اب ہم سَراٹھا کر جینا چاہتے ہیں
داعش کی درندگی کے خلاف یزیدی عورتوں نے ہتھیار اٹھا لیے
یہ عورتوں کی ایک فوجی بٹالین ہے۔ ان عورتوں میں سب سے کم عمر 17 سالہ جانِ فارس ہے۔ جب داعش کے دہشت گردوں نے حملہ کیا تو وہ اپنے بھائی اور بہن کے ساتھ کوہ سنجر سے بھاگ نکلی۔ اب وہ اس بٹالین میں شامل ہوچکی ہے۔ وہ کہتی ہے، ''وہ مجھے قتل کر ڈالیں لیکن میں مرتے دم تک کہوں گی، میں یزیدی ہوں، میں یزیدی ہوں۔''
اس بٹالین کی بانی30 سالہ زیت شنگالی ہے۔ وہ شمالی عراق میں روایتی لوک گیت گانے والی مشہور ترین گلوکارہ ہے۔ لیکن اب وہ موسیقی کی دنیا سے نکل کر ایک ایسی دنیا میں داخل ہوگئی ہے جہاں آتشیں ہتھیاروں کی خوف ناک آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ زیت شنگالی نے یہ بٹالین قائم کرنے کے لیے کردستان کے صدر مسعودبرزانی سے باقاعدہ اجازت حاصل کی ہے۔
اس سال 2 جولائی کو اس نے اس کام کا بیڑا اٹھایا، اور وہ اب تک 140 عورتوں کو اس بٹالین میں بھرتی کرچکی ہے، جن کی عمریں 17 سال سے 30 سال تک کے درمیان ہیں۔ زیت کا کہنا ہے کہ ہماری جنگ جُو عورتیں ابھی مرد کردوں سےAK47 استعمال کرنے کی تربیت حاصل کررہی ہیں۔ یہ ابتدائی درجے کی تربیت ہے، اور ہمیں اور زیادہ تربیت کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم کسی بھی وقت اسلامک اسٹیٹ (داعش والے) کے درندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
جان فارس نے وہ لرزہ خیز ویڈیوز دیکھ رکھی ہیں، جن میں داعش کے دہشت گردوں کو یزیدیوں کے سر قلم کرتے دکھایا گیا ہے۔ وہ کہتی ہے، '' وہ ہمارے سر بھی قلم کردیں، ہمیں پروا نہیں، ہم بھی ان کو اسی انداز میں موت کی بھینٹ چڑھائیں گے۔ بٹالین کی ایک اور ریکروٹ، ہادیہ حسن اپنے چچا اور چچازاد بہن کا انتقام لینا چاہتی ہے، جو داعش کے زیرقبضہ علاقے میں محبوس ہیں۔ وہ بتاتی ہے، جب میں نے اپنے والد کو بتایا کہ میں عورتوں کی بٹالین میں شامل ہورہی ہوں تو وہ بہت خوش ہوئے۔
پہلے مجھے خوف آتا تھا، لیکن اس بٹالین میں شامل ہونے کے بعد میں ان سے خوف نہیں کھاتی۔ جس لمحے مجھے لڑنے کا حکم دیا جائے گا، میں محاذ پر پہنچ جاؤں گی۔ اس نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ اس کی کزن کو بہیمانہ انداز میں جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کی وجہ سے وہ ذہنی مریضہ بن گئی ہے۔'' ہادیہ کا تعلق خانہ سون نامی گاؤں سے ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ ''پہلے ہم محفوظ تھے، لیکن اگست 2014 کے قتل عام سے گزرنے کے بعد خوں ریزی کا سلسلہ جاری ہے۔ میں بھی اب خائف نہیں ہوں۔ پہلے میں صحافی بننے کا خواب دیکھا کرتی تھی، اب داعش سے لڑنا چاہتی ہوں۔ ہماری لڑکیوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا جارہا ہے، اسے دیکھنے کے بعد کون خاموش رہ سکتا ہے۔ ہادیہ کا باپ شنگال کے محاذ پر داعش کے خلاف صف آرا ہے، اس کی پندرہ سالہ بہن بھی جنگ میں حصہ لینا چاہتی ہے لیکن ابھی اسے اجازت نہیں ملی۔
داعش شمالی عراق میں ہزاروں یزیدیوں کو ہلاک کرچکی ہے۔ خوف ناک تشدد کے مستند دستاویزی ثبوت سامنے آچکے ہیں۔ داعش والے یزیدی عورتوں کو گرفتار کرکے اپنی کنیزیں بنالیتے ہیں۔
ان پر جنسی تشدد کرتے ہیں یا سرعام انھیں نیلام کردیتے ہیں۔ شمالی عراق پر تسلط قائم کرنے کے بعد داعش کے دہشت گرد علاقے کے عیسائیوں کا بھی قتل عام کرچکے ہیں۔ داعش کے دہشت گرد صرف شمالی عراق میں معصوم لوگوں کا خون نہیں بہارہے ہیں، وہ مشرق وسطیٰ کے بعض دوسرے ملکوں میں بھی سرگرم عمل ہیں، بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ان کی شاخیں قائم ہوچکی ہیں۔ وہ دنیا کو ''پاک اور خالص'' بنانے کا قصد رکھتے ہیں۔ داعش کے مظالم کی عکاسی کرتی تصویریں اتنی خوف ناک اور لرزہ خیز ہیں کہ ہم انہیں شایع نہیں کرسکتے۔ آپ چاہیں تو یہ تصاویر انٹرنیٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔
زیت شنگالی کی بٹالین میں جو لڑکیاں شامل ہیں، انھیں ''دختران آفتاب'' کا نام دیا گیا ہے (شاید اس لیے کہ یزیدی مذہب سب سے زیادہ زرتشتی مذہب سے متاثر ہوا ہے، اگرچہ اس میں بعض دوسرے مذاہب کے عقائد بھی شامل ہوچکے ہیں، زرتشتی مذہب میں سورج کو مقدس درجہ حاصل ہے) ''دختران آفتاب'' کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر وہ گرفتار ہوئیں تو داعش کے دہشت گرد انھیں جنسی ہوس کا نشانہ بنائیں گے اور سسکا سسکا کر قتل کردیں گے یا سر عام نیلام کردیں گے۔ لیکن وہ سر سے کفن باندھ چکی ہیں، کہتی ہیں، ''ہم بزدلوں کی طرح مرنا نہیں چاہتے، ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارنا چاہتے ہیں۔ ہمارا سینہ غموں سے بھرا ہوا ہے۔''
اگست 2014 میں داعش نے شمالی عراق کے صوبے سنجر کے دیہات پر یلغار کی تھی تو ہزاروں مردوں کو قتل کرنے کے علاوہ ان کی ہزاروں لڑکیوں، نوخیز لڑکوں اور عورتوں کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
ان میں سے بعض عورتیں ان کے پنجوں سے بچ نکلنے میں کام یاب رہیں۔ انھوں نے اپنے ساتھ ہونے والے مظالم اور جنسی درندگی کے جو واقعات بیان کیے ہیں، انھیں سُن کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ زبردستی یزیدی عورتوں سے شادی کرلیتے ہیں، جس کا مقصد صرف جنسی ہوس کی تسکین ہوتا ہے۔ یہی نہیں، وہ حسب منشا گرفتار عورتوں کو سر عام نیلام کرکے پیسے بھی کماتے ہیں۔ ایک 17 سالہ یزیدی لڑکی نے میڈیا کو بتایاکہ اس کے اور اس کی بہن کے ساتھ روزانہ بہیمانہ سلوک کیا جاتا تھا، پھر انھیں منڈی میں فروخت کردیا گیا، بہار نامی ایک لڑکی نے بتایا کہ اس کے کنوارپن کا طبی ٹیسٹ کیا گیا اور پھر اس اعلان کے ساتھ فروخت کیا گیا کہ میرا کنوارپن طبی ٹیسٹ سے ثابت ہوچکا ہے۔
ہادیہ کہتی ہے، ''ٹھیک ہے، وہ ہمیں قتل کر ڈالیں، لیکن وہ عورتوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کیوں کرتے ہیں۔ ان کے اندر ذرا سی بھی انسانیت نہیں ہے۔ وہ بچوں سے ان کی مائیں چھین لیتے ہیں...''
میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق صرف سنجر کے علاقے میں داعش کے دہشت گردوں نے پانچ ہزار لوگوں کو قتل کیا، اور پانچ سو عورتوں اور نوخیز بچوں اور بچیوں کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ یزیدیوں کو ''شیطان کے پرستار'' کہتے ہیں، اور انھیں قتل کرنے سے پہلے زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور بھی کرتے ہیں۔
زیت شنگالی کہتی ہے کہ بہت جلد ان کی بٹالین کوہ سنجر کے جنگی محاذ کے قریب پہنچ کر وہاں اپنا اڈا قائم کرے گی، ''ہمارے پاس بہت کم ہتھیار ہیں، اور لڑاکا طیارے بھی نہیں ہیں۔ ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔ ارد گرد کے دیہات میں رہنے والے عرب لوگوں نے داعش سے گٹھ جوڑ کرلیا ہے، اور وہ بھی اپنے پڑوسی یزیدیوں پر ظلم کررہے ہیں۔ ہم یہ بات کبھی نہیں بھول سکتے۔'' ''دختران آفتاب'' کی ڈپٹی کمانڈر نے اخباری نمائندوں سے کہا، ''ہمارے عرب پڑوسیوں نے ہمارے ساتھ دغا بازی کی ہے، ہم بدلہ لیں گے، اپنی سرزمین کا تحفظ کریںگے۔''
3 اگست 2014 کو سنجر شہر پر داعش نے حملہ کیا تو قتل عام کے دوران ہزاروں یزیدی شنگال پہاڑی سلسلے کی طرف بھاگ نکلے۔ لیکن موت وہاں بھی ان کا تعاقب کررہی تھی۔ بہت سارے لوگ، خاص طور پر بچے بھوک پیاس اور تھکان سے ہلکان ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے۔ اس سال اسی دن یعنی 3 اگست 2015 کو یزیدیوں نے شنگال کے سلسلۂ کوہ کی طرف مارچ کیا، لیکن اس بار ان کا مقصد مختلف تھا۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے یہ عہد کیا کہ اب وہ بے بسی کی ساری زنجیریں توڑ ڈالیں گے، اور ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔
یزیدی ایک غیراہم اقلیت کی حیثیت سے ہمیشہ سر جھکا کر زندگی بسر کرتے آئے ہیں۔ چناںچہ مختلف قوتیں انھیں آسانی سے اپنا نشانہ بناتی رہی ہیں۔ 3 اگست 2014 کو داعش کے لشکر نے یزیدیوں کی بستیوں پر حملہ کیا تو یہ سانحہ ان کے قتل عام کا 73 واں واقعہ تھا۔ کردوں کے درمیان پرانے زمانوں سے یہ کہاوت چلی آتی ہے کہ ''پہاڑوں کے سوا ہمارا کوئی دوست نہیں ہے۔'' یزیدی تو کردوں کے درمیان بھی اقلیتی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے وہ اور بھی زیادہ بے یارومددگار ہیں۔
گزشتہ سال کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے عسکری ونگ، پیش مرگ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ شنگال کو بھرپور تحفظ فراہم کریں گے۔ لیکن جب داعش کے لشکر نے حملہ کیا تو وہ بغیر مقابلہ کیے بھاگ نکلے، یہاں تک کہ وہ شنگال والوں کے لیے ہتھیار چھوڑ کر بھی نہیں گئے۔
اس کے برعکس کردستان ورکرز پارٹی کے چھاپا مار دستوں اور دو تین چھوٹی عسکری تنظیموں نے رجاوا شہر تک کاریڈور کھول کر شنگال کے دس ہزار لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا، حالاں کہ ان کے پاس کلاشنکوف کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ کردستان ورکرز پارٹی کا مرکزی لیڈر چالیس کتابوں کا مصنف عبداللہ اوجلان ہے جو اونچ نیچ کی تمام دیواریں گرانے اور انسانوں کے درمیان مساوات قائم کرنے کا نظام پسند کرتا ہے۔
سال بھر میڈیا یزیدی عورتوں کو تنگ کرتا رہا۔ ان سے بارہا اس قسم کے سوالات کیے گئے کہ انھیں کیسے اور کتنی بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ وہ ان کے آنسوؤں اور سسکیوں کو مشتہر کرتا رہا۔ یہ کسی حد تک درست بھی تھا، کیوں کہ دنیا کے ایک قدیم ترین مذہب کی پیروکار یہ عورتیں سراسر عاجزی اور فرماں برداری کی تصویر بنی ہوئی تھیں۔
لیکن اب انھوں نے اپنے آنسوؤں کو فولادی عزم میں ڈھال لیا ہے۔ اب وہ آسانی سے داعش کی ہوس کا نشانہ نہیں بنیں گی۔ لڑ کر ان کا مقابلہ کریں گی، ان پر کاری ضربیں لگائیں گی، ان کے اس فیصلے کی بازگشت پورے مشرق وسطیٰ میں گونج رہی ہے، بلکہ دنیا بھر کے انسان دوست حلقے انہیں پیغام محبت روانہ کر رہے ہیں۔
ان یزیدی عورتوں کا روحانی باپ کردوں کا مشہور حریت پسند لیڈر عبداللہ اوجلان ہے جو طویل عرصے سے ترکی کی ایک جیل میں بند ہے۔ عبداللہ اوجلان کردستان کے قدامت پسند معاشرے میں عورتوں کے مساوی حقوق کا سرگرم پرچارک ہے۔ اس نے چالیس کے قریب کتابیں لکھی ہیں، اور اپنی تحریروں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ عورتوں کو زندگی کے ہر شعبے میں، جس میں فوجی شعبہ بھی شامل ہے، مساوی حصہ دیا جانا چاہیے۔ عبداللہ اوجلان کردستان ورکرز پارٹی کا لیڈر ہے۔ عراق میں قائم عراق کی مرکزی حکومت کے زیرسایہ کردستان کے خودمختار علاقے میں کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت قائم ہے۔
اب اس انتظامی ڈھانچے سے الگ، یزیدی نمائندوں نے ''شنگال فاؤنڈیشن کونسل'' قائم کردی ہے، جن میں پہاڑوں میں رہنے والے اور مہاجر کیمپوں میں مقیم یزیدیوں کے نمائندے شامل ہیں۔ اس کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ انھیں مرکزی عراقی حکومت اور کردش ریجن گورنمنٹ کے اثر سے آزاد ''خوداختیاری'' حکومت بنانے کا حق دیا جائے۔
اس کونسل نے نظم و نسق چلانے کے لیے تعلیم، صحت، ثقافت، دفاع، امور نسواں اور نوجوانان اور معیشت سے متعلق معاملات سے نبردآزما ہونے کے لیے مختلف کمیٹیاں قائم کردی ہیں، جو ان کی خودمختاری کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس سارے عمل میں عبداللہ اوجلان کی حامی یزیدی عورتیں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ خودمختاری کی طرف اس پیش قدمی سے کردستان میں برسر اقتدار کردستان ڈیموکریٹک پارٹی سخت ناراض ہے۔ یہ وہی پارٹی ہے، جس کے فوجی شنگال پر داعش کے حملے کے وقت لڑے بغیر فرار ہوگئے تھے۔
