چٹورا کلچر بحران کی زد میں
میرؔ کا یہ شعر پڑھتے چلے آئے تھے۔ اس کے معنی اب سمجھ میں آئے۔
پہلے تو میرؔ کا ایک شعر سن لیجیے
جن بلاؤں کو میرؔ سنتے تھے
ان کو اس روزگار میں دیکھا
میرؔ کا یہ شعر پڑھتے چلے آئے تھے۔ اس کے معنی اب سمجھ میں آئے۔ پوری طرح اب بھی نہیں آئے۔ سمجھنے کا عمل جاری ہے۔ روز جب کسی وقت اچٹتی سی نظر ٹی وی کے پردے پر جاتی ہے تو بس آنکھیں دیکھتی رہ جاتی ہیں۔ اچھا یہ بھی ہمیں دیکھنا تھا۔ پھر اسی طرح کے پس منظر میں یہ سمجھ میں آیا کہ سننے اور دیکھنے میں کتنا فرق ہے۔ سنی کو ان سنی کیا جا سکتا ہے لیکن دیکھے کو ان دیکھا نہیں کیا جا سکتا۔ سویرے جو کل آنکھ میری کھلی تو کان میں کچھ آوازیں پڑیں۔ اچھا ٹی وی پر خبریں ہو رہی ہیں۔ ذرا سن لیں کہ آج کی کیا خبر ہے۔ مگر یہ خبر سننے کی نہیں دیکھنے کی چیز تھی۔ کتنے گدھے ذبح کیے پڑے تھے۔ ذبح ہونے کے بعد جن کی کھال اتاری جا چکی تھی ان کی رانیں' دستیاں' بڑے بڑے لوتھڑے' سری پائے۔ بتایا جا رہا تھا کہ یہ مذبح ہے یعنی بوچڑ خانہ۔ لازم نہیں کہ یہاں بھیڑ بکرے ہی ذبح ہوں۔ وہ بھی ذبح تو ہوتے ہیں لیکن کم کم۔ اب یہاں گدھے ذبح ہوتے ہیں۔ گدھے کا گوشت کھائیے اور موٹے ہو جائیے۔ مگر ایک گدھے پر موقوف نہیں حلال حرام کے امتیاز سے بے نیاز یہاں پر اچھا برا چوپایہ ذبح ہوتا ہے۔ بیچ بیچ میں مردار بھی سہی۔ یہ سارا گوشت کہاں جاتا ہے چٹوروں کے پیٹوں میں۔
منظر بدلتا ہے۔ یہ کوئی ہوٹل ہے۔ یہی گوشت ناند میں بھرا ہے۔ دیکھنے والوں نے ناک پر رومال رکھ لیے ہیں۔ یہ سڑاند کہاں جائے گی۔ کھانے والوں کے پیٹوں میں۔
پھر منظر بدلتا ہے۔ یہ کوئی بیکری ہے۔ گندے انڈے قطار اندر قطار رکھے ہیں۔ کچھ ٹوٹ گئے ہیں۔ ان کی زردی بہہ رہی ہے۔ کچھ پر گندگی کے داغ ہیں۔ دیکھنے والوں کی ناک پر پھر رومال پھیلے نظر آتے ہیں۔
اور اب سمجھ میں آیا کہ آدمی کے پیٹ کو ہماری زبان میں دوزخ کیوں کہا جاتا ہے۔ پیٹ کے دوزخ کو تو بھرنا ہے۔ یہ سب پیٹوں کی دوزخ میں جائے گا۔
ایک اور خبر۔ دودھ والے جو صبح ہی صبح دودھ سے بھرے کنٹینر لے کر نکلتے ہیں۔ ان کی پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔ یہ دودھ ہے یا کیا ہے جسے معائنہ کرنے والے نالی میں اوندھا رہے ہیں۔
مگر یہ سب کچھ اچانک کیسے۔ کیا سچ مچ روز حساب آ گیا ہے۔ پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔ وارنٹ گرفتاری جاری ہو رہے ہیں۔
وہ ایک بی بی جو اس جانچ پڑتال پر مامور ہے یہاں سے ہٹ کر بڑی بڑی دکانوں کا رخ کرتی ہے۔ کسی بیوٹی پارلر میں داخل ہو جاتی ہے۔ انکم ٹیکس ادا کرتی ہو۔ نہیں۔ آمدنی کتنی ہے۔ بے حساب۔ بیوٹی پارلر کو مقفل کر دیا جاتا ہے۔ نہیں سربمہر کر دیا جاتا ہے۔
ہمارے ایک دوست نے جو ہمارے برابر بیٹھا یہ مناظر دیکھ رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا۔ ''دیکھ رہے ہو'' وہ ہم سے مخاطب ہوا ''یہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ اچانک احتساب کا عمل۔ اور اتنی بیدردی کے ساتھ''۔
