’سولہ سنگھار‘ ہے کیا۔۔۔
قدیم زمانے میں عورت جن سولہ اشیا سے سج دھج کر کسی محفل کو رونق بخشتی جاتی، دراصل وہ ’’سولہ سنگھار‘‘ کہلاتیں
ہر عورت ہی اپنے سجنے سنورنے پر خصوصی توجہ مرکوز رکھتی ہے، جس کا مقصد پرکشش اور حسین نظر آنا ہوتا ہے،یہ کام مختلف آرایشی لوازمات کے بغیر ناممکن ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ فیشن کی دنیا میں ہونے والے انوکھے تجربات میک اپ اور اس کی تیکنیک پربڑی سرعت سے اثر انداز ہوئے ہیں۔ نت نئی اقسام کی مصنوعات کی آمد اور تشہیر نے صنف نازک کو میک اپ کا شعور بخشا ہے۔
بیوٹی پارلروں سے نام وَر میک اپ آرٹسٹ تک ہر ٹی وی چینل سے آرائش حسن کے سادہ اور سہل نسخوں پر مبنی پروگرام، بازاروں میں ہر قسم کی جلد اور رنگ و روپ رکھنے والی خواتین کے لیے مصنوعات کی فروخت نے اس شعبے کی مشکلات کو قدرے کم کر دیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آرائش حسن اور خواتین کا ساتھ جب اتنا قدیم ہے، تواس وقت جب کہ ایسی سہولیات میسر نہیں تھیں، لڑکیاں یا عورتیں کیا کرتی تھیں؟
ہم خواتین بننے سنورنے کے لیے ''سولہ سنگھار'' کا لفظ جو استعمال کرتی ہیں، یہی اس سوال کا جواب بھی ہے۔ عام طور روزمرہ کی گفتگو میں لڑکیوں کی سجنے سنورنے کو اس لفظ سے موسوم کیا جاتا ہے، مگر قدیم زمانے میں عورت جن سولہ اشیا سے سج دھج کر کسی محفل کو رونق بخشتی جاتی، دراصل وہ ''سولہ سنگھار'' کہلاتیں۔ درحقیقت حسن، ہار سنگھار اور خواتین کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، مگر اس وقت آج کے زمانے جیسی سہولیات دست یاب نہیں تھیں، پھر بھی عورتیں سنگھار کیے بغیر گھر سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتی تھیں، کیوں کہ شروع سے ہی سولہ سنگھار کو عورت کا اصل حسن اور روپ سمجھا جاتا تھا۔
برصغیر پاک و ہند میں صنف نازک اپنے حسن کو سنوارنے اور سجانے کے لیے سولہ سنگھار کا سہارا لیتی آئی ہیں، جس سے ان کی زیب و زینت میں نمایاں اضافہ نظر آتا۔ وہ کہیں جانے یا خانہ داری کے تمام امور نمٹا کر اپنے سرتاج کے آنے سے پہلے بڑے اہتمام سے تیار ہوتیں، بالوں میں خوش بو دار تیل لگایا جاتا، آنکھوں میں کاجل، ہونٹوں پر مسی وغیرہ۔
برصغیر پاک و ہند میںسولہ سنگھار کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی کہ زیادہ تر شادی شدہ عورتیں یا سہاگنیں ان اشیا کو پہنے یا لگائے بنا خود کو نامکمل سمجھتیں۔ دراصل سولہ سنگھار کے لیے استعمال ہونے والی بہت ساری چیزوں کا تعلق ان کی روایات، عقائد اور توہمات سے جڑا ہوا تھا، سہاگنیں ان سولہ چیزوں کو شوہر کی لمبی عمر، خوش حالی، تن درستی کا ضامن سمجھتیں، جن پر اس وقت کی بڑی بوڑھی خواتین سختی سے عمل کرواتیں۔
