مجھے خوف آرہا ہے
فیس بک پر ایک تصویر Tag کی گئی۔ ایک کمسن بچے کی لاش ہے،
NEW DELHI:
فیس بک پر ایک تصویر Tag کی گئی۔ ایک کمسن بچے کی لاش ہے، جو ساحل سمندر پر پڑی ہوئی ہے اور ایک شخص جو غالباً اس کا باپ ہے، بیٹے کے لاشے کے قریب کھڑا ہے۔ یہ تصویر ہر اس شخص کے رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے، جو سینے میں دل رکھتا ہے۔ تیونس سے شروع ہونے والی عوامی بے چینی مصر اور لیبیا سے ہوتی ہوئی شام اور یمن تک پہنچی تو اس نے بدترین خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی۔ ان دونوں ممالک میں حالات انتہائی دگرگوں ہیں اور انسانیت لرزہ براندام ہے۔ ایک طرف اغیار کی سازشیں اور چیرہ دستیاں ہیں، تو دوسری طرف اپنوں کی موقع پرستی اور بے حسی منہ چڑا رہی ہے۔
شام مارچ 2011ء سے شورشوں کی زد میں ہے۔ جنم لینے والی سیاسی بے چینی مناسب عمل نہ ہونے کے سبب پہلے متشدد فرقہ واریت کی شکل اختیار کرتی چلی گئی۔ جو حکمرانوں میں معاملہ فہمی کے فقدان کے باعث خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئی۔ پھر کچھ اندرونی عوامل کی کوتاہ بینی اور بیرونی عوامل کے خطے میں مفادات کی وجہ سے یہ ملک آتش فشاں بن گیا۔ ڈھائی کروڑ آبادی کے ملک میں اب تک ایک کروڑ 10 لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ جن میں 65 لاکھ افراد ملک کے اندر ہی مختلف محفوظ پناہ گاہوں کی جانب منتقل ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔ 30 لاکھ پڑوسی ممالک ترکی، اردن اور لبنان کی طرف گئے ہیں، جب کہ 15 لاکھ نے یورپی ممالک بالخصوص جرمنی کا رخ کیا ہے۔ مذکورہ خاندان ترکی سے کشتی کے ذریعہ یونان جانے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ سانحہ پیش آ گیا۔
یمن بھی 2011ء سے بدترین شورش اور خانہ جنگی کا شکار ہے۔ ابتدا سابق صدر علی عبداللہ صالح کے خلاف تحریک سے شروع ہوئی، جس نے وقت گزرنے کے ساتھ فرقہ ورانہ تشدد اور خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی۔ پڑوسی ممالک کی مداخلت اور شدت پسند تنظیموں کے اثر و نفوذ کی وجہ سے جمہوری حقوق کے حصول کی خواہش پس پشت چلی گئی، جب کہ ایک خطرناک سیاسی آویزش نے جنم لے لیا۔ یمن اور شام دونوں جگہ پہلے القائد نے عوام کی جمہوری سیاسی جدوجہد کا رخ موڑنے کی کوشش کی۔ پھر پڑوسی ملک نے اپنے سرحدی مفادات کی خاطر یمنی باغیوں پر حملہ کر کے فرقہ واریت کو ہوا دی۔ جس کے نتیجے میں کئی ممالک یمن کی صورتحال میں ملوث ہو گئے اور صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی، جس میں آج تک سدھار پیدا نہیں ہو سکا ہے۔
مصر میں حسنی مبارک کی شخصی حکومت کے خاتمے پر مغرب اور مشرق میں جمہوریت نوازوں نے بغلیں بجائیں۔ مگر یہ جاننے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ وہاں موجود لبرل سیاسی جمہوری قوتوں میں پیدا ہونے والے خلا کو کس حد تک پر کرنے کی کس حد تک صلاحیت اور پوٹینشیل ہے۔ نتیجتاً اخوان المسلمین اقتدار میں آ گئی۔ جسے ہٹانے کے لیے ایک بار پھر فوج نے اقتدار پر قبضہ کر کے شخصی آمریت قائم کر دی۔ لیبیا میں بھی امریکی آشیرواد سے کرنل معمر قذافی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ مگر چار برسوں کے دوران وہاں بھی کوئی مستحکم حکومت قائم نہیں ہو سکی ہے۔ یہی کچھ حال تیونس کا ہے۔
