وہ زندہ ہے تو میں بیوہ کیوں
خاموشی کا راج ہے اور اس خاموشی کو توڑتی ہوئی حشرات الارض کی آوازیں
میرے بھائی میں اس وقت گھور اندھیرے میں بیٹھا ہوا ہوں ، خاموشی کا راج ہے اور اس خاموشی کو توڑتی ہوئی حشرات الارض کی آوازیں، ان میں سے کئی اتنے موذی ہوتے ہیںکہ ڈنگ مار دیں تو کئی دن تک تکلیف رہتی ہے، میں نے تھوڑی دیر قبل ہی دال کے ساتھ روٹی کھائی ہے۔
اس دال کا نام بھی معلوم نہیں ہو سکا مگر یہ جان گیا کہ دال کو پانی سے اختلاف تھا تو اس نے اس کے ساتھ یک جان ہونے سے انکار کر دیا، اسی لیے دال علیحدہ اور پانی علیحدہ تھا۔ کھانے کے ساتھ پینے کو گدلا سا پانی تھا جو کہ دن کو ہمارے میس کے لوگ کسی قریبی جگہ سے ڈھو کر لاتے ہیں، اس پانی میں ہلکی سی بو بھی ہے مگر اللہ کا شکر ادا کر کے پی لیتے ہیں کہ یہی میسر ہے۔میں رات کی ڈیوٹی پر ہوں اور تمہارے بارے میں سوچ رہا ہوں، تم نے اماں کے ہاتھ کا بنا ہوا لذیذ کھانا کھایا ہو گا اور اب اپنے کمرے میں اے سی کی خنکی کے ساتھ ہلکا سا کمبل اوڑھے سو رہے ہو گے۔
تمہارے کمرے میں نائٹ بلب بھی آن ہو گا، اماں کہتی ہیں کہ کمرے میں اتنی روشنی رکھا کرو کہ آنکھ کھلے توسب کچھ واضح نظر آئے، تمہارے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر ایک جگ میں فلٹر شدہ پانی شیشے کے جگ میں رکھا ہو گا اور اسے ملازم نے جالی دار کپڑے سے ڈھکا ہو گا کہ اس میں کوئی کیڑا مکوڑا نہ گر جائے، تمہارے کمرے میں مچھر بھگانے کے لیے دو طرح کے مچھر مار لگے ہوئے ہوں گے، تم اس وقت سہانے خواب دیکھ رہے ہو گے۔
میں نے گن کو دوسرے ہاتھ میں منتقل کیا ہے اور اب اس ہاتھ میں کتاب پکڑ لی ہے، کوشش کروں گا کہ اسے ٹارچ کی روشنی میں پڑھ سکوں ۔ تھوڑی دیر پہلے ہی راؤنڈ کر کے آیا ہوں، ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے، میں نے زمین پر پیر مار کر تھوڑی سی جھاڑیاں دائیںبائیں کر کے اپنے بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی ہے، ایک بڑا پتھر اتفاق سے مل گیا ہے جو میرے لیے ٹیک کا کام بھی دے گا اور آڑ کا بھی۔
میری پیاری بہنا! تمہارے امتحان شروع ہونیوالے ہیں، تم اپنے کمرے میں ایک غیر آرام دہ کرسی پر اپنے اسٹڈی ٹیبل کے سامنے کتابیں کھولے ہوئے بیٹھے ہو گی، یہ غیر آرام دہ کرسی بھی تمہارا اپنا اچھوتا آئیڈیا ہے کہ ایسی کرسی پر بیٹھ کر پڑھنے سے نیند نہیں آتی، میز پر تمہارا لیپ ٹاپ پڑا ہو گا، ہر تھوڑی دیر کے بعد تم اپنی کتابوں سے سر اٹھا کر کچھ نہ کچھ گوگل کرتی ہو گی۔
