آپ جانیں آپ کا کام جانے
میں چار سال خضدار میں رہا۔ وہاں پوسٹنگ ریڈیو پر دو سال کے لیے ہوا کرتی تھی۔
FAISALABAD:
میں چار سال خضدار میں رہا۔ وہاں پوسٹنگ ریڈیو پر دو سال کے لیے ہوا کرتی تھی۔ عموماً لوگ اس سے پہلے ہی رو پیٹ کر داد فریاد کرکے آجایا کرتے تھے۔ میں طبیعتاً مشکل پسند ہوں، مشکل نہیں ہوں۔ لہٰذا خود درخواست کرکے اسلام آباد ہیڈ کوارٹر سے اپنا تبادلہ وہاں کروایا۔ ہیڈ کوارٹر تو بے حد خوش کہ خود ہی جیل جانے کی فرمائش کردی میں نے، وہاں ایک صاحب آٹھ آٹھ آنسو رو رہے تھے صبح شام، تعلق ان کا کراچی سے تھا تو یوں دونوں مسئلے میری درخواست نے حل کردیے۔
قصہ طولانی ہے مختصر یہ کہ میری سیاحتی اور سفر پسند طبیعت نے ہیڈ کوارٹر کے بار بار کہنے پر بھی وہاں سے تبادلے کی درخواست نہیں دی اور چار سال بعد جب وہاں ایسے لوگ آنے لگے جو طبیعت کو بالکل نہیں پسند آئے تو واپسی کی راہ لی۔ خضدار میں بہت خوبصورتی ہے، جاذبیت ہے، حسن ہے مگر اس کے لیے کم ازکم مجھ جیسا آدمی چاہیے جو اسے محسوس کرسکے۔ تو کبھی بات کریں گے اس پر۔ خضدار یوں مجھے یاد آیا کہ وہاں پانی کے چھوٹے چھوٹے اور بڑے چشمے اور Deposits ہیں۔جن میں درمیانے سائز سے لے کر چھوٹی چھوٹی مچھلیاں اور مینڈک ہیں۔ وہاں دو طرح کے مینڈک ہیں ایک وہ جو پانی میں پائے جاتے ہیں سیاہ رنگ کے اور ایک وہ جو خشکی پر پھدکتے رہتے ہیں بھورے رنگ کے، یہ مینڈک بھی یوں یاد آئے کہ برسات ہوجائے تو یہ سارے زمین پر پھیل جاتے ہیں With Family۔پانی والے تیز طرار ان کو تو آپ چھو بھی نہیں سکتے۔
یہ بھورے والے ہمارے سیاستدانوں کی طرح ''بھاری بھرکم'' ہاتھ میں پکڑیں تو خوف سے کچھ ''اخراج'' ہوجائے گا مینڈک سے۔تو موازنہ میں نے کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ جو پانی والے مینڈک ہیں یہ تو دنیا بھر کے جو بھی بہترین سیاستدان یا لیڈرز ہیں جو ہر وقت چاق و چوبند اور چوکنا رہتے ہیں اپنی قوم کے لیے اور یہ جو بھورے والے ہیں یہ ہمارے سیاستدان ہیں جو ''کھا کھا'' کر غم کے نام پر قوم کا مال ''لدھڑ'' ہوجاتے ہیں اور ایئر کنڈیشنڈ قومی اسمبلی میں۔۔۔۔۔ جانے دیجیے! یہ مجھے کیوں یاد آئے اس کا ایک بہت تکلیف دہ سبب ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ اس بات پر جھگڑے کر رہے ہیں، فلاں کو پکڑا تو جنگ ہوجائے گی۔ فلاں کی گرفتاری سے استحکام پاکستان کو خطرات لاحق ہوجائیں گے، جواب آتا ہے کہ جب ہم کہہ رہے تھے کہ یہ غلط ہے تو آپ خوشی کے شادیانے بجا رہے تھے، کوئی کہہ رہا ہے کہ کیا کرپشن صرف یہاں ہے، وہاں نہیں ہے کیا، وہ اپنوں کے خلاف کارروائی کب کریں گے۔