29جولائی کو شنگال کی عورتوں نے ''شنگال ویمنز کونسل'' کے نام سے ایک خودمختار انتظامی ادارے کی بنیاد ڈال کر تاریخ رقم کردی۔ اس کونسل نے اعلان کیا ہے کہ یزیدی عورتوں کی یہ تنظیم ہر قتل عام کا انتقام لے گی۔ انھوں نے یزیدی خاندانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو اس جنگ کے کسی بھی محاذ پر لڑنے سے نہ روکیں۔ وہ نہ صرف داعش سے دو دو ہاتھ کرنا چاہتی ہیں بلکہ اپنے قدامت پسند معاشرے میں جمہوری اقدار اور مساوات کو فروغ بھی دینا چاہتی ہیں۔ ان کی تحریک عورتوں کی بیداری کی تحریک بھی ہے۔ تاہم شنگال کے پورے علاقے میں بیداری کی ایک نئی لہر آئی ہوئی ہے۔
اب تعلیم، آرٹ، تھیٹر، ثقافت، زبان، تاریخ، غرض یہ کہ مختلف شعبوں میں تبدیلی اور حرکت کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ بلاشبہہ، اس سارے عمل میں یزیدی عورتیں پیش پیش ہیں۔ وہ زندہ رہنے کے نئے ڈھنگ سیکھ رہی ہیں، لڑنے کے نئے انداز سیکھ رہی ہیں۔ اب ہم ظلم کے سامنے سر نہیں جھکائیں گی، انھوں نے اعلان کردیا ہے۔
جوان عورتیں اپنی چُٹیا کاٹ کر اپنے شہید شوہروں کی قبروں پر رکھ آتی ہیں، اور وہاں سے سیدھے محاذ جنگ کی طرف روانہ ہوجاتی ہیں۔ لیکن وہ جنگی تیاری کے ساتھ فکری تعلیم بھی حاصل کرنا چاہتی ہیں، جیسے کہ ایک معمر عورت، شینے نے اخباری نمائندوں سے کہا، ''ہم جنگی تربیت حاصل کر رہی ہیں، لیکن ہمیں نظریاتی تعلیم کی بھی ضرورت ہے، تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ ہمارا قتل عام کیوں ہوتا ہے۔ اب ہم جان چکی ہیں کہ ہم منظم نہیں تھے، اس لیے آسانی سے دشمن کا نوالہ بن گئے۔ شنگال اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ شکریہ، آپو (عبداللہ اوجلان)''
اس تمام صورت حال پر کردستان ورکرز پارٹی کی ایک کمانڈر، سوزدار اویستا نے بڑا معنی خیز تبصرہ کیا ہے۔ وہ کہتی ہے،''یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے کہ داعش نے دنیا کی ایک قدیم ترین کمیونٹی پر حملہ کیا۔
دراصل، وہ سارے مشرق وسطیٰ کی اخلاقی اقدار اور ثقافت کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ انھوں نے یزیدیوں کو نشانہ بناکر ہماری تاریخ کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہے۔ وہ عورتوں کی آزادی اور مساوی حقوق کے بھی دشمن ہیں۔ اس لیے جسمانی طور پر ان کا وجود مٹانے کے علاوہ ہمیں ان کی نظریاتی یورش کا بھی مقابلہ کرنا چاہیے، جو اب ہر طرف اپنے پنجے پھیلا رہی ہے۔''
ایک سال پہلے شنگال کا کوہستانی سلسلہ داعش کے خوں خوار حملے کے وقت بے بسی کی تصویر بنا ہوا تھا۔ اب اس زخم رسیدہ سرزمین پر تبدیلی کے آثار نمایاں ہوچکے ہیں، بیداری کا ایک نیا پیغام طلوع ہوچکا ہے۔ اور بیداری کی اس لہر میں سترہ سالہ نرم و نازک یزیدی لڑکی، جان فارس کا چہرہ دمک رہا ہے، اور پُرزور آواز میں اعلان کررہا ہے، ''ہم لڑیں گی، لڑتے لڑتے جان دے دیں گی، لیکن ظالم دشمن کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گی۔''
ہر شخص کو اپنا عقیدہ عزیز ہوتا ہے۔ ہر شخص کو اپنے عقیدے سے محبت کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ یہی تاریخ عالم کا سب سے زریں سبق ہے۔ ''تمہارا دین تمہارے ساتھ، ہمارا دین ہمارے ساتھ۔''
تم ہمارے دین کو نہ چھیڑو، ہم تمہارے دین کو نہ چھیڑیں۔
مذہب کے نام پر وحشت وبربریت کا کھیل
مذہب کے نام پر خون کی ہولی کھیلنے والے داعش کے دہشت گردوں نے یزیدیوں کو اپنی سفاکی کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ یہ (داعش کے دہشت گرد) نہ صرف یزیدی خواتین کی عزتیں پامال کر رہے ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر ان کی نسل کشی بھی کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ''ادارہ برائے انسانی حقوق'' کی ایک رپورٹ کے مطابق داعش وحشت و بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یزیدی خواتین کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی زیادتی کر رہی ہے، بلکہ مویشیوں کی طرح اُن کی منڈیاں سجا کر انسانیت کی تذلیل بھی کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تاحال سینکڑوں یزیدی لڑکیاں داعش کے درندوں کے چُنگل میں ہیں، اور جو ان کے شکنجے سے بھاگ نکلنے میں کام یا ب ہوئی ہیں انہیں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے اثرات سے باہر نکلنے میں طویل عرصہ لگے گا۔ اُن کی روح پر لگے گھائو بھرنے میں وقت لگے گا۔
رپورٹ کے مطابق اگست 2014 میں عراق کے صوبے نینوا پر قبضے کے بعد داعش کے دہشت گردوں نے نوجوان لڑکیوں کو علیحدہ کرکے عراق اور شام کے مختلف مقامات پر منتقل کردیا، جب کہ مردوں کو ایک جگہ جمع کرکے انہیں سفاکی سے قتل کردیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق تقریباً 5ہزار سے زاید یزیدی اب بھی داعش کی قید میں ہیں، جن میں سے اکثریت خواتین کی ہے۔
داعش کے دہشت گردوں نے مالِ غنیمت سمجھ کر نہ صرف اُن لڑکیوں کی عزتیں پامال کیں بل کہ دل بھر جانے پر انہیں کسی دوسرے دہشت گرد کو بہ طور تحفہ پیش کردیا۔ کسی دہشت گرد نے زبردستی شادی کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر کسی جنس کی طرح بازار میں فروخت کردیا۔