ساتھ ساتھ فون پر سہیلیوں سے مسلسل whatsapp کی گروپ چیٹ میں نوٹس کا تبادلہ ہو رہا ہو گا، جو نیا نکتہ تم خود جان جاتی ہو وہ سب سہیلیوں سے شئیر کرتی ہو گی، ساتھ ساتھ لڑکیوںکی کوئی نہ کوئی فالتو گپ شپ بھی چل رہی ہو گی۔ میں نے ٹارچ جلا کر دائیں بائیں دیکھا ہے، ٹارچ کی روشنی کا رخ بہت احتیاط سے سیٹ کرنا پڑتا ہے کہ کہیں دشمن کو اس کی روشنی نظر نہ آ جائے۔ دشمن جو راتوں کو گھات لگا کر ہماری پیٹھ پر وار کرنے آتا ہے جب کہ ہم مادر وطن کی حفاظت کا عزم لیے سر بہ کفن سینے پر گولیاں کھانے کو تیار بیٹھے ہیں ، اس دشمن کو ہماری لاشوں سے گزر کر ہی آگے بڑھنا ہوتا ہے ورنہ جیتے جی تو ہم اس دھرتی کا ایک انچ بھی کسی کو نہ دیں چاہے کوئی ہمیں اس کا کوئی بھی مول دے۔
اسی گھر کے ایک کمرے میں میری جنت ہے، اس کمرے میں ہلکی سی روشنی کی ایک طویل درز ہوتی ہے، یہ درز غسل خانے کے کھلے دروازے سے باہر آتی ہے، ابا کی نیند خراب نہ ہو، اس لیے اماں کمرے کی بتی گل کر کے، اباکے سوتے ہی بستر چھوڑ دیتی ہیں، ان کی رات مصلے پر گزرتی ہے، ان کا لال، ان کے وجود کا حصہ، سخت پتھریلی زمین پر ہوتا ہے تو ان کے نرم بستر میں یہ سوچ کر کانٹے اگ آتے ہیں۔
انھیں ان نرم بستروں پر سکون نہیں آتا، ان کا سکون اسی میں ہے کہ وہ مصلے پر بیٹھ کر نفل پڑھ پڑھ کر تصور میں مجھے لا کر زیر لب کچھ بڑبڑاتی ہیں اور مجھ پر پھونکتی ہیں ، ان کی یہ بڑبڑاہٹ، میں ان سے کوسوں دور ہو کر بھی سنتا ہوں ، وہ میرا نام لے کر پکارتی ہیں تو ہوائیں ان کا پیار مجھ تک پہنچاتی ہیں، وہ میری حفاظت کے لیے کچھ پڑھ کر میرا تصور کر کے پھونکتی ہیں تو اس پھونک کا لمس مجھے اپنے وجود پرمحسوس ہوتا ہے۔ وہ میری یاد میں آنسو بہاتی ہیں تو وہ آنسو میرے بالوں پر بارش کے قطروںکی طرح محسوس ہوتے ہیں مجھے، ماں کے وجود سے جدا ہو کر بھی ہم ماں کے وجود سے کیسے جڑے رہتے ہیں عمر بھر!!
اماں سمجھتی ہیں کہ ابا سو جاتے ہیں، ان کا بڑھاپا اور بیماری ان پر کچی سی نیند تو طاری کر دیتا ہے مگر ان کے لبوں سے بھی میرے لیے دعائیں نکل رہی ہوتی ہیں ،ان کا سینہ فخر سے تن جاتا ہے جب وہ میرے بارے میں سوچتے ہیں کہ ان کا بیٹا اپنے وطن کی حفاظت کے لیے چنا گیا، وہ میری زندگی کے لیے دعا کرتے ہیں تو ان کے دل کی دھڑکن تھم سی جاتی ہے، ان کے وجود میں خدشے لہو کے ساتھ بہتے ہیں ۔دن کو ہم نے اپنے تین ساتھیوں کی میتیں اپنے ہاتھوں سے سجا کر، ان کا جنازہ پڑھ کر ، انھیں بھجوایا ہے۔
آج ان تین گھروں میں شام غریباں ہے، ہمارے لیے یہ سب معمول بن چکا ہے۔ ہم موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینے اور مرنیوالے لوگ ہیں، ہمارے ارد گرد موت رقص کرتی ہے اور ہم منتظر ہوتے ہیں کہ رقص کے اگلے دور میں وہ کس کس کا ہاتھ تھامے گی۔ آلات موسیقی کی بجائے گنیں اور توپیں ہوں ، موسیقی گولیوں کی آواز کی ہو، ہم رقص موت ہو، تصور میں یہ ہو کہ جنت میں ہمارے استقبال کی تیاریاں، تو کون انکار کرے ؟؟
