پاکستان میں کئی ماہ سے19فیصدمہنگی ایل پی جی کی فروخت
پروڈیوسرزکوقیمت سی پی کے مطابق مقرر کرنے کاپابندکیاجائے،ایف پی سی سی آئی کوتشویش
خام تیل کی عالمی قیمتوں میں نمایاں کمی کے باوجود مقامی پروڈیوسرز اوگرا پیرامیٹرز کے خلاف مقامی طور پرپیدا ہونے والی فی ٹن ایل پی جی کوسعودی آرامکوکنٹریکٹ پرائس سے تقریباً 19 فیصد زائد قیمت پر فروخت کررہے ہیں جبکہ اوگرا کی جانب سے مقامی پروڈیوسرز کے لیے واضح ہدایات ہیں کہ ملک میں تیار ہونے والی ایل پی جی کی قیمت کاتعین کنٹریکٹ پرائس سے زائد نہ کیا جائے۔
مقامی پروڈیوسرزخام تیل کی عالمی قیمتوں میں نمایاں کمی کے باوجود گزشتہ 6 ماہ سے ایل پی جی کی مقامی قیمتوں کا تعین کنٹریکٹ پرائس سے زائد کررہے ہیں جس کے نتیجے میں ایل پی جی کے عام صارفین مطلوبہ ریلیف سے محروم ہوگئے ہیں۔ واضح رہے کہ مقامی ایل پی جی کی فی ٹن اوسط قیمت43ہزار روپے ہے جبکہ ایل پی جی کی سعودی آرامکوکنٹریکٹ پرائس333 ڈالر یا34800 روپے فی ٹن ہے۔
وفاق ایونہائے تجارت وصنعت پاکستان کی مجلس قائمہ برائے ایل پی جی کے قائم مقام چیئرمین محمدعلی حیدر کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں ایل پی جی مارکیٹنگ کمپنیوں، ڈسٹری بیوٹرز اور اسٹیک ہولڈرز نے پروڈیوسرز کی کھلی خلاف ورزی کے باوجود اوگرا کی خاموشی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس ضمن میں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے اوگرا کے توسط سے تمام پروڈیوسرز کو مقامی طور پرتیار ہونے والی ایل پی جی کی قیمت کنٹریکٹ پرائس کے مطابق تعین کی سخت ہدایات جاری کریں۔
اجلاس کوبتایا گیا کہ موجودہ صورتحال کے باعث ایل پی جی کے اسمگلروں کی چاندی ہوگئی ہے جومتحدہ عرب امارات سے ٹرانس شپمنٹ کے ذریعے ایرانی ایل پی جی 300 ڈالر فی ٹن کے حساب سے اسمگل کر رہے ہیں، کم قیمتوں کے سبب غیرمعیاری ایرانی ایل پی جی کا مقامی مارکیٹ میں حجم بڑھ گیا ہے جو ماہانہ اوسطاً 45ہزار ٹن ملک میں اسمگل کی جارہی ہے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے محمد علی حیدر نے چیئرمین ایف بی آر سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک درآمدہونے والے خام تیل، موٹرگیسولین کی طرز پر ایل پی جی کے معیار اور نمونوں کی بندرگاہوں پر ہی جانچ پڑتال کی ہدایات جاری کریں اوردرآمدی ایل پی جی کی ٹرمینل آپریٹرزکے ٹینکس میں منتقلی کوایل پی جی کی سیمپلنگ سے مشروط کیا جائے جبکہ ایل پی جی کی سیمپلنگ بھی قومی ادارے ایچ ڈی آئی پی سے کرائی جائے۔
دوران اجلاس ایل پی جی اسٹیک ہولڈرز نے ایک پبلک لسٹڈ کمپنی کی جانب سے بھاری بھرکم سگنیچر بونس کے عوض ایل پی جی کی الاٹمنٹ پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں سنجھورو فیلڈ اور آدھی فیلڈ کے لیے5 ٹن کوٹے کے عوض ایل پی جی کی بیس پرائس2.5 سے3.5 کروڑ روپے مقررکی گئی اور یہ بیس پرائس ایل پی جی کے غریب صارفین پر اضافی بوجھ کا باعث بنے گی۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ متعدد کمپنیوں کی جانب سے سگنیچر بونس کی پالیسی کو چیلنج کرنے پر عدالت کی جانب سے کئی ایل پی جی مارکیٹنگ کمپنیوں کو حکم امتناع بھی مل چکا ہے لیکن اس کے باوجود ایک قومی پروڈیوسر نے سگنیچر بونس کی پالیسی کو برقرار رکھا ہوا ہے۔
