ایک قیمتی دن
ان کے ساتھ ایک اور جوڑا بھی تھا تعارف پر پتہ چلا کہ یہ بیگم اور ڈاکٹر حسن رانا ہیں
آئی ایس پی آر کے کرنل ضامن عباس نقوی نے اطلاع دی کہ 6 ستمبر کی شام جنگ ستمبر کی پچاسویں سالگرہ کے حوالے سے اسلام آباد GHQ میں ایک بہت بڑی تقریب کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں شہداء کے ورثاء سابق اور حاضر فوجیوں' سفارت کاروں' وزراء اور ریٹائرڈ جرنیل حضرات کے ساتھ ساتھ کھیل اور فنون لطیفہ کے شعبوں سے بھی چند منتخب لوگوں کو مدعو کیا جا رہا ہے جو شو کے دوران غازیوں کو پھول پیش کرنے کے علاوہ مختصر خطاب بھی کریں گے اور یہ کہ آپ کو بھی آنا ہے۔
اسٹیج کی کارروائی سے متعلق تمام مہمانوں کو ازراہ احتیاط ایک دن قبل یعنی 5 ستمبر کو ہی تقریب کے وینیو سے قریب ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرا دیا گیا۔ میرے والی فلائٹ میں لاہور سے استاد حامد علی خاں اور شبنم مجید میرے ہم سفر تھے۔ معلوم ہوا کہ شام سات بجے سب لوگ ریہرسل کے لیے جمع ہونگے میں نے کرنل ضامن سے فون پر بات کی اور انھیں بتایا کہ میں نہ تو گانے والوں میں ہوں اور نہ اسٹیج سے اناؤنسمنٹس کرنے والوں میں اور یہ کہ پھول دینے یا دو منٹ بولنے کے لیے مجھے کسی ریہرسل کی ضرورت نہیں سو اگر ممکن ہو تو میں یہ وقت اپنی بیٹی داماد اور ان کے بچوں کے ساتھ گزارنا چاہوں گا کہ شیڈول کے مطابق ان سے ملاقات کے لیے اور کہیں بھی گنجائش نہیں ہے، میری بات وہ سمجھ گئے اور مجھے اس حاضری سے مستثنیٰ قرار دیا گیا یہ اور بات ہے کہ تیز آندھی اور بارش کی وجہ سے سارے انتظامات درہم برہم ہو گئے اور باقاعدہ ریہرسل کا انعقاد ممکن ہی نہ ہو سکا۔
رات دیر سے لوٹنے کے باعث دیگر ساتھیوں سے ملاقات تو نہ ہو سکی مگر اتنا پتہ چل گیا کہ بھائی ضیا محی الدین' انور مقصود' فلم اسٹار شان' شفقت امانت' ساحر علی بگا اور علی ظفر بھی پہنچ چکے ہیں، میزبانوں کی طرف سے میجر عمران اپنی بیگم کے ساتھ دیے گئے وقت کے عین مطابق ہوٹل کی لابی میں پہنچ گئے۔
ان کے ساتھ ایک اور جوڑا بھی تھا تعارف پر پتہ چلا کہ یہ بیگم اور ڈاکٹر حسن رانا ہیں۔ حسن رانا صاحب کا چہرہ مانوس تو لگا مگر بات اس وقت تک آگے نہ بڑھی جب تک انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ نئے دور کی عہد ساز فلم ''وار'' کے مصنف اور پروڈیوسر ہیں اور آج کل ''یلغار'' کے نام سے ایک اور فلم بنا رہے ہیں جو اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
مجھے یاد آ گیا کہ ان سے ایک زمانے میں مصطفیٰ حسنین کے کمرے میں ملاقات ہوئی تھی لیکن باتوں باتوں میں جس دم یہ عقدہ کھلا کہ وہ میرے محترم دوست بریگیڈئیر مودت رانا کے سگے چھوٹے بھائی ہیں تو وہ سرسری سی اتفاقیہ ملاقات ایک خاص نوع کے تعلق خاطر میں ڈھل گئی اور پھر تقریب کے اختتام تک زیادہ تر گفتگو انھی سے ہوتی رہی۔ آئی ایس پی آر کے نئے دفتر تک پہنچنے میں چار بار انتہائی سخت سیکیورٹی چیک سے گزرنا پڑا معلوم ہوا کہ کاریں یہاں پارک ہوں گی اور اس سے آگے ایک خصوصی کوسٹر ہمیں ڈپلومیٹس کی اینٹری والے دروازے تک لے کر جائے گا۔
