روشن دیا

عیدالاضحیٰ کی آمد آمد ہے، ابھی سے مویشی منڈیاں سجائی جا رہی ہیں

shehla_ajaz@yahoo.com

عیدالاضحیٰ کی آمد آمد ہے، ابھی سے مویشی منڈیاں سجائی جا رہی ہیں، شوقین حضرات مویشی خریدنے کے لیے ابھی سے بھاؤ تاؤ پر نظر رکھ رہے ہیں، اس مقدس ذی الحج کے مہینے میں مذہبی جوش و جذبے سے زیادہ مویشیوں کے مول اور معاشی معیار کے گراف کو پرکھا جاتا ہے، فلاں نے اتنے جانور خریدے، فلاں کی گائے اتنے لاکھ کی ہے، اتنے کا تو ان کا بکرا ہے۔ اس قسم کی بناوٹی باتیں سن سن کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ فیشن سا بنتا جا رہا ہے۔ اور سنائیے بقرعید کے لیے کیا تیاریاں کی جا رہی ہیں؟ یہ نیا سوال سمجھ سے باہر ہے۔

مولانا غلام غوث ہزاروی ایک عظیم بے باک بزرگ جو اپنے رب کی محبت میں ایسے مغلوب تھے کہ انھیں اردگرد دشمنوں کی موجودگی کے باوجود کسی خوف کی پرواہ نہ تھی اس دور کے عظیم بزرگان میں ان کا شمار ہوتا ہے، یقیناً ہم جیسے لوگوں کے لیے ان کا نام اجنبی سا ہو لیکن ان کے عظیم کارنامے ان کے مرتبے کتنے بڑھا گئے یہ تو وہی جانتے ہیں کہ جن کی دنیا ہے۔

1962 میں مولانا غلام غوث ہزاروی حج پر گئے، ماہ ذوالحجہ کا چاند بہت سے حاجیوں نے بدھوار کی شام (یعنی شب جمعرات) کو دیکھا تھا، اس حساب سے یوم الحج جمعرات کے روز نو ذوالحجہ کو ہونا تھا لیکن کسی وجہ سے سعودی حکومت اعلان کر بیٹھی کہ یوم الحج بروز ہفتہ کو ہوگا کچھ لوگوں نے مولانا ہزاروی کو متوجہ کیا تو مولانا نماز کے بعد کھڑے ہوگئے اور عوام کو متوجہ کرکے عربی، اردو، پشتو، تینوں زبانوں میں جوشیلی تقریر کی جس کا خلاصہ کچھ یوں تھا کہ اسلام کے ایامِ عبادت چاند دیکھنے پر مقرر ہیں، کسی کیلنڈر، جنتری یا کسی شاہی حکم کے تحت نہیں چونکہ عوام کی اکثریت نے شب جمعرات کو خود چاند دیکھا ہے اسی لیے شرعی احکام کے مطابق میدان عرفات میں یوم الحجہ بروز جمعہ ہوگا، قافلے کی قیادت میں خود کروں گا جو مسلمان میرے ساتھ متفق ہیں وہ ہاتھ کھڑا کریں چونکہ تقریر تین زبانوں میں ہوئی تھی لہٰذا حرم شریف کا تمام مجمع مولانا کا ہمنوا بن گیا۔ اس اعلان سے مکہ شریف کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہلچل سی مچ گئی، حکومت نے رات گیارہ بجے دوبارہ اعلان کیا کہ حج جمعہ کو ہوگا۔

مولانا کی اس جرأت مندانہ تقریر پر ساری دنیا کے مسلمان شکر گزار ہوئے۔ حکومت نے بھی مولانا کو شاہی مہمان کی حیثیت سے رہنے کو کہا تو آپ نے انکار کردیا اور فرمایا کہ میں حرم شریف میں رہوں گا، خانہ کعبہ سے زیادہ شاہی مہمان خانہ اور کوئی نہیں ہے۔مولانا غلام غوث ہزاروی مانسہرہ کے مضافات میں پیدا ہوئے تھے، صوبے بھر میں مڈل کا امتحان اول پوزیشن میں پاس کیا۔ دیوبند گئے وہاں بھی اول پوزیشن میں پاس ہوئے۔ جمعیت طلبا کی داغ بیل ڈالی اور سیاست اور اسلام کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کے نزدیک سیاست وہی اچھی جیسی خدا تعالیٰ کا حکم ہے، بڑے بڑے فتنوں کی سرکوبی کے لیے شیر کی مانند کھڑے رہے۔


