بھارت ہوش کے ناخن لے
پاکستان صبروتحمل کا مظاہرہ کرنےکےباوجود اشتعال میں آجائےاورآنا بھی چاہیے کہ قومی غیرت اور اسلامی حمیت کےکچھ تقاضے ہیں
ایک وقت وہ تھا، جب اندرا گاندھی کی رٹ تھی کہ ''میں نہ مانوں'' ویسے حق تو یہ ہے کہ بھارت کے تمام سابقہ، اہل اقتدار اندرا گاندھی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ''میں نہ مانوں '' کا نعرہ بلند کرنا اپنا بنیادی حق تصور کرتے ہیں اور پاکستان سے دشمنی رکھنا ان کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔
لہٰذا جانتے بوجھتے ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ پاکستان صبروتحمل کا مظاہرہ کرنے کے باوجود اشتعال میں آجائے اورآنا بھی چاہیے کہ قومی غیرت اور اسلامی حمیت کے کچھ تقاضے ہیں اور ہمارے فوجی جوان بھارتی افواج سے کئی گنا بہادر ہیں۔ عقل وشعور اور انسانیت خصوصاً اسلامی تعلیمات سے مالا مال ہیں، اسی لیے کبھی پہل نہیں کرتے، اسلام خون ناحق کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ آئے دن بھارت پاکستانی سرحد پر فائرنگ کر کے معصوم شہریوں کو شہید کردیتا ہے۔
اس کی سفاکی اور درندگی کی انتہا ہوچکی ہے وہ ننھے بچوں، عورتوں اور مردوں پر حملہ کرکے کشمیری مجاہدین کی شہادت کی یاد کو تازہ کردیتا ہے۔ کشمیر میں اب بھی وہ ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ 15 اگست کو بھارت اپنی آزادی کے دن کشمیری رہنماؤں کوگرفتار کرتا ہے، نوجوانوں کو اغوا کرنا اور تشدد کرکے ان کی لاشوں کی بے حرمتی کرنا، خواتین کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیارکرنا اس کا معمول ہے۔کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے کی بجائے انھیں زبردستی ہندوستان کا شہری بننے پر مجبورکیا جاتا ہے۔
موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے ایک بار تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔1965 کا زمانہ ہمارے سامنے آگیا ہے بالکل وہی حالات ہیں، جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اسی لیے مودی سرکار نے اپنے گیدڑوں کو شہر میں جانے اور شیر سے مقابلہ کرنے کا حکم دے دیا ہے، یہ سیاسی شیر نہیں بلکہ سچ مچ کا شیرہے ، شیروں کا جتھا اس بات سے سب واقف ہیں، ہماری افواج پاکستان شیر سے کم نہیں ہے۔
اسی وجہ سے شیر پاکستان جناب جنرل راحیل شریف نے بے قصور انسانی خون کو بہانے اور ان کے گھروں کو اجاڑنے والوں کے لیے حکم صادر کردیا ہے کہ انھیں بھی چن چن کر مارا جائے تاکہ جنگل شہر میں تبدیل ہو جائے۔ آج پاکستانی عوام جنرل راحیل شریف کو سلام پیش کر رہی ہے ان کی خدمات کو سراہ رہی ہے ۔
بھارت کے وزیر اعظم مودی کی شہرت امن و امان کے حوالے سے بالکل اچھی نہیں، ان کا نام گجرات میں مسلمانوں کو قتل کرانے والوں کی فہرست میں نمایاں ہے اور اب ہر روز باقاعدگی کے ساتھ سرحدی قوانین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ پاکستان نے بارہا سمجھایا لیکن ہمارا دشمن بے حد نادان ہے۔ بس مرنے مارنے پر یقین رکھتا ہے آخرکار اسے بھی ہماری سرحدی افواج نے منہ توڑ جواب دے دیا، ان ہی حالات میں پاک بھارت مذاکرات بھی منسوخ ہوگئے۔