جہاں پھر سے سب کی شناخت پریڈ ہو گی جس کے لیے ہمیں خصوصی تصدیق شدہ اور ہماری تصویروں والے کارڈ دیے گئے تھے کہ یہ علاقہ انتہائی سخت سیکیورٹی زون تھا باقی سب لوگ تو بیک اسٹیج چلے گئے کہ انھیں وہاں سے اسٹیج پر آنا تھا جب کہ مجھے اور ہاکی کے نامور پنالٹی کارنر اسپیشلسٹ سہیل عباس کو مہمانوں کی پہلی صف میں معین کردہ سیٹوں پر بٹھایا گیا، ہمارے ساتھ وسیم اکرم اور ان کی بیگم اور نوجوان کرکٹر احمد شہزاد کی سیٹیں تھیں۔ میجر عمران نے بتایا کہ تقریب کے اختتام پر وہ ہمیں ساتھ لے کر غازیوں کی نشستوں کی طرف جائیں گے جہاں سب فن کار اور ہم لوگ مل کر انھیں پھول پیش کریں گے۔
پنڈال میں اس وقت تک تقریباً 90% سیٹیں بھر چکی تھیں بہت خوب صورت سیٹ کے دونوں طرف بہت بڑی بڑی اسکرینیں آویزاں تھیں جن پر درجنوں کیمروں سے ریکارڈ کیے جانے والے مناظر براہ راست دکھائے جا رہے تھے دور دور تک پھیلے ہوئے سروں کی کثرت سے اندازہ ہوا کہ اس وقت وہاں کل ملا کر تقریباً پانچ ہزار لوگ جمع تھے۔
مہمان خصوصی یعنی جنرل راحیل شریف کی آمد سے چند منٹ قبل نیوی اور فضائیہ کے سربراہان سمیت تمام وی آئی پیز اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے۔ اسٹیج سے بار بار یہ ہدایات دہرائی جا رہی تھیں کہ تقریب کے دوران حاضرین کو کب کب تعظیماً کھڑے ہونا ہے۔ منتظمین کا سلیقہ دیدنی تھا کہ وہ بغیر ایک دوسرے سے ٹکرائے مسلسل دوڑ بھاگ میں مصروف تھے اور ہر مہمان کو پلک جھپکنے میں اس کی مخصوص نشست تک پہنچا رہے تھے حسب توقع جنرل راحیل شریف کا استقبال بہت پرتپاک انداز میں کیا گیا۔
اسٹیج کے مرکزی میزبان عزیزی نور الحسن اور مشہور کمپیئر ڈاکٹر فرح سعدیہ تھے جب کہ بیچ بیچ میں ضیا محی الدین' انور مقصود اور شان نے بھی ان کی معاونت کی۔ پروگرام میں قومی اور ملی نغموں کے ساتھ ساتھ کچھ ویڈیوز اور انٹرویوز کا اہتمام بھی کیا گیا تھا، موضوع کی یکسانیت اور تکرار کے باوجود بیشتر آئٹم بہت عمدہ روح پرور اور توجہ طلب تھے لیکن میلہ فوجی بینڈ کے جلو میں آنے والی پریڈ پارٹی اور جنرل راحیل شریف کی تقریر نے ہی لوٹا جو مختصر ہونے کے باوجود انتہائی مدلل' بامعنی' کمٹ منٹ سے بھرپور اور دبنگ تھی۔
اگرچہ مجھ سمیت کئی احباب کا خیال تھا کہ ہمیں مودی سرکار کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے بہت زیادہ جارحانہ انداز اور میڈیا پر جنگی جنون سے لبریز ایسے رویے سے کام نہیں لینا چاہیے تھا جس سے حالات مزید خراب ہوں لیکن جہاں تک جنرل کی تقریر کا تعلق ہے اس کے سب ہی معترف اور قائل تھے کہ فوجی سربراہ کی طرف سے بھارت کی انتہا پسند حکومت اور اس کے حامیوں کو ایسا ہی پیغام جانا چاہیے تھا جنہوں نے روز روز کی دھمکیوں کو اپنا شیوہ اور وتیرہ بنا رکھا ہے۔