بتائیے ذرا یہاں یہ واضح کردیں کہ ان کی نظر میں ہر بار اس صوبے کے لیے ان کے بعد صرف ان کے اپنے ہی صوبائی سربراہ ہوں گے پورے صوبے میں باقی سب نالائق ہیں تو آپ کس بنیاد پر ان سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں وہ تو آپس میں پارٹنر ہیں بلکہ بزنس پارٹنر بھی ہیں۔ اسے ہم تینوں بھی کہہ سکتے ہیں یعنی تین ہرنوں کی ''ڈار'' ہم نہ اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں نہ ان کے موقف کو سراہ سکتے ہیں کیونکہ اس ''سیاسی حمام'' میں سب۔۔۔۔؟ اس کے علاوہ جھگڑے چل رہے ہیں نیا کھیل تو عمران خان نے شروع کیا تھا ''استعفیٰ استعفیٰ'' اس میں برابری کا اصول ہے، استعفیٰ دینا بھی ہے۔
لینا بھی ہے۔ لینا سب سے ہے دینا صرف اسمبلی سے ہے ایسا کہ Speaker ہی بند ہوگیا، یعنی ان کا انتخاب کالعدم ہوگیا اور اب وہ نہ ''ادھر کے رہے'' نہ ''اُدھر کے رہے'' پھر دوسری پارٹی نے بھی وہی راہ اختیارکی، بیانات اپنے اپنے اور معاملات بھی اپنے اپنے، کردار کا ایک ہی مقام نہیں ہوتا یہ تو ایک Package ہے جس میں ذاتی کردار بھی شامل ہوتا ہے خصوصاً پارٹی سربراہ کا، تو ایک انگلی کسی کی طرف اٹھائیں تو چار اپنی طرف ہوتی ہیں یہ تو سب جانتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر سب کے راز کھل رہے ہیں، فیصل رضا عابدی ٹی وی پر بھید کھول رہے ہیں اور خاصے جاندار دلائل رکھتے ہیں وہ جن کا کوئی جواب کہیں سے نہیں آتا۔ ''مولانا مفاہمت'' نے اپنا کام کردیا۔
یہ مفاہمتی کردار مہنگا پڑے گا یا سستا یہ وقت بتائے گا۔ قوم کے کاموں کے علاوہ قوم کے ووٹوں سے منتخب یہ نمایندے سب کام کر رہے ہیں اور قوم ''زبوں حالی'' سے ''بدحالی'' تک پہنچ چکی ہے اور اس حالت کے دوران دشمن وار کر رہا ہے جس سے سب کی آنکھیں بند ہیں، سوشل میڈیا کو غور سے کوئی نہیں دیکھ رہا صرف اپنا کام اور نام دیکھ رہے ہیں۔ سرحدوں پر دشمن نے آفت مچا رکھی ہے پچاسوں شہری شہید ہوچکے ہیں، دوستی کی باتیں اب بھی اندرون خانہ ہیں کہ بزنس کرنا ہے۔ بیان ظاہری ہے کیونکہ اس کی ٹائمنگ بتا رہی ہے کہ یہ بیان یہاں سے نہ آتا تو کہیں اور سے آتا۔
لہٰذا فوراً یہ بیان دے دیا گیا کیونکہ ''کوئی'' زخمیوں کی عیادت کے لیے سرحدی علاقوں میں چلا گیا تھا۔ ہمارا مقصود یہ نہیں ہے ہم اس کے ذیل میں ایک اور بات بتا رہے ہیں کہ سوشل میڈیا پر قرآن اور مسلمانوں کے خلاف ایک مذموم مہم چل رہی ہے جس کا مقصد وہی ہے جو کفار مکہ کا تھا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نمایندے اسمبلیوں میں یا سو رہے ہیں یا ''لڑ'' رہے ہیں، مفادات پر اور یہاں دشمن گہری سازش کر رہا ہے۔ ''رشدی'' کے شاگردوں نے پاکستان میں کام شروع کردیا ہے مجھے پورا یقین ہے کہ اس کے پس منظر میں اسرائیل اور بھارت کے علاوہ بھی ممالک ہیں، بہت قریبی ملک کیونکہ اس پر کہیں سے آواز نہیں اٹھ رہی۔