داعش کے دہشت گردوں نے اس قدیم مذہب کے پیروکاروں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا ہے۔ داعش کے دہشت گرد جب چاہتے ہیں کسی بھی یزیدی کے گھر میں گُھس کر اپنی پسند کی لڑکیوں کو ساتھ لے جاتے ہیں۔ وحشت و بربریت کے اس کھیل نے سیکڑوں یزیدی خواتین کی زندگی کو بدنما داغ بنا دیا ہے۔ داعش کے چنگل سے فرار ہونے والی خواتین نے انسانی حقوق کمیشن کو بتایا، '' وہ ہمیں بھوکا رکھتے تھے، اُن کی ہوس پوری نہ کرنے پر وہ ہمیںتاروں اور لکڑی سے مارتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں اپنے چہرے پیٹرول کے ساتھ دھونے پر بھی مجبور کیا گیا۔ عزت بچانے اور تشدد سے بچنے کے لیے بہت سی خواتین نے پنکھے سے لٹک کر، کلائیاں کاٹ کر یا کوئی زہریلی دوا پی کر خودکشی کی کوشش بھی کی۔''
داعش کی قید سے فرار ہونے والی خاتون جلیلہ نے انسانی حقوق کمیشن کو بتایا کہ ''وہ (داعش کے دہشت گرد) ہمیں مالِ غنیمت سمجھتے ہیں، لڑکیوں کی بازاروں میں سرعام اس طرح خرید و فروخت کی جارہی ہے جس طرح مویشی منڈیوں میں جانوروں کو بیچا اور خریدا جاتا ہے۔ داعش کے ہوس پرست دہشت گرد ایک وقت میں تین تین ، چار چار لڑکیوں کو خرید کر انہیں درندگی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ انیس سالہ جینا بھی داعش کی درندگی کا نشانہ بننے والوں میں سے ایک لڑکی ہے۔
ہائی اسکول کے آخری سال میں زیرتعلیم جینا کا خواب ڈاکٹر بننا تھا، لیکن گزشتہ سال اگست میں داعش کے حملے کے بعد اُس کے سارے خواب زمیں بوس ہوگئے۔ جینا کا کہنا ہے کہ انہوں نے (داعش) پورے گائوں والوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے ہم سے ساری نقدی، زیورات، موبائل فونز اور دیگر قیمتی اشیاء چھین لیں۔ پھر وہ ہم سب خواتین کو اپنی گاڑیوں میں بھرکر ایک تین منزلہ عمارت میں لے گئے، جہاں پہلے سے سیکڑوں خواتین موجود تھیں۔ داعش کے درندے روزانہ وہاں آتے اور اپنی پسند کی لڑکیوں کو خرید کر لے جاتے۔
کُردستان علاقائی حکومت کی مشیر برائے صنفی امور Nazand Begikhani کا کہنا ہے کہ ''یزیدی خواتین کو نہ صرف انفرادی اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ انہیںموصل، رقعہ اور شام کے بازاروں میں مویشیوں کی طرح قیمت کے ٹیگ لگا کر جنسی غلامی کے لیے فروخت بھی کیا جارہا ہے۔'' کُرد حکام کا کہنا ہے کہ وہ اب تک تقریباً سو کُرد خواتین کو تاوان کی ادائیگی کے بعد رہا کرواچکے ہیں۔
داعش کی درندگی اب تک 12لاکھ عراقیوں کے بے گھر ہونے کا سبب بن چکی ہے۔ داعش کی بربریت کے ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ ''انہوں نے (داعش کے دہشت گردوں) نے ہمارے گائوں، سنجر، پر حملے کے بعد خواتین کو الگ کردیا اور تمام مردوں کو اسکول میں جمع کر کے انہیں بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا۔'' کُرد حکام کا کہنا ہے کہ داعش کی سفاکانہ کارروائیوں کی وجہ سے صرف نینوا صوبے سے 6 لاکھ 37 ہزار سے زاید لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔
یزیدیوں کی آبادی
عراق ...... 8 لاکھ پچاس ہزار
جرمنی ...... 2 لاکھ پچاس ہزار
آرمینیا ...... 65 ہزار
شام ...... 70 ہزار
جارجیا ...... 30 ہزار آٹھ سو
نیدر لینڈز ...... 10 ہزار
سوئیڈن ...... 7 ہزار
آبادی/عقیدہ/ رسوم
یزیدیوں کی کل آبادی 15 تا 20 لاکھ ہے۔ ان میں سے ساڑھے آٹھ لاکھ عراق میں آباد ہیں۔ ان کی غالب اکثریت عراق اور شام کی سرحد پر واقع کوہ شنگال پر صدیوں سے رہائش پذیر ہے۔ بیرون ملک ان کی سب سے بڑی تعداد جرمنی میں رہتی ہے۔
یہ لوگ دنیا کے ایک قدیم ترین مذہب پر کاربند ہیں، جس پر زرتشتی مذہب کے اثرات نمایاں ہیں۔ ان کے مذہبی پیشوا، زرتشتی پیشوائوں جیسا لباس پہنتے رہے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ لفظ ''یزیدی'' زرتشتیوں کے خدا ''یزداں'' یا ''ایزد'' سے نکلا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ''یزیدی'' لفظ ''یازاتا'' (آسمانی وجود) سے نکلا ہے ''یزیدی'' کا لفظ مختلف شکلوں میں رائج رہا ہے، جیسے ایزدی، یزدی، یزادی وغیرہ۔ اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں خاطر خواہ معلومات حاصل نہ ہوسکیں۔
بعد میں یزیدی مذہب نے اسلام، یہودیت اور عیسائیت سے بھی اثرات قبول کیے جو مذہبی فرائض میں داخل ہوگئے۔ اکثر یزیدی خود کو کرد نہیں کہتے، بلکہ وہ ایک مختلف لسانی اکائی ہونے کے دعوے دار ہیں۔ وہ خدا پر یقین رکھتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ خدا نے کائنات کو سات مقدس ہستیوں کی حفاظت میں دے رکھا ہے، جن میں ''ملک طائوس'' یعنی مور فرشتے کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ یہ مور فرشتہ کائنات کا حکم راں ہے اور انسان پر دکھ سکھ نازل کرتا ہے۔ اس ضمن میں یہ قصہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس کی کسی غلطی کے باعث خدا اس سے ناراض ہوگیا تھا۔ ندامت کے آنسو بہانے پر اسے جہنمی قیدخانے سے رہائی ملی اور خدا پھر سے اس پر مہربان ہوگیا۔
یزیدیوں کی زبان کا نام ''کُرمانجی'' ہے، جو صرف ان کے علاقے تک محدود ہے، تاہم ان کی بعض برادریاں عربی بھی بولتی ہیں۔ ان کے کیلینڈر کے مطابق ان کا مذہب 4750 برس قدیم ہے۔ ان کے عقیدے میں زرد سورج، جس کی 21 شعاعیں ہیں، خدا کی علامت ہے۔ زرتشتیوں کی طرح قدیم فارس (ایران) کے سب سے بڑے تہوار ''نوروز'' کو بھی ان کے درمیان مقدس درجہ حاصل ہے۔
وہ سورج کی طرف رخ کرکے عبادت کرتے ہیں۔ بدھ کا دن مقدس حیثیت رکھتا ہے اور سنیچر آرام کا دن ہوتا ہے۔ دسمبر کے مہینے میں وہ تین دن روزہ بھی رکھتے ہیں۔
مختلف زیارتوں کے لیے سفر کرنے کو وہ مقدس عمل قرار دیتے ہیں۔ ان کے تہواروں میں رقص اور موسیقی کا خاص حصہ ہوتا ہے۔ ان کے ہاں ذات پات کا سسٹم اب تک رائج ہے اور ان کے اپنے توہمات اور ممانعات ان کے ساتھ ہیں۔
اگست 2014 میں داعش نے جو عراق اور پڑوسی ملکوں کو ''پاک اور پوتر'' کرنے کا عزم رکھتی ہے، یزیدیوں کی بستیوں پر حملے کیے۔ انھوں نے اس بہیمانہ انداز میں ان کا قتل عام کیا، عورتوں کی آبرو ریزی کی کہ پوری دنیا لرزا اٹھی۔ ان وارداتوں کی تفصیل اب تک میڈیا میں تواتر کے ساتھ گونج رہی ہے۔