تقریر کے بعد شہداء کے ورثاء نے شہیدوں کی یاد گار پر پھول چڑھائے جس کا آغاز جنرل راحیل نے اپنی تقریر سے قبل کیا تھا اور ہم لوگوں کو وہ گل دستے دیے گئے جو ہمیں ان غازیوں کو پیش کرنا تھے جنھیں ایک مخصوص جگہ پر بٹھایا گیا تھا، اس کے بعد وسیم اکرم' انور مقصود اور مجھے مختصر خطاب کا موقع دیا گیا میں نے اپنی بات ان دو شعروں کی زبانی کی کہ
میں بے نوا ہوں صاحب عزت بنا مجھے
اے ارض پاک اپنی جبیں پر سجا مجھے
میں موج شوق خام تھا لیکن ترے طفیل
دریا بھی اپنے سامنے قطرہ لگا مجھے
اس کے ساتھ ہی تقریب کا اختتام ہوا اور ہمیں ایک پہلے سے طے شدہ جگہ پر لے جایا گیا جہاں کچھ دیر بعد جنرل راحیل شریف اور ان کی بیگم تشریف لائے، جنرل راحیل نے تمام فن کاروں اور مہمانوں سے باری باری ملاقات کی اور ان کی آمد کا شکریہ ادا کیا، آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجوہ تعارف کا فریضہ ادا کر رہے تھے لیکن اس کی ضرورت نہ تھی کہ میزبان خاص تقریباً سبھی مہمانوں سے ذاتی طور پر آشنا تھے سو ان کا یہ انداز اور بھی اچھا لگا۔
جنگ ستمبر کی گولڈن جوبلی کی حد تک دونوں ملکوں کی حکومتوں اور میڈیا میں گرما گرمی رہی وہ کسی حد تک قابل فہم ہے لیکن یہ کسی مسئلے کا حل نہ ہے اور نہ ہو سکتی ہے سو اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اچھے ہمسایوں کی طرح ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے جینے کا طریقہ سیکھیں تاکہ اس کا فائدہ اسلحہ بیچنے والے ممالک کے بجائے دونوں ملکوں کے عوام کو پہنچے۔
اسٹیج کی کارروائی سے متعلق تمام مہمانوں کو ازراہ احتیاط ایک دن قبل یعنی 5 ستمبر کو ہی تقریب کے وینیو سے قریب ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرا دیا گیا۔ میرے والی فلائٹ میں لاہور سے استاد حامد علی خاں اور شبنم مجید میرے ہم سفر تھے۔ معلوم ہوا کہ شام سات بجے سب لوگ ریہرسل کے لیے جمع ہونگے میں نے کرنل ضامن سے فون پر بات کی اور انھیں بتایا کہ میں نہ تو گانے والوں میں ہوں اور نہ اسٹیج سے اناؤنسمنٹس کرنے والوں میں اور یہ کہ پھول دینے یا دو منٹ بولنے کے لیے مجھے کسی ریہرسل کی ضرورت نہیں سو اگر ممکن ہو تو میں یہ وقت اپنی بیٹی داماد اور ان کے بچوں کے ساتھ گزارنا چاہوں گا کہ شیڈول کے مطابق ان سے ملاقات کے لیے اور کہیں بھی گنجائش نہیں ہے، میری بات وہ سمجھ گئے اور مجھے اس حاضری سے مستثنیٰ قرار دیا گیا یہ اور بات ہے کہ تیز آندھی اور بارش کی وجہ سے سارے انتظامات درہم برہم ہو گئے اور باقاعدہ ریہرسل کا انعقاد ممکن ہی نہ ہو سکا۔
