پاکستان کے ترقی کے ضامن

اس ملک سے محبت کرنے والوں کی لگن کا نتیجہ ہے کہ ہم اتنے مشکل حالات میں بھی ترقی کر رہے ہیں۔

باہمت ، قابل، بے لوث اور انتھک محنت کے جذبات سے سرشارافراد کے بل بوتے پر ہی یہ ملک پھل پھول رہا ہے۔ فوٹو :فائل

آج سے ٹھیک 67 سال پہلے اپنی پیدائش کے صرف ایک سال بعد ہی پاکستان کے باسیوں نے اپنے بانی کو کھو دیا، محض 10 سال بعد آئین کو معطل ہونا پڑا، 18 سال بعد اپنے سے 5 گنا بڑے دشمن سے جنگ سے دو چار ہونا پڑا، 24 سال بعد آدھا ملک علیحدہ کر دیا گیا۔ قیادت کے معاملے میں قسمت ایسی کہ پہلے دن سے قیادت ایسی ملی جو ''میں'' اور ''میرا خاندان'' جتنا کما سکتے کماؤ سے آگے نہ دیکھ سکی۔

مسندِ اقتدار پہ وہی چہرے بار بار تبدیل ہوئے، کبھی وردی والوں کے ساتھ اور کبھی سوٹ بوٹ اور ٹائی والوں کے ساتھ، یہاں وہ سب ہوا جو کہیں اور تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا، لوٹ مار ایسے ہوئی جیسے یہ قومی فریضہ ہو۔ اکیسویں صدی کا آغاز ہوا تو ساتھ ہی وار آن ٹیرر کے نام پر 50 ہزار لوگ بے گناہ مار دیے گئے۔ جمہوری حکومتوں میں کرپشن کے انبار اور اختیارات کے ہر حد تک استعمال کے باوجود بھی یہ ملک ترقی کر رہا ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایسا کیوں؟ اتنا کچھ سہنے کے باوجود یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ساری مشکلات اور تباہیوں کے باوجود یہ ملک باہمت، قابل، بے لوث اور انتھک محنت کے جذبات سے سرشار افراد کے بل بوتے پر ہی یہ ملک پھل پھول رہا ہے۔

یہ کمسنی کی عمر میں خاندان، پیاروں، زندگی اور خواہشات سےمنہ موڑنے والے وطن پر جان دینے والے راشد منہاس ہوں، کم عمر ترین مائیکروسافٹ پروفیشنل اور کم عمر ترین آئی ٹی ماہر ارفع کریم ہوں، مردوں کے اس غالب معاشرے میں جرات کرنے والی عائشہ ممتاز ہوں، پچھلے 15 سالوں سے دہشتگردوں کی سیدھی گولیوں کا سامنا کرنے والے فوجی اور پولیس کے جوان ہوں یا اس ملک میں پھیری لگانے والا ایک سادہ سا ایماندار شہری، یہ سب وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ اس قوم کے لیے باعثِ فخر اور اس ملک کی ترقی کی بنیاد ہیں۔

اس ضمن میں سامنے آنے والی تازہ مثال ملاحظہ کر لیجیے کہ پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کے ماہرین نے 2012 میں کامرہ ایئر بیس پر دہشت گردوں کے حملے میں تباہ ہونے والے اواکس طیارے کو دوبارہ آپریشنل کرکے ملکی خزانے کے ڈیڑھ ارب روپے سے زائد رقم بچالی۔ 2012 میں دہشتگردوں کے حملے کے نتیجے میں ایک طیارے کو خاص نقصان پہنچا تھا جس کی مرمّت کے لیے امریکی ماہرین سے رابطہ کیا گیا تو پتا چلا کہ طیارے کی مرمت کا خرچہ 3 کروڑ ڈالر یعنی 3 ارب روپے تک ہوگا، لیکن پاکستانی ماہرین نے اپنی مدد آپ کے تحت 10 ماہ کی محنت کے دوران صرف ڈیڑھ کروڑ ڈالر میں اسے آپریشنل کردیا اور خزانے کو ڈیڑھ ارب روپے کا فائدہ پہنچا دیا۔

یہ صرف ایک بہت بڑی کامیابی ہی نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، ہمارے پاس ٹیلنٹ، تجربے، ہنرمندی اور پیشہ وارانہ مہارت کی کوئی کمی نہیں، پھر چاہے بات ہو پاکستانی ڈرون طیارہ براق کی، یا پاکستان میں بننے والے جے ایف 18 تھنڈر کی۔ یہ سب اس ملک سے محبت کرنے والوں کی لگن کا نتیجہ ہے کہ ہم اتنے مشکل حالات میں بھی ترقی کر رہے ہیں۔


یہ تو تھی ان لوگوں کی کہانی جو اس ملک سے مخلص ہیں اور اس کی ترقی کے لیے کچھ کر رہے ہیں دوسری قسم ہے ان لوگوں کی جو کچھ کر بھی نہیں رہے اور کھا بھی دونوں ہاتھوں سے رہے ہیں. ایک طرف اگر ڈیڑھ ارب بچایا گیا ہے تو دوسری طرف 81 ارب ایسے بہا دیے گئے ہیں جیسے ثواب کا کام ہو۔ نندی پور پاور پروجیکٹ کی کہانیاں عام ہیں، یہ 21 ارب سے 81 ارب تک کیسے پہنچ گیا، اس کی کروڑوں کی مشینیں بندرگاہ پر پڑی پڑی زنگ آلود ہو گئیں۔ اس قوم کا اتنا پیسا لگانے کے باوجود بھی یہ پروجیکٹ بچوں کے کھلونے کی طرح چند دن چلنے کے بعد کیوں بند ہو گیا۔

تازہ خبر یہ ہے کہ وزیرِاعظم نے نندی پور پروجیکٹ کا آڈٹ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ایک اچھی خبر ہے اور اسکا آڈٹ ہی نہیں بلکہ ذمہ داروں کے خلاف کاروائی بھی ہنگامی بنیادوں پر ہونی چاہیے تاکہ آیندہ اس قوم کا پیسا پانی کی طرح بہانے سے پہلے ایک بار سزا کا بھی سوچ لیا جائے۔

[poll id="659"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story