تصویر حیرت
ہر روز ہزاروں انسان پیدا ہورہے ہیں اور مررہے ہیں، پیدا ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے
موت زندگی کا ناگزیر انجام ہے، زندگی اور موت ریل کی دو پٹڑیاں ہیں جو کروڑوں، اربوں سال سے متوازی طور پر رواں دواں ہیں۔کائنات کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ کرۂ ارض کو وجود میں آئے ہوئے لگ بھگ چار ارب سال ہورہے ہیں اور اگر کوئی کائناتی حادثہ نہ ہو تو ہمارا کرۂ ارض مزید تین ارب سال زندہ رہ سکتا ہے۔
ہر روز ہزاروں انسان پیدا ہورہے ہیں اور مررہے ہیں، پیدا ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے، مرنے والوں کی تعداد کم ہے اسی تناسب کی وجہ سے دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، ہمارا کرۂ ارض ہمارے نظام شمسی کا ایک چھوٹا سا سیارہ ہے اس چھوٹے سے سیارے کی وسعت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس پر سیکڑوں ملک ہیں جن میں 7 ارب سے زیادہ انسان رہتے ہیں۔
ان سات ارب انسانوں میں سے نوے فی صد سے زیادہ انسان ایسے ہیں جنھیں رائج الوقت معاشی نظام نے اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ زندگی اور موت کے مسئلے پر غور کرسکیں جو مٹھی بھر انسان ان مسائل پر غور کرتے ہیں ان کے موضوعات بھی متفرق ہوتے ہیں اگر زندگی اور موت کے مسئلے پر گہرائی سے غور کیاجائے تو اس کی بہترین تفسیر اس شعر میں پنہاں نظر آتی ہے۔
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے ان ہی اجزاء کا پریشاں ہونا
بلاشبہ زندگی ایک غیر یقینیت کا نام ہے اگرچہ عمر طبعی گزارنے کے بعد موت کے منہ میں جانا ایک فطری طریقہ ہے لیکن ترقی یافتہ ملکوں میں عمر کا اوسط پسماندہ ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے، ایسا کیوں ہے؟ اس سوال پر وہی مفکرین غورکرتے ہیں جو ہمارے معاشی نظام کو سمجھتے ہیں اور اس کے پیدا کردہ طبقات کی زندگیوں میں پائے جانے والے زمین وآسمان کے فرق کے مضمرات اور پس منظر کا ادراک رکھتے ہیں۔ غالباً شاعر مشرق کو اس ادراک نے یہ شعر کہنے پر مجبور کردیا۔
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں
بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو
خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
شاعر مشرق نے ان اشعار میں حقوق اﷲ اور حقوق العباد کی بہترین تشریح کی ہے۔ اقبال نے جن بندوں کا بندہ بننے کی خواہش کا اظہار کیا ہے وہ بندے ہیں جو اس طبقاتی نظام کی پیدا کردہ اونچ نیچ کے خلاف جہاد کررہے ہیں اگر انسانی زندگی کا کوئی اعلیٰ ترین مقصد ہوسکتا ہے تو وہ ہے اس طبقاتی نظام کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کرنا لیکن ان لوگوں کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز اس لیے بن گئی ہے کہ اس طبقاتی نظام کے سرپرست اور اس کے ایجنٹوں نے اس صدائے حق کی طوطی کی آواز اس لیے بنادیا ہے کہ یہ آواز اگر صور اسرافیل بن گئی تو دنیا کے 7 ارب مردے اپنی بے حسی کی قبروں سے اٹھ بیٹھیں گے اور سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کی اینٹ سے اینٹ بجاکر ان نوے فی صد انسانوں کی زندگیوں کو خوشیوں اور مسرتوں سے بھر دیں گے جو خوشی، مسرت اور ایک آسودہ زندگی کے تصور سے بھی نابلد ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ اس طبقاتی استحصالی نظام کی بالواسطہ حفاظت وہ اہل علم اور اہل قلم بھی کررہے ہیں، جو اس طبقاتی استحصال کا خود بھی شکار ہیں لیکن ذاتی پسند نا پسند ذاتی عناصر نے ان کی آنکھوں پر ایسی بٹی باندھ دی ہے کہ وہ دنیا کے اس سب سے بڑے طبقاتی استحصال کے مسئلے کو اجاگر کرنے والوں کے راستے میں دیوار بن گئے ہیں لیکن طبقاتی استحصال جس تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اسی تیزی سے عوام میں اس نظام کے خلاف نفرت میں اضافہ ہورہاہے، مسئلہ صرف یہ ہے کہ عوام کی اس بکھری ہوئی نفرت و ایک مرکز پر لایاجائے۔
