پہلا انسان بردار طیارہ تیار کر لیا گیا

فی الوقت یہ مشین جسے اس کے موجد نے The Swarm کا نام دیا ہے، پندرہ فٹ تک فضا میں بلند ہوسکتی ہے

اسے یہ نام دینے کی وجہ اسٹارٹ ہونے پر سنائی دینے والی آوازیں ہیں:فوٹو : فائل

ڈرون ٹیکنالوجی کا مختلف مقاصد کے لیے استعمال دنیا بھر میں عام ہو چکا ہے۔ ابتدا میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال محدود تھا۔ طیاروں کی شکل میں ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے امریکی فوج نے جاسوسی کرنے کے علاوہ فضا سے زمین پر بارود برسانے کا کام لیا اور اپنے مقصد میں کام یابی حاصل کی۔

بہ تدریج اس ٹیکنالوجی کا دائرۂ کار وسیع ہوتا چلا گیا، اور اب یہ صرف عسکری مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ نہیں رہی بلکہ اس سے دوسرے کام بھی لیے جارہے ہیں۔ فوج کے بعد مختلف ملکوں میں شہروں کی انتظامیہ اور کمپنیز کے علاوہ انفرادی حیثیت میں سائنس داں اور انجینئرز اپنے کسی آئیڈیے کو عملی شکل دینے میں اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔

انھوں نے بھی ڈرون ٹیکنالوجی کے حامل چھوٹے طیارے بنائے ہیں۔ ان کی ظاہری ساخت عام طیارے سے مختلف ہوتی ہے۔ چوکور اور چپٹے ڈرون کواڈکوپٹر بھی کہلاتے ہیں۔ انھیں مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ کواڈکوپٹر میں چار پنکھے لگے ہوتے ہیں جو اسے سطح ارض سے فضا میں بلند ہونے اور محوِ پرواز رہنے میں مدد دیتے ہیں۔ کواڈکوپٹر ڈرون مختلف سامان ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانے کے لیے استعمال کیے جانے لگے ہیں۔ یہ اپنی جسامت اور طاقت کے اعتبار سے وزن لے جاسکتے ہیں۔

کواڈکوپٹر کی تیاری کے بعد یہ خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ اس کی ساخت میں چند تبدیلیاں کرتے ہوئے اس کے وزن اٹھانے کی طاقت کو بڑھا دیا جائے تو اس کے ذریعے انسان بھی فضا میں بلند ہوسکتا ہے۔ حال ہی میں ایک بر طانوی موجد نے اس خیال کو حقیقت میں بدلا ہے۔ اس نے کواڈ کوپٹر ڈرون کے طرز پر ایک 'سپر ڈرون ' تیار کیا اور اس کے ذریعے فضا میں بلند ہونے کا کام تجربہ بھی کیا ہے۔


فی الوقت یہ مشین جسے اس کے موجد نے The Swarm کا نام دیا ہے، پندرہ فٹ تک فضا میں بلند ہوسکتی ہے۔ ایک بار بیٹری چارج ہونے کے بعد یہ ڈرون طیارہ فضا میں دس منٹ تک ٹھہرا رہ سکتا ہے۔ Swarm انگریزی زبان میں شہد کی مکھیوں کے دَل کو کہتے ہیں۔

اسے یہ نام دینے کی وجہ اسٹارٹ ہونے پر سنائی دینے والی آوازیں ہیں۔ اس ڈرون کے پنکھوں سے اسٹارٹ ہونے کے بعد ویسی ہی آواز آتی ہے جیسی شہد کی مکھیوں کے اڑتے ہوئے دَل سے سنائی دیتی ہے۔ امریکی محکمۂ دفاع کا تحقیقی ادارہ '' ڈیفینس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی'' ( DARPA) بھی ایسے ڈرون طیارے بنارہا ہے جو شہد کی مکھیوں کے دَل کی صورت یک جا ہو کر کوئی مشن انجام دے سکیں۔

سپرڈرون 148 کلوگرام وزن کے ساتھ فضا میں بلند ہوسکتا ہے۔ کواڈ کوپٹر کے پروں کی تعداد چار ہوتی ہے، لیکن اسی ڈرون کی خصوصیات کو سامنے رکھتے ہوئے تیار کیے گئے سُپر ڈرون میں 54 پنکھے یا پروپیلر لگائے گئے ہیں۔ اس کا ڈیزائن سادہ اور امریکا کے محکمۂ دفاع کی عمارت پینٹاگون کی طرح ہے۔

سپرڈرون کا فریم دھات اور پولی کاربونیٹ سے تیار کیا گیا ہے۔ اس کے درمیان ایک نشست ہے جس پر ایک فرد بیٹھ سکتا ہے۔ اس نشست کے بالکل نیچے بیٹری کے لیے جگہ بنائی گئی ہے۔ تاروں کے ذریعے تمام پنکھوں کو بیٹری سے برقی رَو پہنچتی ہے۔ ڈرون کے ضمن میں یہ پہلی مشین ہے جس میں کوئی انسان سوار ہوسکتا ہے۔ اب تک تیار کیے گئے تمام ڈرون طیارے ریموٹ کنٹرول ہیں۔
Load Next Story