رات دیر سے لوٹنے کے باعث دیگر ساتھیوں سے ملاقات تو نہ ہو سکی مگر اتنا پتہ چل گیا کہ بھائی ضیا محی الدین' انور مقصود' فلم اسٹار شان' شفقت امانت' ساحر علی بگا اور علی ظفر بھی پہنچ چکے ہیں، میزبانوں کی طرف سے میجر عمران اپنی بیگم کے ساتھ دیے گئے وقت کے عین مطابق ہوٹل کی لابی میں پہنچ گئے۔
ان کے ساتھ ایک اور جوڑا بھی تھا تعارف پر پتہ چلا کہ یہ بیگم اور ڈاکٹر حسن رانا ہیں۔ حسن رانا صاحب کا چہرہ مانوس تو لگا مگر بات اس وقت تک آگے نہ بڑھی جب تک انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ نئے دور کی عہد ساز فلم ''وار'' کے مصنف اور پروڈیوسر ہیں اور آج کل ''یلغار'' کے نام سے ایک اور فلم بنا رہے ہیں جو اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
مجھے یاد آ گیا کہ ان سے ایک زمانے میں مصطفیٰ حسنین کے کمرے میں ملاقات ہوئی تھی لیکن باتوں باتوں میں جس دم یہ عقدہ کھلا کہ وہ میرے محترم دوست بریگیڈئیر مودت رانا کے سگے چھوٹے بھائی ہیں تو وہ سرسری سی اتفاقیہ ملاقات ایک خاص نوع کے تعلق خاطر میں ڈھل گئی اور پھر تقریب کے اختتام تک زیادہ تر گفتگو انھی سے ہوتی رہی۔ آئی ایس پی آر کے نئے دفتر تک پہنچنے میں چار بار انتہائی سخت سیکیورٹی چیک سے گزرنا پڑا معلوم ہوا کہ کاریں یہاں پارک ہوں گی اور اس سے آگے ایک خصوصی کوسٹر ہمیں ڈپلومیٹس کی اینٹری والے دروازے تک لے کر جائے گا۔
جہاں پھر سے سب کی شناخت پریڈ ہو گی جس کے لیے ہمیں خصوصی تصدیق شدہ اور ہماری تصویروں والے کارڈ دیے گئے تھے کہ یہ علاقہ انتہائی سخت سیکیورٹی زون تھا باقی سب لوگ تو بیک اسٹیج چلے گئے کہ انھیں وہاں سے اسٹیج پر آنا تھا جب کہ مجھے اور ہاکی کے نامور پنالٹی کارنر اسپیشلسٹ سہیل عباس کو مہمانوں کی پہلی صف میں معین کردہ سیٹوں پر بٹھایا گیا، ہمارے ساتھ وسیم اکرم اور ان کی بیگم اور نوجوان کرکٹر احمد شہزاد کی سیٹیں تھیں۔ میجر عمران نے بتایا کہ تقریب کے اختتام پر وہ ہمیں ساتھ لے کر غازیوں کی نشستوں کی طرف جائیں گے جہاں سب فن کار اور ہم لوگ مل کر انھیں پھول پیش کریں گے۔
پنڈال میں اس وقت تک تقریباً 90% سیٹیں بھر چکی تھیں بہت خوب صورت سیٹ کے دونوں طرف بہت بڑی بڑی اسکرینیں آویزاں تھیں جن پر درجنوں کیمروں سے ریکارڈ کیے جانے والے مناظر براہ راست دکھائے جا رہے تھے دور دور تک پھیلے ہوئے سروں کی کثرت سے اندازہ ہوا کہ اس وقت وہاں کل ملا کر تقریباً پانچ ہزار لوگ جمع تھے۔
مہمان خصوصی یعنی جنرل راحیل شریف کی آمد سے چند منٹ قبل نیوی اور فضائیہ کے سربراہان سمیت تمام وی آئی پیز اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے۔ اسٹیج سے بار بار یہ ہدایات دہرائی جا رہی تھیں کہ تقریب کے دوران حاضرین کو کب کب تعظیماً کھڑے ہونا ہے۔ منتظمین کا سلیقہ دیدنی تھا کہ وہ بغیر ایک دوسرے سے ٹکرائے مسلسل دوڑ بھاگ میں مصروف تھے اور ہر مہمان کو پلک جھپکنے میں اس کی مخصوص نشست تک پہنچا رہے تھے حسب توقع جنرل راحیل شریف کا استقبال بہت پرتپاک انداز میں کیا گیا۔