داعش اور دوسرے فسادی لوگوں کا یہ دوسرا پلان لگتا ہے کہ جس کے ذریعے ملک کے کم پڑھے لکھے ذہنوں کو اور ''آزاد، ترقی پسند'' اور نہ جانے کیا کیا نام اور لبادے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ کوئی تردید نہیں ہے کوئی جواب نہیں ہے لہٰذا کم علم اور کم عمر لوگوں کا متاثر ہونا لازمی ہے اور اس طرح جہادی گروپوں کو وہ تمام لوگ مل جائیں گے معاشرے کے اندر جہاں وہ اپنی ''شرارت اور فساد'' کا بیج بوچکے ہیں شاید۔ اور ہمارے راہ نما سو رہے ہیں، حکومت ''مست'' ہے قرضوں پر قرضے مل رہے ہیں کوئی ''خزانہ'' بھر رہا ہے کہاں کا پتہ نہیں۔ ادھر بھی دیکھ لو، یہ قبر میں آگ بھرنے کا سامان بھی آپ کر رہے ہو۔
اگر آپ توجہ نہیں دو گے اور لوگ بھٹک گئے تو آپ ذمے دار ہو۔ سوال آپ سے ہی کیا جائے گا کہ ''ہم نے تمہیں زمین میں اختیار دیا تھا تو تم نے مفاد عامہ میں کیا کام کیے؟'' یہ قانون ہے قدر کا وہ طاقت اور اختیار دیتا ہے مگر اس کی ''پکڑ'' بھی سخت ہے، شروع تو ہوچکی ہے۔کون جانے کہاں تک جائے۔ قدرت کا فیصلہ صرف قدرت ہی بدل سکتی ہے۔ ابھی وقت ہے ان ایمان ودین کے دشمنوں کو پکڑ کے قرار واقعی سزا دے دو تاکہ آپ ''سزا'' سے بچ سکو۔ اس کی ''سزا'' بہت سخت ہے دنیا میں ہی بچ جاؤ اس سزا سے، کچھ اچھا کرکے، عوام کی خدمت کرکے، خدا کا خوف کرکے۔ ہمارا کام تھا آپ کو بتانا، سو ہم نے پورا کیا اب ہم بری الذمہ ، آپ جانیں آپ کا کام جانے۔
میں چار سال خضدار میں رہا۔ وہاں پوسٹنگ ریڈیو پر دو سال کے لیے ہوا کرتی تھی۔ عموماً لوگ اس سے پہلے ہی رو پیٹ کر داد فریاد کرکے آجایا کرتے تھے۔ میں طبیعتاً مشکل پسند ہوں، مشکل نہیں ہوں۔ لہٰذا خود درخواست کرکے اسلام آباد ہیڈ کوارٹر سے اپنا تبادلہ وہاں کروایا۔ ہیڈ کوارٹر تو بے حد خوش کہ خود ہی جیل جانے کی فرمائش کردی میں نے، وہاں ایک صاحب آٹھ آٹھ آنسو رو رہے تھے صبح شام، تعلق ان کا کراچی سے تھا تو یوں دونوں مسئلے میری درخواست نے حل کردیے۔
قصہ طولانی ہے مختصر یہ کہ میری سیاحتی اور سفر پسند طبیعت نے ہیڈ کوارٹر کے بار بار کہنے پر بھی وہاں سے تبادلے کی درخواست نہیں دی اور چار سال بعد جب وہاں ایسے لوگ آنے لگے جو طبیعت کو بالکل نہیں پسند آئے تو واپسی کی راہ لی۔ خضدار میں بہت خوبصورتی ہے، جاذبیت ہے، حسن ہے مگر اس کے لیے کم ازکم مجھ جیسا آدمی چاہیے جو اسے محسوس کرسکے۔ تو کبھی بات کریں گے اس پر۔ خضدار یوں مجھے یاد آیا کہ وہاں پانی کے چھوٹے چھوٹے اور بڑے چشمے اور Deposits ہیں۔جن میں درمیانے سائز سے لے کر چھوٹی چھوٹی مچھلیاں اور مینڈک ہیں۔ وہاں دو طرح کے مینڈک ہیں ایک وہ جو پانی میں پائے جاتے ہیں سیاہ رنگ کے اور ایک وہ جو خشکی پر پھدکتے رہتے ہیں بھورے رنگ کے، یہ مینڈک بھی یوں یاد آئے کہ برسات ہوجائے تو یہ سارے زمین پر پھیل جاتے ہیں With Family۔پانی والے تیز طرار ان کو تو آپ چھو بھی نہیں سکتے۔
