پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی
سو قانون کی پابندی کرانے کے لیے پولیس جو اقدامات کرتی ہے اصل میں وہ شہریوں کی مدد کے لیے ہوتے ہیں
یہ نعرہ یا سلوگن اپنی روح کے اعتبار سے بالکل موزوں، درست اور برمحل ہے کہ ساری مہذب دنیا میں پولیس معاشرے میں ایک دوست اور مددگار کا کردار ادا کرتی ہے۔ ایک انگریزی محاورے کے مطابق دوست کی ایک بنیادی خوبی اس کا ضرورت کے وقت کام آنا ہوتا ہے۔
سو قانون کی پابندی کرانے کے لیے پولیس جو اقدامات کرتی ہے اصل میں وہ شہریوں کی مدد کے لیے ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے وطن عزیز کے کئی دیگر سرکاری اداروں کی طرح پولیس کا رول بھی اس ضابطے کا پابند نہیں رہا جس کے لیے یہ صدیوں پرانا محکمہ ایک نئے نام سے وضع کیا گیا تھا کہ جب سے انسان نے مل جل کر رہنا سیکھا ہے۔
سیکیورٹی کے ادارے کسی نہ کسی شکل میں اس کے ساتھ ساتھ رہے ہیں وہ شہری زندگی کا نظم و ضبط قائم رکھنے والے شاہی عماّل ہوں، شہر کے داخلی اور خارجی دروازوں پر متعین تربیت یافتہ کارندے، ظلم اور بے انصافی کرنے والوں کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے والے کوتوال یا ان کا عملہ یا جدید دور کے پولیس کوڈ کے تحت بھرتی کیے جانے والے سپاہی اور افسران، ان کا بنیادی کام عوام کے حقوق کی حفاظت اور ان کی مدد کرنا ہی ہے اور تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ محکمہ صرف حاکمان وقت کی غیر مشروط تابعداری تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
انگریز نے اپنی نو آبادیوں میں مقامی پولیس کو ایک حد تک اپنے خلاف ہونے والی شورشوںکو دبانے اور عوام کو تاج برطانیہ کا وفادار رکھنے کے لیے استعمال کیا مگر اس کے ساتھ ایک ایسا نظام بھی مرتب کیا جس کے تحت پولیس کا محکمہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے تندہی سے کام کرتا تھا اور ہر علاقے کے پولیس اسٹیشن میں جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ساتھ تمام مکینوں کے بارے میں بھی بنیادی معلومات محفوظ ہوتی تھیں۔
بیسویں صدی کے آغاز سے ہی برصغیر کی پولیس کے اس رول میں عدم توازن پیدا ہونا شروع ہو گیا اور جوں جوں انسانی، لسانی، مذہبی، علاقائی اور سیاسی حقوق کے لیے آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں تُوں تُوں پولیس کا محکمہ ''حق نمک'' ادا کرنے کے لیے اپنے ہی لوگوں کے لیے ظلم اور قہر کی علامت بنتا چلا گیا۔ انگریز نے ایسے قوانین وضع کیے جس کے تحت پولیس کو عوام پر ظلم کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی ، آزادی اور تقسیم ہند کی تحریکوں کے دوران اپنے ہی محب وطن لوگوں کی پکڑ دھکڑ اور ایذا رسانی اس کا معمول بن گئی اور یوں پولیس خوف کی علامت بن گئی۔
استحصال اور سامراج کی کئی دیگر روایتوں کی طرح قیام پاکستان کے بعد بھی اس سلسلے کو قائم رکھا گیا بلکہ آئینی تحفظ کی کمزوری، عدالتی نظام کی خامیوں اور حاکم طبقوں کے گٹھ جوڑ نے اسے مزید خراب کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ''تھانہ کلچر'' نامی ایک نئی اصطلاح نے جنم لیا۔ دوسری طرف بھرتیوں میں میرٹ کی جگہ سفارش اور بنیادی ضرورتوں اور سہولیات کی مسلسل کمی نے محکمے کے اندر موجود باصلاحیت اور قانون پرست اقلیت کو مزید بددل کر دیا۔
سیاسی انتشار، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال، دہشت گردی، فرقہ پرستی اور پروٹوکول ڈیوٹیوں کی افراط نے صورت حال کو مزید خراب کیا اور اب یہ حال ہے کہ باوجود کوشش کے پولیس اور عوام کے درمیان موجود بداعتمادی کی فضا میں نہ ہونے کے برابر کی واقع ہوتی ہے۔