میرے دوستو! تم میں سے میری طرح کوئی بیس کا ہوا ہو گا کوئی اکیس کا، کوئی کالج میں ہے تو کوئی یونیورسٹی میں، تم لوگوں کے بھی خواب ہیں، مستقبل کے سہانے خواب۔ تم لوگ زندگی کے ایک ایک لمحے سے لطف اندوز ہو رہے ہو ، دن میں موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر ریس لگاتے ہو یا ایک پہئے پر چلانے کے کرتب کرتے ہو، شاموں میں کافی ہاؤس میں جا کر بیٹھ کر دیر تک گپیں لگاتے ہو، لڑکیوں اور گاڑیوں کے ماڈلوں کے بارے میں ایک دوسرے سے تبادلہء خیال کرتے ہو، بیرون ملک کی یونیورسٹیوں کے خواب دیکھتے ہو، باہر جانے کے لیے کئی طرح کے ٹیسٹ پاس کرنا ہوتے ہیں ۔
ان کی تیاری کرتے ہو، رات دیر تک باہر گھومتے ہو، اپنے والد کی گاڑی میں بلند آواز میں میوزک لگا کر شیشے کھول کر موج مستی کرتے ہو۔ خریداری نہ بھی کرنی ہو تو بازاروں میں رونقیں دیکھنے کے لیے چلے جاتے ہو، لوگوں پر تبصرے کرتے ہو، ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مار کربلند و بانگ قہقہے لگاتے ہو، دوستوں کی شادیوں میں پیلے، لال اور ہرے دوپٹے گلے میں ڈال کر، ڈھول کی تھاپ پر جوش سے بھنگڑے ڈالتے ہو، زندگی کے ایک ایک لمحے سے خوشی کا رس کشید کرتے ہو۔ ہم تمہاری حفاظت کرنیوالے مگر تمہیں کبھی ہمارا بھولے سے بھی خیال نہیں آتا ہو گا، آتا بھی ہو گا تو کیا، '' فوجاں نیں تے موجاں نیں!! یار بڑی موجیں ہیں یار اس کی تو، اتنی تنخواہ، اتنی مراعات، مفت میں علاج معالجہ''
آپ لوگوں کو ان قربانیوں کی کیا قدر؟ آپ تو گاڑی چلاتے ہوئے سڑکوں کے نام پڑھتے ہیں جو آئے دن تبدیل ہوتے ہیں... فلاں فلاں شہید... تو کبھی یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ کون شہید ہیں، کون پراسرار لوگ ہیں ؟ سال میں ایک دفعہ ٹیلی وژن پر یوم دفاع کے حوالے سے پروگرام دیکھتے ہیں، وہ بھی وہی لوگ جن کا کوئی نہ کوئی فوج میں ہے، اس تقریب کو وہ دھندلی آنکھوں کے ساتھ دیکھتے ہیں، بار بار اپنے پیاروں کو یاد کر کے آنسو بہاتے ہیں، پھول سے وہ چہرے جو زمین کی تہوں میں سو رہے ہیں ، ابھی تو ان کی مسیں بھیگی تھیں ، ابھی تو ان کے چہرے پر ہلکا نیلا رواں آیا تھا اور ابھی وہ ماؤں کی گود خالی بھی کر گئے۔
وطن سے محبت کی داستان رقم ہوتی ہے تو باقی سب رشتوں سے محبت کہیں پس منظر میں چلی جاتی ہے... ماں ، باپ، بھائی، بہن، بیوی، بیٹا ، بیٹی اور دوست احباب۔ یوم دفاع کی تقریب میں ہمارے پیاروں کو بلایا جاتا ہے، انھیں ہماری یاد دلائی جاتی ہے جو کہ وہ بھولے ہی نہیں ، ان کے شہید ہو جانے والے پیاروں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، انھیں اسٹیج پر بلا کر ان کے پیاروں کی بابت سوالات کیے جاتے ہیں، انھیں ان کی شہادت کی سعادت حاصل کرنے کی مبارک باد دی جاتی ہے، انھیں باور کروایا جاتا ہے کہ ان کا بیٹا، ان کا بھائی ، ان کا شوہر مرا نہیں، زندہ ہے، کیونکہ وہ شہید ہوا ہے اور شہید مرتے نہیں۔ ہماری بیویاں بھیگی نظروں سے سوال کرتی ہیں، ''اگر وہ مرا نہیں ، زندہ ہے تو میں بیوہ کیوں ؟ ''پاکستان زندہ باد، پاک فوج پائندہ باد!!