ہم نے کہا کہ عزیز اس ہمارے اصطبل میں لید بہت جمع ہو گئی تھی۔ کسی کے سر پہ سودا سوار ہو گیا ہے کہ گھوڑے کب سے لید کر رہے ہیں۔ ان کی صفائی ہونی چاہیے''۔
جب اس نے اصرار کیا کہ پہیلیاں مت بوجھواؤ۔ سیدھی سیدھی بات کرو۔ اور مجھے سمجھاؤ۔
تب ہم نے اس عزیز کو اس یونانی سورما کا قصہ سنایا جسے ہرکلیز کہتے ہیں۔ اردو والوں نے اس نام کو اردو کا جامہ پہنایا کہ اسے ہرکولیس لکھنا شروع کر دیا۔ بہر حال ہرکولیس کہو یا ہرکلیز اب یاد نہیں کہ مشقتیں جھیلنے کی سزا اسے کس خطا پر ملی تھی۔ بہر حال دیوتاؤں نے ایک موقعہ پر اسے حکم سنایا کہ فلاں جزیرے میں ایک بہت بڑا اصطبل ہے۔ وہاں تیس سال سے رنگ رنگ کے گھوڑے جمع ہیں اور لید کیے جا رہے ہیں۔ وہاں اس لید کو اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ وہاں جاؤ اور اس اصطبل سے ساری لید اٹھا کر کہیں ٹھکانے لگاؤ۔
اب پتہ چلا کہ ایسا ہی اصطبل ہمارے پاکستان میں بھی ہے۔ کب سے یہاں گھوڑے لید کیے چلے جا رہے تھے۔ شاید کوئی ہرقلس نمودار ہوا ہے۔ اس نے بِیڑا اٹھایا ہے کہ لید بہت ہو گئی۔ بدبو سے دماغ پھٹا جا رہا ہے۔ اب اصطبل کی صفائی ہونی چاہیے۔ سو بھائی یہ لید اٹھائی جا رہی ہے۔ کام لمبا ہے۔ یہ برس دو برس کی بات تو نہیں ہے۔ بقول حفیظؔ جالندھری یہ نصف صدی کا قصہ ہے۔ دیکھتا جا'سنتا جا شرماتا جا۔
ادھر ہم سوچ رہے ہیں کہ اس کھیل میں چٹوروں کے منہ کا مزہ کیسا کرکرا ہوا ہے۔ روکھی سوکھی کھانے والے اچھے رہے۔ ان کی جیب کہاں اجازت دیتی تھی کہ ذرا باہر نکل کر کسی فوڈ اسٹریٹ کا رخ کریں یا کسی بڑے ہوٹل میں بیٹھ کر بھلا سا آرڈر دیں' کھائیں پئیں اور موج کریں اور کچھ نہیں تو لب سڑک کنارے کسی بھاڑ تنور سے استفادہ کریں۔ کڑاہی گوشت سے لذت یاب ہوں پہلے تو یار اندھا دھند کھانے پینے پہ جتے رہتے تھے۔ اب سوچ میں گم ہیں کہ پیٹ میں چٹورپن کے نام پر کیا کچھ اتر گیا۔ اب کونسے ہوٹل جائیں' کیا آرڈر دیں۔ کھائیں تو مشکل نہ کھائیں تو مشکل۔
ادھر نکتہ چینوں کی بن آئی ہے۔ کس کس طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ہم اس باب میں اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں کہ
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
اب پتہ نہیں کہ بات کس کس کی جوانی تک پہنچے گی۔
سچ پوچھو تو چٹورپن کی تہذیب اس وقت بحران سے دوچار ہے۔ وہ زمانہ خوب تھا جب مال روڈ پر ریستوران کلچر پھل پھول رہا تھا۔ دانشور چائے سے شوق کرتے تھے اور چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتے تھے۔ چائے میں آخر کتنی ملاوٹ ہو سکتی تھی۔ ویسے بھی ابھی یہ شہر ملاوٹ کے فن میں طاق نہیں ہوا تھا۔ جب فوڈ اسٹریٹس قائم ہوئیں۔ وہ ہوٹل کھلے جس میں اکیلے آدمی کا پیٹ اور ستر قسم کی ڈشیں۔ ایم ایم عالم روڈ کو عروج حاصل ہوا۔ کتنی جلدی اس نئے کلچر کو داغ لگ گیا۔
