جسٹس جواد خواجہ کا چشم کشا الوداعی خطاب
جسٹس جواد ایس خواجہ ایک مہینے سے بھی کم عرصے کے لیے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان رہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ ایک مہینے سے بھی کم عرصے کے لیے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان رہے۔ ریٹائر ہونے سے پہلے ان کے آخری دو خطابات ایسے ہیں جس میں پاکستانی عوام کو درپیش سنگین ترین مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ان مسائل کے حل پر ہی پاکستان کے مستقبل کا دارو مدار ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ ان مسائل یعنی کرپشن' دہشت گردی اور ناانصافی پر اگر قابو پا لیا جائے تو پاکستان بہت جلد دنیا کی باعزت قوموں کی صف میں ایک اہم مقام حاصل کر سکتا ہے۔
اپنے اعزاز میں الوداعی فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو فوری و سستا انصاف نہیں مل رہا ہے۔ جج وکیل اور حکومت نظام عدل کی تباہی کے ذمے دار ہیں۔ عدل کے ایوانوں میں دھونس دباؤ اثر و رسوخ کے کئی روپ دیکھے۔ سچی گواہی دینا آج بہت خطرناک ہے۔ پاکستان میں جو نظام عدل نافذ ہے اس کے بارے میں جسٹس جواد ایس خواجہ سے معتبر کس کی گواہی ہو گی، جب وہ کہتے ہیں کہ عدل کے ایوانوں میں انصاف کے ساتھ ساتھ دباؤ اور اثر و رسوخ کے کئی روپ دیکھے۔ سچی گواہی دینا آج بہت خطرناک ہے۔ پاکستان کے عوام جسٹس خواجہ کی اس بیان کردہ سچائی سے آگاہ ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسے بار ہا مواقع آئے جب عدل نہ صرف دھونس دباؤ اثر و رسوخ بلکہ خوف کا بھی شکار رہا۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس کے ذمے دار صرف ججز نہیں پورا معاشرہ ہے جو آمروں کو خوش آمدید کہتا رہا۔ ان آمروں کو بیرونی طاقتوں کی سرپرستی تھی۔ اس طرح طویل عرصہ غیر جمہوری نظاموں کی سرپرستی رہی جس کی زد میں آ کر نظام عدل بھی زخمی ہوتا رہا۔
سامراجی مفادات کے لیے ضروری تھا کہ پاکستان میں ایسے حالات رکھے جائیں جس میں کرپٹ حکمران ہی اقتدار میں آسکیں تا کہ بیرونی طاقتیں پاکستان میں اپنی مرضی کا ایجنڈا نافذ کر سکیں۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان جواد ایس خواجہ کا خطاب آب زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ انھوں نے پاکستانی معاشرے کی ان برائیوں کو ایسے فورم پر بے نقاب کیا ہے جنھیں ہم بحیثیت قوم تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ اگر ہم ان برائیوں کو تسلیم بھی کرتے ہیں تو اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے دوسرے فرد، گروہ یا ادارے کو ذمے دار ٹھہرا دیتے ہیں۔ جسٹس جواد خواجہ صاحب نے وہ سچ بولا جس کے بارے میں وہ خود کہتے ہیں کہ سچ بولنا ہمیشہ کی طرح آج بھی خطرناک ہے۔ سٹنگ چیف جسٹس ہوتے ہوئے نظام عدل میں پائی جانے والی خرابیوں کو تسلیم کرنا بڑی ہمت اور بہادری کا کام ہے۔ ان خرابیوں کے باوجود جب ہمارے حکمران گڈ گورننس کا دعوی کریں تو سوائے حیرت اور افسوس کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی پوری تاریخ میں یہ ہوتا رہا ہے کہ خرابیوں کو دور کرنا تو ایک طرف حکمرانوں نے کوشش کی کہ ان خرابیوں کو تسلیم ہی نہ کیا جائے یا انھیں معمولی ظاہر کیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان کا ہر شعبہ ان خرابیوں کے ہاتھوں مفلوج ہو چکا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کہتے ہیں کہ ایسا نظام جو سستا اور فوری انصاف مہیا نہیں کرتا اسے بدل دینا حکومت' ریاستی اداروں' وکلاء ججوں اور معاشرے کے ہر فرد کے لیے ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ججز کے لیے ''دیدہ مروت'' بہت خطرناک چیز ہے کیونکہ یہ ہمیں بے باک اور دلیرانہ فیصلے سے روک سکتی ہے۔ وکلاء کے حوالے سے کہا کہ چالیس سال قبل جب میں نے وکالت کا آغاز کیا تھا اس وقت عدالتوں میں ہڑتال نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پچھلے ایک سال میں عدلیہ میں پچاس سے زیادہ ہڑتالیں ہوئیں۔ وکلا کی جانب سے حیلے بہانے بنا کر التوا لینے کی روش عام ہے۔
جسٹس صاحب نے کہا کہ نظام عدل کی جڑیں کاٹنے میں ہمارا پورا سماج ملوث ہے۔ انھوں نے بتایا گزشتہ چند سالوں میں عوام نے وکلاء کے خلاف بار کونسلوں میں 7500 سے زائد شکایات کی ہیں لیکن بار کونسلوں نے کسی شکایت کی نہ تحقیق کی اور نہ ہی کسی کو سزا وار ٹھہرایا ہے۔ سوموٹو کے دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح سے ملک کے کمزور ترین طبقات کے حقوق کا دفاع کیا گیا جن کے مقابلے پر ملک کے طاقتور ترین طبقات ہوتے ہیں۔کرپشن کے حوالے سے سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ہر پاکستانی کی نظر میں بدعنوانی ہی وہ ناسور ہے جو ریاست کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے لیکن اس کے بارے میں کوئی خاطر خواہ قانون سازی یا موثر لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔ اسی بدعنوانی کی وجہ سے ملک کو اربوں بلکہ کھربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ قانون و آئین کا اطلاق اور اس کی بالادستی بری طرح سے متاثر ہو رہے ہیں۔ عوام میں عدم مساوات انتہا تک پہنچ رہی ہے اور مفلس و نادار طبقے اور زیادہ پسے جا رہے ہیں جب کہ دولت مند مزید دولت مند ہوتے جا رہے ہیں۔
ہم تاریخ کے دھارے میں اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں ریاست اور عوام میں موجود خلیج کو پر کرنے کی ضرورت گزرتے وقت کے ساتھ نمایاں ہو رہی ہے۔ ریاست اور عوام کے درمیان فاصلے مٹانے کے لیے تمام نو آبادیاتی نشانیوں کو مٹانا ہو گا۔ بدعنوانی کے خاتمے کو اولین ترجیح بنانا ہو گا۔ انھوں نے حکمران طبقے کو یہ بھی یاد دلایا کہ شہریوں کو بہترین سہولیات فراہم کرنا ان پر ریاست کا کوئی احسان نہیں ہے بلکہ یہ شہریوں کا استحقاق ہے۔ جب یہ نہ ہو تو عوام ایسے خیالات اور رویے اپنانے لگتے ہیں جو ریاست کی تباہی کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ انھوں نے سیلاب کے حوالے سے مثال دی کہ ہر سال سیلاب آتے ہیں جس میں غریب لوگ ہر سال ہی اس آفت کا شکار ہوتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ اس مسئلے کا موثر حل میسر نہیں ،وجہ یہ ہے کہ ریاستی اداروں میں جواب دہی کا فقدان ہے۔ سابق چیف جسٹس کا ہماری حالت زار پر درد دل سے پڑھا یہ نوحہ قوم کی ہر فرد کی توجہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے کہ اس قومی زوال میں اس کا کتنا حصہ ہے۔
پاکستان اس وقت بہت بڑے خطرے سے دوچار ہے۔ پاکستان میں بھی وہ تمام عوامل کرپشن' دہشتگردی' ناانصافی اپنی پوری شدت سے موجود ہیں جن کی وجہ سے شام عراق لیبیا ناکام ریاست بنے۔ اگر فوری طور پر پورے ملک میں ان خرابیوں کے خلاف موثر اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کا انجام بھی خدانخواستہ ان ملکوں جیسا ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ایک ایسا غیر جانبدارانہ احتساب ضروری ہے جس میں بغیر کسی امتیاز کے کرپشن میں ملوث تمام افراد گروہ طبقے اور تمام صوبے شامل ہوں۔
