میڈیا لاجک اپنے جال میں پھنسنے لگی ایف آئی اے نے ساری کہانی مشکوک بنا دی

مقدمے کے اندراج میں تاخیرکا ثبوت سی آئی اے انسپکٹر بشیرنیازی کا ٹیلی فون ڈیٹا ہے جس نے شائستہ کے بھائی کو بلایا

ملک کے تمام ٹی وی چینلز، اینکرز میڈیا لاجک کے ہاتھوں یرغمال ہیں، ریٹنگ کا فیصلہ کمپنی کے صرف850 میٹرز والے ٹی وی سیٹ کرتے ہیں فوٹو : فائل

BEIJING:
تجزیہ کار عمران خان نے کہا ہے کہ میڈیا لاجک اور ریٹنگ کے معاملے پر ابھی تک حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی کوئی تحقیقاتی کمیٹی بنائی ہے جو حکومت کی بے حسی ظاہر کرتی ہے لیکن ہرگزرتے دن کے ساتھ میڈیا لاجک والے اپنے جال میں خود ہی پھنستے جا رہے ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''تکرار'' میں گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ایک نئی بات یہ سامنے آئی ہے کہ میڈیا لاجک کی ملازم شائستہ کو9 جولائی کو لاہور میں میڈیا لاجک کے دفتر میں بلاکرتحقیقات کی گئیں لیکن ایف آئی آر14 جولائی کو کاٹی گئی تو کیا اتنے روز یہ سوئے رہے۔

اس بات کا ثبوت سی آئی اے انسپکٹر بشیر نیازی کا وہ ٹیلی فون ڈیٹا ہے جس میں اس نے شائستہ کے بھائی کو کہا کہ جب تم لوگ لاہور میں میڈیا لاجک کے دفتر میں آئے تو اس وقت میں بھی وردی میں وہیں بیٹھا ہوا تھا تم اپنی دونوں بہنوں کو لے کر سی آئی اے ماڈل ٹائون لاہور آجائو، ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر نے ساری کہانی مشکوک بنا دی ہے۔

اینکر پرسن جاوید چوہدری نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''کل تک'' میں کہا کہ پچھلے24 گھنٹوں کے دوران کراچی میں مزید2صحافیوں کو گولی مارکرقتل کردیا گیا۔ پاکستان صحافیوں کے حوالے سے خطرناک ملکوں میں شامل ہے، ہم مرنیوالوں کا ساتھ بھی دیتے ہیں ہم مارنے والوںکا حساب بھی کرتے ہیں لیکن جب ہم لوگ گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں یا ہمارے ساتھیوں کو قتل کیا جاتا ہے تو نہ کوئی ہمارا ساتھ دیتا ہے اورنہ کوئی ہمارے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔

ہم ایک طرف دہشت گردوں کا نشانہ بنتے ہیں اوردوسری طرف ہم بری طرح پولیس گردی اور ریٹنگ کی بلیک میلنگ کا شکار ہوتے ہیں، ملک میں سو سے زائد ٹیلی ویژن چینل ہیں ان میں سے بیس کے قریب نیوز اینڈکرنٹ افیئرکے چینلز ہیں،5 چینلز کے درمیان مقابلہ ہے ملک میں 2کروڑ40 لاکھ ٹی وی سیٹس ہیں اس وقت بھی10 بیس50 لاکھ لوگ یہ پروگرام دیکھ رہے ہوں گے، لیکن یہ پروگرام کتنا عوامی ہے کتنا اچھا ہے یا برا ہے اس کا فیصلہ بیس تیس یا50 لاکھ لوگ نہیں کریں گے اس کا فیصلہ میڈیا لاجک نام کی ایک کمپنی کریگی جس نے پورے ملک میں850 کے قریب ریٹنگ میٹر لگا رکھے ہیں،2 کروڑ40 لاکھ ٹی وی سیٹس ایک طرف اور میڈیا لاجک کے 850 ٹی وی سیٹ ایک طرف۔ فیصلہ بہرحال یہ ساڑھے آٹھ سو میٹرز ہی کریں گے۔

یہ فیصلہ ایسا کیوں ہوتا ہے اس کی وجہ پینتیس ارب روپے ہیں۔ ٹی وی چینلز کو سالانہ پینتیس ارب روپے کے اشتہارات ملتے ہیں کس چینل کو کتنے اشتہار ملنے چاہئیں یہ فیصلہ میڈیا لاجک کے میٹر ہی طے کرتے ہیں، ملک کے تمام چینلز تمام ٹی وی اینکرز اور ٹی وی سے متعلق صحافی اس ایک کمپنی کے ہاتھوں یرغمال ہیں، میڈیا لاجک کے میٹر فیصلہ کرتے ہیں کہ کونسا اینکر نمبر ون ہے کون سا نمبر دو اور کون سا نمبر تین, کون ساچینل نمبر ون پر ہے کون سانمبر دوپر اورکون سانمبر تین پر ہے۔