جن بلاؤں کو میرؔ سنتے تھے
ان کو اس روزگار میں دیکھا
میرؔ کا یہ شعر پڑھتے چلے آئے تھے۔ اس کے معنی اب سمجھ میں آئے۔ پوری طرح اب بھی نہیں آئے۔ سمجھنے کا عمل جاری ہے۔ روز جب کسی وقت اچٹتی سی نظر ٹی وی کے پردے پر جاتی ہے تو بس آنکھیں دیکھتی رہ جاتی ہیں۔ اچھا یہ بھی ہمیں دیکھنا تھا۔ پھر اسی طرح کے پس منظر میں یہ سمجھ میں آیا کہ سننے اور دیکھنے میں کتنا فرق ہے۔ سنی کو ان سنی کیا جا سکتا ہے لیکن دیکھے کو ان دیکھا نہیں کیا جا سکتا۔ سویرے جو کل آنکھ میری کھلی تو کان میں کچھ آوازیں پڑیں۔ اچھا ٹی وی پر خبریں ہو رہی ہیں۔ ذرا سن لیں کہ آج کی کیا خبر ہے۔ مگر یہ خبر سننے کی نہیں دیکھنے کی چیز تھی۔ کتنے گدھے ذبح کیے پڑے تھے۔ ذبح ہونے کے بعد جن کی کھال اتاری جا چکی تھی ان کی رانیں' دستیاں' بڑے بڑے لوتھڑے' سری پائے۔ بتایا جا رہا تھا کہ یہ مذبح ہے یعنی بوچڑ خانہ۔ لازم نہیں کہ یہاں بھیڑ بکرے ہی ذبح ہوں۔ وہ بھی ذبح تو ہوتے ہیں لیکن کم کم۔ اب یہاں گدھے ذبح ہوتے ہیں۔ گدھے کا گوشت کھائیے اور موٹے ہو جائیے۔ مگر ایک گدھے پر موقوف نہیں حلال حرام کے امتیاز سے بے نیاز یہاں پر اچھا برا چوپایہ ذبح ہوتا ہے۔ بیچ بیچ میں مردار بھی سہی۔ یہ سارا گوشت کہاں جاتا ہے چٹوروں کے پیٹوں میں۔
منظر بدلتا ہے۔ یہ کوئی ہوٹل ہے۔ یہی گوشت ناند میں بھرا ہے۔ دیکھنے والوں نے ناک پر رومال رکھ لیے ہیں۔ یہ سڑاند کہاں جائے گی۔ کھانے والوں کے پیٹوں میں۔
پھر منظر بدلتا ہے۔ یہ کوئی بیکری ہے۔ گندے انڈے قطار اندر قطار رکھے ہیں۔ کچھ ٹوٹ گئے ہیں۔ ان کی زردی بہہ رہی ہے۔ کچھ پر گندگی کے داغ ہیں۔ دیکھنے والوں کی ناک پر پھر رومال پھیلے نظر آتے ہیں۔
اور اب سمجھ میں آیا کہ آدمی کے پیٹ کو ہماری زبان میں دوزخ کیوں کہا جاتا ہے۔ پیٹ کے دوزخ کو تو بھرنا ہے۔ یہ سب پیٹوں کی دوزخ میں جائے گا۔
ایک اور خبر۔ دودھ والے جو صبح ہی صبح دودھ سے بھرے کنٹینر لے کر نکلتے ہیں۔ ان کی پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔ یہ دودھ ہے یا کیا ہے جسے معائنہ کرنے والے نالی میں اوندھا رہے ہیں۔
مگر یہ سب کچھ اچانک کیسے۔ کیا سچ مچ روز حساب آ گیا ہے۔ پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔ وارنٹ گرفتاری جاری ہو رہے ہیں۔
وہ ایک بی بی جو اس جانچ پڑتال پر مامور ہے یہاں سے ہٹ کر بڑی بڑی دکانوں کا رخ کرتی ہے۔ کسی بیوٹی پارلر میں داخل ہو جاتی ہے۔ انکم ٹیکس ادا کرتی ہو۔ نہیں۔ آمدنی کتنی ہے۔ بے حساب۔ بیوٹی پارلر کو مقفل کر دیا جاتا ہے۔ نہیں سربمہر کر دیا جاتا ہے۔
ہمارے ایک دوست نے جو ہمارے برابر بیٹھا یہ مناظر دیکھ رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا۔ ''دیکھ رہے ہو'' وہ ہم سے مخاطب ہوا ''یہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ اچانک احتساب کا عمل۔ اور اتنی بیدردی کے ساتھ''۔