میری پولیس کے کئی سینئر، تجربہ کار، مستعد اور اہل افسران سے اس موضوع پر کئی بار بات ہوئی ہے اور کم و بیش سب کے سب اس بات پر متفق نظر آئے کہ اگر پولیس کوڈ کو وطن عزیز کے قیام کے بنیادی اصولوں کے مطابق بنا دیا جائے۔ پولیس کے کام میں سیاسی مداخلت بند ہو جائے، تھانے اور بلدیاتی سطح کے نمائندوں کو مل کر کام کرنے دیا جائے، ملازمین کو وہ تمام سہولتیں مہیا کر دی جائیں جو ان کا قانونی حق ہیں اور قانون شکن افراد کے مقابلے کے لیے انھیں جدید اسلحہ، ٹرانسپورٹ اور ٹریننگ میہا کر دی جائے تو یہ محکمہ اب بھی بیک وقت عوام کی دوستی اور حفاظت کا فرض ادا کرسکتا ہے۔
یہی وہ باتیں تھیں جن کا تذکرہ مختلف مقررین اور آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے گزشتہ دنوں ایک خاص تقریب کے دوران کیا جس میں قتل کے مقدمات کی بہتر اور صحیح تفتیش کے لیے ہر سطح کے منتخب اور تربیت یافتہ عملے کو ایک چھت تلے جمع کیا گیا تھا۔ میڈیا اور معاشرے کے نمائندے بھی وہاں موجود تھے بلکہ اپنے نظام میں موجود کمیوں اور کوتاہیوں کا اقرار بھی کر رہے تھے اور اس خواہش کا اظہار بھی کہ اب ہمیں باہمی شکوے شکایتوں کے چکر سے نکل کر ایک ایسے معاشرے کی تکمیل میں اپنا اپنا رول ادا کرنا چاہیے جو سب کے لیے نیکی، سلامتی اور خیر و برکت کا باعث ہو۔
اس میں شک نہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کا اعتماد تھانے سے اٹھ گیا ہے اور وہ اپنے اوپر ہونے والی بہت سی زیادتیوں کی ایف آئی آر بھی نہیں کٹواتے لیکن غور سے دیکھا جائے تو اس فساد کی جڑ افراد سے زیادہ نظام میں ہے۔ یہ پولیس کسی اور سیارے سے نہیں آئی۔ سب ہمارے ہی بھائی، دوست اور ہم وطن ہیں اور ہماری ہی طرح اس دوری کے درد کو محسوس بھی کرتے ہیں جس نے وردی اور غیر وردی والوں کو دو مختلف گروہوں میں بانٹ دیا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے مرحوم اشفاق احمد نے ایک گفتگو کے دوران بتایا تھا کہ ایک بار وہ عید کی نماز کے بعد کچھ محلے داروں کو لے کر علاقے کے تھانے میں چلے گئے کہ ایس ایچ او اور دیگر عملے سے عید مل آئیں۔ ایس ایچ او اتنے معروف اور اہم لوگوں کو ایک ساتھ دیکھ کر گھبرا گیا کہ پتہ نہیں کیا واقعہ ہو گیا ہے۔
جب اسے بتایا گیا کہ وہ لوگ کسی کیس کے سلسلے میں نہیں بلکہ صرف ایک محلے دار کی رعائت سے اسے عید ملنے آئے ہیں تو وہ میانوالی کا چھ فٹا جوان آنسوؤں کے ساتھ رونے لگا۔ اس نے بتایا کہ بارہ سال کی پولیس ملازمت میں پہلی بار کوئی اس طرح اس سے عید ملنے آیا ہے کہ لوگ تھانے کو ناپسندیدہ علاقہ سمجھ کر اس کے نزدیک سے بھی نہیں گزرتے۔ اسی طرح ایم اے او کالج کی پروفیسری کے دنوں میں ایک بار طلبہ پر ظالمانہ لاٹھی چارج کی وضاحت ایک پولیس افسر نے اس طرح سے کی تھی کہ سر یہ عملہ تین دن سے جون کی گرمی میں پولیس کی تنور نما گاڑی میں بند سولہ گھنٹے روزانہ ڈیوٹی دے رہا تھا۔ قریب سے گزرنے والا ہر لڑکا طنز یا گالی سے ان کی تواضع کرتا تھا۔ روٹی تک ان کو ٹھیک سے نہیں مل رہی تھی۔
سو یہ لاٹھی چارج ان بچوں پر نہیں اس ذلت، بے حرمتی، نفرت، تھکن اور غصے کا اظہار اور نمایندہ ہے۔ جس نے ان کے دماغ وقتی طور پر ماؤف کر دیے ہیں۔ اس وقت تو میں نے اس کی بات سے اتفاق نہیں کیا لیکن اب سوچتا ہوں تو وہ بات کوئی ایسی غلط بھی نہیں تھی۔ یعنی اصل خرابی کہیں اور ہے اس پس منظر میں یہ امر بہت حوصلہ افزا ہے کہ خود پولیس کے اندر اپنے نظام کی خرابیوں کا شعور بڑھ رہا ہے اور وہ اس کی اصلاح کے بارے میں بھی عملی اقدام اٹھا رہے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں، میڈیا اور حاکمان وقت کی سمجھ میں بھی یہ بات آ جائے کہ اگر نیت نیک اور سمت درست ہو تو ہر چیز کو واپس اس کی اصل جگہ پر رکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ ''پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی۔''
