یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود

اپنی رام کہانی سناتے ہوئے اس جیب کترے نے جو عرصہ دراز قبل وفات پاچکا ہے

S_afarooqi@yahoo.com

KARACHI:
پشاور کے نومنتخب ناظم ارباب عاصم خاں ابھی حلف اٹھا کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ ہاتھ کی صفائی کے ماہرکسی جیب تراش نے موصوف کی جیب کاٹ لی۔ سر منڈاتے ہی اولے پڑنا اس کوکہتے ہیں۔ اس واقعے پر ہمیں ایک فلمی گیت کے بول یاد آگئے:

مسکرا بھی نہ پائے تھے تمنا ٹوٹ گئی

ہمیں ارباب صاحب کے ساتھ دلی ہمدردی ہے جس کا بھرپور اور برملا اظہار ہم بوجوہ کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ جیب تراشی کے واقعات ہمارے ساتھ دو مرتبہ پیش آچکے ہیں۔ ایک مرتبہ ہماری جیب اس وقت کٹی جب ہم صبح کے وقت مسافروں سے کھچاکھچ بھری ہوئی ،کراچی کی ایک بس میں بے بسی کی کیفیت میں سفرکر رہے تھے۔

ظالم جیب تراش نے ہماری اوقات کا بخوبی اندازہ کرلیا اور ہماری بے بسی کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ دوسری مرتبہ ہماری جیب کراچی کی ایک مشہور و معروف مسجد میں کٹی جہاں ہم نماز عصر ادا کرنے کے بعد ایک تقریب نکاح میں شرکت کی غرض سے موجود تھے۔ اس مرتبہ جیب تراش سے یہ شدید گلہ تھا کہ ظالم نے خانہ خدا کا بھی کوئی لحاظ نہیں کیا۔

اس پر ہمیں وہ جیب کترا یاد آرہا ہے جو بمبئی سے نقل مکانی کرکے کراچی میں آباد ہوگیا تھا۔ بنارس کے ٹھگ اور بمبئی کے جیب کترے برصغیر میں بہت مشہور ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں ایک پرانی انڈین فلم کے ایک مقبول گانے کے یہ بول یاد آرہے ہیں:

سنبھل کے یہ باجے ہے
نگر ہوشیاروں کا
ادھر آنکھ جھپکائی اور
ادھر مال یاروں کا

اپنی رام کہانی سناتے ہوئے اس جیب کترے نے جو عرصہ دراز قبل وفات پاچکا ہے، ہمیں بڑا ہی دلچسپ اورسبق آموز واقعہ سنایا تھا۔ ایک روز وہ بہت پریشان تھا کیونکہ گھر میں فاقہ کشی کی نوبت آچکی تھی۔ پریشانی کی یہ کیفیت اسے سڑک پار کی ایک مسجد میں لے گئی جہاں اس نے نماز ادا کی اور اس کے بعد گڑگڑا کر مالک حقیقی سے دعا کی کہ ''پروردگار! دلا دے کوئی شکار'' یہ دعا مانگنے کے بعد اس نے سڑک عبورکی اور ایک بس اسٹاپ پر اپنے شکار کے انتظار میں کھڑا ہوگیا۔

چند ہی منٹ بعد ایک بس آگئی اور وہ جھٹ پٹ اس میں سوار ہوگیا۔ جلد ہی اس نے ہاتھوں کی صفائی دکھائی اور ایک شخص کی جیب کاٹ کر اگلے اسٹاپ پر بس سے نیچے اتر آیا۔ معاً اسے خیال آیا کہ جس شخص کی اس نے جیب کاٹی تھی اس کے حلیے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ کوئی مفلوک الحال قسم کا انسان تھا اور جتنی رقم اس کی جیب سے برآمد ہوئی تھی وہ اس کی ذاتی کمائی ہرگز نہیں ہوسکتی تھی۔


یقینا وہ کسی مال دار شخص یا کسی بڑی کمپنی کا کوئی معمولی ملازم رہا ہوگا۔ چنانچہ اس واقعے کا انجام یہ ہوگا کہ اس ناکردہ گناہ کی پاداش میں اسے اس کی ملازمت سے فارغ کردیا جائے گا جس کا خمیازہ اس کے بے قصور بال بچوں کو بھگتنا پڑے گا۔ اس خیال کے آتے ہی جیب کترا دیوانوں کی طرح اس بس کے تعاقب میں بھاگنے لگا مگر دیکھتے ہی دیکھتے بس اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوگئی۔

یہ واقعہ اس کی زندگی کا Turning Point بن گیا جس نے ایک انقلاب برپا کردیا۔ اسے رہ رہ کر یہ خیال کچوکے لگا رہا تھا کہ کاش اس نے عبادت کے بعد رزق حلال کی دعا مانگ لی ہوتی۔اس نے تہیہ کرلیا کہ خواہ وہ اور اس کے تمام گھر والے لقمہ اجل بن جائیں اب وہ حرام نوالہ نہ خود کھائے گا اور نہ اپنے بال بچوں کو کھلائے گا۔