ہم نے کہا کہ عزیز اس ہمارے اصطبل میں لید بہت جمع ہو گئی تھی۔ کسی کے سر پہ سودا سوار ہو گیا ہے کہ گھوڑے کب سے لید کر رہے ہیں۔ ان کی صفائی ہونی چاہیے''۔
جب اس نے اصرار کیا کہ پہیلیاں مت بوجھواؤ۔ سیدھی سیدھی بات کرو۔ اور مجھے سمجھاؤ۔
تب ہم نے اس عزیز کو اس یونانی سورما کا قصہ سنایا جسے ہرکلیز کہتے ہیں۔ اردو والوں نے اس نام کو اردو کا جامہ پہنایا کہ اسے ہرکولیس لکھنا شروع کر دیا۔ بہر حال ہرکولیس کہو یا ہرکلیز اب یاد نہیں کہ مشقتیں جھیلنے کی سزا اسے کس خطا پر ملی تھی۔ بہر حال دیوتاؤں نے ایک موقعہ پر اسے حکم سنایا کہ فلاں جزیرے میں ایک بہت بڑا اصطبل ہے۔ وہاں تیس سال سے رنگ رنگ کے گھوڑے جمع ہیں اور لید کیے جا رہے ہیں۔ وہاں اس لید کو اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ وہاں جاؤ اور اس اصطبل سے ساری لید اٹھا کر کہیں ٹھکانے لگاؤ۔
اب پتہ چلا کہ ایسا ہی اصطبل ہمارے پاکستان میں بھی ہے۔ کب سے یہاں گھوڑے لید کیے چلے جا رہے تھے۔ شاید کوئی ہرقلس نمودار ہوا ہے۔ اس نے بِیڑا اٹھایا ہے کہ لید بہت ہو گئی۔ بدبو سے دماغ پھٹا جا رہا ہے۔ اب اصطبل کی صفائی ہونی چاہیے۔ سو بھائی یہ لید اٹھائی جا رہی ہے۔ کام لمبا ہے۔ یہ برس دو برس کی بات تو نہیں ہے۔ بقول حفیظؔ جالندھری یہ نصف صدی کا قصہ ہے۔ دیکھتا جا'سنتا جا شرماتا جا۔
ادھر ہم سوچ رہے ہیں کہ اس کھیل میں چٹوروں کے منہ کا مزہ کیسا کرکرا ہوا ہے۔ روکھی سوکھی کھانے والے اچھے رہے۔ ان کی جیب کہاں اجازت دیتی تھی کہ ذرا باہر نکل کر کسی فوڈ اسٹریٹ کا رخ کریں یا کسی بڑے ہوٹل میں بیٹھ کر بھلا سا آرڈر دیں' کھائیں پئیں اور موج کریں اور کچھ نہیں تو لب سڑک کنارے کسی بھاڑ تنور سے استفادہ کریں۔ کڑاہی گوشت سے لذت یاب ہوں پہلے تو یار اندھا دھند کھانے پینے پہ جتے رہتے تھے۔ اب سوچ میں گم ہیں کہ پیٹ میں چٹورپن کے نام پر کیا کچھ اتر گیا۔ اب کونسے ہوٹل جائیں' کیا آرڈر دیں۔ کھائیں تو مشکل نہ کھائیں تو مشکل۔
ادھر نکتہ چینوں کی بن آئی ہے۔ کس کس طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ہم اس باب میں اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں کہ
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
اب پتہ نہیں کہ بات کس کس کی جوانی تک پہنچے گی۔
سچ پوچھو تو چٹورپن کی تہذیب اس وقت بحران سے دوچار ہے۔ وہ زمانہ خوب تھا جب مال روڈ پر ریستوران کلچر پھل پھول رہا تھا۔ دانشور چائے سے شوق کرتے تھے اور چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتے تھے۔ چائے میں آخر کتنی ملاوٹ ہو سکتی تھی۔ ویسے بھی ابھی یہ شہر ملاوٹ کے فن میں طاق نہیں ہوا تھا۔ جب فوڈ اسٹریٹس قائم ہوئیں۔ وہ ہوٹل کھلے جس میں اکیلے آدمی کا پیٹ اور ستر قسم کی ڈشیں۔ ایم ایم عالم روڈ کو عروج حاصل ہوا۔ کتنی جلدی اس نئے کلچر کو داغ لگ گیا۔