اس کا فیصلہ میڈیا لاجک کے مالک سلمان دانش کے ہاتھوں میں بھی نہیں ہے اگر آپ حکومت ہیں کوئی تگڑی سیاسی جماعت ہیں یا کوئی مافیا ہیں آپ کوئی بزنس گروپ ہیں یا آپ میڈیا کے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں آپ ایک دو یا تین سو میٹرز کو اپنے ہاتھ میں رکھ لیجئے کسی مخصوص وقت میں تین سوگھروں میں فون کرکے صرف یہ کہہ دیں کہ فلاں وقت پر فلاں چینل لگالیں یا اپنا ٹی وی سیٹ بند کردیں یا مخصوص اوقات میں مخصوص علاقوں کی بجلی بند کردیں تو پورامیڈیا آپ کی جیب میں آجائیگا یہ اس ملک میں روز ہوتا ہے ہمارا آزاد میڈیا روز ایک کمپنی کا غلام بنتا ہے۔

یہ کمپنی اتنی طاقتور ہے کہ یہ سی آئی اے لاہور کے ایک انسپکٹرکو اپنے ساتھ ملا کر اپنی ہی ملازمہ اور اس کے دوبھائیوں کو اغوا کرواتی ہے اور اس سے سادہ کاغذوں پر دستخط کروا کر چینل کو بلیک میل کرتی ہے اور حکومت شور مچانے کے باوجود سی آئی اے کیخلاف جے آئی ٹی تک بنانے کے لiے تیار نہیں ہوتی یہ ہے میڈیا۔ کوئی ہمیں گولی مارنا چاہے تو سڑک پر مار دے پولیس اگر چاہے تو شائستہ مشتاق کواٹھا کر کسی بھی چینل کے خلاف بیان لے لے اگر اس سے بھی بچ جائیں تو میڈیا لاجک کے ساڑھے آٹھ سومیٹروں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہیں میڈیا کو گولیوں بلیک میلنگ اورپولیس گردی سے کون بچائے گا؟ پروگرام ''تکرار'' میں میزبان عمران خان سے گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون احمد رضا قصوری نے کہا کہ جب پولیس والے دوسرے ڈسٹرکٹ میں جاتے ہیں تو جہاں سے نکل رہے ہیں وہاں روزنامچے میں اندراج کرتے ہیں۔

پھر جب وہ جس تھانے کی حدود میں پہنچتے ہیں تو وہاں پر بھی ان کی آمد کا اندارج ہوتا ہے۔ پنجاب کی پولیس عابد باکسر اورگلوبٹوں سے بھری پڑی ہے۔ اب کام آئی جی کا ہے کہ وہ نوٹس لیں، بشیر نیازی کو تو فوری طورپر گھر بھیج دینا چاہiے یہ پولیس میں کالی بھیڑیں ہیں۔ جس طرح خاتون کو کمرے میں لا کربٹھایا گیا اس سے دستخط کرائے گئے تو یہ اغوا برائے تاوان کامقدمہ ہے۔ کال ڈیٹا ریکارڈ میں کال کرنیوالے کی لوکیشن آجاتی ہے خالد دوست اور سلمان دانش کے آپس میں رابطے تھے اس کا ثبوت آ چکا ہے ۔ بشیر نیازی اکیلا پیسے نہیں لے رہا ہوگا یہ ایک مکمل چینل ہے وہ اوپر بھی پیسے دیتا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اخونزادہ چٹان نے کہا کہ جمہوری وزیراعظم اور جمہوری وزیراعلیٰ نہیں ہیں جس طرح سعودی عرب میں بادشاہت ہے اسی طرح یہ بھی بادشاہت کر رہے ہیں۔ پولیس اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے۔


شائستہ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کیلیے کمیٹی بننی چاہیے۔ ریٹنگ کا معیار شفاف ہونا چاہیے، اگر اس کی تحقیقات نہ ہوئیں تو کل کو کسی اورکے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے۔ اگر حکومت پنجاب اس معاملے کے پیچھے نہیں ہے توپھر اس کو نوٹس لینا چاہیے۔ اگر ان پولیس والوں کیخلاف ایکشن نہیں ہوا تو عوام میں بہت غلط پیغام جائیگا۔

رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے کہا کہ شائستہ کے ساتھ جوکچھ ہوا وہ بہت ہی شرمناک حرکت ہے اس کو بلیک میل کیا گیا اس کے گھروالوں کو اغوا کیاگیا ابھی تک وزیراعلیٰ اور آئی جی کی طرف سے نوٹس نہیں لیا گیا یہ بہت بے حسی اورشرمندگی کی بات ہے۔ بائیس کروڑ عوام میں ایک ہزارمیٹر لگا کر کسی چینل کی ریٹنگ طے کی جارہی ہے جو مناپلی ہے۔ قومی اسمبلی میں یہ معاملہ اٹھائوں گا۔ چیف جسٹس کو نوٹس لینا چاہیے۔ ایک کتامر جائے تو سی ایم ایکشن لے لیتے ہیں، ایکسپریس میڈیا گروپ جوایک اچھا گروپ ہے اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے لیکن حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ میڈیا لاجک بلیک میلرگروپ ہے میں اس کیخلاف اسمبلی میں احتجاج کروں گا، میں لاکھانی صاحب اوران کی ٹیم کو مبارکباد پیش کررہا ہوں وہ جہادکر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے رہنما جمشید اقبال چیمہ نے کہاکہ ریٹنگ طے کرنے کیلیے جامع اور شفاف طریقہ کار ہونا چاہیے۔ اگر ریٹنگ تین چار کمپنیوں کی طرف سے آ رہی ہو گی تو اس پر مناپلی نہیں ہوگی۔ اگرریٹنگ کا سسٹم حکومت کے پاس چلا گیا تو میڈیا کی آزادی ختم ہوجائے گی۔ ریٹنگ میٹروں کی تعداد اتنی ہونی چاہیے کہ پورے پاکستان کی نمائندگی ہو