پانچ برس سے مشرق وسطیٰ میں جاری شورش اور خانہ جنگی کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ سیاسی و سماجی حقائق کو سمجھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس صورتحال سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کسی ملک و معاشرے میں سول سوسائٹی کمزور اور سیاسی عمل نحیف و ناتواں ہو، تو عوام کے عقائد اور مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ عوام کی بے چینی کا فائدہ متشدد رجحان رکھنے والی فاشسٹ تنظیمیں اٹھاتی ہیں۔ مصر میں اخوان کی انتخابات میں کامیابی۔ شام اور عراق میں القائدہ کی متشدد کاروائیاں اور پھر داعش کا وجود میں آنا، اس بات کی دلیل ہے کہ ان ممالک میں بعث پارٹی اپنی مقبولیت کھو چکی ہے اور کوئی دوسری لبرل جمہوری جماعت اس خلا کو پر کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ 1979ء میں یہی کچھ صورتحال ایران میں پیش آئی تھی، جب تودہ پارٹی نے کوتاہ بینی کا ثبوت دیتے ہوئے مذہب کی بنیاد پر سیاست کے لیے سیاسی راہ ہموار کر دی تھی۔
مشرق وسطیٰ میں آج جو شعلے بھڑک رہے ہیں ان کی حدت جنوبی ایشیا تک پہنچ رہی ہے۔ جنوبی ایشیا کے دو اہم ممالک پاکستان اور افغانستان حکمران اشرافیہ کی تین دہائیوں کی کوتاہ بینی کے سبب بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ مستقبل قریب میں افغان معاشرہ میں سول سوسائٹی کے وجود میں آنے اور اس کے assert کرنے کی کوئی توقع نظر نہیں آ رہی۔ اس معاشرے کو سردار داؤد کے دور سے جس راہ پر لگایا گیا ہے، اس کے نتیجے میں جمہوری عمل کے مستحکم ہونے کی خواہش محض ایک خواب لگتی ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ کسی بھی وقت بنیاد پرست گروہ افغان ریاست پر حاوی آ سکتے ہیں، جس کے باعث جو خانہ جنگی ہو گی، وہ افغان معاشرے کو جس مزید تباہی سے دوچار کرے گی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
یہ طے ہے کہ افغانستان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے پاکستانی معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان جو حکمران اشرافیہ کی کم عقلی، موقع پرستی اور عجلت پسندی کے باعث ایک زد پذیر (Fragile) معاشرہ بن چکا ہے، افغانستان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے زیر اثر مزید زد پذیر ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں ریاستی منصوبہ ساز بعض مخصوص مذہبی بنیاد پرست عناصر کے خلاف کسی کارروائی سے دانستہ گریز کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے مذہبی شدت پسندی کی جڑیں گہری ہو رہی ہیں اور متشدد فرقہ واریت روز افزوں ہے۔ دوسری طرف حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کی غلط حکمت عملیوں کے باعث قومیتی اور لسانی تفریق میں بھی شدت آ رہی ہے۔ محسوس ہو رہا ہے کہ ملک کو ایک بار پھر وحدانیت (ون یونٹ) کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ وفاقی ادارے صوبائی حکومتوں کو اعتماد میں لیے بغیر جس انداز میں کارروائیاں کر رہے ہیں، اس نے 18 ویں ترمیم کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔ ساتھ ہی عوامی قبولیت رکھنے والی قدرے لبرل سیاسی جماعتوں کا حلقہ تنگ کیا جا رہا ہے اور ان سیاسی قوتوں کو پنپنے کا موقع دیا جا رہا ہے جو شدت پسند مذہبی عناصر کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ ان جماعتوں میں سے بیشتر جمہوریت پر یقین نہیں رکھتیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اپنی تمامتر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی مذہبی جنون پرستی اور متشدد فرقہ واریت کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان جماعتوں کے سیاسی منظرنامہ سے ہٹ جانے کے بعد دائیں بازو کی ان جماعتوں کے لیے راہ ہموار ہو جائے گی جو مذہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت پر یقین رکھتی ہیں۔ نتیجتاً ملک میں جاری فرقہ وارانہ، قومیتی اور لسانی تقسیم مزید گہری ہو کر تصادم کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان جیسا کثیر القومیتی اور کثیرالعقیدہ ملک اس نوعیت کے تصادم کا کبھی متحمل نہیں ہوا ہے۔
