پناہ گزینی تاریخ کا سنگین بحران
فرانس اور برطانیہ نے پناہ گزینوں کو ایک محدود تعداد میں قبول کرنے کا اعلان کیا ہے
ISLAMABAD:
فرانس اور برطانیہ نے پناہ گزینوں کو ایک محدود تعداد میں قبول کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ جنگ ، تشدد ، غربت و کسمپرسی کے باعث نقل مکانی کرکے یورپ آنے والوں کو ہر ممکن امداد دی جائے اور انھیں ایک مربوط اور مستحکم میکنزم کے تحت قبول کیا جائے۔ سب سے خوش آیند اقدامات فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی طرف سے ہورہے ہیں۔
فرانسیسی صدر فرانکوئی ہولاندے نے کہا ہے کہ فرانس آیندہ دو سال میں 24 ہزار پناہ گزینوں کو قبول کرے گا، انھوں نے کہا کہ یہ پناہ گزین جنگ اور غربت کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے، برطانیہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ اس کا ملک اپنی بہترین اقدار اور انسانیت کے تحفظ کے لیے 20 ہزار پناہ گزینوں کو برطانیہ میں کھپائے گا جو شام کی جنگ سے متاثر ہو کر پناہ کی تلاش میں ہیں، جرمن چانسلر اینجلا مرکل کا کہنا ہے کہ یورپی ملکوں کو پناہ گزینی کے بحران کو حل کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں۔
فرانسیسی صدر نے جرمنی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے پناہ گزینون کی سب سے بڑی تعداد کا خیرمقدم کیا ہے، جرمنی 8 لاکھ پناہ گزینوں کی درخواستوں پر غور کررہا ہے، پناہ گزینوں کے لیے کوٹا سسٹم نافذ کرنے کی بات بھی ہو رہی ہے، حقیقت یہ ہے کہ جنگ عظیم اول و دوم کے بعد تاریخ کی اتنی بڑی اور ہولناک نقل مکانی کسی دور میں نہیں دیکھی گئی۔
ایک پاکستانی تارک وطن ہنگری میں اس وقت جاں بحق ہوگیا جب 350 تارکین وطن کے ایک گروپ کے ساتھ ایک ریلوے اسٹیشن سے فرار ہوتے ہوئے وہ ٹریک پر گرگیا۔
ہنگری کی پولیس کے مطابق اس گروپ کا تعاقب نہیں کیا گیا تھا اور وہ پاکستانی شخص بڈاپسٹ کے مغرب میں واقع علاقہ بسکے کے ریلوے ٹریک پر گرگیا تھا۔ دوسری طرف ہنگری کی جانب سے سفر پر پابندیوں میں نرمی کے بعد ہزاروں تارکین وطن نے آسٹریا کے راستے جرمنی پہنچنے کے لیے سفر شروع کر دیا ہے۔ اتوار کی صبح میونخ کے اسٹیشن پر کئی ٹرینیں پہنچیں، جہاں سے پناہ گزین جرمنی کے دوسرے شہروں کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز تارکین وطن بسوں اور ٹرین کے ذریعے اور پا پیادہ آسٹریا کی سرحد پر پہنچتے رہے۔
فرانس اور برطانیہ نے پناہ گزینوں کو ایک محدود تعداد میں قبول کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ جنگ ، تشدد ، غربت و کسمپرسی کے باعث نقل مکانی کرکے یورپ آنے والوں کو ہر ممکن امداد دی جائے اور انھیں ایک مربوط اور مستحکم میکنزم کے تحت قبول کیا جائے۔ سب سے خوش آیند اقدامات فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی طرف سے ہورہے ہیں۔
فرانسیسی صدر فرانکوئی ہولاندے نے کہا ہے کہ فرانس آیندہ دو سال میں 24 ہزار پناہ گزینوں کو قبول کرے گا، انھوں نے کہا کہ یہ پناہ گزین جنگ اور غربت کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے، برطانیہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ اس کا ملک اپنی بہترین اقدار اور انسانیت کے تحفظ کے لیے 20 ہزار پناہ گزینوں کو برطانیہ میں کھپائے گا جو شام کی جنگ سے متاثر ہو کر پناہ کی تلاش میں ہیں، جرمن چانسلر اینجلا مرکل کا کہنا ہے کہ یورپی ملکوں کو پناہ گزینی کے بحران کو حل کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں۔
فرانسیسی صدر نے جرمنی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے پناہ گزینون کی سب سے بڑی تعداد کا خیرمقدم کیا ہے، جرمنی 8 لاکھ پناہ گزینوں کی درخواستوں پر غور کررہا ہے، پناہ گزینوں کے لیے کوٹا سسٹم نافذ کرنے کی بات بھی ہو رہی ہے، حقیقت یہ ہے کہ جنگ عظیم اول و دوم کے بعد تاریخ کی اتنی بڑی اور ہولناک نقل مکانی کسی دور میں نہیں دیکھی گئی۔
ایک پاکستانی تارک وطن ہنگری میں اس وقت جاں بحق ہوگیا جب 350 تارکین وطن کے ایک گروپ کے ساتھ ایک ریلوے اسٹیشن سے فرار ہوتے ہوئے وہ ٹریک پر گرگیا۔
ہنگری کی پولیس کے مطابق اس گروپ کا تعاقب نہیں کیا گیا تھا اور وہ پاکستانی شخص بڈاپسٹ کے مغرب میں واقع علاقہ بسکے کے ریلوے ٹریک پر گرگیا تھا۔ دوسری طرف ہنگری کی جانب سے سفر پر پابندیوں میں نرمی کے بعد ہزاروں تارکین وطن نے آسٹریا کے راستے جرمنی پہنچنے کے لیے سفر شروع کر دیا ہے۔ اتوار کی صبح میونخ کے اسٹیشن پر کئی ٹرینیں پہنچیں، جہاں سے پناہ گزین جرمنی کے دوسرے شہروں کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز تارکین وطن بسوں اور ٹرین کے ذریعے اور پا پیادہ آسٹریا کی سرحد پر پہنچتے رہے۔