اس واقعے نے اس کی زندگی کا رخ ہی بدل دیا۔ اس نے ادھار قرض لے کر ایک چھوٹے سے کاروبار کا ڈول ڈالا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی حلال کمائی میں برکت عطا فرمادی۔ ایک مرتبہ اس نے ہمیں جیب تراشی سے متعلق یہ دلچسپ واقعہ بھی سنایا کہ ایک کمسن لڑکے نے کراچی کے ایک گنجان علاقے میں اس کے قریب سے ہوا کے جھونکے کی طرح گزرتے ہوئے اس کی جیب کاٹ کر اس کے تیس سالہ جیب تراشی کے تجربے پر لمحہ بھر میں پانی پھیر کر اس کی جیب نہیں بلکہ گویا اس کی ناک ہی کاٹ ڈالی۔

بہرحال ہمیں ارباب صاحب کی جیب کاٹنے والے جیب تراش کی ہنرمندی سے زیادہ اس کی جرأت مندی کی داد دینا پڑے گی کہ اگر اس کا وار اوچھا پڑ جاتا تو ارباب صاحب کے ہاتھوں اس کا کیا حشر ہوتا۔ عام سیاست دانوں کے بارے میں بدقسمتی سے یہ تاثر جڑ پکڑ چکا ہے کہ وہ اپنے عوام کی جیبیں کاٹتے ہیں۔

اس لیے اگر کوئی جیب تراش ان کی جیب کاٹ لے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ ہم بزرگوں سے یہ سنتے ہوئے آئے ہیں کہ ''مال حرام بود بہ جائے حرام رفت''۔ لیکن اگر کسی عوام دوست یا خادم عوام سیاست داں کی جیب کٹ جائے تو اس پر دکھ ہونا ایک فطری امر ہے۔ ہمارے عوامی سیاست داں شیخ رشید احمد کے ساتھ عرصہ دراز قبل اس قسم کا واقعہ پیش آچکا ہے جب 2012میں ایک ستم ظریف جیب تراش نے انھیں مبلغ 12 ہزار روپے سکہ رائج الوقت کی دولت سے محروم کردیا تھا۔ شیخ صاحب کے ساتھ یہ ہاتھ گجرانوالہ میں ہوا تھا۔

جیب تراشی اور الزام تراشی اگرچہ بہ ظاہر الگ الگ فن ہیں مگر ہمارے معاشرے میں دونوں کا چلن عام ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو یہ دونوں بدعتیں کہیں روایت کا درجہ نہ حاصل کرلیں۔ الزام تراشی نے تو ہماری سیاست نے Staple Food کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کی غالب اکثریت کو تو الزام تراشی کیے بنا کھانا ہی ہضم نہیں ہوتا۔

ایک زمانہ تھا کہ جب جیب تراشی کے واقعات اکا دکا ہی سننے میں آتے تھے اور وہ بھی میلوں ٹھیلوں اور بڑے بڑے اجتماعات میں۔ مگر اب تو یہ وبا اس قدر عام ہوچکی ہے کہ الامان والحفیظ۔ شادی بیاہ کے اجتماعات میں تو جیب تراشی روزمرہ کا معمول بن گئی ہے جس کے باعث خوشی کا یہ سماں ذرا دیر میں سوگ کی محفل میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی اخلاقی پستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ افسوس صد افسوس کہ ہم اخلاقی طور پر اتنے گر چکے ہیں کہ ہمارے یہاں جنازوں تک میں بھی جیب تراشی کے واقعات پیش آرہے ہیں۔

اپنے معاشرے کی اخلاقی پستی پر جتنا بھی ماتم کیا جائے وہ کم ہے۔ لوگوں کے دلوں سے خوف خدا اب اس حد تک ختم ہوچکا ہے کہ مساجد میں جوتے چرانے کی وارداتوں میں روز بہ روز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے بے چارے نمازی نہ صرف اپنے جوتے اپنے ساتھ لے جانے بلکہ اپنی اگلی جانب رکھنے پر بھی مجبور ہوچکے ہیں۔ اس پر ہمیں اپنے ایک دوست سے ایک غیر مسلم کی جانب سے پوچھا جانے والا یہ معصومانہ سوال یاد آرہا ہے کہ ''کیا آپ لوگ مسجد میں جوتوں کی پوجا کرتے ہیں؟''

بلاشبہ مساجد خانہ خدا ہیں اور ان کا احترام ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اب اگر کوئی خانہ خدا میں جوتا چرانے کی جسارت کرے تو اسے آپ کیا کہیے گا؟ عام مساجد تو درکنار، نام نہاد مسلمانوں کی اخلاقی پستی کا عالم اس سے بڑھ کر بھلا اورکیا ہوسکتا ہے کہ خانہ کعبہ جیسی مقدس ترین جگہ پر بھی جیب تراشی کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ اقبال کے الفاظ میں ایسی صورتحال کے بارے میں اس کے سوائے اب اور کیا کہا جاسکتا ہے:

یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
Load Next Story