دوسری جانب میاں نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ مذہبی شدت پسندی کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ یہ حکومت سندھ اور بلوچستان میں غیر مناسب اقدامات کر رہی ہے، اس کے نتیجے میں سیاسی صورت حال خراب ہو رہی ہے۔ مجھے خوف آ رہا ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنی پالیسی تبدیل نہ کی تو کہیں ملک شام، یمن یا مصر جیسی صورتحال کا شکار نہ ہو جائے۔ اس وقت ریاستی اسٹیبلشمنٹ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا ہو گی کہ پاکستان کی بقا جمہوریت اور جمہوری طرز حکمرانی سے مشروط ہے۔ اس ملک میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، غیر مسلموں کو بھی مساوی حقوق دیے بغیر ترقی کا تصور عبث ہے۔ اسی طرح ملک پر جتنا حق بڑے صوبے کے عوام کا ہے، اتنا ہی حق چھوٹی قومیتوں کا بھی ہے۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے گروہ کی حب الوطنی پر انگشت نمائی کرے۔ اگر کسی کی حب الوطنی پر شک ہو تو عدالتوں سے رجوع کرے۔ میڈیا ٹرائل کے ذریعہ من پسند سیاسی سیٹ اپ مسلط کرنے کی کوششیں ممالک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیتی ہیں۔ ذرایع ابلاغ میں بیٹھے اینکر اور میڈیا منیجر بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کا کام عوام تک اطلاعات اور معلومات پہنچانا اور ان پر غیر جانبدارانہ تبصرہ کرنا ہے۔ انھیں عدالت سجا کر فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اگر اس ملک کو مشرق وسطیٰ جیسی صورتحال سے بچانا ہے، تو پھر عقل و دانش کی بنیاد پر فیصلے کرنا ہوں گے۔
فیس بک پر ایک تصویر Tag کی گئی۔ ایک کمسن بچے کی لاش ہے، جو ساحل سمندر پر پڑی ہوئی ہے اور ایک شخص جو غالباً اس کا باپ ہے، بیٹے کے لاشے کے قریب کھڑا ہے۔ یہ تصویر ہر اس شخص کے رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے، جو سینے میں دل رکھتا ہے۔ تیونس سے شروع ہونے والی عوامی بے چینی مصر اور لیبیا سے ہوتی ہوئی شام اور یمن تک پہنچی تو اس نے بدترین خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی۔ ان دونوں ممالک میں حالات انتہائی دگرگوں ہیں اور انسانیت لرزہ براندام ہے۔ ایک طرف اغیار کی سازشیں اور چیرہ دستیاں ہیں، تو دوسری طرف اپنوں کی موقع پرستی اور بے حسی منہ چڑا رہی ہے۔
شام مارچ 2011ء سے شورشوں کی زد میں ہے۔ جنم لینے والی سیاسی بے چینی مناسب عمل نہ ہونے کے سبب پہلے متشدد فرقہ واریت کی شکل اختیار کرتی چلی گئی۔ جو حکمرانوں میں معاملہ فہمی کے فقدان کے باعث خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئی۔ پھر کچھ اندرونی عوامل کی کوتاہ بینی اور بیرونی عوامل کے خطے میں مفادات کی وجہ سے یہ ملک آتش فشاں بن گیا۔ ڈھائی کروڑ آبادی کے ملک میں اب تک ایک کروڑ 10 لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ جن میں 65 لاکھ افراد ملک کے اندر ہی مختلف محفوظ پناہ گاہوں کی جانب منتقل ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔ 30 لاکھ پڑوسی ممالک ترکی، اردن اور لبنان کی طرف گئے ہیں، جب کہ 15 لاکھ نے یورپی ممالک بالخصوص جرمنی کا رخ کیا ہے۔ مذکورہ خاندان ترکی سے کشتی کے ذریعہ یونان جانے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ سانحہ پیش آ گیا۔
