نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد …وقت کا تقاضا
دہشت گردی اور فرقہ واریت ہم سب کا مسئلہ ہے اور اسے ہمیں ہی حل کرنا ہے
WASHINGTON:
وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں گزشتہ روز نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لیے اہم اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس وزارت داخلہ کے زیر اہتمام تھا جس میں پاکستان کے دینی مدارس کی پانچ تنظیموں کے اتحاد جسے تنظیمات المدارس کہا جاتا ہے کے نمایندہ علماء نے شرکت کی۔
اخباری اطلاعات کے مطابق یہ اجلاس دو سیشنز میں ہوا۔ پہلے سیشن کی صدارت وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کی جب کہ دوسرے دور کی صدارت وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کی جس میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں تمام مکاتب فکر کے علماء نے شرکت کی جن میں مولانا تقی عثمانی' مولانا حنیف جالندھری' مفتی منیب الرحمن' عبدالمصطفی ہزاروی' ساجد میر' مولانا یاسین ظفر' مولانا عبدالمالک' ڈاکٹر مولانا عطاء الرحمان' قاضی نیاز حسین نقوی اور ڈاکٹر سید محمد نجفی شامل ہیں۔
10 ستمبر کو دوبارہ اجلاس ہو گا جس میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ بھی شریک ہوں گے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ فرقہ واریت کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، ایک دوسرے کو کافر اور واجب القتل کہنے، قتل پر اکسانے، نفرت انگیز تقاریر پر ریاست کارروائی کریگی، مدارس کے نصاب اور متعلقہ معاملات کو طے کرنے، مدارس کی آسان رجسٹریشن کے لیے فارم بنانے کے لیے علیحدہ علیحدہ کمیٹیاں بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ مدارس کے حوالے سے قانون سازی اتحاد تنظیمات المدارس کی مشاورت سے کی جائے گی۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے اہم ایجنڈے کے متفقہ نکات پر بتدریج عمل کیا جا رہا ہے اور اس ایجنڈے کی سیاست سے بالاتر ہو کر تکمیل چاہتے ہیں، مدارس میں اصلاحات کے لیے ہر قسم کی مدد کو تیار ہیں، ہمیں مل جل کر امن قائم کرنا ہو گا اور دہشت گردی اور فرقہ واریت کے زہر کو ختم کرنا ہو گا۔
دہشت گردی اور فرقہ واریت ہم سب کا مسئلہ ہے اور اسے ہمیں ہی حل کرنا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کا مقصد بھی ملک میں جاری دہشت گردی اور فرقہ واریت کا خاتمہ کرنا ہے لہٰذا اس پر پوری توجہ اور تندہی سے عمل کیا جانا چاہیے۔ اجلاس میں حکومت اور علمائے کرام کا رویہ اور طرز عمل انتہائی مثبت رہا ہے۔ علمائے کرام نے ہمیشہ قوم کی رہنمائی کی ہے اور آج ان کے اس کردار کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
ملک میں دہشت گردوں کو پھلنے پھولنے کا موقع اس لیے ملا کہ بعض حضرات مختلف حوالوں سے ان کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے میں لگے رہے' اس نظریاتی ابہام نے قوم کو تقسیم کیا۔ اس تقسیم کا فائدہ دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ملوث قوتوں نے اٹھایا اور قوم کو بے پناہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا یہ کہنا بجا ہے کہ ہم سب مل کر ملک کو دہشت گردی سے پاک کر رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں لڑی جانے والی جنگ کامیابی سے جاری ہے اور دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ ملک کو دہشت گردی سے محفوظ بنانے کے لیے ہم ایک دوسرے کے ساتھی ہیں' ہم ایک دوسرے کا تعاون چاہتے ہیں' مدارس حکومت سے تعاون کریں حکومت کی طرف سے بھی آپ کو مکمل تعاون حاصل ہو گا۔
یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ علماء و مشائخ کے تعاون اور حمایت سے ہی جیتی جا سکتی ہے۔ علمائے کرام و مشائخ عظام عوام کے دلوں پر اثر رکھتے ہیں' ہمارے علماء نے ہر مشکل وقت میں قوم کی رہنمائی کی ہے اور وہ اس مشکل ترین دور میں بھی اپنا تاریخی کردار نبھائیں گے۔ وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اجلاس میں بھی اتحاد تنظیمات المدارس کے علماء نے وزیراعظم کو نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا اور کہا کہ ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کے ساتھ ہیں اور ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہیں۔
یہ جذبہ قابل قدر ہے اور اسی جذبے کے تحت وطن عزیز کو شرپسندوں اور دہشت گردوں سے پاک کیا جا سکتا ہے' جہاں تک دینی مدارس کا تعلق ہے تو ان مدارس نے ہمیشہ دین کی سربلندی' عوام کی رہنمائی اور پاکستان کی بقاء اور سلامتی کے لیے رہنما کردار ادا کیا ہے لہٰذا علمائے کرام مدارس کی رجسٹریشن' مدارس کے مالی معاملات کے آڈٹ وغیرہ سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ایسا کرنا وقت کی ضرورت بھی ہے اور دینی مدارس کا امیج اور ساکھ بہتر بنانے کے لیے لازم بھی ہے۔
پاکستان کے دینی مدارس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے ہی ہم ایسے علماء تیار کر سکتے ہیں جو سائنسی علوم سے بھی بہرامند ہوں گے' سماجی علوم بھی ان کی دسترس میں ہوں گے اور وہ مذاہب کے تقابلی جائزے کا بھی اعلیٰ سطح کی فہم و شعور رکھتے ہوں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ علمائے کرام و مشائخ عظام کے ساتھ پورا تعاون کرے اور ان کے مطالبات اور تجاویزکو قبول کرے۔ اس طریقے سے ہی پاکستان دہشت گردی اور فرقہ واریت پر قابو پا سکتا ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عملدرآمد کیا جائے۔
وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں گزشتہ روز نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لیے اہم اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس وزارت داخلہ کے زیر اہتمام تھا جس میں پاکستان کے دینی مدارس کی پانچ تنظیموں کے اتحاد جسے تنظیمات المدارس کہا جاتا ہے کے نمایندہ علماء نے شرکت کی۔
اخباری اطلاعات کے مطابق یہ اجلاس دو سیشنز میں ہوا۔ پہلے سیشن کی صدارت وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کی جب کہ دوسرے دور کی صدارت وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کی جس میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں تمام مکاتب فکر کے علماء نے شرکت کی جن میں مولانا تقی عثمانی' مولانا حنیف جالندھری' مفتی منیب الرحمن' عبدالمصطفی ہزاروی' ساجد میر' مولانا یاسین ظفر' مولانا عبدالمالک' ڈاکٹر مولانا عطاء الرحمان' قاضی نیاز حسین نقوی اور ڈاکٹر سید محمد نجفی شامل ہیں۔
10 ستمبر کو دوبارہ اجلاس ہو گا جس میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ بھی شریک ہوں گے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ فرقہ واریت کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، ایک دوسرے کو کافر اور واجب القتل کہنے، قتل پر اکسانے، نفرت انگیز تقاریر پر ریاست کارروائی کریگی، مدارس کے نصاب اور متعلقہ معاملات کو طے کرنے، مدارس کی آسان رجسٹریشن کے لیے فارم بنانے کے لیے علیحدہ علیحدہ کمیٹیاں بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ مدارس کے حوالے سے قانون سازی اتحاد تنظیمات المدارس کی مشاورت سے کی جائے گی۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے اہم ایجنڈے کے متفقہ نکات پر بتدریج عمل کیا جا رہا ہے اور اس ایجنڈے کی سیاست سے بالاتر ہو کر تکمیل چاہتے ہیں، مدارس میں اصلاحات کے لیے ہر قسم کی مدد کو تیار ہیں، ہمیں مل جل کر امن قائم کرنا ہو گا اور دہشت گردی اور فرقہ واریت کے زہر کو ختم کرنا ہو گا۔
