میڈیا لاجک کی بلیک میلنگ کے پیچھے سیاسی ایجنڈا ہے جے آئی ٹی بنائی جائے ایکسپریس فورم

ہر اسکینڈل کے پیچھے ایک ایس ایچ او کھڑا نظر آتا ہے، خرم نواز گنڈا

وکلا برادری ایکسپریس میڈیا گروپ کیساتھ ہے،چار دیواری کا تقدس پامال کر کے سی آئی اے جرم کی مرتکب ہوئی، رمضان چوہدری ۔ فوٹو : ایکسپریس

ایکسپریس میڈیا گروپ کیخلاف میڈیا لاجک کی بلیک میلنگ سے ایک سیاسی ایجنڈے اور سازش کی بو آرہی ہے۔ حکومت کی مسلسل خاموشی ظاہر کر رہی ہے کہ شاید حکومت بھی اس سازش کا حصہ ہے۔

میڈیا لاجک نے چینلز کی ریٹنگ کیلیے مناپلی اور بلیک میلنگ شروع کر رکھی ہے جو خلاف آئین ہے۔ یہ ریٹنگ کا انتہائی بھونڈا طریقہ ہے، اس طرح کے کام کرنے والوں کو چیک کرنے والے ادارے کیوں خاموش ہیں۔

دنیا کا کوئی قانون پولیس کو بغیر مقدمے کے لوگوں کو گرفتار کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ سی آئی اے پولیس شائستہ کیس میں چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کر کے جرم کی مرتکب ہوئی ہے۔ قانون کو حرکت میں آنا چاہیے اور اس میں ملوث ادارے اور افراد کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے اور فوری طور پر جے آئی ٹی تشکیل دی جائے۔

یہ بحران صرف ایکسپریس میڈیا گروپ کا نہیں سارے پاکستانی میڈیا کا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے ''میڈیا لاجک کی بلیک میلنگ'' کے حوالے سے منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' نے کیا۔ فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے انجام دیے۔پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکریٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور نے کہا کہ بدقسمتی سے ہم ایک ایسے نظام کی جانب چل رہے ہیں جس میں پولیس اور بیوروکریسی کے ذریعے پورے ملک کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اسی لیے طاہرالقادری بھی نظام کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میڈیا لاجک کی اپنی حقیقت پرسوالات اٹھتے ہیں، پورے ملک میں صرف ہزار میٹر لگانے سے چینلوں کی ریٹنگ کا فیصلہ کیسے ہو گا؟ یہ میٹر صرف شہری علاقوں میں لگائے گئے اور اس طرح 80فیصد آبادی کی رائے کو نظرانداز کیا گیا۔ کمپنیوں کوخود سروے کروانے کی قانونی اجازت نہیں ہے۔ وہ صرف ایک کمپنی کی ریٹنگ پر انحصار کر کے اربوں روپے کے اشتہارات چینلوں کو دے دیتی ہیں اسلیے میرے نزدیک کم از کم 4ریٹنگ کمپنیاں ہونی چاہئیں۔


انھوں نے کہا کہ میاں برادران کے ہر دور میں ذاتی مقاصد کیلیے پولیس کا ناجائز استعمال کیا گیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں14بیگناہ شہید کر دیے گئے لیکن کسی کیخلاف کارروائی نہیں ہوئی۔ اسی طرح قصور واقعے میں بھی100سے زائد لوگ ملوث تھے لیکن پولیس نے اس مسئلے پر بھی سب اچھا ہے کی رپورٹ دیدی۔ پولیس نے بغیر ایف آئی آر کے شائستہ کے دو بھائیوں کو اٹھا لیا جو قانوناََ جرم ہے۔ ہر اسکینڈل کے پیچھے پولیس کا ایس ایچ او کھڑا نظر آتا ہے۔ میانوالی کے ایس ایچ او کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور اب تو متنازعہ شخص کو پنجاب کا آئی جی لگا دیا گیا ہے۔ میڈیا لاجک میں معاملہ خاتون کی عزت کا ہے، حکومت کو اس میں کوئی تشہیر نہیں ملنی اسلیے حکومت، چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب ابھی تک خاموش ہیں۔

دانشور سلمان عابد نے کہا کہ میڈیا کے سسٹم کو جانچنے کا طریقہ شفاف ہونا چاہیے کیونکہ جبتک ایسا نہیں ہوگا تب تک مسائل آتے رہیں گے۔ صرف ایک ہزار خاندانوں کی ریسرچ سے 18کروڑ عوام کی ریٹنگ ممکن نہیںہے۔ اس سسٹم سے دراصل ایک مخصوص طبقے کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو آمرانہ مزاج کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ صرف ایکسپریس کا نہیں بلکہ پورے میڈیا کا بحران ہے۔ آج ایکسپریس کیساتھ ہوا ہے تو کل کسی دوسرے چینل کیساتھ ہو سکتا ہے۔

پولیس نے قانون کی خلاف ورزی کی اور اس کمپنی کی ملازمہ کے گھر چھاپہ مار کر اسکے خاندان والوں کو ہراساں کیا اور اس کے بھائیوں کو گرفتار بھی کیا ، یہ طریقہ خوفناک ہے اور اس طرح خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا اسکینڈل ہے جس کے پیچھے سیاسی ایجنڈا دکھائی دیتا ہے اور سازش کی بو آرہی ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو چاہیے تھا کہ اس پر نوٹس لیتے اور جے آئی ٹی بناتے لیکن حکومت تو اس پر بات کرنے کیلیے بھی تیار نہیں ہے۔ ایک نجی ٹی وی کے معاملے میں تو حکومت فریق بن گئی تھی لیکن اب حکومت کی خاموشی سے لگتا ہے کہ وہ بھی اس کا حصہ ہے۔

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین رمضان چوہدری نے کہا کہ پولیس کی ایجنسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بغیر کسی مقدمے کے کسی شخص کو گرفتار کرے، اس کیس میں چاردیواری کا تقدس پامال ہوا ہے لہٰذا سی آئی اے تعزیرات پاکستان کے تحت جرم کی مرتکب ہوئی ہے۔ گرفتاری کے بعد 24گھنٹے کے اندر عدالت پیش کر کے تفتیش کیلئے اجازت نامہ لینا ہوتا ہے۔ اس کیس میں ایسا نہیں کیا گیا لہٰذا متاثرہ فریق کو پولیس اور دیگر ذمہ داروں کیخلاف عدالت میں جانا چاہئے۔ کسی بھی شعبے میں مناپلی آئین کے منافی ہے۔

مناپلی کیخلاف کارروائی کے حوالے سے مناپلی کنٹرول اتھارٹی جیسا ٹریبونل موجود ہے لیکن حیرت ہے کہ وہ ابھی تک خاموش کیوں ہے۔ ایف آئی آر میں لگائی گئی دفعات سے قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ دفعہ468قابل دست اندازی پولیس نہیں ہے لہٰذا متاثرہ فریق کو ایف آئی آر کی منسوخی کیلیے درخواست دینی چاہیے۔ وکلاء برادری ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ ہے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کیس کی انکوائری کیلئے فوری جے آئی ٹی بننی چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جے آئی ٹی بن جاتی ہے تو اتنے بڑے کیس کیلیے کیوں نہیں بنائی جا سکتی۔

https://www.dailymotion.com/video/x365ekb_express-forum-media-logic_news
Load Next Story