ایک اہم واقعہ یوں ہے کہ حیدرآباد دکن کے ایک چوراہے پر ایک شیر کا بت نصب تھا، وہ دھات کا بنا ہوا تھا، بت کے پیٹ میں خالی جگہ تھی اس کے بارے مختلف باتیں مشہور تھیں اس کو لوگ حاجت روا مشکل کشا وغیرہ سمجھتے، لوگ دور دور سے آتے چڑھاوے چڑھاتے، ہندو، مسلم اور کمزور عقیدے کے حضرات سب اسی وہم میں مبتلا تھے۔ مولانا اپنے اساتذہ کے حکم و ہدایت پر حیدرآباد دکن گئے اور سال بھر میں اسے توڑ ڈالا جس پر جاہل کمزور عقیدے کے پیر اور مولویوں نے ایک طوفان کھڑا کردیا۔ ایک جانب کمزور عقیدے کے ساتھ طاقتور حضرات تھے تو دوسری جانب مولانا کی ایک چھوٹی سی سیرت کمیٹی۔ یہ دور مولانا کے لیے بڑا مشکل تھا، گھر پر پتھراؤ روزانہ کا معمول بن چکا تھا لیکن آپ کے استقلال میں لغزش نہ آئی۔ اسی دوران سیکڑوں ہندو خواتین چھپ چھپ کر مولانا کی اہلیہ کے ہاتھ اسلام قبول کرتی ہیں اور مسائل سیکھے۔

مولانا صاحب نے اسمبلی میں ایصال ثواب کے اسلامی طریقے کو پاس کرایا، جوانی میں آپ فرنگیوں کے سامنے تن کر کھڑے ہوئے، صعوبتیں برداشت کیں، قید و بند جھیلی۔ سیاسی طور پر آپ احرار الاسلام میں شامل تھے، تقسیم ملک کے مسئلے پر آپ نے احرار کے موقف کی حمایت کی تھی لیکن پاکستان کے قیام کے بعد آپ نے اعلان کیا کہ ہمارا اختلاف محض سیاسی تھا اور ہم مسلمانوں کا مفاد اسی میں سمجھتے تھے لیکن اب جب کہ پاکستان بن چکا ہے، ہم اس کو باقی رکھنے اس کو محفوظ بنانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

آپ حکیم تھے لیکن دینی کاموں کی کثرت کی وجہ سے اسے وقت نہ دے سکے۔ آپ سیاسی میدان کے توانا رکن تھے لیکن حکومت سے ملنے والی آمدنی، امدادی کاموں پر خرچ کردیتے کہ یہ نوکری آج ہے کل ہو نہ ہو۔ ہم عادت کیوں خراب کریں اپنی۔ نہ اپنا ذاتی مکان، نہ خون، نہ گاڑی، نہ دربان نہ کہیں پلاٹ حاصل کیا نہ کوٹھی نام کرائی، وراثت میں جو والد مرحوم نے گھر چھوڑا بس وہی تھا۔

آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں مادیت پرستی، فرقہ واریت، عصبیت کا زہر، کرپشن کی آگ، کیا کیا ستم ہیں جو ہم نے خود اپنے اوپر لاگو کر رکھے ہیں۔ عوام، عوامی کرسی اور افسری کرسی والوں کے درمیان کتنی دراڑیں پڑ چکی ہیں ان کو پاٹنے کے لیے کتنا وقت درکار ہے کتنی رقم درکار ہے؟ لیکن دلوں میں پڑنے والی نفرت کی لکیریں کیسے دور ہوں گی اس کے لیے اپنے آلودہ دلوں کو صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی صفائی نہ کرنے کے سو بہانے۔ ہم تو گناہ گار ہیں۔ خدا ہماری کب سنتا ہے۔ خدا تو نیک لوگوں کی سنتا ہے۔ ہم تو سر سے پیر گناہوں میں آلودہ ہیں۔ اب دعا کے لیے ہاتھ نہیں اٹھتے۔ دعا کر کرکے تھک گئے۔ مولانا غلام غوث ہزاروی ایک مثال ہیں ایسا روشن دیا جس کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے کہ اس جدید دور میں بھی ایسے لوگ گزرے ہیں جو خدا کے بندوں کی خدمت کرنا جانتے تھے۔ یقینا بہت سے اب بھی ہیں جو خدمت کر رہے ہیں، کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی تعداد میں اضافے کی ضرورت ہے، اپنے اپنے دلوں میں ان دیوں کو روشن کرنے کی ضرورت ہے اس کے لیے دعا کے سرے کو مضبوطی سے پکڑیے کہ ہدایت دینے والا بہت وسیع ہے، آہستہ آہستہ شر کے در بند اور خیر کے در کھلتے جائیں گے، شروع تو کریں کہ ترقی کے راستے میں برکت لازمی ہے۔
Load Next Story