سو قانون کی پابندی کرانے کے لیے پولیس جو اقدامات کرتی ہے اصل میں وہ شہریوں کی مدد کے لیے ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے وطن عزیز کے کئی دیگر سرکاری اداروں کی طرح پولیس کا رول بھی اس ضابطے کا پابند نہیں رہا جس کے لیے یہ صدیوں پرانا محکمہ ایک نئے نام سے وضع کیا گیا تھا کہ جب سے انسان نے مل جل کر رہنا سیکھا ہے۔
سیکیورٹی کے ادارے کسی نہ کسی شکل میں اس کے ساتھ ساتھ رہے ہیں وہ شہری زندگی کا نظم و ضبط قائم رکھنے والے شاہی عماّل ہوں، شہر کے داخلی اور خارجی دروازوں پر متعین تربیت یافتہ کارندے، ظلم اور بے انصافی کرنے والوں کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے والے کوتوال یا ان کا عملہ یا جدید دور کے پولیس کوڈ کے تحت بھرتی کیے جانے والے سپاہی اور افسران، ان کا بنیادی کام عوام کے حقوق کی حفاظت اور ان کی مدد کرنا ہی ہے اور تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ محکمہ صرف حاکمان وقت کی غیر مشروط تابعداری تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
انگریز نے اپنی نو آبادیوں میں مقامی پولیس کو ایک حد تک اپنے خلاف ہونے والی شورشوںکو دبانے اور عوام کو تاج برطانیہ کا وفادار رکھنے کے لیے استعمال کیا مگر اس کے ساتھ ایک ایسا نظام بھی مرتب کیا جس کے تحت پولیس کا محکمہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے تندہی سے کام کرتا تھا اور ہر علاقے کے پولیس اسٹیشن میں جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ساتھ تمام مکینوں کے بارے میں بھی بنیادی معلومات محفوظ ہوتی تھیں۔
بیسویں صدی کے آغاز سے ہی برصغیر کی پولیس کے اس رول میں عدم توازن پیدا ہونا شروع ہو گیا اور جوں جوں انسانی، لسانی، مذہبی، علاقائی اور سیاسی حقوق کے لیے آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں تُوں تُوں پولیس کا محکمہ ''حق نمک'' ادا کرنے کے لیے اپنے ہی لوگوں کے لیے ظلم اور قہر کی علامت بنتا چلا گیا۔ انگریز نے ایسے قوانین وضع کیے جس کے تحت پولیس کو عوام پر ظلم کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی ، آزادی اور تقسیم ہند کی تحریکوں کے دوران اپنے ہی محب وطن لوگوں کی پکڑ دھکڑ اور ایذا رسانی اس کا معمول بن گئی اور یوں پولیس خوف کی علامت بن گئی۔
استحصال اور سامراج کی کئی دیگر روایتوں کی طرح قیام پاکستان کے بعد بھی اس سلسلے کو قائم رکھا گیا بلکہ آئینی تحفظ کی کمزوری، عدالتی نظام کی خامیوں اور حاکم طبقوں کے گٹھ جوڑ نے اسے مزید خراب کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ''تھانہ کلچر'' نامی ایک نئی اصطلاح نے جنم لیا۔ دوسری طرف بھرتیوں میں میرٹ کی جگہ سفارش اور بنیادی ضرورتوں اور سہولیات کی مسلسل کمی نے محکمے کے اندر موجود باصلاحیت اور قانون پرست اقلیت کو مزید بددل کر دیا۔
سیاسی انتشار، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال، دہشت گردی، فرقہ پرستی اور پروٹوکول ڈیوٹیوں کی افراط نے صورت حال کو مزید خراب کیا اور اب یہ حال ہے کہ باوجود کوشش کے پولیس اور عوام کے درمیان موجود بداعتمادی کی فضا میں نہ ہونے کے برابر کی واقع ہوتی ہے۔