کراچی آپریشن اس سال نومبر سے تکمیل کے مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔
سیل فون: 0346-4527997
اپنے اعزاز میں الوداعی فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو فوری و سستا انصاف نہیں مل رہا ہے۔ جج وکیل اور حکومت نظام عدل کی تباہی کے ذمے دار ہیں۔ عدل کے ایوانوں میں دھونس دباؤ اثر و رسوخ کے کئی روپ دیکھے۔ سچی گواہی دینا آج بہت خطرناک ہے۔ پاکستان میں جو نظام عدل نافذ ہے اس کے بارے میں جسٹس جواد ایس خواجہ سے معتبر کس کی گواہی ہو گی، جب وہ کہتے ہیں کہ عدل کے ایوانوں میں انصاف کے ساتھ ساتھ دباؤ اور اثر و رسوخ کے کئی روپ دیکھے۔ سچی گواہی دینا آج بہت خطرناک ہے۔ پاکستان کے عوام جسٹس خواجہ کی اس بیان کردہ سچائی سے آگاہ ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسے بار ہا مواقع آئے جب عدل نہ صرف دھونس دباؤ اثر و رسوخ بلکہ خوف کا بھی شکار رہا۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس کے ذمے دار صرف ججز نہیں پورا معاشرہ ہے جو آمروں کو خوش آمدید کہتا رہا۔ ان آمروں کو بیرونی طاقتوں کی سرپرستی تھی۔ اس طرح طویل عرصہ غیر جمہوری نظاموں کی سرپرستی رہی جس کی زد میں آ کر نظام عدل بھی زخمی ہوتا رہا۔
سامراجی مفادات کے لیے ضروری تھا کہ پاکستان میں ایسے حالات رکھے جائیں جس میں کرپٹ حکمران ہی اقتدار میں آسکیں تا کہ بیرونی طاقتیں پاکستان میں اپنی مرضی کا ایجنڈا نافذ کر سکیں۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان جواد ایس خواجہ کا خطاب آب زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ انھوں نے پاکستانی معاشرے کی ان برائیوں کو ایسے فورم پر بے نقاب کیا ہے جنھیں ہم بحیثیت قوم تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ اگر ہم ان برائیوں کو تسلیم بھی کرتے ہیں تو اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے دوسرے فرد، گروہ یا ادارے کو ذمے دار ٹھہرا دیتے ہیں۔ جسٹس جواد خواجہ صاحب نے وہ سچ بولا جس کے بارے میں وہ خود کہتے ہیں کہ سچ بولنا ہمیشہ کی طرح آج بھی خطرناک ہے۔ سٹنگ چیف جسٹس ہوتے ہوئے نظام عدل میں پائی جانے والی خرابیوں کو تسلیم کرنا بڑی ہمت اور بہادری کا کام ہے۔ ان خرابیوں کے باوجود جب ہمارے حکمران گڈ گورننس کا دعوی کریں تو سوائے حیرت اور افسوس کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی پوری تاریخ میں یہ ہوتا رہا ہے کہ خرابیوں کو دور کرنا تو ایک طرف حکمرانوں نے کوشش کی کہ ان خرابیوں کو تسلیم ہی نہ کیا جائے یا انھیں معمولی ظاہر کیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان کا ہر شعبہ ان خرابیوں کے ہاتھوں مفلوج ہو چکا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کہتے ہیں کہ ایسا نظام جو سستا اور فوری انصاف مہیا نہیں کرتا اسے بدل دینا حکومت' ریاستی اداروں' وکلاء ججوں اور معاشرے کے ہر فرد کے لیے ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ججز کے لیے ''دیدہ مروت'' بہت خطرناک چیز ہے کیونکہ یہ ہمیں بے باک اور دلیرانہ فیصلے سے روک سکتی ہے۔ وکلاء کے حوالے سے کہا کہ چالیس سال قبل جب میں نے وکالت کا آغاز کیا تھا اس وقت عدالتوں میں ہڑتال نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پچھلے ایک سال میں عدلیہ میں پچاس سے زیادہ ہڑتالیں ہوئیں۔ وکلا کی جانب سے حیلے بہانے بنا کر التوا لینے کی روش عام ہے۔
