری ہوئی جنگ کا جس میں وہ اپنے ایک چھوٹے پڑوسی سے شکست فاش کھا کر کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ کیا اس جنگ میں بھارت کو فتح مند کہا جاسکتا ہے جس کے شروع ہوتے ہی دوسرے دن اس کے ایک اہم سرحدی شہر کھیم کرن پر پاکستانی افواج نے قبضہ کرلیا تھا۔17 دن تک جاری رہنے والی اس جنگ میں پاکستان نے بھارت کے 1617 مربع میل علاقے پر قبضہ کرلیا تھا۔
مجموعی طور پر اس کے 141 لڑاکا طیارے تباہ کردیے گئے تھے ایک پاکستانی پائلٹ ایم ایم عالم مرحوم نے صرف30 سیکنڈ کی فضائی جھڑپ میں دشمن کے پانچ لڑاکا طیارے مار گرا کر عالمی ریکارڈ قائم کردیا تھا۔ بھارت کے 510 ٹینک تباہ ہوگئے تھے۔
اس کا دوارکا جیسا اہم بحری اڈہ پاک بحریہ کے ایک جہاز کی توپوں سے کھنڈر میں تبدیل ہوگیا تھا۔ چونڈہ کے مقام پر دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ لڑی گئی تھی جس میں بھارت کے درجنوں ٹینک تباہ کردیے گئے تھے پے درپے شکست کی تاب نہ لاکر بالآخر بھارت کو جنگ رکوانے کے لیے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا تھا۔کشمیر کی پہلی جنگ 1948 میں بھی اسی طرح وہ پاکستانی جانبازوں کا مقابلہ نہ کرپا کر بالآخر اپنی عزت کو بچانے کے لیے اقوام متحدہ میں چیخ پکار کرکے جنگ بند کرانے میں کامیاب ہوگیا تھا مگر اس وقت اسے جنگ بندی کے بدلے میں کشمیریوں کو حق خود اختیاری دینے کی قراردادوں کو قبول کرنا پڑا تھا مگر افسوس کہ اب 68 برس گزرنے کے بعد بھی اس نے ان قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کیا ہے۔
1965 کی جنگ کو رکواتے وقت بھی اس نے کشمیریوں کو حق خود اختیاری دینے کا وعدہ دہرایا تھا مگر افسوس کہ اس کے حکمرانوں کی نیت ہی خراب ہے۔ وہ دراصل ہوس ملک گیری کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ کشمیر کی آزادی تو دور کی بات ہے وہ تو پاکستان پر ہی قبضہ کرنے کے درپے ہیں اور دراصل 6 ستمبر 1965 کو انھوں نے پاکستان پر قبضہ کرنے کے لیے ہی حملہ کیا تھا۔ ان کا پہلا ہدف لاہور تھا۔ دشمن کو اپنی فوجی طاقت پر حد درجہ غرور تھا چنانچہ اسے پورا یقین تھا کہ اسے لاہور پر قبضہ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
مغربی ذرائع ابلاغ جو ہمیشہ سے بھارت کے طرفدار رہے ہیں بھارت کی نام نہاد فتوحات کی خبریں نشر کر رہے تھے بی بی سی جو بھارت کا زرخرید غلام جیسا کردار ادا کرتا چلا آرہا ہے نے لاہور پر بھارت کے قبضے کی خبر بھی نشر کردی تھی مگر بعد میں بھارت کی طرح بی بی سی کو بھی ندامت کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔1965 کی جنگ پاکستان نے خود تن تنہا لڑی تھی جب کہ بھارت کو امریکا اور روس کی مدد حاصل تھی۔
عین جنگ کے دوران امریکا نے بھارت کی طرفداری کرتے ہوئے پاکستان کو ضروری اسلحہ اور فاضل پرزہ جات دینے سے انکار کردیا تھا۔ خوش قسمتی سے اب اس وقت پاکستان 1965 والا ملک نہیں ہے۔ آج پاکستان ہر قسم کا جدید اسلحہ خود تیار کر رہا ہے حتیٰ کہ عالمی معیار کے ٹینک اور لڑاکا طیارے تیار کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان میزائل سازی کی ٹیکنالوجی میں اپنا لوہا منوا چکا ہے۔ پھر پاکستان ایک اہم ایٹمی قوت بھی ہے۔
ایٹمی قوت بھی ایسی کہ جس پر پوری دنیا کو رشک ہے۔ ہمارا دشمن تو ہم سے کئی گنا زیادہ وسائل کا حامل ہے مگر ہم جیسا نہ ایٹمی پروگرام رکھتا ہے اور نہ میزائل سازی میں ہمارا ہم پلہ ہے۔ بھارت کے ایک نامور ایٹمی سائنسدان مسٹر سنتھیانام بھارت کے ایٹمی پروگرام میں شامل رہ چکے ہیں۔ وہ پوکھران میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے وقت بھی وہاں موجود تھے۔
انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت کے دھماکے قطعی ناکام تھے مگر بھارت نے صرف اپنی عزت کو بچانے کے لیے انھیں کامیاب قرار دیا تھا۔ بھارتی سائنسدان کی اس حق گوئی کے بعد بھارت کے ایٹمی پروگرام کی پول کھل گئی ہے۔ اس کے باوجود بھارت کو اپنے ایٹمی پروگرام پر بہت ناز ہے۔ اس نے دراصل اپنے پڑوسیوں کو مرعوب کرنے کے لیے اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا تھا وہ اپنے ایٹمی پروگرام کے ذریعے خاص طور پر پاکستان کو اپنے رعب میں لینا چاہتا تھا تاکہ مسئلہ کشمیر کو سبوتاژ کیا جاسکے مگر یہ اس کی ایک بڑی بھول تھی۔