اس بٹالین کی بانی30 سالہ زیت شنگالی ہے۔ وہ شمالی عراق میں روایتی لوک گیت گانے والی مشہور ترین گلوکارہ ہے۔ لیکن اب وہ موسیقی کی دنیا سے نکل کر ایک ایسی دنیا میں داخل ہوگئی ہے جہاں آتشیں ہتھیاروں کی خوف ناک آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ زیت شنگالی نے یہ بٹالین قائم کرنے کے لیے کردستان کے صدر مسعودبرزانی سے باقاعدہ اجازت حاصل کی ہے۔
اس سال 2 جولائی کو اس نے اس کام کا بیڑا اٹھایا، اور وہ اب تک 140 عورتوں کو اس بٹالین میں بھرتی کرچکی ہے، جن کی عمریں 17 سال سے 30 سال تک کے درمیان ہیں۔ زیت کا کہنا ہے کہ ہماری جنگ جُو عورتیں ابھی مرد کردوں سےAK47 استعمال کرنے کی تربیت حاصل کررہی ہیں۔ یہ ابتدائی درجے کی تربیت ہے، اور ہمیں اور زیادہ تربیت کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم کسی بھی وقت اسلامک اسٹیٹ (داعش والے) کے درندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
جان فارس نے وہ لرزہ خیز ویڈیوز دیکھ رکھی ہیں، جن میں داعش کے دہشت گردوں کو یزیدیوں کے سر قلم کرتے دکھایا گیا ہے۔ وہ کہتی ہے، '' وہ ہمارے سر بھی قلم کردیں، ہمیں پروا نہیں، ہم بھی ان کو اسی انداز میں موت کی بھینٹ چڑھائیں گے۔ بٹالین کی ایک اور ریکروٹ، ہادیہ حسن اپنے چچا اور چچازاد بہن کا انتقام لینا چاہتی ہے، جو داعش کے زیرقبضہ علاقے میں محبوس ہیں۔ وہ بتاتی ہے، جب میں نے اپنے والد کو بتایا کہ میں عورتوں کی بٹالین میں شامل ہورہی ہوں تو وہ بہت خوش ہوئے۔
پہلے مجھے خوف آتا تھا، لیکن اس بٹالین میں شامل ہونے کے بعد میں ان سے خوف نہیں کھاتی۔ جس لمحے مجھے لڑنے کا حکم دیا جائے گا، میں محاذ پر پہنچ جاؤں گی۔ اس نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ اس کی کزن کو بہیمانہ انداز میں جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کی وجہ سے وہ ذہنی مریضہ بن گئی ہے۔'' ہادیہ کا تعلق خانہ سون نامی گاؤں سے ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ ''پہلے ہم محفوظ تھے، لیکن اگست 2014 کے قتل عام سے گزرنے کے بعد خوں ریزی کا سلسلہ جاری ہے۔ میں بھی اب خائف نہیں ہوں۔ پہلے میں صحافی بننے کا خواب دیکھا کرتی تھی، اب داعش سے لڑنا چاہتی ہوں۔ ہماری لڑکیوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا جارہا ہے، اسے دیکھنے کے بعد کون خاموش رہ سکتا ہے۔ ہادیہ کا باپ شنگال کے محاذ پر داعش کے خلاف صف آرا ہے، اس کی پندرہ سالہ بہن بھی جنگ میں حصہ لینا چاہتی ہے لیکن ابھی اسے اجازت نہیں ملی۔
داعش شمالی عراق میں ہزاروں یزیدیوں کو ہلاک کرچکی ہے۔ خوف ناک تشدد کے مستند دستاویزی ثبوت سامنے آچکے ہیں۔ داعش والے یزیدی عورتوں کو گرفتار کرکے اپنی کنیزیں بنالیتے ہیں۔
ان پر جنسی تشدد کرتے ہیں یا سرعام انھیں نیلام کردیتے ہیں۔ شمالی عراق پر تسلط قائم کرنے کے بعد داعش کے دہشت گرد علاقے کے عیسائیوں کا بھی قتل عام کرچکے ہیں۔ داعش کے دہشت گرد صرف شمالی عراق میں معصوم لوگوں کا خون نہیں بہارہے ہیں، وہ مشرق وسطیٰ کے بعض دوسرے ملکوں میں بھی سرگرم عمل ہیں، بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ان کی شاخیں قائم ہوچکی ہیں۔ وہ دنیا کو ''پاک اور خالص'' بنانے کا قصد رکھتے ہیں۔ داعش کے مظالم کی عکاسی کرتی تصویریں اتنی خوف ناک اور لرزہ خیز ہیں کہ ہم انہیں شایع نہیں کرسکتے۔ آپ چاہیں تو یہ تصاویر انٹرنیٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔
زیت شنگالی کی بٹالین میں جو لڑکیاں شامل ہیں، انھیں ''دختران آفتاب'' کا نام دیا گیا ہے (شاید اس لیے کہ یزیدی مذہب سب سے زیادہ زرتشتی مذہب سے متاثر ہوا ہے، اگرچہ اس میں بعض دوسرے مذاہب کے عقائد بھی شامل ہوچکے ہیں، زرتشتی مذہب میں سورج کو مقدس درجہ حاصل ہے) ''دختران آفتاب'' کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر وہ گرفتار ہوئیں تو داعش کے دہشت گرد انھیں جنسی ہوس کا نشانہ بنائیں گے اور سسکا سسکا کر قتل کردیں گے یا سر عام نیلام کردیں گے۔ لیکن وہ سر سے کفن باندھ چکی ہیں، کہتی ہیں، ''ہم بزدلوں کی طرح مرنا نہیں چاہتے، ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارنا چاہتے ہیں۔ ہمارا سینہ غموں سے بھرا ہوا ہے۔''
اگست 2014 میں داعش نے شمالی عراق کے صوبے سنجر کے دیہات پر یلغار کی تھی تو ہزاروں مردوں کو قتل کرنے کے علاوہ ان کی ہزاروں لڑکیوں، نوخیز لڑکوں اور عورتوں کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
ان میں سے بعض عورتیں ان کے پنجوں سے بچ نکلنے میں کام یاب رہیں۔ انھوں نے اپنے ساتھ ہونے والے مظالم اور جنسی درندگی کے جو واقعات بیان کیے ہیں، انھیں سُن کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ زبردستی یزیدی عورتوں سے شادی کرلیتے ہیں، جس کا مقصد صرف جنسی ہوس کی تسکین ہوتا ہے۔ یہی نہیں، وہ حسب منشا گرفتار عورتوں کو سر عام نیلام کرکے پیسے بھی کماتے ہیں۔ ایک 17 سالہ یزیدی لڑکی نے میڈیا کو بتایاکہ اس کے اور اس کی بہن کے ساتھ روزانہ بہیمانہ سلوک کیا جاتا تھا، پھر انھیں منڈی میں فروخت کردیا گیا، بہار نامی ایک لڑکی نے بتایا کہ اس کے کنوارپن کا طبی ٹیسٹ کیا گیا اور پھر اس اعلان کے ساتھ فروخت کیا گیا کہ میرا کنوارپن طبی ٹیسٹ سے ثابت ہوچکا ہے۔
ہادیہ کہتی ہے، ''ٹھیک ہے، وہ ہمیں قتل کر ڈالیں، لیکن وہ عورتوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کیوں کرتے ہیں۔ ان کے اندر ذرا سی بھی انسانیت نہیں ہے۔ وہ بچوں سے ان کی مائیں چھین لیتے ہیں...''
میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق صرف سنجر کے علاقے میں داعش کے دہشت گردوں نے پانچ ہزار لوگوں کو قتل کیا، اور پانچ سو عورتوں اور نوخیز بچوں اور بچیوں کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ یزیدیوں کو ''شیطان کے پرستار'' کہتے ہیں، اور انھیں قتل کرنے سے پہلے زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور بھی کرتے ہیں۔
زیت شنگالی کہتی ہے کہ بہت جلد ان کی بٹالین کوہ سنجر کے جنگی محاذ کے قریب پہنچ کر وہاں اپنا اڈا قائم کرے گی، ''ہمارے پاس بہت کم ہتھیار ہیں، اور لڑاکا طیارے بھی نہیں ہیں۔ ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔ ارد گرد کے دیہات میں رہنے والے عرب لوگوں نے داعش سے گٹھ جوڑ کرلیا ہے، اور وہ بھی اپنے پڑوسی یزیدیوں پر ظلم کررہے ہیں۔ ہم یہ بات کبھی نہیں بھول سکتے۔'' ''دختران آفتاب'' کی ڈپٹی کمانڈر نے اخباری نمائندوں سے کہا، ''ہمارے عرب پڑوسیوں نے ہمارے ساتھ دغا بازی کی ہے، ہم بدلہ لیں گے، اپنی سرزمین کا تحفظ کریںگے۔''
3 اگست 2014 کو سنجر شہر پر داعش نے حملہ کیا تو قتل عام کے دوران ہزاروں یزیدی شنگال پہاڑی سلسلے کی طرف بھاگ نکلے۔ لیکن موت وہاں بھی ان کا تعاقب کررہی تھی۔ بہت سارے لوگ، خاص طور پر بچے بھوک پیاس اور تھکان سے ہلکان ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے۔ اس سال اسی دن یعنی 3 اگست 2015 کو یزیدیوں نے شنگال کے سلسلۂ کوہ کی طرف مارچ کیا، لیکن اس بار ان کا مقصد مختلف تھا۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے یہ عہد کیا کہ اب وہ بے بسی کی ساری زنجیریں توڑ ڈالیں گے، اور ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔
یزیدی ایک غیراہم اقلیت کی حیثیت سے ہمیشہ سر جھکا کر زندگی بسر کرتے آئے ہیں۔ چناںچہ مختلف قوتیں انھیں آسانی سے اپنا نشانہ بناتی رہی ہیں۔ 3 اگست 2014 کو داعش کے لشکر نے یزیدیوں کی بستیوں پر حملہ کیا تو یہ سانحہ ان کے قتل عام کا 73 واں واقعہ تھا۔ کردوں کے درمیان پرانے زمانوں سے یہ کہاوت چلی آتی ہے کہ ''پہاڑوں کے سوا ہمارا کوئی دوست نہیں ہے۔'' یزیدی تو کردوں کے درمیان بھی اقلیتی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے وہ اور بھی زیادہ بے یارومددگار ہیں۔
گزشتہ سال کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے عسکری ونگ، پیش مرگ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ شنگال کو بھرپور تحفظ فراہم کریں گے۔ لیکن جب داعش کے لشکر نے حملہ کیا تو وہ بغیر مقابلہ کیے بھاگ نکلے، یہاں تک کہ وہ شنگال والوں کے لیے ہتھیار چھوڑ کر بھی نہیں گئے۔
اس کے برعکس کردستان ورکرز پارٹی کے چھاپا مار دستوں اور دو تین چھوٹی عسکری تنظیموں نے رجاوا شہر تک کاریڈور کھول کر شنگال کے دس ہزار لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا، حالاں کہ ان کے پاس کلاشنکوف کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ کردستان ورکرز پارٹی کا مرکزی لیڈر چالیس کتابوں کا مصنف عبداللہ اوجلان ہے جو اونچ نیچ کی تمام دیواریں گرانے اور انسانوں کے درمیان مساوات قائم کرنے کا نظام پسند کرتا ہے۔
سال بھر میڈیا یزیدی عورتوں کو تنگ کرتا رہا۔ ان سے بارہا اس قسم کے سوالات کیے گئے کہ انھیں کیسے اور کتنی بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ وہ ان کے آنسوؤں اور سسکیوں کو مشتہر کرتا رہا۔ یہ کسی حد تک درست بھی تھا، کیوں کہ دنیا کے ایک قدیم ترین مذہب کی پیروکار یہ عورتیں سراسر عاجزی اور فرماں برداری کی تصویر بنی ہوئی تھیں۔
لیکن اب انھوں نے اپنے آنسوؤں کو فولادی عزم میں ڈھال لیا ہے۔ اب وہ آسانی سے داعش کی ہوس کا نشانہ نہیں بنیں گی۔ لڑ کر ان کا مقابلہ کریں گی، ان پر کاری ضربیں لگائیں گی، ان کے اس فیصلے کی بازگشت پورے مشرق وسطیٰ میں گونج رہی ہے، بلکہ دنیا بھر کے انسان دوست حلقے انہیں پیغام محبت روانہ کر رہے ہیں۔
ان یزیدی عورتوں کا روحانی باپ کردوں کا مشہور حریت پسند لیڈر عبداللہ اوجلان ہے جو طویل عرصے سے ترکی کی ایک جیل میں بند ہے۔ عبداللہ اوجلان کردستان کے قدامت پسند معاشرے میں عورتوں کے مساوی حقوق کا سرگرم پرچارک ہے۔ اس نے چالیس کے قریب کتابیں لکھی ہیں، اور اپنی تحریروں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ عورتوں کو زندگی کے ہر شعبے میں، جس میں فوجی شعبہ بھی شامل ہے، مساوی حصہ دیا جانا چاہیے۔ عبداللہ اوجلان کردستان ورکرز پارٹی کا لیڈر ہے۔ عراق میں قائم عراق کی مرکزی حکومت کے زیرسایہ کردستان کے خودمختار علاقے میں کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت قائم ہے۔
اب اس انتظامی ڈھانچے سے الگ، یزیدی نمائندوں نے ''شنگال فاؤنڈیشن کونسل'' قائم کردی ہے، جن میں پہاڑوں میں رہنے والے اور مہاجر کیمپوں میں مقیم یزیدیوں کے نمائندے شامل ہیں۔ اس کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ انھیں مرکزی عراقی حکومت اور کردش ریجن گورنمنٹ کے اثر سے آزاد ''خوداختیاری'' حکومت بنانے کا حق دیا جائے۔
اس کونسل نے نظم و نسق چلانے کے لیے تعلیم، صحت، ثقافت، دفاع، امور نسواں اور نوجوانان اور معیشت سے متعلق معاملات سے نبردآزما ہونے کے لیے مختلف کمیٹیاں قائم کردی ہیں، جو ان کی خودمختاری کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس سارے عمل میں عبداللہ اوجلان کی حامی یزیدی عورتیں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ خودمختاری کی طرف اس پیش قدمی سے کردستان میں برسر اقتدار کردستان ڈیموکریٹک پارٹی سخت ناراض ہے۔ یہ وہی پارٹی ہے، جس کے فوجی شنگال پر داعش کے حملے کے وقت لڑے بغیر فرار ہوگئے تھے۔