یمن بھی 2011ء سے بدترین شورش اور خانہ جنگی کا شکار ہے۔ ابتدا سابق صدر علی عبداللہ صالح کے خلاف تحریک سے شروع ہوئی، جس نے وقت گزرنے کے ساتھ فرقہ ورانہ تشدد اور خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی۔ پڑوسی ممالک کی مداخلت اور شدت پسند تنظیموں کے اثر و نفوذ کی وجہ سے جمہوری حقوق کے حصول کی خواہش پس پشت چلی گئی، جب کہ ایک خطرناک سیاسی آویزش نے جنم لے لیا۔ یمن اور شام دونوں جگہ پہلے القائد نے عوام کی جمہوری سیاسی جدوجہد کا رخ موڑنے کی کوشش کی۔ پھر پڑوسی ملک نے اپنے سرحدی مفادات کی خاطر یمنی باغیوں پر حملہ کر کے فرقہ واریت کو ہوا دی۔ جس کے نتیجے میں کئی ممالک یمن کی صورتحال میں ملوث ہو گئے اور صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی، جس میں آج تک سدھار پیدا نہیں ہو سکا ہے۔
مصر میں حسنی مبارک کی شخصی حکومت کے خاتمے پر مغرب اور مشرق میں جمہوریت نوازوں نے بغلیں بجائیں۔ مگر یہ جاننے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ وہاں موجود لبرل سیاسی جمہوری قوتوں میں پیدا ہونے والے خلا کو کس حد تک پر کرنے کی کس حد تک صلاحیت اور پوٹینشیل ہے۔ نتیجتاً اخوان المسلمین اقتدار میں آ گئی۔ جسے ہٹانے کے لیے ایک بار پھر فوج نے اقتدار پر قبضہ کر کے شخصی آمریت قائم کر دی۔ لیبیا میں بھی امریکی آشیرواد سے کرنل معمر قذافی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ مگر چار برسوں کے دوران وہاں بھی کوئی مستحکم حکومت قائم نہیں ہو سکی ہے۔ یہی کچھ حال تیونس کا ہے۔
پانچ برس سے مشرق وسطیٰ میں جاری شورش اور خانہ جنگی کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ سیاسی و سماجی حقائق کو سمجھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس صورتحال سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کسی ملک و معاشرے میں سول سوسائٹی کمزور اور سیاسی عمل نحیف و ناتواں ہو، تو عوام کے عقائد اور مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ عوام کی بے چینی کا فائدہ متشدد رجحان رکھنے والی فاشسٹ تنظیمیں اٹھاتی ہیں۔ مصر میں اخوان کی انتخابات میں کامیابی۔ شام اور عراق میں القائدہ کی متشدد کاروائیاں اور پھر داعش کا وجود میں آنا، اس بات کی دلیل ہے کہ ان ممالک میں بعث پارٹی اپنی مقبولیت کھو چکی ہے اور کوئی دوسری لبرل جمہوری جماعت اس خلا کو پر کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ 1979ء میں یہی کچھ صورتحال ایران میں پیش آئی تھی، جب تودہ پارٹی نے کوتاہ بینی کا ثبوت دیتے ہوئے مذہب کی بنیاد پر سیاست کے لیے سیاسی راہ ہموار کر دی تھی۔
مشرق وسطیٰ میں آج جو شعلے بھڑک رہے ہیں ان کی حدت جنوبی ایشیا تک پہنچ رہی ہے۔ جنوبی ایشیا کے دو اہم ممالک پاکستان اور افغانستان حکمران اشرافیہ کی تین دہائیوں کی کوتاہ بینی کے سبب بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ مستقبل قریب میں افغان معاشرہ میں سول سوسائٹی کے وجود میں آنے اور اس کے assert کرنے کی کوئی توقع نظر نہیں آ رہی۔ اس معاشرے کو سردار داؤد کے دور سے جس راہ پر لگایا گیا ہے، اس کے نتیجے میں جمہوری عمل کے مستحکم ہونے کی خواہش محض ایک خواب لگتی ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ کسی بھی وقت بنیاد پرست گروہ افغان ریاست پر حاوی آ سکتے ہیں، جس کے باعث جو خانہ جنگی ہو گی، وہ افغان معاشرے کو جس مزید تباہی سے دوچار کرے گی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