نہ تو کشمیری عوام اس کے ایٹم بم سے مرعوب ہوئے تھے اور نہ ہی پاکستانی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اکثر بھارتی پاکستانی ایٹم بم سے مرعوب ہی نہیں بلکہ خوفزدہ ہیں۔ حال ہی میں بھارت کے بزرگ نامور صحافی کلدیپ نیئر اپنے ایک حالیہ مضمون میں برملا انکشاف کرچکے ہیں کہ بھارتی عوام پاک بھارت جنگ کے ہونے کی صورت میں پاکستانی ایٹم بم سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔
بدقسمتی سے اس وقت بھارت جنگ کی جانب حالات کا رخ موڑنے پر تلا ہوا ہے۔ جب سے نریندر مودی کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے اس نے خطے میں جنگ جیسے حالات پیدا کردیے ہیں۔ لائن آف کنٹرول اور انٹرنیشنل باؤنڈری پر بلااشتعال فائرنگ بھارتی فوج کا روز کا معمول بن گیا ہے۔ کئی پاکستانی سرحدی گاؤں تباہ کردیے گئے ہیں۔ درجنوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔
بھارت کو دراصل شروع سے ہی سپرپاور بننے کا خبط سوار ہے وہ اس سلسلے میں اپنے قومی وسائل کو اپنے غریب عوام کی حالت زار کو سدھارنے کے بجائے فوجی طاقت کو بڑھانے میں صرف کر رہا ہے وہ اس وقت پوری دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ وہ اپنے جنگی جنون کی تسکین کے لیے اپنے قومی بجٹ کا 50 فی صد حصہ جھونک رہا ہے۔
جدید اسلحہ درآمد کرنے کے علاوہ اس کے اپنے اسلحہ ساز کارخانے دن رات کام کر رہے ہیں آخر یہ تمام تیاریاں کس کے لیے ہیں؟ لگتا ہے بھارتی حکمرانوں نے ہوس ملک گیری کے اپنے پرانے منصوبے کو ابھی بھی ترک نہیں کیا ہے وہ اس منصوبے کے تحت افغانستان سے لے کر چین تک تمام علاقے پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر اسے ان کا پاگل پن ہی کہا جائے گا۔کیونکہ ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ چین پہلے سے ہی اپنے علاقے واپس لینے کے لیے اس پر دباؤ ڈال رہا ہے۔
واضح ہو کہ اس مسئلے پر بھارت اور چین کے مابین 1962 میں خونریز جنگ ہوچکی ہے جس میں بھارت کو ہزیمت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ بھارتی حکمراں اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کہ ان کی جنگ و جدل کی پالیسیوں سے بھارتی عوام کی مشکلات میں کس قدر اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں غربت کا گراف بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق اس وقت بھارت میں 60 فی صد سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ بھارتی حکمرانوں کو اپنے جنگی جنون اور ہوس ملک گیری کے مذموم منصوبوں کو اپنے عوام کی بہتری کی خاطر ترک کرنا ہوگا۔ انھیں چاہیے کہ وہ 1965 میں پاکستان کے ہاتھوں شکست کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھیں کہ اس جنگ میں ان کی ٹڈی دل فوج اور بھاری فوجی ساز و سامان ان کے کسی کام نہیں آسکا تھا۔ 1965 کے بعد کارگل کی جنگ میں بھی پاکستانی فوج نے اس کے چھکے چھڑا دیے تھے۔
اس محدود جنگ میں بھارت کے اتنی تعداد میں فوجی مارے گئے تھے کہ ان کی ڈیڈ باڈی رکھنے کے لیے بھارت میں تابوت کم پڑگئے تھے جنھیں دوسرے ممالک سے درآمد کرنا پڑا تھا۔جنگوں سے بچنے کے لیے مذاکرات ہی بہترین ذریعہ ہوتے ہیں۔ بھارت کا مذاکرات اور کشمیریوں کے حق خود اختیاری سے راہ فرار اختیار کرنے سے جنوبی ایشیا میں مزید حالات خراب ہوں گے اور نوبت جنگ تک پہنچ سکتی ہے تاہم جنگ سے اجتناب اس لیے بھی ضروری ہے کہ اب ایٹمی جنگ کا شدید خطرہ ہے لیکن اگر ایٹمی جنگ تک نوبت پہنچتی ہے تو یہ دونوں ہی ممالک کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی تاہم نیویارک ٹائمز کے مطابق اس جنگ سے بھارت کو پاکستان سے کہیں زیادہ نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے چنانچہ اب اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ دوسرا 6 ستمبر برپا نہ ہونے پائے۔