اس سنگھار کا استعمال قدیم تہذیبوں سے منسلک رہا ہے، جو کافی محنت طلب کام تھا۔ اسی لیے جدید مصنوعات کے آمد سے قبل میک اپ کے لیے سولہ کلاسیک چیزیں موجود تھیں، تاریخ میں سنگھار کے آغاز کے بارے کوئی واضح وقت تو نہیں ملتا، تاہم مختلف قدیم تہذیبوں، جن میں دراوڑی، گندھارا اور آریائی ادوار کے مجسموں کے نمونوں، تصاویر، داستانوں اور ادب میں ان سولہ سنگھار کا ذکر اور آثار دکھائی دیتے ہیں، اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس کی شروعات ہندوستان کی قدیم تہذیبوں سے ہوئی۔
ہزاروں سال قبل برصغیر میں شادی سے قبل تجربے کار خواتین اور نانیاں، دادیاں، لڑکیوں بالیوں کو باقاعدہ ان کے استعمال کی تربیت دیتیں۔ اس طرح یہ فن آرائش نسل در نسل منتقل ہوتا چلا گیا۔ ہندو عورتیں اپنے مختلف مذہبی اور سماجی تہواروں کی تیاری میں ان سولہ اشیا اور سولہ مراحل سے گزرتیں۔ روایتی انداز کی آرائش حسن کے لیے یہ اشیا ناگزیر تھیں۔ ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے بعد میں مسلم اور سکھ عورتوں پر بھی یہ رسومات اثر انداز ہونا شروع ہو گئیں ۔ خاص طور پر حویلیوں اور محلوں میں رہنے والی امراخواتین، نوابوں کی بیگمات اور رانیاں خود کو جن سولہ چیزوں سے سجاتیں، ان میں کچھ زیورات تھے اور کچھ کا تعلق چہر ے پر لگانے والی چیزوں سے تھا۔
سولہ سنگھار کی بہت سی روایات کا تعلق اُس وقت کے لوگوں کے مذہبی عقائد سے بھی جڑا ہوا تھا۔ اب بھی اس میں ہمیں ہندو مذہب سے ماخوذ کچھ چیزیں نظرآتی ہیں۔
1۔ ٹیکا (ماتھے کی بندی) جو مانگ میں لگایا جاتا ہے۔
2۔ جھومر، جو ماتھے کے ایک طرف لگایا جاتا ہے۔
3۔ کانوں کے جھمکے، بندے یا بالیاں۔
4۔ چوڑیاں، کہنی پر پہنے جانے والے مختلف کڑے اور بازو بند۔
5۔ کمر کا پٹکا، یا سونے، چاندی کی بیلٹ۔
6۔ آنکھوں کا کاجل۔
7۔ ہتھیلی، بازو اور پیروں سے تلوے تک لگائی جانے والی منہدی۔
8۔ انگھوٹھیاں، آرسی یا انگلی میں پہنی جانے والی بڑی سی انگھوٹھی جس میں شیشہ جَڑا ہوا ہوتا ہے۔
9۔ مختلف عطر اور خوشبویات وغیرہ۔
10۔ پائل، پازیب، جھانجھر یا توڑے، پیروں کی پٹی، جو انگوٹھے میں پہنی جاتی ہے، پچھوے (پیروں کی انگلیوں میں پہنتے ہیں)
11۔ بالوں کے گجرے
12۔ چوٹی کے پھول (جو سونے یا چاندی سے تیار کیے جاتے تھے)
13۔ مانگ کا سیندور۔ یہ ہندومذہب کی ایک روایت ہے، چوں کہ سولہ سنگھار کے تانے بانے بھی قدیم ہندوستان سے جڑتے ہیں، اس لیے ہندوؤں کی یہ مذہبی روایت بھی اس میں شامل ہو گئی۔
14۔ گلے کا ہار یا کالے پوت کی زنجیر جس میں سونا لگا ہوا ہوتا تھا (قدیم روایات کے مطابق اس کو پہنے بنا سہاگن کھانا نہیں کھاتی تھی)