جسٹس صاحب نے کہا کہ نظام عدل کی جڑیں کاٹنے میں ہمارا پورا سماج ملوث ہے۔ انھوں نے بتایا گزشتہ چند سالوں میں عوام نے وکلاء کے خلاف بار کونسلوں میں 7500 سے زائد شکایات کی ہیں لیکن بار کونسلوں نے کسی شکایت کی نہ تحقیق کی اور نہ ہی کسی کو سزا وار ٹھہرایا ہے۔ سوموٹو کے دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح سے ملک کے کمزور ترین طبقات کے حقوق کا دفاع کیا گیا جن کے مقابلے پر ملک کے طاقتور ترین طبقات ہوتے ہیں۔کرپشن کے حوالے سے سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ہر پاکستانی کی نظر میں بدعنوانی ہی وہ ناسور ہے جو ریاست کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے لیکن اس کے بارے میں کوئی خاطر خواہ قانون سازی یا موثر لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔ اسی بدعنوانی کی وجہ سے ملک کو اربوں بلکہ کھربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ قانون و آئین کا اطلاق اور اس کی بالادستی بری طرح سے متاثر ہو رہے ہیں۔ عوام میں عدم مساوات انتہا تک پہنچ رہی ہے اور مفلس و نادار طبقے اور زیادہ پسے جا رہے ہیں جب کہ دولت مند مزید دولت مند ہوتے جا رہے ہیں۔
ہم تاریخ کے دھارے میں اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں ریاست اور عوام میں موجود خلیج کو پر کرنے کی ضرورت گزرتے وقت کے ساتھ نمایاں ہو رہی ہے۔ ریاست اور عوام کے درمیان فاصلے مٹانے کے لیے تمام نو آبادیاتی نشانیوں کو مٹانا ہو گا۔ بدعنوانی کے خاتمے کو اولین ترجیح بنانا ہو گا۔ انھوں نے حکمران طبقے کو یہ بھی یاد دلایا کہ شہریوں کو بہترین سہولیات فراہم کرنا ان پر ریاست کا کوئی احسان نہیں ہے بلکہ یہ شہریوں کا استحقاق ہے۔ جب یہ نہ ہو تو عوام ایسے خیالات اور رویے اپنانے لگتے ہیں جو ریاست کی تباہی کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ انھوں نے سیلاب کے حوالے سے مثال دی کہ ہر سال سیلاب آتے ہیں جس میں غریب لوگ ہر سال ہی اس آفت کا شکار ہوتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ اس مسئلے کا موثر حل میسر نہیں ،وجہ یہ ہے کہ ریاستی اداروں میں جواب دہی کا فقدان ہے۔ سابق چیف جسٹس کا ہماری حالت زار پر درد دل سے پڑھا یہ نوحہ قوم کی ہر فرد کی توجہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے کہ اس قومی زوال میں اس کا کتنا حصہ ہے۔
پاکستان اس وقت بہت بڑے خطرے سے دوچار ہے۔ پاکستان میں بھی وہ تمام عوامل کرپشن' دہشتگردی' ناانصافی اپنی پوری شدت سے موجود ہیں جن کی وجہ سے شام عراق لیبیا ناکام ریاست بنے۔ اگر فوری طور پر پورے ملک میں ان خرابیوں کے خلاف موثر اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کا انجام بھی خدانخواستہ ان ملکوں جیسا ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ایک ایسا غیر جانبدارانہ احتساب ضروری ہے جس میں بغیر کسی امتیاز کے کرپشن میں ملوث تمام افراد گروہ طبقے اور تمام صوبے شامل ہوں۔
کراچی آپریشن اس سال نومبر سے تکمیل کے مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔
سیل فون: 0346-4527997