دنیا کے 7 ارب انسانوں میں جب بھی اس سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے خلاف بے چینی اور نفرت میں اضافہ ہوتا ہے تو سامراجی طاقتیں کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ کھڑا کردیتی ہیں کہ عوام کی توجہ اصل مسئلہ کی طرف سے ہٹ جاتی ہے۔ پچھلے دس بارہ سالوں سے دنیا مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی سے سخت بد حواس ہے اور دنیا بھر کے عوام کی وجہ طبقاتی استحصال سے ہٹ کر دہشت گردی کی طرف مرکوز ہوکر رہ گئی ہے۔ اس حوالے سے جو خصوصی توجہ کا مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی مسلم ملکوں میں کیوں فروغ پارہی ہے۔ ہمارے مذہبی انتہا پسند سامراجی ملکوں خصوصاً امریکا کو اپنا دشمن کہتے ہیں اور اس کا ثبوت بھی انتہا پسندوں نے 9/11 کے حملوں سے دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے۔
9/11 کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مغرب کے استحصالی نظام کے خلاف علمی اور سیاسی جدوجہد جاری رہتی لیکن ہو یا رہا ہے کہ اس نام نہاد اینٹی سامراج جنگ کو بڑی ہوشیاری سے فرقہ وارانہ جنگ میں بدل کر لاکھوں بے گناہ انسانوں کو انتہائی بربریت کے ساتھ قتل کیا جارہاہے اور اس جنگ کے مراکز مغربی ملکوں کے بجائے خود مسلم ملک بن گئے ہیں۔ عراق، شام، یمن، سعودی عرب، ترکی، مصر، افغانستان، پاکستان اورکئی افریقی ملکوں میں شدت پسندی پورے آب و تاب سے چمک رہی ہے۔
مذہبی انتہا پسندوں کا موقف یہ ہے کہ سامراجی ملک مسلمانوں پر ظلم کررہے ہیں اس حوالے سے کشمیر، فلسطین کی مثال پیش کی جاتی ہے اگر یہ درست ہے تو ہمارے مذہبی انتہا پسندوں کی سرگرمیوں کے مراکز سامراجی ملک اور بھارت ہونا چاہیے تھا لیکن ہو یہ رہا ہے کہ مسلم ملک ہی دہشت گردی کے مرکز بن گئے ہیں۔کیا دنیا کے غریب عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب نہیں کہ سامراجی ملک عوام کی طبقاتی استحصال کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کا رخ پسماندہ ملکوں کی طرف موڑ دیا گیا۔ اسی خطرناک صورتحال میں وہ مفکر وہ دانشور وہ اہل قلم تصویر حیرت بنے ہوئے ہیں جو عشروں سے طبقاتی استحصال کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کرنے کا کام انجام دے رہے تھے۔
ہر روز ہزاروں انسان پیدا ہورہے ہیں اور مررہے ہیں، پیدا ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے، مرنے والوں کی تعداد کم ہے اسی تناسب کی وجہ سے دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، ہمارا کرۂ ارض ہمارے نظام شمسی کا ایک چھوٹا سا سیارہ ہے اس چھوٹے سے سیارے کی وسعت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس پر سیکڑوں ملک ہیں جن میں 7 ارب سے زیادہ انسان رہتے ہیں۔
ان سات ارب انسانوں میں سے نوے فی صد سے زیادہ انسان ایسے ہیں جنھیں رائج الوقت معاشی نظام نے اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ زندگی اور موت کے مسئلے پر غور کرسکیں جو مٹھی بھر انسان ان مسائل پر غور کرتے ہیں ان کے موضوعات بھی متفرق ہوتے ہیں اگر زندگی اور موت کے مسئلے پر گہرائی سے غور کیاجائے تو اس کی بہترین تفسیر اس شعر میں پنہاں نظر آتی ہے۔
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے ان ہی اجزاء کا پریشاں ہونا
بلاشبہ زندگی ایک غیر یقینیت کا نام ہے اگرچہ عمر طبعی گزارنے کے بعد موت کے منہ میں جانا ایک فطری طریقہ ہے لیکن ترقی یافتہ ملکوں میں عمر کا اوسط پسماندہ ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے، ایسا کیوں ہے؟ اس سوال پر وہی مفکرین غورکرتے ہیں جو ہمارے معاشی نظام کو سمجھتے ہیں اور اس کے پیدا کردہ طبقات کی زندگیوں میں پائے جانے والے زمین وآسمان کے فرق کے مضمرات اور پس منظر کا ادراک رکھتے ہیں۔ غالباً شاعر مشرق کو اس ادراک نے یہ شعر کہنے پر مجبور کردیا۔
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں
بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو
خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
شاعر مشرق نے ان اشعار میں حقوق اﷲ اور حقوق العباد کی بہترین تشریح کی ہے۔ اقبال نے جن بندوں کا بندہ بننے کی خواہش کا اظہار کیا ہے وہ بندے ہیں جو اس طبقاتی نظام کی پیدا کردہ اونچ نیچ کے خلاف جہاد کررہے ہیں اگر انسانی زندگی کا کوئی اعلیٰ ترین مقصد ہوسکتا ہے تو وہ ہے اس طبقاتی نظام کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کرنا لیکن ان لوگوں کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز اس لیے بن گئی ہے کہ اس طبقاتی نظام کے سرپرست اور اس کے ایجنٹوں نے اس صدائے حق کی طوطی کی آواز اس لیے بنادیا ہے کہ یہ آواز اگر صور اسرافیل بن گئی تو دنیا کے 7 ارب مردے اپنی بے حسی کی قبروں سے اٹھ بیٹھیں گے اور سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کی اینٹ سے اینٹ بجاکر ان نوے فی صد انسانوں کی زندگیوں کو خوشیوں اور مسرتوں سے بھر دیں گے جو خوشی، مسرت اور ایک آسودہ زندگی کے تصور سے بھی نابلد ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ اس طبقاتی استحصالی نظام کی بالواسطہ حفاظت وہ اہل علم اور اہل قلم بھی کررہے ہیں، جو اس طبقاتی استحصال کا خود بھی شکار ہیں لیکن ذاتی پسند نا پسند ذاتی عناصر نے ان کی آنکھوں پر ایسی بٹی باندھ دی ہے کہ وہ دنیا کے اس سب سے بڑے طبقاتی استحصال کے مسئلے کو اجاگر کرنے والوں کے راستے میں دیوار بن گئے ہیں لیکن طبقاتی استحصال جس تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اسی تیزی سے عوام میں اس نظام کے خلاف نفرت میں اضافہ ہورہاہے، مسئلہ صرف یہ ہے کہ عوام کی اس بکھری ہوئی نفرت و ایک مرکز پر لایاجائے۔
دنیا کے 7 ارب انسانوں میں جب بھی اس سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے خلاف بے چینی اور نفرت میں اضافہ ہوتا ہے تو سامراجی طاقتیں کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ کھڑا کردیتی ہیں کہ عوام کی توجہ اصل مسئلہ کی طرف سے ہٹ جاتی ہے۔ پچھلے دس بارہ سالوں سے دنیا مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی سے سخت بد حواس ہے اور دنیا بھر کے عوام کی وجہ طبقاتی استحصال سے ہٹ کر دہشت گردی کی طرف مرکوز ہوکر رہ گئی ہے۔ اس حوالے سے جو خصوصی توجہ کا مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی مسلم ملکوں میں کیوں فروغ پارہی ہے۔ ہمارے مذہبی انتہا پسند سامراجی ملکوں خصوصاً امریکا کو اپنا دشمن کہتے ہیں اور اس کا ثبوت بھی انتہا پسندوں نے 9/11 کے حملوں سے دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے۔
9/11 کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مغرب کے استحصالی نظام کے خلاف علمی اور سیاسی جدوجہد جاری رہتی لیکن ہو یا رہا ہے کہ اس نام نہاد اینٹی سامراج جنگ کو بڑی ہوشیاری سے فرقہ وارانہ جنگ میں بدل کر لاکھوں بے گناہ انسانوں کو انتہائی بربریت کے ساتھ قتل کیا جارہاہے اور اس جنگ کے مراکز مغربی ملکوں کے بجائے خود مسلم ملک بن گئے ہیں۔ عراق، شام، یمن، سعودی عرب، ترکی، مصر، افغانستان، پاکستان اورکئی افریقی ملکوں میں شدت پسندی پورے آب و تاب سے چمک رہی ہے۔
مذہبی انتہا پسندوں کا موقف یہ ہے کہ سامراجی ملک مسلمانوں پر ظلم کررہے ہیں اس حوالے سے کشمیر، فلسطین کی مثال پیش کی جاتی ہے اگر یہ درست ہے تو ہمارے مذہبی انتہا پسندوں کی سرگرمیوں کے مراکز سامراجی ملک اور بھارت ہونا چاہیے تھا لیکن ہو یہ رہا ہے کہ مسلم ملک ہی دہشت گردی کے مرکز بن گئے ہیں۔کیا دنیا کے غریب عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب نہیں کہ سامراجی ملک عوام کی طبقاتی استحصال کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کا رخ پسماندہ ملکوں کی طرف موڑ دیا گیا۔ اسی خطرناک صورتحال میں وہ مفکر وہ دانشور وہ اہل قلم تصویر حیرت بنے ہوئے ہیں جو عشروں سے طبقاتی استحصال کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کرنے کا کام انجام دے رہے تھے۔