15۔ ناک کی کیل
16۔ بھٹہ (کان کے اوپری حصے میں بھی دو سوراخ کیے جاتے تھے، جس میں عورت سونے کے پھول پہنتی تھی)
اس کے علاوہ قدیم زمانے میں 'سولہ سنگھار' کے لیے صنف نازک کو درج ذیل سولہ مرحلوں سے گزرنا بھی ضروری ہوتا تھا، جس کے بعد ہی ان کی آرائش حسن اور زیبائش مکمل سمجھی جاتی تھی۔
1۔ مساج
سب سے پہلے قدیم نسخوں سے تیار کیے جانے والے خوش بودار تیل سے جلد کا مساج کیا جاتا تھا۔
2۔ خوش بوؤں کا غسل
اس کے بعد غسل کیا جاتا، مگر صابن کی جگہ دودھ، اور پھر عرق گلاب، روغن بادام، گلاب کی پتیاں، خس وغیرہ کو خاص ترکیب سے پانی میں ملایا جاتا، جس سے غسل کیا جاتا۔
3۔ بالوں کا لیپ
بالوں میں تیل سے مالش کرنے کے بعد سیکاکائی کے آمیزے کا لیپ کیا جاتا۔ بال مضبوط کرنے والی دوسری جڑی بوٹیوں کی لئی بنا کر لگائی جاتی، آخر میں ریٹھا پیس کر اس سے بالوں کو اچھی طرح سے دھو دیا جاتا۔
4۔ چہرے کا سنگھار
چہرے، گردن، بازوؤں اور شانوں پر صندل کے باریک سفوف کی لئی بنا کر ملی جاتی، جو مخصوص خوش بو کے ساتھ جلد کو خاص چمک عطا کرتا۔
5۔ آنکھوں کا بناؤ
آنکھوں میں کاجل یا سرمہ لگایا جاتا، موٹی دھاریاں یا لکیریں کھینچ کر انہیں مزید نمایاں کیا جاتا۔
6۔ تلک
ماتھے پر سرخ سیندور سے تلک لگایا جاتا یا طلائی بندیا لگائی جاتی۔ (اس کا تعلق بھی ہندوؤں کی مذہبی روایات سے ہے)
7۔ مکھ پرسادن
چہرے پر خاص قسم کے نشان ثبت کیے جاتے جو ''مکھ پرسادن'' کہلاتے، قدیم زمانے کے لوگوں کے عقائد تھے کہ یہ نشانات بری نگاہ کو کاٹ ڈالتے تھے۔ چاندی، سونے یا قیمتی موتیوں سے بنائے گئے، یہ جڑاؤ نشان چہرے پر منقش انداز میں لگائے جاتے۔
8۔ زلفیں
بالوں کی لٹوں کو مختلف انداز میں موڑ کر یا منفرد انداز دیا جاتا، اونچے جوڑے یا چوٹیاں بھی گندھی جاتیں۔
9۔ ہونٹوں کا میک اپ
ہونٹوں کو رنگنے یا مختلف انداز میں بنی سرخی سے سجایا جاتا، کچھ خواتین پان سے ہونٹ رنگتیں، کوئی مسی لگا کر انہیں سجاتیں۔
10۔ ہاتھوں کی سجاوٹ
ہاتھوں کو صاف کر کے، پہلے ان پر حنا یا منہدی لگتی، انگلیوں کو سرخ رنگ لگایا جاتا اس کے بعد مختلف قسم کے زیورات سے سجانے سنوارنے کا کام ہوتا۔
11۔ پیروں کے لیے
اس مرحلے میں پیروں کی اچھی طرح سے صفائی کرنے کے بعد ان پر منہدی لگائی جاتی، تلوے کو منہدی سے رنگ دیا جاتا، اس کے علاوہ سرخ رنگ بھی پیروں پر نقش بنانے کے لیے استعمال ہوتا، آخر میں پاؤں کے زیور پہنا دیے جاتے۔
12۔ لباس
اب تہوار یا تقریب کے مطابق عالی شان لباس بڑے احترام و مکمل آداب کے ساتھ پہنانے کا کام ہوتا۔
13۔گجرے
