امن ہم سب کی مشترکہ ضرورت
دہشتگردی اور بدامنی پر قابو پانےکے لیے کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ فعال ہوگئی ہے
KARACHI:
دہشتگردی اور بدامنی پر قابو پانے کے لیے کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ فعال ہوگئی ہے جس کا اندازہ رینجرز اور پولیس کی مشترکہ یا الگ الگ کارروائیوں کے نتیجہ میں ہونے والی گرفتاریوں میں پیش رفت سے لگایا جاسکتا ہے، گزشتہ روز کورنگی میں ناردرن بائی پاس پر رینجرز کی کارروائی میں 4 خطرناک دہشت گرد ہلاک جب کہ ایک اہلکار زخمی ہو گیا ۔
ترجمان رینجرز سندھ کے مطابق جمعرات کو ملزمان کی علاقے میں موجودگی کی اطلاع پر سرجیکل آپریشن کیا گیا ۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے دہشت گرد وکیل حسنین بخاری کے قتل میں ملوث تھے جنھیں چار مارچ 2015ء کو قتل کیا گیا تھا۔
یہی سرعت اور غیر معمولی کارروائی دہشتگردی کی تاک میں لگے ہوئے ٹارگٹ کلرز کے قدم روک سکتی ہے، جب کہ واردات یا تخریب کاری اور ہولناک سانحہ کے جنم لینے سے پہلے موثر کارروائی کا میکنزم مستحکم ہوا اور ساتھ ہی جارحانہ حکمت عملی کے ساتھ حساس علاقوں میں موجود دہشتگرد گروپوں ، فرقہ وارانہ گروپوں اور کالعدم تنظیموں کے روپوش عناصر کا اسی پیشہ ورانہ جوش و ذمے داری سے کھوج لگایا جائے جیسے کراچی کی ساؤتھ پولیس نے مختلف علاقوں سے سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے 5 ملزمان سمیت 8 جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کر کے اسلحہ برآمدگی کے ضمن میں کارکردگی پیش کی ہے۔ لیکن کراچی میں جرائم پر قابو پانے کے لیے سندھ حکومت کا ایکشن پلان گومگو کا شکار نہیں رہنا چاہیے ، نیز سندھ کی غیر یقینی سیاسی صورتحال کا خاتمہ لازمی شرط ہے۔
وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے نیشنل ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں شکایت کی کہ صوبے کا چیف ایگزیکٹو ہوں مگر مجھے کچھ بتایا ہی نہیں جاتا۔ ایف آئی اے وفاقی ادارہ ہے، صوبے میں مداخلت نہ کرے، سندھ میں اس کا کردار محدود کیا جائے ۔ تاہم وزیراعلیٰ نے خود اعتراف کیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے ۔ ادھر ایک خوش آیند خبر یہ بھی ہے کہ سندھ پولیس میں نیا آٹومیشن سسٹم متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
نئے سسٹم کے تحت کراچی میں قائم اسلحے کی تمام دکانیں انٹر لنک ہوں گی، دکاندار کو اسلحے کی خریداری سے فروخت تک معلومات کی فراہمی کا پابند بنایا جائے گا۔ اسلحے کی مالیت اور خریدار کی تفصیلات بھی دکاندار فراہم کرے گا۔ ہر دکان میں ایک کمپیوٹر سینٹرل پولیس آفس سے منسلک ہوگا۔ سیکیورٹی گارڈز کا ڈیٹا بھی بائیو میٹرک کرایا جائے گا۔ یہ مثبت اقدامات ہیں، تاہم کیا ان اقدامات کا دامن دیگر تین صوبوں تک نہیں پھیلایا جانا چاہیے۔ کیونکہ امن و امان کی بہتری تو مادر وطن کی مشترکہ ضرورت ہے۔
دہشتگردی اور بدامنی پر قابو پانے کے لیے کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ فعال ہوگئی ہے جس کا اندازہ رینجرز اور پولیس کی مشترکہ یا الگ الگ کارروائیوں کے نتیجہ میں ہونے والی گرفتاریوں میں پیش رفت سے لگایا جاسکتا ہے، گزشتہ روز کورنگی میں ناردرن بائی پاس پر رینجرز کی کارروائی میں 4 خطرناک دہشت گرد ہلاک جب کہ ایک اہلکار زخمی ہو گیا ۔
ترجمان رینجرز سندھ کے مطابق جمعرات کو ملزمان کی علاقے میں موجودگی کی اطلاع پر سرجیکل آپریشن کیا گیا ۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے دہشت گرد وکیل حسنین بخاری کے قتل میں ملوث تھے جنھیں چار مارچ 2015ء کو قتل کیا گیا تھا۔
یہی سرعت اور غیر معمولی کارروائی دہشتگردی کی تاک میں لگے ہوئے ٹارگٹ کلرز کے قدم روک سکتی ہے، جب کہ واردات یا تخریب کاری اور ہولناک سانحہ کے جنم لینے سے پہلے موثر کارروائی کا میکنزم مستحکم ہوا اور ساتھ ہی جارحانہ حکمت عملی کے ساتھ حساس علاقوں میں موجود دہشتگرد گروپوں ، فرقہ وارانہ گروپوں اور کالعدم تنظیموں کے روپوش عناصر کا اسی پیشہ ورانہ جوش و ذمے داری سے کھوج لگایا جائے جیسے کراچی کی ساؤتھ پولیس نے مختلف علاقوں سے سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے 5 ملزمان سمیت 8 جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کر کے اسلحہ برآمدگی کے ضمن میں کارکردگی پیش کی ہے۔ لیکن کراچی میں جرائم پر قابو پانے کے لیے سندھ حکومت کا ایکشن پلان گومگو کا شکار نہیں رہنا چاہیے ، نیز سندھ کی غیر یقینی سیاسی صورتحال کا خاتمہ لازمی شرط ہے۔
وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے نیشنل ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں شکایت کی کہ صوبے کا چیف ایگزیکٹو ہوں مگر مجھے کچھ بتایا ہی نہیں جاتا۔ ایف آئی اے وفاقی ادارہ ہے، صوبے میں مداخلت نہ کرے، سندھ میں اس کا کردار محدود کیا جائے ۔ تاہم وزیراعلیٰ نے خود اعتراف کیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے ۔ ادھر ایک خوش آیند خبر یہ بھی ہے کہ سندھ پولیس میں نیا آٹومیشن سسٹم متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
نئے سسٹم کے تحت کراچی میں قائم اسلحے کی تمام دکانیں انٹر لنک ہوں گی، دکاندار کو اسلحے کی خریداری سے فروخت تک معلومات کی فراہمی کا پابند بنایا جائے گا۔ اسلحے کی مالیت اور خریدار کی تفصیلات بھی دکاندار فراہم کرے گا۔ ہر دکان میں ایک کمپیوٹر سینٹرل پولیس آفس سے منسلک ہوگا۔ سیکیورٹی گارڈز کا ڈیٹا بھی بائیو میٹرک کرایا جائے گا۔ یہ مثبت اقدامات ہیں، تاہم کیا ان اقدامات کا دامن دیگر تین صوبوں تک نہیں پھیلایا جانا چاہیے۔ کیونکہ امن و امان کی بہتری تو مادر وطن کی مشترکہ ضرورت ہے۔