یہ بھورے والے ہمارے سیاستدانوں کی طرح ''بھاری بھرکم'' ہاتھ میں پکڑیں تو خوف سے کچھ ''اخراج'' ہوجائے گا مینڈک سے۔تو موازنہ میں نے کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ جو پانی والے مینڈک ہیں یہ تو دنیا بھر کے جو بھی بہترین سیاستدان یا لیڈرز ہیں جو ہر وقت چاق و چوبند اور چوکنا رہتے ہیں اپنی قوم کے لیے اور یہ جو بھورے والے ہیں یہ ہمارے سیاستدان ہیں جو ''کھا کھا'' کر غم کے نام پر قوم کا مال ''لدھڑ'' ہوجاتے ہیں اور ایئر کنڈیشنڈ قومی اسمبلی میں۔۔۔۔۔ جانے دیجیے! یہ مجھے کیوں یاد آئے اس کا ایک بہت تکلیف دہ سبب ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ اس بات پر جھگڑے کر رہے ہیں، فلاں کو پکڑا تو جنگ ہوجائے گی۔ فلاں کی گرفتاری سے استحکام پاکستان کو خطرات لاحق ہوجائیں گے، جواب آتا ہے کہ جب ہم کہہ رہے تھے کہ یہ غلط ہے تو آپ خوشی کے شادیانے بجا رہے تھے، کوئی کہہ رہا ہے کہ کیا کرپشن صرف یہاں ہے، وہاں نہیں ہے کیا، وہ اپنوں کے خلاف کارروائی کب کریں گے۔
بتائیے ذرا یہاں یہ واضح کردیں کہ ان کی نظر میں ہر بار اس صوبے کے لیے ان کے بعد صرف ان کے اپنے ہی صوبائی سربراہ ہوں گے پورے صوبے میں باقی سب نالائق ہیں تو آپ کس بنیاد پر ان سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں وہ تو آپس میں پارٹنر ہیں بلکہ بزنس پارٹنر بھی ہیں۔ اسے ہم تینوں بھی کہہ سکتے ہیں یعنی تین ہرنوں کی ''ڈار'' ہم نہ اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں نہ ان کے موقف کو سراہ سکتے ہیں کیونکہ اس ''سیاسی حمام'' میں سب۔۔۔۔؟ اس کے علاوہ جھگڑے چل رہے ہیں نیا کھیل تو عمران خان نے شروع کیا تھا ''استعفیٰ استعفیٰ'' اس میں برابری کا اصول ہے، استعفیٰ دینا بھی ہے۔
لینا بھی ہے۔ لینا سب سے ہے دینا صرف اسمبلی سے ہے ایسا کہ Speaker ہی بند ہوگیا، یعنی ان کا انتخاب کالعدم ہوگیا اور اب وہ نہ ''ادھر کے رہے'' نہ ''اُدھر کے رہے'' پھر دوسری پارٹی نے بھی وہی راہ اختیارکی، بیانات اپنے اپنے اور معاملات بھی اپنے اپنے، کردار کا ایک ہی مقام نہیں ہوتا یہ تو ایک Package ہے جس میں ذاتی کردار بھی شامل ہوتا ہے خصوصاً پارٹی سربراہ کا، تو ایک انگلی کسی کی طرف اٹھائیں تو چار اپنی طرف ہوتی ہیں یہ تو سب جانتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر سب کے راز کھل رہے ہیں، فیصل رضا عابدی ٹی وی پر بھید کھول رہے ہیں اور خاصے جاندار دلائل رکھتے ہیں وہ جن کا کوئی جواب کہیں سے نہیں آتا۔ ''مولانا مفاہمت'' نے اپنا کام کردیا۔