29جولائی کو شنگال کی عورتوں نے ''شنگال ویمنز کونسل'' کے نام سے ایک خودمختار انتظامی ادارے کی بنیاد ڈال کر تاریخ رقم کردی۔ اس کونسل نے اعلان کیا ہے کہ یزیدی عورتوں کی یہ تنظیم ہر قتل عام کا انتقام لے گی۔ انھوں نے یزیدی خاندانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو اس جنگ کے کسی بھی محاذ پر لڑنے سے نہ روکیں۔ وہ نہ صرف داعش سے دو دو ہاتھ کرنا چاہتی ہیں بلکہ اپنے قدامت پسند معاشرے میں جمہوری اقدار اور مساوات کو فروغ بھی دینا چاہتی ہیں۔ ان کی تحریک عورتوں کی بیداری کی تحریک بھی ہے۔ تاہم شنگال کے پورے علاقے میں بیداری کی ایک نئی لہر آئی ہوئی ہے۔
اب تعلیم، آرٹ، تھیٹر، ثقافت، زبان، تاریخ، غرض یہ کہ مختلف شعبوں میں تبدیلی اور حرکت کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ بلاشبہہ، اس سارے عمل میں یزیدی عورتیں پیش پیش ہیں۔ وہ زندہ رہنے کے نئے ڈھنگ سیکھ رہی ہیں، لڑنے کے نئے انداز سیکھ رہی ہیں۔ اب ہم ظلم کے سامنے سر نہیں جھکائیں گی، انھوں نے اعلان کردیا ہے۔
جوان عورتیں اپنی چُٹیا کاٹ کر اپنے شہید شوہروں کی قبروں پر رکھ آتی ہیں، اور وہاں سے سیدھے محاذ جنگ کی طرف روانہ ہوجاتی ہیں۔ لیکن وہ جنگی تیاری کے ساتھ فکری تعلیم بھی حاصل کرنا چاہتی ہیں، جیسے کہ ایک معمر عورت، شینے نے اخباری نمائندوں سے کہا، ''ہم جنگی تربیت حاصل کر رہی ہیں، لیکن ہمیں نظریاتی تعلیم کی بھی ضرورت ہے، تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ ہمارا قتل عام کیوں ہوتا ہے۔ اب ہم جان چکی ہیں کہ ہم منظم نہیں تھے، اس لیے آسانی سے دشمن کا نوالہ بن گئے۔ شنگال اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ شکریہ، آپو (عبداللہ اوجلان)''
اس تمام صورت حال پر کردستان ورکرز پارٹی کی ایک کمانڈر، سوزدار اویستا نے بڑا معنی خیز تبصرہ کیا ہے۔ وہ کہتی ہے،''یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے کہ داعش نے دنیا کی ایک قدیم ترین کمیونٹی پر حملہ کیا۔
دراصل، وہ سارے مشرق وسطیٰ کی اخلاقی اقدار اور ثقافت کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ انھوں نے یزیدیوں کو نشانہ بناکر ہماری تاریخ کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہے۔ وہ عورتوں کی آزادی اور مساوی حقوق کے بھی دشمن ہیں۔ اس لیے جسمانی طور پر ان کا وجود مٹانے کے علاوہ ہمیں ان کی نظریاتی یورش کا بھی مقابلہ کرنا چاہیے، جو اب ہر طرف اپنے پنجے پھیلا رہی ہے۔''
ایک سال پہلے شنگال کا کوہستانی سلسلہ داعش کے خوں خوار حملے کے وقت بے بسی کی تصویر بنا ہوا تھا۔ اب اس زخم رسیدہ سرزمین پر تبدیلی کے آثار نمایاں ہوچکے ہیں، بیداری کا ایک نیا پیغام طلوع ہوچکا ہے۔ اور بیداری کی اس لہر میں سترہ سالہ نرم و نازک یزیدی لڑکی، جان فارس کا چہرہ دمک رہا ہے، اور پُرزور آواز میں اعلان کررہا ہے، ''ہم لڑیں گی، لڑتے لڑتے جان دے دیں گی، لیکن ظالم دشمن کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گی۔''
ہر شخص کو اپنا عقیدہ عزیز ہوتا ہے۔ ہر شخص کو اپنے عقیدے سے محبت کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ یہی تاریخ عالم کا سب سے زریں سبق ہے۔ ''تمہارا دین تمہارے ساتھ، ہمارا دین ہمارے ساتھ۔''
تم ہمارے دین کو نہ چھیڑو، ہم تمہارے دین کو نہ چھیڑیں۔
مذہب کے نام پر وحشت وبربریت کا کھیل
مذہب کے نام پر خون کی ہولی کھیلنے والے داعش کے دہشت گردوں نے یزیدیوں کو اپنی سفاکی کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ یہ (داعش کے دہشت گرد) نہ صرف یزیدی خواتین کی عزتیں پامال کر رہے ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر ان کی نسل کشی بھی کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ''ادارہ برائے انسانی حقوق'' کی ایک رپورٹ کے مطابق داعش وحشت و بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یزیدی خواتین کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی زیادتی کر رہی ہے، بلکہ مویشیوں کی طرح اُن کی منڈیاں سجا کر انسانیت کی تذلیل بھی کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تاحال سینکڑوں یزیدی لڑکیاں داعش کے درندوں کے چُنگل میں ہیں، اور جو ان کے شکنجے سے بھاگ نکلنے میں کام یا ب ہوئی ہیں انہیں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے اثرات سے باہر نکلنے میں طویل عرصہ لگے گا۔ اُن کی روح پر لگے گھائو بھرنے میں وقت لگے گا۔
رپورٹ کے مطابق اگست 2014 میں عراق کے صوبے نینوا پر قبضے کے بعد داعش کے دہشت گردوں نے نوجوان لڑکیوں کو علیحدہ کرکے عراق اور شام کے مختلف مقامات پر منتقل کردیا، جب کہ مردوں کو ایک جگہ جمع کرکے انہیں سفاکی سے قتل کردیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق تقریباً 5ہزار سے زاید یزیدی اب بھی داعش کی قید میں ہیں، جن میں سے اکثریت خواتین کی ہے۔
داعش کے دہشت گردوں نے مالِ غنیمت سمجھ کر نہ صرف اُن لڑکیوں کی عزتیں پامال کیں بل کہ دل بھر جانے پر انہیں کسی دوسرے دہشت گرد کو بہ طور تحفہ پیش کردیا۔ کسی دہشت گرد نے زبردستی شادی کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر کسی جنس کی طرح بازار میں فروخت کردیا۔
داعش کے دہشت گردوں نے اس قدیم مذہب کے پیروکاروں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا ہے۔ داعش کے دہشت گرد جب چاہتے ہیں کسی بھی یزیدی کے گھر میں گُھس کر اپنی پسند کی لڑکیوں کو ساتھ لے جاتے ہیں۔ وحشت و بربریت کے اس کھیل نے سیکڑوں یزیدی خواتین کی زندگی کو بدنما داغ بنا دیا ہے۔ داعش کے چنگل سے فرار ہونے والی خواتین نے انسانی حقوق کمیشن کو بتایا، '' وہ ہمیں بھوکا رکھتے تھے، اُن کی ہوس پوری نہ کرنے پر وہ ہمیںتاروں اور لکڑی سے مارتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں اپنے چہرے پیٹرول کے ساتھ دھونے پر بھی مجبور کیا گیا۔ عزت بچانے اور تشدد سے بچنے کے لیے بہت سی خواتین نے پنکھے سے لٹک کر، کلائیاں کاٹ کر یا کوئی زہریلی دوا پی کر خودکشی کی کوشش بھی کی۔''