میری پولیس کے کئی سینئر، تجربہ کار، مستعد اور اہل افسران سے اس موضوع پر کئی بار بات ہوئی ہے اور کم و بیش سب کے سب اس بات پر متفق نظر آئے کہ اگر پولیس کوڈ کو وطن عزیز کے قیام کے بنیادی اصولوں کے مطابق بنا دیا جائے۔ پولیس کے کام میں سیاسی مداخلت بند ہو جائے، تھانے اور بلدیاتی سطح کے نمائندوں کو مل کر کام کرنے دیا جائے، ملازمین کو وہ تمام سہولتیں مہیا کر دی جائیں جو ان کا قانونی حق ہیں اور قانون شکن افراد کے مقابلے کے لیے انھیں جدید اسلحہ، ٹرانسپورٹ اور ٹریننگ میہا کر دی جائے تو یہ محکمہ اب بھی بیک وقت عوام کی دوستی اور حفاظت کا فرض ادا کرسکتا ہے۔
یہی وہ باتیں تھیں جن کا تذکرہ مختلف مقررین اور آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے گزشتہ دنوں ایک خاص تقریب کے دوران کیا جس میں قتل کے مقدمات کی بہتر اور صحیح تفتیش کے لیے ہر سطح کے منتخب اور تربیت یافتہ عملے کو ایک چھت تلے جمع کیا گیا تھا۔ میڈیا اور معاشرے کے نمائندے بھی وہاں موجود تھے بلکہ اپنے نظام میں موجود کمیوں اور کوتاہیوں کا اقرار بھی کر رہے تھے اور اس خواہش کا اظہار بھی کہ اب ہمیں باہمی شکوے شکایتوں کے چکر سے نکل کر ایک ایسے معاشرے کی تکمیل میں اپنا اپنا رول ادا کرنا چاہیے جو سب کے لیے نیکی، سلامتی اور خیر و برکت کا باعث ہو۔
اس میں شک نہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کا اعتماد تھانے سے اٹھ گیا ہے اور وہ اپنے اوپر ہونے والی بہت سی زیادتیوں کی ایف آئی آر بھی نہیں کٹواتے لیکن غور سے دیکھا جائے تو اس فساد کی جڑ افراد سے زیادہ نظام میں ہے۔ یہ پولیس کسی اور سیارے سے نہیں آئی۔ سب ہمارے ہی بھائی، دوست اور ہم وطن ہیں اور ہماری ہی طرح اس دوری کے درد کو محسوس بھی کرتے ہیں جس نے وردی اور غیر وردی والوں کو دو مختلف گروہوں میں بانٹ دیا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے مرحوم اشفاق احمد نے ایک گفتگو کے دوران بتایا تھا کہ ایک بار وہ عید کی نماز کے بعد کچھ محلے داروں کو لے کر علاقے کے تھانے میں چلے گئے کہ ایس ایچ او اور دیگر عملے سے عید مل آئیں۔ ایس ایچ او اتنے معروف اور اہم لوگوں کو ایک ساتھ دیکھ کر گھبرا گیا کہ پتہ نہیں کیا واقعہ ہو گیا ہے۔
جب اسے بتایا گیا کہ وہ لوگ کسی کیس کے سلسلے میں نہیں بلکہ صرف ایک محلے دار کی رعائت سے اسے عید ملنے آئے ہیں تو وہ میانوالی کا چھ فٹا جوان آنسوؤں کے ساتھ رونے لگا۔ اس نے بتایا کہ بارہ سال کی پولیس ملازمت میں پہلی بار کوئی اس طرح اس سے عید ملنے آیا ہے کہ لوگ تھانے کو ناپسندیدہ علاقہ سمجھ کر اس کے نزدیک سے بھی نہیں گزرتے۔ اسی طرح ایم اے او کالج کی پروفیسری کے دنوں میں ایک بار طلبہ پر ظالمانہ لاٹھی چارج کی وضاحت ایک پولیس افسر نے اس طرح سے کی تھی کہ سر یہ عملہ تین دن سے جون کی گرمی میں پولیس کی تنور نما گاڑی میں بند سولہ گھنٹے روزانہ ڈیوٹی دے رہا تھا۔ قریب سے گزرنے والا ہر لڑکا طنز یا گالی سے ان کی تواضع کرتا تھا۔ روٹی تک ان کو ٹھیک سے نہیں مل رہی تھی۔
سو یہ لاٹھی چارج ان بچوں پر نہیں اس ذلت، بے حرمتی، نفرت، تھکن اور غصے کا اظہار اور نمایندہ ہے۔ جس نے ان کے دماغ وقتی طور پر ماؤف کر دیے ہیں۔ اس وقت تو میں نے اس کی بات سے اتفاق نہیں کیا لیکن اب سوچتا ہوں تو وہ بات کوئی ایسی غلط بھی نہیں تھی۔ یعنی اصل خرابی کہیں اور ہے اس پس منظر میں یہ امر بہت حوصلہ افزا ہے کہ خود پولیس کے اندر اپنے نظام کی خرابیوں کا شعور بڑھ رہا ہے اور وہ اس کی اصلاح کے بارے میں بھی عملی اقدام اٹھا رہے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں، میڈیا اور حاکمان وقت کی سمجھ میں بھی یہ بات آ جائے کہ اگر نیت نیک اور سمت درست ہو تو ہر چیز کو واپس اس کی اصل جگہ پر رکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ ''پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی۔''