اس دال کا نام بھی معلوم نہیں ہو سکا مگر یہ جان گیا کہ دال کو پانی سے اختلاف تھا تو اس نے اس کے ساتھ یک جان ہونے سے انکار کر دیا، اسی لیے دال علیحدہ اور پانی علیحدہ تھا۔ کھانے کے ساتھ پینے کو گدلا سا پانی تھا جو کہ دن کو ہمارے میس کے لوگ کسی قریبی جگہ سے ڈھو کر لاتے ہیں، اس پانی میں ہلکی سی بو بھی ہے مگر اللہ کا شکر ادا کر کے پی لیتے ہیں کہ یہی میسر ہے۔میں رات کی ڈیوٹی پر ہوں اور تمہارے بارے میں سوچ رہا ہوں، تم نے اماں کے ہاتھ کا بنا ہوا لذیذ کھانا کھایا ہو گا اور اب اپنے کمرے میں اے سی کی خنکی کے ساتھ ہلکا سا کمبل اوڑھے سو رہے ہو گے۔
تمہارے کمرے میں نائٹ بلب بھی آن ہو گا، اماں کہتی ہیں کہ کمرے میں اتنی روشنی رکھا کرو کہ آنکھ کھلے توسب کچھ واضح نظر آئے، تمہارے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر ایک جگ میں فلٹر شدہ پانی شیشے کے جگ میں رکھا ہو گا اور اسے ملازم نے جالی دار کپڑے سے ڈھکا ہو گا کہ اس میں کوئی کیڑا مکوڑا نہ گر جائے، تمہارے کمرے میں مچھر بھگانے کے لیے دو طرح کے مچھر مار لگے ہوئے ہوں گے، تم اس وقت سہانے خواب دیکھ رہے ہو گے۔
میں نے گن کو دوسرے ہاتھ میں منتقل کیا ہے اور اب اس ہاتھ میں کتاب پکڑ لی ہے، کوشش کروں گا کہ اسے ٹارچ کی روشنی میں پڑھ سکوں ۔ تھوڑی دیر پہلے ہی راؤنڈ کر کے آیا ہوں، ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے، میں نے زمین پر پیر مار کر تھوڑی سی جھاڑیاں دائیںبائیں کر کے اپنے بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی ہے، ایک بڑا پتھر اتفاق سے مل گیا ہے جو میرے لیے ٹیک کا کام بھی دے گا اور آڑ کا بھی۔
میری پیاری بہنا! تمہارے امتحان شروع ہونیوالے ہیں، تم اپنے کمرے میں ایک غیر آرام دہ کرسی پر اپنے اسٹڈی ٹیبل کے سامنے کتابیں کھولے ہوئے بیٹھے ہو گی، یہ غیر آرام دہ کرسی بھی تمہارا اپنا اچھوتا آئیڈیا ہے کہ ایسی کرسی پر بیٹھ کر پڑھنے سے نیند نہیں آتی، میز پر تمہارا لیپ ٹاپ پڑا ہو گا، ہر تھوڑی دیر کے بعد تم اپنی کتابوں سے سر اٹھا کر کچھ نہ کچھ گوگل کرتی ہو گی۔
ساتھ ساتھ فون پر سہیلیوں سے مسلسل whatsapp کی گروپ چیٹ میں نوٹس کا تبادلہ ہو رہا ہو گا، جو نیا نکتہ تم خود جان جاتی ہو وہ سب سہیلیوں سے شئیر کرتی ہو گی، ساتھ ساتھ لڑکیوںکی کوئی نہ کوئی فالتو گپ شپ بھی چل رہی ہو گی۔ میں نے ٹارچ جلا کر دائیں بائیں دیکھا ہے، ٹارچ کی روشنی کا رخ بہت احتیاط سے سیٹ کرنا پڑتا ہے کہ کہیں دشمن کو اس کی روشنی نظر نہ آ جائے۔ دشمن جو راتوں کو گھات لگا کر ہماری پیٹھ پر وار کرنے آتا ہے جب کہ ہم مادر وطن کی حفاظت کا عزم لیے سر بہ کفن سینے پر گولیاں کھانے کو تیار بیٹھے ہیں ، اس دشمن کو ہماری لاشوں سے گزر کر ہی آگے بڑھنا ہوتا ہے ورنہ جیتے جی تو ہم اس دھرتی کا ایک انچ بھی کسی کو نہ دیں چاہے کوئی ہمیں اس کا کوئی بھی مول دے۔
