آنکھیں

آنکھ اور دل کا گہرا تعلق ہے، اس لیے اکثر حماقتیں آنکھ سے داخل ہوکر سیدھی دل میں اترتی ہیں۔

کچھ لوگ آنکھوں میں خواب سجا لیتے ہیں اور جب خواب ٹوٹ پڑتے ہیں تو آںکھیں پھوٹ جاتی ہیں۔ فوٹو فائل

آنکھیں۔۔۔۔۔ خدا کی قدرت ہیں، انمول تحفہ ہیں، آنکھیں نہ ہوتیں تو دنیا کا حسن اور قدرت کے شاہکار تعریف سے محروم رہ جاتے۔ آنکھیں نہ ہوتیں تو حُسن پرستی نہ ہوتی اور اگر آپ کی آنکھیں نہ ہوتیں تو آپ یہ آرٹیکل پڑھنے کے بجائے شاید کسی سے سن رہے ہوتے!!!!

آنکھیں دیکھنے کے کام آتی ہیں، آنکھیں تاڑنےکے کام بھی آتی ہیں اکثر خواتین اس کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں اور اکژ مرد انہیں آنکھوں کی بدولت تاڑو کہلاتے ہیں۔ آنکھیں سائز کے حساب سے کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ چھوٹی آنکھیں، بڑی آنکھیں، موٹی آنکھیں اور درمیانی آنکھیں ۔۔۔۔ آنکھیں رنگ دار بھی ہوسکتی ہیں۔ نیلی آنکھیں، ہری آنکھیں، بھوت کی ہوں تو لال آنکھیں، گلابی آنکھیں اگر پیلیا ہوجائے تو یہ فوراً پیلی ہوجاتی ہیں۔

آنکھیں اور طرح کی بھی ہوسکتی ہیں۔ سوتی آنکھیں، جاگتی آنکھیں، روتی آنکھیں، ہستی آنکھیں، پتھر کی آنکھیں اور نشیلی آنکھیں! آنکھیں اپنی بھی ہوسکتی ہیں اور پرائی بھی اپنی آںکھوں سے انسان کو بس ''اپنا آپ'' ( باطن) نظر نہیں آتا اور پرائی آنکھوں سے صرف ''اپنا آپ '' دکھتا ہے۔ کئی شعراء نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر آنکھیں کہیں نا کہیں فٹ کی ہیں۔

محسن نقوی کہتے ہیں؎
یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسن

وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تیری آنکھیں

افتخار عارف فرماتے ہیں؎
اس ایک خواب کی حسرت میں جل بجھی آنکھیں

وہ ایک خواب کہ اب تک نظر نہیں آیا

اور ہم کہتے ہیں کہ؎
وہ کسی اور کے ساتھ بھاگ گیا


ہم راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھے رہے

بھینگا پن آنکھوں کی بیماری ہے اگر کسی کا محبوب بھینگا ہو تو وہ ہمیشہ کنفیوژن کا شکار رہتا ہے، آیا مخاطب وہ خود ہے یا آڑ میں کچھ اور ہے جسکی پردہ داری ہے۔ آنکھوں میں موتیا آجاتا ہے، عموماً اس وقت جب بندہ توبہ کرچکا ہوتا ہے۔ آنکھوں میں خون بھی اتر آتا ہے۔آنکھوں پر کئی طرح کے محاورے مشہور ہیں، آنکھ لڑ جاتی ہے لیکن اگر پہلی کی موجودگی میں لڑگئی تو حالات نازک بھی ہوسکتے ہیں اس لیے احتیاط لازم! وہ خواتین خوش قسمت ہوتی ہیں جن کے شوہر ان کے آنکھ کے اشارے پر چلتے ہوں ورنہ دوسرے کے شوہروں کو اشاروں پر چلانا کجا مشکل نہیں! ایک صاحب جب بھی سونے لیٹتے تو ان کی آنکھ لگ جاتی تھی تو بھائی آپ کو کیا اعتراض ہے؟ انسان آنکھ لگانے کے لیے ہی تو لیٹتا ہے ناں، دل لگانے کے لیے آنکھ نہیں لگاتا۔

استاد شاگرد کو انتہائی غصیلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے، لفظ آنکھ کو جملے میں استعمال کرو۔ شاگر بھی ہٹلر کو پڑھا ہوا تھا۔ استاد ہی کی آنکھوں میں دیکھ کر جواب دیا۔
''تیری آنکھیں نکال لینے کو جی چاہتا ہے''

بعد از جو کچھ ہوا وہ تحریر کے ہرگز قابل تو نہیں، کچھ لوگ آنکھوں میں خواب سجا لیتے ہیں اور جب خواب ٹوٹ پڑتے ہیں تو آںکھیں پھوٹ جاتی ہیں اسی لیے انشاء جی چپکے سے کہہ گئے تھے۔
پھر سے آنکھوں میں خواب انشاء جی؟

اجتناب، اجتناب انشاء جی!

آنکھیں آجاتی ہیں۔ آنکھیں لائی بھی جاسکتی ہیں، بس ذرا قریبی چوک پر کھڑے ہوکر وجودِ زن سے بے تکلفانہ گفتگو کرکے لیجیے، آنکھ اور دل کا گہرا تعلق ہے، اس لیے اکثر حماقتیں آنکھ سے داخل ہوکر سیدھی دل میں اترتی ہیں۔ دماغ ان کا اثر لینے سے قاصر رہتا ہے۔ سمجھ تو گئے ہونگے؟

ہم بھی عجیب قوم ہیں۔ اپنوں کی آںکھیں نوچنے میں منٹ نہیں لگاتے اور اگر کوئی غیر ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھے تو اسے اطمینان سے کہہ دیتے ہیں ''میلی'' نہیں ''میری'' آنکھ سے دیکھو، اپنا ہی سمجھو بھائی، الغرض دنیا میں آنکھوں کی کثرت ہے مگر بصیرت کی کمی، آنکھ سے جو نظر آتا ہے عموماً سمجھ نہیں آتا اور اہلِ علم جن کی آنکھ میں بصیرت ہوتی ہے وہ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں۔۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں

محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائےگی!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story