داعش کی قید سے فرار ہونے والی خاتون جلیلہ نے انسانی حقوق کمیشن کو بتایا کہ ''وہ (داعش کے دہشت گرد) ہمیں مالِ غنیمت سمجھتے ہیں، لڑکیوں کی بازاروں میں سرعام اس طرح خرید و فروخت کی جارہی ہے جس طرح مویشی منڈیوں میں جانوروں کو بیچا اور خریدا جاتا ہے۔ داعش کے ہوس پرست دہشت گرد ایک وقت میں تین تین ، چار چار لڑکیوں کو خرید کر انہیں درندگی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ انیس سالہ جینا بھی داعش کی درندگی کا نشانہ بننے والوں میں سے ایک لڑکی ہے۔
ہائی اسکول کے آخری سال میں زیرتعلیم جینا کا خواب ڈاکٹر بننا تھا، لیکن گزشتہ سال اگست میں داعش کے حملے کے بعد اُس کے سارے خواب زمیں بوس ہوگئے۔ جینا کا کہنا ہے کہ انہوں نے (داعش) پورے گائوں والوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے ہم سے ساری نقدی، زیورات، موبائل فونز اور دیگر قیمتی اشیاء چھین لیں۔ پھر وہ ہم سب خواتین کو اپنی گاڑیوں میں بھرکر ایک تین منزلہ عمارت میں لے گئے، جہاں پہلے سے سیکڑوں خواتین موجود تھیں۔ داعش کے درندے روزانہ وہاں آتے اور اپنی پسند کی لڑکیوں کو خرید کر لے جاتے۔
کُردستان علاقائی حکومت کی مشیر برائے صنفی امور Nazand Begikhani کا کہنا ہے کہ ''یزیدی خواتین کو نہ صرف انفرادی اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ انہیںموصل، رقعہ اور شام کے بازاروں میں مویشیوں کی طرح قیمت کے ٹیگ لگا کر جنسی غلامی کے لیے فروخت بھی کیا جارہا ہے۔'' کُرد حکام کا کہنا ہے کہ وہ اب تک تقریباً سو کُرد خواتین کو تاوان کی ادائیگی کے بعد رہا کرواچکے ہیں۔
داعش کی درندگی اب تک 12لاکھ عراقیوں کے بے گھر ہونے کا سبب بن چکی ہے۔ داعش کی بربریت کے ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ ''انہوں نے (داعش کے دہشت گردوں) نے ہمارے گائوں، سنجر، پر حملے کے بعد خواتین کو الگ کردیا اور تمام مردوں کو اسکول میں جمع کر کے انہیں بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا۔'' کُرد حکام کا کہنا ہے کہ داعش کی سفاکانہ کارروائیوں کی وجہ سے صرف نینوا صوبے سے 6 لاکھ 37 ہزار سے زاید لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔
یزیدیوں کی آبادی
عراق ...... 8 لاکھ پچاس ہزار
جرمنی ...... 2 لاکھ پچاس ہزار
آرمینیا ...... 65 ہزار
شام ...... 70 ہزار
جارجیا ...... 30 ہزار آٹھ سو
نیدر لینڈز ...... 10 ہزار
سوئیڈن ...... 7 ہزار
آبادی/عقیدہ/ رسوم
یزیدیوں کی کل آبادی 15 تا 20 لاکھ ہے۔ ان میں سے ساڑھے آٹھ لاکھ عراق میں آباد ہیں۔ ان کی غالب اکثریت عراق اور شام کی سرحد پر واقع کوہ شنگال پر صدیوں سے رہائش پذیر ہے۔ بیرون ملک ان کی سب سے بڑی تعداد جرمنی میں رہتی ہے۔
یہ لوگ دنیا کے ایک قدیم ترین مذہب پر کاربند ہیں، جس پر زرتشتی مذہب کے اثرات نمایاں ہیں۔ ان کے مذہبی پیشوا، زرتشتی پیشوائوں جیسا لباس پہنتے رہے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ لفظ ''یزیدی'' زرتشتیوں کے خدا ''یزداں'' یا ''ایزد'' سے نکلا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ''یزیدی'' لفظ ''یازاتا'' (آسمانی وجود) سے نکلا ہے ''یزیدی'' کا لفظ مختلف شکلوں میں رائج رہا ہے، جیسے ایزدی، یزدی، یزادی وغیرہ۔ اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں خاطر خواہ معلومات حاصل نہ ہوسکیں۔
بعد میں یزیدی مذہب نے اسلام، یہودیت اور عیسائیت سے بھی اثرات قبول کیے جو مذہبی فرائض میں داخل ہوگئے۔ اکثر یزیدی خود کو کرد نہیں کہتے، بلکہ وہ ایک مختلف لسانی اکائی ہونے کے دعوے دار ہیں۔ وہ خدا پر یقین رکھتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ خدا نے کائنات کو سات مقدس ہستیوں کی حفاظت میں دے رکھا ہے، جن میں ''ملک طائوس'' یعنی مور فرشتے کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ یہ مور فرشتہ کائنات کا حکم راں ہے اور انسان پر دکھ سکھ نازل کرتا ہے۔ اس ضمن میں یہ قصہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس کی کسی غلطی کے باعث خدا اس سے ناراض ہوگیا تھا۔ ندامت کے آنسو بہانے پر اسے جہنمی قیدخانے سے رہائی ملی اور خدا پھر سے اس پر مہربان ہوگیا۔
یزیدیوں کی زبان کا نام ''کُرمانجی'' ہے، جو صرف ان کے علاقے تک محدود ہے، تاہم ان کی بعض برادریاں عربی بھی بولتی ہیں۔ ان کے کیلینڈر کے مطابق ان کا مذہب 4750 برس قدیم ہے۔ ان کے عقیدے میں زرد سورج، جس کی 21 شعاعیں ہیں، خدا کی علامت ہے۔ زرتشتیوں کی طرح قدیم فارس (ایران) کے سب سے بڑے تہوار ''نوروز'' کو بھی ان کے درمیان مقدس درجہ حاصل ہے۔
وہ سورج کی طرف رخ کرکے عبادت کرتے ہیں۔ بدھ کا دن مقدس حیثیت رکھتا ہے اور سنیچر آرام کا دن ہوتا ہے۔ دسمبر کے مہینے میں وہ تین دن روزہ بھی رکھتے ہیں۔
مختلف زیارتوں کے لیے سفر کرنے کو وہ مقدس عمل قرار دیتے ہیں۔ ان کے تہواروں میں رقص اور موسیقی کا خاص حصہ ہوتا ہے۔ ان کے ہاں ذات پات کا سسٹم اب تک رائج ہے اور ان کے اپنے توہمات اور ممانعات ان کے ساتھ ہیں۔
اگست 2014 میں داعش نے جو عراق اور پڑوسی ملکوں کو ''پاک اور پوتر'' کرنے کا عزم رکھتی ہے، یزیدیوں کی بستیوں پر حملے کیے۔ انھوں نے اس بہیمانہ انداز میں ان کا قتل عام کیا، عورتوں کی آبرو ریزی کی کہ پوری دنیا لرزا اٹھی۔ ان وارداتوں کی تفصیل اب تک میڈیا میں تواتر کے ساتھ گونج رہی ہے۔