یہ طے ہے کہ افغانستان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے پاکستانی معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان جو حکمران اشرافیہ کی کم عقلی، موقع پرستی اور عجلت پسندی کے باعث ایک زد پذیر (Fragile) معاشرہ بن چکا ہے، افغانستان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے زیر اثر مزید زد پذیر ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں ریاستی منصوبہ ساز بعض مخصوص مذہبی بنیاد پرست عناصر کے خلاف کسی کارروائی سے دانستہ گریز کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے مذہبی شدت پسندی کی جڑیں گہری ہو رہی ہیں اور متشدد فرقہ واریت روز افزوں ہے۔ دوسری طرف حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کی غلط حکمت عملیوں کے باعث قومیتی اور لسانی تفریق میں بھی شدت آ رہی ہے۔ محسوس ہو رہا ہے کہ ملک کو ایک بار پھر وحدانیت (ون یونٹ) کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ وفاقی ادارے صوبائی حکومتوں کو اعتماد میں لیے بغیر جس انداز میں کارروائیاں کر رہے ہیں، اس نے 18 ویں ترمیم کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔ ساتھ ہی عوامی قبولیت رکھنے والی قدرے لبرل سیاسی جماعتوں کا حلقہ تنگ کیا جا رہا ہے اور ان سیاسی قوتوں کو پنپنے کا موقع دیا جا رہا ہے جو شدت پسند مذہبی عناصر کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ ان جماعتوں میں سے بیشتر جمہوریت پر یقین نہیں رکھتیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اپنی تمامتر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی مذہبی جنون پرستی اور متشدد فرقہ واریت کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان جماعتوں کے سیاسی منظرنامہ سے ہٹ جانے کے بعد دائیں بازو کی ان جماعتوں کے لیے راہ ہموار ہو جائے گی جو مذہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت پر یقین رکھتی ہیں۔ نتیجتاً ملک میں جاری فرقہ وارانہ، قومیتی اور لسانی تقسیم مزید گہری ہو کر تصادم کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان جیسا کثیر القومیتی اور کثیرالعقیدہ ملک اس نوعیت کے تصادم کا کبھی متحمل نہیں ہوا ہے۔
دوسری جانب میاں نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ مذہبی شدت پسندی کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ یہ حکومت سندھ اور بلوچستان میں غیر مناسب اقدامات کر رہی ہے، اس کے نتیجے میں سیاسی صورت حال خراب ہو رہی ہے۔ مجھے خوف آ رہا ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنی پالیسی تبدیل نہ کی تو کہیں ملک شام، یمن یا مصر جیسی صورتحال کا شکار نہ ہو جائے۔ اس وقت ریاستی اسٹیبلشمنٹ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا ہو گی کہ پاکستان کی بقا جمہوریت اور جمہوری طرز حکمرانی سے مشروط ہے۔ اس ملک میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، غیر مسلموں کو بھی مساوی حقوق دیے بغیر ترقی کا تصور عبث ہے۔ اسی طرح ملک پر جتنا حق بڑے صوبے کے عوام کا ہے، اتنا ہی حق چھوٹی قومیتوں کا بھی ہے۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے گروہ کی حب الوطنی پر انگشت نمائی کرے۔ اگر کسی کی حب الوطنی پر شک ہو تو عدالتوں سے رجوع کرے۔ میڈیا ٹرائل کے ذریعہ من پسند سیاسی سیٹ اپ مسلط کرنے کی کوششیں ممالک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیتی ہیں۔ ذرایع ابلاغ میں بیٹھے اینکر اور میڈیا منیجر بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کا کام عوام تک اطلاعات اور معلومات پہنچانا اور ان پر غیر جانبدارانہ تبصرہ کرنا ہے۔ انھیں عدالت سجا کر فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اگر اس ملک کو مشرق وسطیٰ جیسی صورتحال سے بچانا ہے، تو پھر عقل و دانش کی بنیاد پر فیصلے کرنا ہوں گے۔