بالوں، ہاتھوں یا گلے میں تازہ پھولوں کے گجرے پہنائے جاتے، کلائی کے گرد جوہی یا چنبیلی کے پھولوں سے گندھے گجرے لپیٹے جاتے، بالوں کی چوٹی یا جوڑے کے گرد بھی یہ گجرے لگائے جاتے۔
14۔ زیورات
مختلف قسم کے زیورات سے آراستہ ہونا بھی ایک مرحلہ ہوتا، جس کے بعد حسن کو چار چاند لگ جاتے۔
15۔ منہ کی خوش بو کے لیے
سانسوں یا منہ کو خوش گوار احساس بخشنے کے لیے الائچی والا پان، کھلایا جاتا، مساگ اور مختلف خوش بودار اشیا چبانے کے لیے دی جاتیں، بعض خواتین منہ کو خوش بو دار کرنے کے لیے تمباکو کا استعمال بھی کرتیں۔
16۔ آخری مرحلہ
اختتامی مرحلے میں عورت یا لڑکی کو آئینے کے سامنے لے جا کر کھڑا کر دیا جاتا اور سر تا پا ایک، ایک چیز کا بغور جائزہ لیا جاتا، جہاں کمی دکھائی دیتی، اسے فوراً دور کر دیا جاتا۔ اس کے بعد خاتون یا لڑکی کی تیاری مکمل ہو جاتی۔ سولہ مرحلوں پر مشتمل یہ تیاری زیادہ تر دلہنوں کے لیے کی جاتی تھیں، مگر رانیاں اور امرا کی بیگمات بھی کسی تہوار یا تقریب میں شرکت کرنے سے قبل ان مراحل سے گزرتی تھیں۔ آج کے دور کی خواتین جو کم وقت میں زیادہ کام کرنے کی عادی ہیں، یہ سوچ کر ہی حیرت زدہ رہ جاتی ہیں کہ پہلے کی خواتین اور عورتیں سجنے سنورنے اور سولہ سنگھار کرنے کے لیے اتنا وقت کیسے نکالتی ہوں گی۔
بیوٹی پارلروں سے نام وَر میک اپ آرٹسٹ تک ہر ٹی وی چینل سے آرائش حسن کے سادہ اور سہل نسخوں پر مبنی پروگرام، بازاروں میں ہر قسم کی جلد اور رنگ و روپ رکھنے والی خواتین کے لیے مصنوعات کی فروخت نے اس شعبے کی مشکلات کو قدرے کم کر دیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آرائش حسن اور خواتین کا ساتھ جب اتنا قدیم ہے، تواس وقت جب کہ ایسی سہولیات میسر نہیں تھیں، لڑکیاں یا عورتیں کیا کرتی تھیں؟
ہم خواتین بننے سنورنے کے لیے ''سولہ سنگھار'' کا لفظ جو استعمال کرتی ہیں، یہی اس سوال کا جواب بھی ہے۔ عام طور روزمرہ کی گفتگو میں لڑکیوں کی سجنے سنورنے کو اس لفظ سے موسوم کیا جاتا ہے، مگر قدیم زمانے میں عورت جن سولہ اشیا سے سج دھج کر کسی محفل کو رونق بخشتی جاتی، دراصل وہ ''سولہ سنگھار'' کہلاتیں۔ درحقیقت حسن، ہار سنگھار اور خواتین کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، مگر اس وقت آج کے زمانے جیسی سہولیات دست یاب نہیں تھیں، پھر بھی عورتیں سنگھار کیے بغیر گھر سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتی تھیں، کیوں کہ شروع سے ہی سولہ سنگھار کو عورت کا اصل حسن اور روپ سمجھا جاتا تھا۔