امریکی مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر سوزن رائس نے کنٹرول لائن پر نہتے شہریوں کی ہلاکت اور پاک بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں کی طے شدہ ملاقات پر اظہار افسوس کیا لیکن اس کے ساتھ ہی ہم جب ماضی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس وقت امریکا کا سلوک پاکستان کے ساتھ قطعی طور پر اچھا نہ تھا جب کہ پاک معاہدے کی رو سے امریکا کو جارحیت کی صورت میں پاکستان کا دفاع کرنا چاہیے تھا، لیکن قابل افسوس یہ امر ہے کہ امریکا کے نزدیک جارحیت صرف کمیونسٹ حملے ہی کا نام ہے اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو امریکا نے پاکستان کی حمایت کرنے کی بجائے نہ صرف غیر جانبداری کا روپ دھارا بلکہ پاکستان کی فوجی امداد کو بھی بند کردیا۔
امریکا اور برطانیہ کے سفارتکاروں نے جنرل ایوب خان پر مسلسل دباؤ ڈالا کہ وہ فوراً جنگ بندی کا اعلان کریں،امریکا کے اس رویے نے جنرل ایوب خان کو سوچنے پر مجبورکردیا کہ امریکا اور برطانیہ کا شمار ان کے دوستوں میں نہیں ہے۔ اپنے ہی نظریے کے تحت انھوں نے ''فرینڈز ناٹ ماسٹرز'' (Friends not Masters) لکھی۔ اس کتاب کا تعلق امریکا سے تھا۔
یہ بات بھی روز روشن کی طرح ہر ذی شعور پر عیاں ہے کہ پاکستان کی سیاست اور حکومتوں کے عروج و زوال میں امریکا کا ہاتھ ہمیشہ سے رہا ہے لہٰذا ایوب خان کا اقتدار بھی امریکا کا ہی مرہون منت تھا، ہر ہوس و زر پرست حکمران امریکا کو کسی بھی قیمت میں ناراض نہیں کرنا چاہتا ہے۔ ایوب خان کو بھی یہ بات معلوم تھی کہ امریکا کی نافرمانی اقتدار سے محروم کردے گی۔
اسی مقصد کے حصول کے لیے ایوب خان بھی امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر جائزوناجائز کام کرنا اپنے لیے کامیابی کی ضمانت سمجھتے تھے۔ اس موقعے پر حاکم و محکوم کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہے۔ امریکا کے مسٹر ہیری مین نے ایک خاص موقعے پر صدر ایوب خان سے پاکستان کے فارن سیکریٹری مسٹر ایس کے دہلوی جوکہ پاکستان کے وزارت خارجہ کے سیکریٹری تھے، انھیں تبدیل کرنے کے لیے کہا، وجہ یہ بتائی گئی کہ ہمارا سفارتخانہ ان کے ساتھ آزادانہ گفتگو کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صدر ایوب یہ ضرور پوچھتے کہ آیا ہمارے فارن سیکریٹری سے ہچکچاہٹ کیوں؟
اور وہ کیا معاملات ہیں؟ لیکن خاموشی کے ساتھ سر خم کردیا، کہ اس میں ہی فائدے تھے۔ برابری کرنے میں خوامخواہ کا نقصان اٹھانا پڑتا جس طرح ان دنوں بھارت شتر بے مہار بنا ہر جگہ منہ مارتا پھر رہا ہے۔ اور''میں نہ مانوں'' کی رٹ لگائے ہوئے ان دنوں بھی جب سن 1965 تھا بھارت نے خطوں کے امن کو سبوتاژ کیا اور رن کچھ پر چلا چڑھائی کرنے، لیکن اس کی شیخی دھری کی دھری رہ گئی اور اسے منہ کی کھانی پڑی۔ وہ اس بات کو بھی فراموش کر بیٹھا کہ 30 جون 1965 کے صلح نامے کے تحت رن کچھ میں جنگ بندی عمل میں آگئی تھی لیکن اس کی جارحانہ کاوشیں جاری و ساری رہیں۔