۔ ایک گھر کی چادر چار دیواری کے تقدس کو پامال کیاگیا ہے لیکن ابھی تک وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس نہیں لیا ۔سلمان دانش کو میں ذاتی طورپر جانتا ہوں وہ مجھے ٹھیک لگتے ہیں لیکن اگر انھوں نے پیسے مانگے ہیں تو اس پر مجھے مایوسی ہوئی ہے۔ پروگرام ''کل تک'' میں میزبان جاوید چوہدری سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی رہنما مائزہ حمید نے کہا ہے کہ یہ میڈیا ہائوس اور ریٹنگ کمپنی کا معاملہ ہے جس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے، جے آئی ٹی بنانے پرغورکیاجاسکتا ہے۔ میڈیا کی ریٹنگ کا معاملے میں حکومت کی کوئی مداخلت نہیں ہے۔

اس واقعہ کو ماڈل ٹائون کے واقعہ سے جوڑا جا رہا ہے حالانکہ سانحہ ماڈل ٹائون کے واقعہ کی جے آئی ٹی بنی مکمل طورپر تحقیقات کرائی گئیں۔ اگرکوئی ایف آئی آر کٹی ہے یا پولیس نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے تو اس میں حکومت کوئی کردار نہیں ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کی جے آئی ٹی میں شفافیت تھی توجے آئی ٹی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما شوکت بسرا نے کہاکہ جب پولیس گردی میں حکومت خود ملوث ہوگی تو تحقیقات کیسے ہوں گی۔

سانحہ ماڈل ٹائون میں میڈیا نے دکھایاکہ عوام کو پولیس ڈائریکٹ گولیاں ماررہی ہے۔ اگر انصاف نہیں ملتا تو کم ازکم یہ مطالبہ تو کرسکتے ہیں کہ واقعہ کیلیے جے آئی ٹی بنادیں۔ باقر نجفی کی رپورٹ آج تک نہیں آئی۔ میڈیا لاجک کے معاملے پر موجودہ حکومت کبھی جے آئی ٹی نہیں بنائے گی جب سی آئی اے ایکٹو تھی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں تو حکومت ملوث ہے۔ دوروز سے اب تک وزیراعلیٰ کیا خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔

سارے واقعات پنجاب پولیس کے ہی کیوں ہوتے ہیں۔ میاں صاحبان کیلیے کوئی عدالت کوئی قانون نہیں ہے۔ اگر حکومت معاملے میں ملوث نہیں ہے تو پھر جے آئی ٹی بنانی چاہیے۔ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے رہنما شہریارخان نے کہاکہ سلمان دانش کی پریس کانفرنس ان کا اعتراف جرم تھا کہ ہمارے لوگوں کو پیسے دیے گئے تو اس سسٹم سے ہرکوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے اگر معاملہ عدالت میں بھی ہوتو پولیس کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کے گھر میں داخل ہوجائے۔ سی آئی اے کاکنٹرول مسلم لیگی رہنمائوں کے ہاتھوں میں ہے ایک ایس ایچ او بھی ان کی خواہش کے بغیر نہیں لگ سکتا یہ سارے لوگ پولیس کو استعمال کرتے ہیں۔

اگر حکومت ملوث نہیں ہے تو پھر جے آئی ٹی بنانے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے ۔ اگر حکومت کو اس ایشو کا علم نہیں ہے توپھر ان کو حکومت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے رہنما عمرریاض عباسی نے کہا کہ ہمارے سیاسی کلچر میں پولیس کواسٹیٹ ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔

سانحہ جلیانوالہ باغ اور سانحہ ماڈل ٹائون میں بہت سی چیزیں مشترک نظر آتی ہیں ۔ ایکسپریس کا قصور یہ ہے کہ اس نے سچ دکھایا، حقائق پر مبنی رپورٹنگ کی۔ جب آپ حکومت پر تنقید کرتے ہیں تووہ اصلاح کیلیے ہوتی ہے لیکن حکومت کہتی ہے کہ جاوید چودھری کو سبق سکھائو۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ تمام میڈیا ہائوسزکیلیے ایک جیسی پالیسی ہونی چاہیے۔ ماڈل ٹائون کے واقعہ میں دو لوگوں کی گرفتاریاں ہونیوالی ہیں میں یہ بریکنگ نیوز دے رہا ہوں۔
Load Next Story