اجلاس میں اوگرا کی جانب سے ایل پی جی مارکیٹنگ کمپنیوں کے اسٹوریج پلانٹس کی 5 سال کے بجائے سالانہ بنیادوں پر انسپکشن کو مسترد کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ ایل پی جی سیفٹی کوڈ کے مطابق ہر5 سال بعد انسپکشن کے عمل کو برقرار رکھنے کے احکام جاری کرے۔ اجلاس میں غیررجسٹرڈ ایل پی جی ڈسٹری بیوٹرزسے2 فیصد ایڈیشنل سیلزٹیکس کی وصولی کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس ایڈیشنل سیلزٹیکس کا بوجھ بھی براہ راست عام صارف پر پڑے گا۔
مقامی پروڈیوسرزخام تیل کی عالمی قیمتوں میں نمایاں کمی کے باوجود گزشتہ 6 ماہ سے ایل پی جی کی مقامی قیمتوں کا تعین کنٹریکٹ پرائس سے زائد کررہے ہیں جس کے نتیجے میں ایل پی جی کے عام صارفین مطلوبہ ریلیف سے محروم ہوگئے ہیں۔ واضح رہے کہ مقامی ایل پی جی کی فی ٹن اوسط قیمت43ہزار روپے ہے جبکہ ایل پی جی کی سعودی آرامکوکنٹریکٹ پرائس333 ڈالر یا34800 روپے فی ٹن ہے۔
وفاق ایونہائے تجارت وصنعت پاکستان کی مجلس قائمہ برائے ایل پی جی کے قائم مقام چیئرمین محمدعلی حیدر کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں ایل پی جی مارکیٹنگ کمپنیوں، ڈسٹری بیوٹرز اور اسٹیک ہولڈرز نے پروڈیوسرز کی کھلی خلاف ورزی کے باوجود اوگرا کی خاموشی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس ضمن میں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے اوگرا کے توسط سے تمام پروڈیوسرز کو مقامی طور پرتیار ہونے والی ایل پی جی کی قیمت کنٹریکٹ پرائس کے مطابق تعین کی سخت ہدایات جاری کریں۔
اجلاس کوبتایا گیا کہ موجودہ صورتحال کے باعث ایل پی جی کے اسمگلروں کی چاندی ہوگئی ہے جومتحدہ عرب امارات سے ٹرانس شپمنٹ کے ذریعے ایرانی ایل پی جی 300 ڈالر فی ٹن کے حساب سے اسمگل کر رہے ہیں، کم قیمتوں کے سبب غیرمعیاری ایرانی ایل پی جی کا مقامی مارکیٹ میں حجم بڑھ گیا ہے جو ماہانہ اوسطاً 45ہزار ٹن ملک میں اسمگل کی جارہی ہے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے محمد علی حیدر نے چیئرمین ایف بی آر سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک درآمدہونے والے خام تیل، موٹرگیسولین کی طرز پر ایل پی جی کے معیار اور نمونوں کی بندرگاہوں پر ہی جانچ پڑتال کی ہدایات جاری کریں اوردرآمدی ایل پی جی کی ٹرمینل آپریٹرزکے ٹینکس میں منتقلی کوایل پی جی کی سیمپلنگ سے مشروط کیا جائے جبکہ ایل پی جی کی سیمپلنگ بھی قومی ادارے ایچ ڈی آئی پی سے کرائی جائے۔
دوران اجلاس ایل پی جی اسٹیک ہولڈرز نے ایک پبلک لسٹڈ کمپنی کی جانب سے بھاری بھرکم سگنیچر بونس کے عوض ایل پی جی کی الاٹمنٹ پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں سنجھورو فیلڈ اور آدھی فیلڈ کے لیے5 ٹن کوٹے کے عوض ایل پی جی کی بیس پرائس2.5 سے3.5 کروڑ روپے مقررکی گئی اور یہ بیس پرائس ایل پی جی کے غریب صارفین پر اضافی بوجھ کا باعث بنے گی۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ متعدد کمپنیوں کی جانب سے سگنیچر بونس کی پالیسی کو چیلنج کرنے پر عدالت کی جانب سے کئی ایل پی جی مارکیٹنگ کمپنیوں کو حکم امتناع بھی مل چکا ہے لیکن اس کے باوجود ایک قومی پروڈیوسر نے سگنیچر بونس کی پالیسی کو برقرار رکھا ہوا ہے۔
اجلاس میں اوگرا کی جانب سے ایل پی جی مارکیٹنگ کمپنیوں کے اسٹوریج پلانٹس کی 5 سال کے بجائے سالانہ بنیادوں پر انسپکشن کو مسترد کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ ایل پی جی سیفٹی کوڈ کے مطابق ہر5 سال بعد انسپکشن کے عمل کو برقرار رکھنے کے احکام جاری کرے۔ اجلاس میں غیررجسٹرڈ ایل پی جی ڈسٹری بیوٹرزسے2 فیصد ایڈیشنل سیلزٹیکس کی وصولی کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس ایڈیشنل سیلزٹیکس کا بوجھ بھی براہ راست عام صارف پر پڑے گا۔