آخر مجبوراً پاکستانی افواج نے بھی جنگ بندی لائن عبور کرکے بھارتی اہم چوکیوں دیوا اور چھمب پر قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ مقبوضہ کشمیر میں تقریباً 7 میل اندر تک گھس گئیں اور علاقہ چھمب سے بڑھتے ہوئے دریائے توی کو پار کرکے جوڑیاں کے شہر پر قابض ہوگئیں، یہ دن تھا 5 ستمبر اور سن تھا 1965۔ کشمیر کے محاذ پر شکست فاش کے بعد بھارتی فوجی رات کی تاریکی میں بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔
اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے انھوں نے پھر وہی چوروں والی حرکت کی اور دبے پیروں لاہور کی بین الاقوامی سرحد کو پارکرلیا، بھارتی افواج کی بزدلی تو ذرا دیکھیے کہ رات کے وقت پچھلے پہر، جب ساری دنیا خواب خرگوش کے مزے لیتی ہے، اس وقت انھوں نے موقع غنیمت جانا کہ دن کی روشنی میں تو شیروں کے منہ میں ہاتھ ڈالنا ناممکن تھا۔ انھوں نے تین اطراف سے پیش قدمی شروع کی وہ واہگہ ، ہڈیارہ اور جسٹر کے راستے لاہور کی طرف بڑھنا چاہتی تھیں تاکہ لاہور پر قبضہ کرلیں۔ بھارتی فوجوں کا ناپاک ارادہ یہ بھی تھا کہ وہ سیالکوٹ پر حملہ کرکے گوجرانوالہ اور وزیر آباد کو علیحدہ کریں۔
لیکن وائے نصیب! بے چارے بھارتی اپنے اس منصوبے میں بری طرح ناکام ہوگئے، شیر دل پاکستان کی افواج نے پاک فضائیہ کی مدد سے دشمن کو پسپا کردیا۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ 11 ستمبر 1965 کو بھارتی فوج نے اپنا ایک علاقے ''کھیم کرن'' کو افواج پاکستان کے حوالے کردیا اور خود اپنے مردہ فوجیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔بھارت اپنی سابقہ کوتاہیوں سے سبق سیکھے، یہ نہ ہو کہ بڑھتی ہوئی جارحیت کسی زیادہ بڑے نقصان سے ہمکنارکردے۔
لہٰذا جانتے بوجھتے ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ پاکستان صبروتحمل کا مظاہرہ کرنے کے باوجود اشتعال میں آجائے اورآنا بھی چاہیے کہ قومی غیرت اور اسلامی حمیت کے کچھ تقاضے ہیں اور ہمارے فوجی جوان بھارتی افواج سے کئی گنا بہادر ہیں۔ عقل وشعور اور انسانیت خصوصاً اسلامی تعلیمات سے مالا مال ہیں، اسی لیے کبھی پہل نہیں کرتے، اسلام خون ناحق کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ آئے دن بھارت پاکستانی سرحد پر فائرنگ کر کے معصوم شہریوں کو شہید کردیتا ہے۔
اس کی سفاکی اور درندگی کی انتہا ہوچکی ہے وہ ننھے بچوں، عورتوں اور مردوں پر حملہ کرکے کشمیری مجاہدین کی شہادت کی یاد کو تازہ کردیتا ہے۔ کشمیر میں اب بھی وہ ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ 15 اگست کو بھارت اپنی آزادی کے دن کشمیری رہنماؤں کوگرفتار کرتا ہے، نوجوانوں کو اغوا کرنا اور تشدد کرکے ان کی لاشوں کی بے حرمتی کرنا، خواتین کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیارکرنا اس کا معمول ہے۔کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے کی بجائے انھیں زبردستی ہندوستان کا شہری بننے پر مجبورکیا جاتا ہے۔
موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے ایک بار تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔1965 کا زمانہ ہمارے سامنے آگیا ہے بالکل وہی حالات ہیں، جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اسی لیے مودی سرکار نے اپنے گیدڑوں کو شہر میں جانے اور شیر سے مقابلہ کرنے کا حکم دے دیا ہے، یہ سیاسی شیر نہیں بلکہ سچ مچ کا شیرہے ، شیروں کا جتھا اس بات سے سب واقف ہیں، ہماری افواج پاکستان شیر سے کم نہیں ہے۔
اسی وجہ سے شیر پاکستان جناب جنرل راحیل شریف نے بے قصور انسانی خون کو بہانے اور ان کے گھروں کو اجاڑنے والوں کے لیے حکم صادر کردیا ہے کہ انھیں بھی چن چن کر مارا جائے تاکہ جنگل شہر میں تبدیل ہو جائے۔ آج پاکستانی عوام جنرل راحیل شریف کو سلام پیش کر رہی ہے ان کی خدمات کو سراہ رہی ہے ۔
بھارت کے وزیر اعظم مودی کی شہرت امن و امان کے حوالے سے بالکل اچھی نہیں، ان کا نام گجرات میں مسلمانوں کو قتل کرانے والوں کی فہرست میں نمایاں ہے اور اب ہر روز باقاعدگی کے ساتھ سرحدی قوانین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ پاکستان نے بارہا سمجھایا لیکن ہمارا دشمن بے حد نادان ہے۔ بس مرنے مارنے پر یقین رکھتا ہے آخرکار اسے بھی ہماری سرحدی افواج نے منہ توڑ جواب دے دیا، ان ہی حالات میں پاک بھارت مذاکرات بھی منسوخ ہوگئے۔
امریکی مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر سوزن رائس نے کنٹرول لائن پر نہتے شہریوں کی ہلاکت اور پاک بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں کی طے شدہ ملاقات پر اظہار افسوس کیا لیکن اس کے ساتھ ہی ہم جب ماضی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس وقت امریکا کا سلوک پاکستان کے ساتھ قطعی طور پر اچھا نہ تھا جب کہ پاک معاہدے کی رو سے امریکا کو جارحیت کی صورت میں پاکستان کا دفاع کرنا چاہیے تھا، لیکن قابل افسوس یہ امر ہے کہ امریکا کے نزدیک جارحیت صرف کمیونسٹ حملے ہی کا نام ہے اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو امریکا نے پاکستان کی حمایت کرنے کی بجائے نہ صرف غیر جانبداری کا روپ دھارا بلکہ پاکستان کی فوجی امداد کو بھی بند کردیا۔
امریکا اور برطانیہ کے سفارتکاروں نے جنرل ایوب خان پر مسلسل دباؤ ڈالا کہ وہ فوراً جنگ بندی کا اعلان کریں،امریکا کے اس رویے نے جنرل ایوب خان کو سوچنے پر مجبورکردیا کہ امریکا اور برطانیہ کا شمار ان کے دوستوں میں نہیں ہے۔ اپنے ہی نظریے کے تحت انھوں نے ''فرینڈز ناٹ ماسٹرز'' (Friends not Masters) لکھی۔ اس کتاب کا تعلق امریکا سے تھا۔
یہ بات بھی روز روشن کی طرح ہر ذی شعور پر عیاں ہے کہ پاکستان کی سیاست اور حکومتوں کے عروج و زوال میں امریکا کا ہاتھ ہمیشہ سے رہا ہے لہٰذا ایوب خان کا اقتدار بھی امریکا کا ہی مرہون منت تھا، ہر ہوس و زر پرست حکمران امریکا کو کسی بھی قیمت میں ناراض نہیں کرنا چاہتا ہے۔ ایوب خان کو بھی یہ بات معلوم تھی کہ امریکا کی نافرمانی اقتدار سے محروم کردے گی۔