دہشت گردی اور فرقہ واریت ہم سب کا مسئلہ ہے اور اسے ہمیں ہی حل کرنا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کا مقصد بھی ملک میں جاری دہشت گردی اور فرقہ واریت کا خاتمہ کرنا ہے لہٰذا اس پر پوری توجہ اور تندہی سے عمل کیا جانا چاہیے۔ اجلاس میں حکومت اور علمائے کرام کا رویہ اور طرز عمل انتہائی مثبت رہا ہے۔ علمائے کرام نے ہمیشہ قوم کی رہنمائی کی ہے اور آج ان کے اس کردار کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
ملک میں دہشت گردوں کو پھلنے پھولنے کا موقع اس لیے ملا کہ بعض حضرات مختلف حوالوں سے ان کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے میں لگے رہے' اس نظریاتی ابہام نے قوم کو تقسیم کیا۔ اس تقسیم کا فائدہ دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ملوث قوتوں نے اٹھایا اور قوم کو بے پناہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا یہ کہنا بجا ہے کہ ہم سب مل کر ملک کو دہشت گردی سے پاک کر رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں لڑی جانے والی جنگ کامیابی سے جاری ہے اور دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ ملک کو دہشت گردی سے محفوظ بنانے کے لیے ہم ایک دوسرے کے ساتھی ہیں' ہم ایک دوسرے کا تعاون چاہتے ہیں' مدارس حکومت سے تعاون کریں حکومت کی طرف سے بھی آپ کو مکمل تعاون حاصل ہو گا۔
یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ علماء و مشائخ کے تعاون اور حمایت سے ہی جیتی جا سکتی ہے۔ علمائے کرام و مشائخ عظام عوام کے دلوں پر اثر رکھتے ہیں' ہمارے علماء نے ہر مشکل وقت میں قوم کی رہنمائی کی ہے اور وہ اس مشکل ترین دور میں بھی اپنا تاریخی کردار نبھائیں گے۔ وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اجلاس میں بھی اتحاد تنظیمات المدارس کے علماء نے وزیراعظم کو نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا اور کہا کہ ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کے ساتھ ہیں اور ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہیں۔
یہ جذبہ قابل قدر ہے اور اسی جذبے کے تحت وطن عزیز کو شرپسندوں اور دہشت گردوں سے پاک کیا جا سکتا ہے' جہاں تک دینی مدارس کا تعلق ہے تو ان مدارس نے ہمیشہ دین کی سربلندی' عوام کی رہنمائی اور پاکستان کی بقاء اور سلامتی کے لیے رہنما کردار ادا کیا ہے لہٰذا علمائے کرام مدارس کی رجسٹریشن' مدارس کے مالی معاملات کے آڈٹ وغیرہ سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ایسا کرنا وقت کی ضرورت بھی ہے اور دینی مدارس کا امیج اور ساکھ بہتر بنانے کے لیے لازم بھی ہے۔
پاکستان کے دینی مدارس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے ہی ہم ایسے علماء تیار کر سکتے ہیں جو سائنسی علوم سے بھی بہرامند ہوں گے' سماجی علوم بھی ان کی دسترس میں ہوں گے اور وہ مذاہب کے تقابلی جائزے کا بھی اعلیٰ سطح کی فہم و شعور رکھتے ہوں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ علمائے کرام و مشائخ عظام کے ساتھ پورا تعاون کرے اور ان کے مطالبات اور تجاویزکو قبول کرے۔ اس طریقے سے ہی پاکستان دہشت گردی اور فرقہ واریت پر قابو پا سکتا ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عملدرآمد کیا جائے۔