یہ مفاہمتی کردار مہنگا پڑے گا یا سستا یہ وقت بتائے گا۔ قوم کے کاموں کے علاوہ قوم کے ووٹوں سے منتخب یہ نمایندے سب کام کر رہے ہیں اور قوم ''زبوں حالی'' سے ''بدحالی'' تک پہنچ چکی ہے اور اس حالت کے دوران دشمن وار کر رہا ہے جس سے سب کی آنکھیں بند ہیں، سوشل میڈیا کو غور سے کوئی نہیں دیکھ رہا صرف اپنا کام اور نام دیکھ رہے ہیں۔ سرحدوں پر دشمن نے آفت مچا رکھی ہے پچاسوں شہری شہید ہوچکے ہیں، دوستی کی باتیں اب بھی اندرون خانہ ہیں کہ بزنس کرنا ہے۔ بیان ظاہری ہے کیونکہ اس کی ٹائمنگ بتا رہی ہے کہ یہ بیان یہاں سے نہ آتا تو کہیں اور سے آتا۔
لہٰذا فوراً یہ بیان دے دیا گیا کیونکہ ''کوئی'' زخمیوں کی عیادت کے لیے سرحدی علاقوں میں چلا گیا تھا۔ ہمارا مقصود یہ نہیں ہے ہم اس کے ذیل میں ایک اور بات بتا رہے ہیں کہ سوشل میڈیا پر قرآن اور مسلمانوں کے خلاف ایک مذموم مہم چل رہی ہے جس کا مقصد وہی ہے جو کفار مکہ کا تھا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نمایندے اسمبلیوں میں یا سو رہے ہیں یا ''لڑ'' رہے ہیں، مفادات پر اور یہاں دشمن گہری سازش کر رہا ہے۔ ''رشدی'' کے شاگردوں نے پاکستان میں کام شروع کردیا ہے مجھے پورا یقین ہے کہ اس کے پس منظر میں اسرائیل اور بھارت کے علاوہ بھی ممالک ہیں، بہت قریبی ملک کیونکہ اس پر کہیں سے آواز نہیں اٹھ رہی۔
داعش اور دوسرے فسادی لوگوں کا یہ دوسرا پلان لگتا ہے کہ جس کے ذریعے ملک کے کم پڑھے لکھے ذہنوں کو اور ''آزاد، ترقی پسند'' اور نہ جانے کیا کیا نام اور لبادے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ کوئی تردید نہیں ہے کوئی جواب نہیں ہے لہٰذا کم علم اور کم عمر لوگوں کا متاثر ہونا لازمی ہے اور اس طرح جہادی گروپوں کو وہ تمام لوگ مل جائیں گے معاشرے کے اندر جہاں وہ اپنی ''شرارت اور فساد'' کا بیج بوچکے ہیں شاید۔ اور ہمارے راہ نما سو رہے ہیں، حکومت ''مست'' ہے قرضوں پر قرضے مل رہے ہیں کوئی ''خزانہ'' بھر رہا ہے کہاں کا پتہ نہیں۔ ادھر بھی دیکھ لو، یہ قبر میں آگ بھرنے کا سامان بھی آپ کر رہے ہو۔
اگر آپ توجہ نہیں دو گے اور لوگ بھٹک گئے تو آپ ذمے دار ہو۔ سوال آپ سے ہی کیا جائے گا کہ ''ہم نے تمہیں زمین میں اختیار دیا تھا تو تم نے مفاد عامہ میں کیا کام کیے؟'' یہ قانون ہے قدر کا وہ طاقت اور اختیار دیتا ہے مگر اس کی ''پکڑ'' بھی سخت ہے، شروع تو ہوچکی ہے۔کون جانے کہاں تک جائے۔ قدرت کا فیصلہ صرف قدرت ہی بدل سکتی ہے۔ ابھی وقت ہے ان ایمان ودین کے دشمنوں کو پکڑ کے قرار واقعی سزا دے دو تاکہ آپ ''سزا'' سے بچ سکو۔ اس کی ''سزا'' بہت سخت ہے دنیا میں ہی بچ جاؤ اس سزا سے، کچھ اچھا کرکے، عوام کی خدمت کرکے، خدا کا خوف کرکے۔ ہمارا کام تھا آپ کو بتانا، سو ہم نے پورا کیا اب ہم بری الذمہ ، آپ جانیں آپ کا کام جانے۔