اسی مقصد کے حصول کے لیے ایوب خان بھی امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر جائزوناجائز کام کرنا اپنے لیے کامیابی کی ضمانت سمجھتے تھے۔ اس موقعے پر حاکم و محکوم کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہے۔ امریکا کے مسٹر ہیری مین نے ایک خاص موقعے پر صدر ایوب خان سے پاکستان کے فارن سیکریٹری مسٹر ایس کے دہلوی جوکہ پاکستان کے وزارت خارجہ کے سیکریٹری تھے، انھیں تبدیل کرنے کے لیے کہا، وجہ یہ بتائی گئی کہ ہمارا سفارتخانہ ان کے ساتھ آزادانہ گفتگو کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صدر ایوب یہ ضرور پوچھتے کہ آیا ہمارے فارن سیکریٹری سے ہچکچاہٹ کیوں؟
اور وہ کیا معاملات ہیں؟ لیکن خاموشی کے ساتھ سر خم کردیا، کہ اس میں ہی فائدے تھے۔ برابری کرنے میں خوامخواہ کا نقصان اٹھانا پڑتا جس طرح ان دنوں بھارت شتر بے مہار بنا ہر جگہ منہ مارتا پھر رہا ہے۔ اور''میں نہ مانوں'' کی رٹ لگائے ہوئے ان دنوں بھی جب سن 1965 تھا بھارت نے خطوں کے امن کو سبوتاژ کیا اور رن کچھ پر چلا چڑھائی کرنے، لیکن اس کی شیخی دھری کی دھری رہ گئی اور اسے منہ کی کھانی پڑی۔ وہ اس بات کو بھی فراموش کر بیٹھا کہ 30 جون 1965 کے صلح نامے کے تحت رن کچھ میں جنگ بندی عمل میں آگئی تھی لیکن اس کی جارحانہ کاوشیں جاری و ساری رہیں۔
آخر مجبوراً پاکستانی افواج نے بھی جنگ بندی لائن عبور کرکے بھارتی اہم چوکیوں دیوا اور چھمب پر قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ مقبوضہ کشمیر میں تقریباً 7 میل اندر تک گھس گئیں اور علاقہ چھمب سے بڑھتے ہوئے دریائے توی کو پار کرکے جوڑیاں کے شہر پر قابض ہوگئیں، یہ دن تھا 5 ستمبر اور سن تھا 1965۔ کشمیر کے محاذ پر شکست فاش کے بعد بھارتی فوجی رات کی تاریکی میں بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔
اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے انھوں نے پھر وہی چوروں والی حرکت کی اور دبے پیروں لاہور کی بین الاقوامی سرحد کو پارکرلیا، بھارتی افواج کی بزدلی تو ذرا دیکھیے کہ رات کے وقت پچھلے پہر، جب ساری دنیا خواب خرگوش کے مزے لیتی ہے، اس وقت انھوں نے موقع غنیمت جانا کہ دن کی روشنی میں تو شیروں کے منہ میں ہاتھ ڈالنا ناممکن تھا۔ انھوں نے تین اطراف سے پیش قدمی شروع کی وہ واہگہ ، ہڈیارہ اور جسٹر کے راستے لاہور کی طرف بڑھنا چاہتی تھیں تاکہ لاہور پر قبضہ کرلیں۔ بھارتی فوجوں کا ناپاک ارادہ یہ بھی تھا کہ وہ سیالکوٹ پر حملہ کرکے گوجرانوالہ اور وزیر آباد کو علیحدہ کریں۔
لیکن وائے نصیب! بے چارے بھارتی اپنے اس منصوبے میں بری طرح ناکام ہوگئے، شیر دل پاکستان کی افواج نے پاک فضائیہ کی مدد سے دشمن کو پسپا کردیا۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ 11 ستمبر 1965 کو بھارتی فوج نے اپنا ایک علاقے ''کھیم کرن'' کو افواج پاکستان کے حوالے کردیا اور خود اپنے مردہ فوجیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔بھارت اپنی سابقہ کوتاہیوں سے سبق سیکھے، یہ نہ ہو کہ بڑھتی ہوئی جارحیت کسی زیادہ بڑے نقصان سے ہمکنارکردے۔