برصغیر پاک و ہند میں صنف نازک اپنے حسن کو سنوارنے اور سجانے کے لیے سولہ سنگھار کا سہارا لیتی آئی ہیں، جس سے ان کی زیب و زینت میں نمایاں اضافہ نظر آتا۔ وہ کہیں جانے یا خانہ داری کے تمام امور نمٹا کر اپنے سرتاج کے آنے سے پہلے بڑے اہتمام سے تیار ہوتیں، بالوں میں خوش بو دار تیل لگایا جاتا، آنکھوں میں کاجل، ہونٹوں پر مسی وغیرہ۔
برصغیر پاک و ہند میںسولہ سنگھار کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی کہ زیادہ تر شادی شدہ عورتیں یا سہاگنیں ان اشیا کو پہنے یا لگائے بنا خود کو نامکمل سمجھتیں۔ دراصل سولہ سنگھار کے لیے استعمال ہونے والی بہت ساری چیزوں کا تعلق ان کی روایات، عقائد اور توہمات سے جڑا ہوا تھا، سہاگنیں ان سولہ چیزوں کو شوہر کی لمبی عمر، خوش حالی، تن درستی کا ضامن سمجھتیں، جن پر اس وقت کی بڑی بوڑھی خواتین سختی سے عمل کرواتیں۔
اس سنگھار کا استعمال قدیم تہذیبوں سے منسلک رہا ہے، جو کافی محنت طلب کام تھا۔ اسی لیے جدید مصنوعات کے آمد سے قبل میک اپ کے لیے سولہ کلاسیک چیزیں موجود تھیں، تاریخ میں سنگھار کے آغاز کے بارے کوئی واضح وقت تو نہیں ملتا، تاہم مختلف قدیم تہذیبوں، جن میں دراوڑی، گندھارا اور آریائی ادوار کے مجسموں کے نمونوں، تصاویر، داستانوں اور ادب میں ان سولہ سنگھار کا ذکر اور آثار دکھائی دیتے ہیں، اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس کی شروعات ہندوستان کی قدیم تہذیبوں سے ہوئی۔
ہزاروں سال قبل برصغیر میں شادی سے قبل تجربے کار خواتین اور نانیاں، دادیاں، لڑکیوں بالیوں کو باقاعدہ ان کے استعمال کی تربیت دیتیں۔ اس طرح یہ فن آرائش نسل در نسل منتقل ہوتا چلا گیا۔ ہندو عورتیں اپنے مختلف مذہبی اور سماجی تہواروں کی تیاری میں ان سولہ اشیا اور سولہ مراحل سے گزرتیں۔ روایتی انداز کی آرائش حسن کے لیے یہ اشیا ناگزیر تھیں۔ ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے بعد میں مسلم اور سکھ عورتوں پر بھی یہ رسومات اثر انداز ہونا شروع ہو گئیں ۔ خاص طور پر حویلیوں اور محلوں میں رہنے والی امراخواتین، نوابوں کی بیگمات اور رانیاں خود کو جن سولہ چیزوں سے سجاتیں، ان میں کچھ زیورات تھے اور کچھ کا تعلق چہر ے پر لگانے والی چیزوں سے تھا۔
سولہ سنگھار کی بہت سی روایات کا تعلق اُس وقت کے لوگوں کے مذہبی عقائد سے بھی جڑا ہوا تھا۔ اب بھی اس میں ہمیں ہندو مذہب سے ماخوذ کچھ چیزیں نظرآتی ہیں۔
1۔ ٹیکا (ماتھے کی بندی) جو مانگ میں لگایا جاتا ہے۔
2۔ جھومر، جو ماتھے کے ایک طرف لگایا جاتا ہے۔
3۔ کانوں کے جھمکے، بندے یا بالیاں۔
4۔ چوڑیاں، کہنی پر پہنے جانے والے مختلف کڑے اور بازو بند۔
5۔ کمر کا پٹکا، یا سونے، چاندی کی بیلٹ۔
6۔ آنکھوں کا کاجل۔
7۔ ہتھیلی، بازو اور پیروں سے تلوے تک لگائی جانے والی منہدی۔