اسی گھر کے ایک کمرے میں میری جنت ہے، اس کمرے میں ہلکی سی روشنی کی ایک طویل درز ہوتی ہے، یہ درز غسل خانے کے کھلے دروازے سے باہر آتی ہے، ابا کی نیند خراب نہ ہو، اس لیے اماں کمرے کی بتی گل کر کے، اباکے سوتے ہی بستر چھوڑ دیتی ہیں، ان کی رات مصلے پر گزرتی ہے، ان کا لال، ان کے وجود کا حصہ، سخت پتھریلی زمین پر ہوتا ہے تو ان کے نرم بستر میں یہ سوچ کر کانٹے اگ آتے ہیں۔
انھیں ان نرم بستروں پر سکون نہیں آتا، ان کا سکون اسی میں ہے کہ وہ مصلے پر بیٹھ کر نفل پڑھ پڑھ کر تصور میں مجھے لا کر زیر لب کچھ بڑبڑاتی ہیں اور مجھ پر پھونکتی ہیں ، ان کی یہ بڑبڑاہٹ، میں ان سے کوسوں دور ہو کر بھی سنتا ہوں ، وہ میرا نام لے کر پکارتی ہیں تو ہوائیں ان کا پیار مجھ تک پہنچاتی ہیں، وہ میری حفاظت کے لیے کچھ پڑھ کر میرا تصور کر کے پھونکتی ہیں تو اس پھونک کا لمس مجھے اپنے وجود پرمحسوس ہوتا ہے۔ وہ میری یاد میں آنسو بہاتی ہیں تو وہ آنسو میرے بالوں پر بارش کے قطروںکی طرح محسوس ہوتے ہیں مجھے، ماں کے وجود سے جدا ہو کر بھی ہم ماں کے وجود سے کیسے جڑے رہتے ہیں عمر بھر!!
اماں سمجھتی ہیں کہ ابا سو جاتے ہیں، ان کا بڑھاپا اور بیماری ان پر کچی سی نیند تو طاری کر دیتا ہے مگر ان کے لبوں سے بھی میرے لیے دعائیں نکل رہی ہوتی ہیں ،ان کا سینہ فخر سے تن جاتا ہے جب وہ میرے بارے میں سوچتے ہیں کہ ان کا بیٹا اپنے وطن کی حفاظت کے لیے چنا گیا، وہ میری زندگی کے لیے دعا کرتے ہیں تو ان کے دل کی دھڑکن تھم سی جاتی ہے، ان کے وجود میں خدشے لہو کے ساتھ بہتے ہیں ۔دن کو ہم نے اپنے تین ساتھیوں کی میتیں اپنے ہاتھوں سے سجا کر، ان کا جنازہ پڑھ کر ، انھیں بھجوایا ہے۔
آج ان تین گھروں میں شام غریباں ہے، ہمارے لیے یہ سب معمول بن چکا ہے۔ ہم موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینے اور مرنیوالے لوگ ہیں، ہمارے ارد گرد موت رقص کرتی ہے اور ہم منتظر ہوتے ہیں کہ رقص کے اگلے دور میں وہ کس کس کا ہاتھ تھامے گی۔ آلات موسیقی کی بجائے گنیں اور توپیں ہوں ، موسیقی گولیوں کی آواز کی ہو، ہم رقص موت ہو، تصور میں یہ ہو کہ جنت میں ہمارے استقبال کی تیاریاں، تو کون انکار کرے ؟؟
میرے دوستو! تم میں سے میری طرح کوئی بیس کا ہوا ہو گا کوئی اکیس کا، کوئی کالج میں ہے تو کوئی یونیورسٹی میں، تم لوگوں کے بھی خواب ہیں، مستقبل کے سہانے خواب۔ تم لوگ زندگی کے ایک ایک لمحے سے لطف اندوز ہو رہے ہو ، دن میں موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر ریس لگاتے ہو یا ایک پہئے پر چلانے کے کرتب کرتے ہو، شاموں میں کافی ہاؤس میں جا کر بیٹھ کر دیر تک گپیں لگاتے ہو، لڑکیوں اور گاڑیوں کے ماڈلوں کے بارے میں ایک دوسرے سے تبادلہء خیال کرتے ہو، بیرون ملک کی یونیورسٹیوں کے خواب دیکھتے ہو، باہر جانے کے لیے کئی طرح کے ٹیسٹ پاس کرنا ہوتے ہیں ۔
