ایشین ممالک فیفا گرانٹس کا درست استعمال نہ ہو سکا

پاکستان میں ایک گرائونڈ کیلیے5لاکھ ڈالردیے گئے،دھول میں اٹا گول پوسٹ ہی موجود ،نیپالی وینیوپربکریاں گھاس چرنے لگیں

پاکستان میں ایک گرائونڈ کیلیے5لاکھ ڈالردیے گئے،دھول میں اٹا گول پوسٹ ہی موجود ،نیپالی وینیوپربکریاں گھاس چرنے لگیں فوٹو : فائل

PORTLAND:
جنوبی ایشیائی ممالک میں فیفا گرانٹس کا درست استعمال نہیں ہورہا،امداد فٹبال کا کھیل مقبول بنانے اور سہولتوں کی فراہمی کیلیے دی جاتی ہے، غیرملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق پاکستان کے ایک گراؤنڈ کیلیے5 لاکھ ڈالر دیے گئے لیکن وہاں صرف ایک دھول میں اٹا گول پوسٹ ہی موجود ہے۔

نیپال میں موجود گراؤنڈ میں بکریاں گھاس چر رہی ہیں جبکہ چوکیدار کو ایک برس سے تنخواہ نہیں ملی۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کے ہاکس بے ٹریننگ سینٹر میں کوئی جانا پہچانا فٹبال گراؤنڈ نہ ہی کوئی پلیئر موجود ہے، فیفا کی جانب سے 5لاکھ ڈالر ملنے والا اسٹیڈیم آفیشل طور پر2 برس قبل مکمل ہو چکا ہے، نیپال میں فیفا کی امداد سے تیار کردہ پرانی سہولیات پرمشتمل دھاران فٹبال اکیڈمی کے قریب گراؤنڈ میں بکریاں گھاس چر رہی ہیں،اسٹاف کا واحد رکن ایک چوکیدارکاکہنا ہے کہ اسے ایک برس سے تنخواہ نہیں ملی۔

ان 2جنوبی ایشین ممالک میں ایک نیوزایجنسی کی جانب سے کیے جانے والے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف رواں برس فٹبال کی عالمی گورننگ باڈی سے 2 ملین ڈالر سے زائد ملنے کے باوجود آدھے مکمل دونوں گراؤنڈزگندگی سے بھرے اوراستعمال کے قابل نہیں ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں ایجنسی کے رپورٹرز نے 'گول' پروگرام کے تحت فیفا کی امداد سے شروع کیے گئے پاکستان اور نیپال کے7 پروجیکٹس کا دورہ کیا تھا، ٹیکنیکل سینٹرز سے معروف یوتھ اکیڈمیز کی فٹبال فیلڈز اور اسٹیڈیمز میں پلیئنگ پچز کیلیے فیفا انھیں رقوم فراہم کرتی ہے۔


انھیں صرف ایک میں فل ٹائم ٹریننگ پروگرام دیکھنے کو ملا جبکہ 3 میں کوئی باقاعدہ پلیئنگ فیلڈز موجود نہیں تھیں۔ سبکدوش ہونے والے صدر سیپ بلاٹر کے17برس دور قیادت میں فیفا نے دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں اس قسم کے پروجیکٹس کو بھاری رقومات ادا کی گئی تھیں۔ بلاٹر کا کہنا تھا کہ پروگرام کا مقصد دنیا کے انتہائی مقبول کھیل کو تمام لوگوں کیلیے ممکن بنانا تھا لیکن ناقدین نے ان گرانٹس کو اقتدار قائم رکھنے کیلیے ایسے ممالک کی فٹبال ایسوسی ایشنز کے سربراہان کو بطور امداد رقم دینا قرار دیا جہاں فٹبال کو زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہے۔ فیفا کا کہنا ہے کہ وہ ترقیاتی پروگرامز پر ہر سال 200 ملین ڈالر خرچ کرتی اور اس کا کچھ حصہ 'گول' پروگرام کے تحت دیا جاتا ہے۔

عالمی باڈی نے خصوصی طور پر نیپال اور پاکستان سے متعلق معاملات پر کسی بھی تبصرے سے انکار کیا ، البتہ اس کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ان کے 'گول' پروجیکٹس کامیاب رہے ہیں۔ پاکستان اور نیپال کی فٹبال ایسوسی ایشنز کے صدور کو حریفوں کی طرف سے سربراہی کے چیلنجزکا سامنا ہے جو ان پر کرپشن کے الزامات لگا رہے جبکہ آفیشلز تردید کررہے ہیں۔ دونوں کا کہنا ہے کہ فیفا نے رکن ایسوسی ایشنز کے اکاؤنٹس میں ادائیگی کے بجائے 'گول' پروجیکٹ فنڈز براہ راست کنٹریکٹرز کو ادا کیے اور اس کا مقصد کرپشن سے بچنا ہے۔ پاکستان فٹبال فیڈریشن کے صدر فیصل صالح حیات کو جون سے ایف آئی اے کی تحقیقات کا سامنا اور ان پر 1.4 ملین ڈالر غیر ملکی دوروں پر خرچ کرنے کا الزام ہے۔

ماہر تعمیرات کی ڈرائنگز میں ہاکس بے ٹیکنیکل سینٹر میں سرسبز فٹبال فیلڈ دکھائی گئی ہے۔ نیشنل اور یوتھ ٹیموں کی ٹریننگ کیلیے سینٹر کی منظوری 2006 میں ہوئی، فیفا کی ویب سائٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس سینٹر پر 5 لاکھ 5 ہزار 958 ڈالر خرچ کیے ہیں۔ فیصل صالح حیات کا کہنا ہے کہ پروجیکٹ ایک برس قبل تکمیل کو پہنچا، سینٹر ایک وسیع و عریض عمارت پر مشتمل اور اس کی چھت پر کنکریٹ کی ایک بڑی فٹبال نصب ہے، مگر اس میں گھاس موجود نہیں۔ نیوز ایجنسی کی رپورٹنگ اور آفیشلز کے تبصروں سے معلوم ہواکہ پاکستان میں 8 'گول' پروجیکٹس فیفا فنڈز کے 2.6 ملین ڈالر سے مکمل ہوئے ہیں، حالانکہ صرف ایک ہی مکمل اور فنکشنل لاہور میں 4 لاکھ 81 ہزار 650 ڈالر سے تیارشدہ آفس اور پی ایف ایف کا ہیڈکوارٹرز ہے۔

فیصل حیات نے قبل ازیں نیوز ایجنسی کو بتایا تھا کہ 8 میں سے 4 پروجیکٹس مکمل اور ان میں لاہور کا آفس، کراچی میں ہاکس بے، کوئٹہ اور ایبٹ آباد کے ٹیکنیکل سینٹرز شامل ہیں۔ کوئٹہ مرکز میں لاجنگز، ایک کینٹین اور ایک آفس موجود لیکن کوئی پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے۔ ایبٹ آباد سینٹر میں پلیئنگ فیلڈ، آفسز اور دورہ کرنے والے پلیئرز کیلیے عمارت موجود لیکن بجلی، گیس یا پانی کے کنکشنز دستیاب نہیں ہیں۔ یہی صورتحال نیپال میں بھی ہے۔ دھاران ٹیکنیکل سینٹر 2002 میں بنایا گیا تھا لیکن اکیڈمی کے ڈائریکٹر دیپک رائے کے مطابق عام طور پر یہ نشے باز اورپھر اگلے 6 برس تک ماؤباغیوں کے استعمال میں رہا ہے۔
Load Next Story