اسٹیج کے مرکزی میزبان عزیزی نور الحسن اور مشہور کمپیئر ڈاکٹر فرح سعدیہ تھے جب کہ بیچ بیچ میں ضیا محی الدین' انور مقصود اور شان نے بھی ان کی معاونت کی۔ پروگرام میں قومی اور ملی نغموں کے ساتھ ساتھ کچھ ویڈیوز اور انٹرویوز کا اہتمام بھی کیا گیا تھا، موضوع کی یکسانیت اور تکرار کے باوجود بیشتر آئٹم بہت عمدہ روح پرور اور توجہ طلب تھے لیکن میلہ فوجی بینڈ کے جلو میں آنے والی پریڈ پارٹی اور جنرل راحیل شریف کی تقریر نے ہی لوٹا جو مختصر ہونے کے باوجود انتہائی مدلل' بامعنی' کمٹ منٹ سے بھرپور اور دبنگ تھی۔
اگرچہ مجھ سمیت کئی احباب کا خیال تھا کہ ہمیں مودی سرکار کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے بہت زیادہ جارحانہ انداز اور میڈیا پر جنگی جنون سے لبریز ایسے رویے سے کام نہیں لینا چاہیے تھا جس سے حالات مزید خراب ہوں لیکن جہاں تک جنرل کی تقریر کا تعلق ہے اس کے سب ہی معترف اور قائل تھے کہ فوجی سربراہ کی طرف سے بھارت کی انتہا پسند حکومت اور اس کے حامیوں کو ایسا ہی پیغام جانا چاہیے تھا جنہوں نے روز روز کی دھمکیوں کو اپنا شیوہ اور وتیرہ بنا رکھا ہے۔
تقریر کے بعد شہداء کے ورثاء نے شہیدوں کی یاد گار پر پھول چڑھائے جس کا آغاز جنرل راحیل نے اپنی تقریر سے قبل کیا تھا اور ہم لوگوں کو وہ گل دستے دیے گئے جو ہمیں ان غازیوں کو پیش کرنا تھے جنھیں ایک مخصوص جگہ پر بٹھایا گیا تھا، اس کے بعد وسیم اکرم' انور مقصود اور مجھے مختصر خطاب کا موقع دیا گیا میں نے اپنی بات ان دو شعروں کی زبانی کی کہ
میں بے نوا ہوں صاحب عزت بنا مجھے
اے ارض پاک اپنی جبیں پر سجا مجھے
میں موج شوق خام تھا لیکن ترے طفیل
دریا بھی اپنے سامنے قطرہ لگا مجھے
اس کے ساتھ ہی تقریب کا اختتام ہوا اور ہمیں ایک پہلے سے طے شدہ جگہ پر لے جایا گیا جہاں کچھ دیر بعد جنرل راحیل شریف اور ان کی بیگم تشریف لائے، جنرل راحیل نے تمام فن کاروں اور مہمانوں سے باری باری ملاقات کی اور ان کی آمد کا شکریہ ادا کیا، آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجوہ تعارف کا فریضہ ادا کر رہے تھے لیکن اس کی ضرورت نہ تھی کہ میزبان خاص تقریباً سبھی مہمانوں سے ذاتی طور پر آشنا تھے سو ان کا یہ انداز اور بھی اچھا لگا۔
جنگ ستمبر کی گولڈن جوبلی کی حد تک دونوں ملکوں کی حکومتوں اور میڈیا میں گرما گرمی رہی وہ کسی حد تک قابل فہم ہے لیکن یہ کسی مسئلے کا حل نہ ہے اور نہ ہو سکتی ہے سو اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اچھے ہمسایوں کی طرح ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے جینے کا طریقہ سیکھیں تاکہ اس کا فائدہ اسلحہ بیچنے والے ممالک کے بجائے دونوں ملکوں کے عوام کو پہنچے۔