ان کی تیاری کرتے ہو، رات دیر تک باہر گھومتے ہو، اپنے والد کی گاڑی میں بلند آواز میں میوزک لگا کر شیشے کھول کر موج مستی کرتے ہو۔ خریداری نہ بھی کرنی ہو تو بازاروں میں رونقیں دیکھنے کے لیے چلے جاتے ہو، لوگوں پر تبصرے کرتے ہو، ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مار کربلند و بانگ قہقہے لگاتے ہو، دوستوں کی شادیوں میں پیلے، لال اور ہرے دوپٹے گلے میں ڈال کر، ڈھول کی تھاپ پر جوش سے بھنگڑے ڈالتے ہو، زندگی کے ایک ایک لمحے سے خوشی کا رس کشید کرتے ہو۔ ہم تمہاری حفاظت کرنیوالے مگر تمہیں کبھی ہمارا بھولے سے بھی خیال نہیں آتا ہو گا، آتا بھی ہو گا تو کیا، '' فوجاں نیں تے موجاں نیں!! یار بڑی موجیں ہیں یار اس کی تو، اتنی تنخواہ، اتنی مراعات، مفت میں علاج معالجہ''
آپ لوگوں کو ان قربانیوں کی کیا قدر؟ آپ تو گاڑی چلاتے ہوئے سڑکوں کے نام پڑھتے ہیں جو آئے دن تبدیل ہوتے ہیں... فلاں فلاں شہید... تو کبھی یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ کون شہید ہیں، کون پراسرار لوگ ہیں ؟ سال میں ایک دفعہ ٹیلی وژن پر یوم دفاع کے حوالے سے پروگرام دیکھتے ہیں، وہ بھی وہی لوگ جن کا کوئی نہ کوئی فوج میں ہے، اس تقریب کو وہ دھندلی آنکھوں کے ساتھ دیکھتے ہیں، بار بار اپنے پیاروں کو یاد کر کے آنسو بہاتے ہیں، پھول سے وہ چہرے جو زمین کی تہوں میں سو رہے ہیں ، ابھی تو ان کی مسیں بھیگی تھیں ، ابھی تو ان کے چہرے پر ہلکا نیلا رواں آیا تھا اور ابھی وہ ماؤں کی گود خالی بھی کر گئے۔
وطن سے محبت کی داستان رقم ہوتی ہے تو باقی سب رشتوں سے محبت کہیں پس منظر میں چلی جاتی ہے... ماں ، باپ، بھائی، بہن، بیوی، بیٹا ، بیٹی اور دوست احباب۔ یوم دفاع کی تقریب میں ہمارے پیاروں کو بلایا جاتا ہے، انھیں ہماری یاد دلائی جاتی ہے جو کہ وہ بھولے ہی نہیں ، ان کے شہید ہو جانے والے پیاروں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، انھیں اسٹیج پر بلا کر ان کے پیاروں کی بابت سوالات کیے جاتے ہیں، انھیں ان کی شہادت کی سعادت حاصل کرنے کی مبارک باد دی جاتی ہے، انھیں باور کروایا جاتا ہے کہ ان کا بیٹا، ان کا بھائی ، ان کا شوہر مرا نہیں، زندہ ہے، کیونکہ وہ شہید ہوا ہے اور شہید مرتے نہیں۔ ہماری بیویاں بھیگی نظروں سے سوال کرتی ہیں، ''اگر وہ مرا نہیں ، زندہ ہے تو میں بیوہ کیوں ؟ ''پاکستان زندہ باد، پاک فوج پائندہ باد!!