8۔ انگھوٹھیاں، آرسی یا انگلی میں پہنی جانے والی بڑی سی انگھوٹھی جس میں شیشہ جَڑا ہوا ہوتا ہے۔
9۔ مختلف عطر اور خوشبویات وغیرہ۔
10۔ پائل، پازیب، جھانجھر یا توڑے، پیروں کی پٹی، جو انگوٹھے میں پہنی جاتی ہے، پچھوے (پیروں کی انگلیوں میں پہنتے ہیں)
11۔ بالوں کے گجرے
12۔ چوٹی کے پھول (جو سونے یا چاندی سے تیار کیے جاتے تھے)
13۔ مانگ کا سیندور۔ یہ ہندومذہب کی ایک روایت ہے، چوں کہ سولہ سنگھار کے تانے بانے بھی قدیم ہندوستان سے جڑتے ہیں، اس لیے ہندوؤں کی یہ مذہبی روایت بھی اس میں شامل ہو گئی۔
14۔ گلے کا ہار یا کالے پوت کی زنجیر جس میں سونا لگا ہوا ہوتا تھا (قدیم روایات کے مطابق اس کو پہنے بنا سہاگن کھانا نہیں کھاتی تھی)
15۔ ناک کی کیل
16۔ بھٹہ (کان کے اوپری حصے میں بھی دو سوراخ کیے جاتے تھے، جس میں عورت سونے کے پھول پہنتی تھی)
اس کے علاوہ قدیم زمانے میں 'سولہ سنگھار' کے لیے صنف نازک کو درج ذیل سولہ مرحلوں سے گزرنا بھی ضروری ہوتا تھا، جس کے بعد ہی ان کی آرائش حسن اور زیبائش مکمل سمجھی جاتی تھی۔
1۔ مساج
سب سے پہلے قدیم نسخوں سے تیار کیے جانے والے خوش بودار تیل سے جلد کا مساج کیا جاتا تھا۔
2۔ خوش بوؤں کا غسل
اس کے بعد غسل کیا جاتا، مگر صابن کی جگہ دودھ، اور پھر عرق گلاب، روغن بادام، گلاب کی پتیاں، خس وغیرہ کو خاص ترکیب سے پانی میں ملایا جاتا، جس سے غسل کیا جاتا۔
3۔ بالوں کا لیپ
بالوں میں تیل سے مالش کرنے کے بعد سیکاکائی کے آمیزے کا لیپ کیا جاتا۔ بال مضبوط کرنے والی دوسری جڑی بوٹیوں کی لئی بنا کر لگائی جاتی، آخر میں ریٹھا پیس کر اس سے بالوں کو اچھی طرح سے دھو دیا جاتا۔
4۔ چہرے کا سنگھار
چہرے، گردن، بازوؤں اور شانوں پر صندل کے باریک سفوف کی لئی بنا کر ملی جاتی، جو مخصوص خوش بو کے ساتھ جلد کو خاص چمک عطا کرتا۔
5۔ آنکھوں کا بناؤ
آنکھوں میں کاجل یا سرمہ لگایا جاتا، موٹی دھاریاں یا لکیریں کھینچ کر انہیں مزید نمایاں کیا جاتا۔
6۔ تلک
ماتھے پر سرخ سیندور سے تلک لگایا جاتا یا طلائی بندیا لگائی جاتی۔ (اس کا تعلق بھی ہندوؤں کی مذہبی روایات سے ہے)
7۔ مکھ پرسادن
چہرے پر خاص قسم کے نشان ثبت کیے جاتے جو ''مکھ پرسادن'' کہلاتے، قدیم زمانے کے لوگوں کے عقائد تھے کہ یہ نشانات بری نگاہ کو کاٹ ڈالتے تھے۔ چاندی، سونے یا قیمتی موتیوں سے بنائے گئے، یہ جڑاؤ نشان چہرے پر منقش انداز میں لگائے جاتے۔
8۔ زلفیں
بالوں کی لٹوں کو مختلف انداز میں موڑ کر یا منفرد انداز دیا جاتا، اونچے جوڑے یا چوٹیاں بھی گندھی جاتیں۔
9۔ ہونٹوں کا میک اپ
ہونٹوں کو رنگنے یا مختلف انداز میں بنی سرخی سے سجایا جاتا، کچھ خواتین پان سے ہونٹ رنگتیں، کوئی مسی لگا کر انہیں سجاتیں۔
10۔ ہاتھوں کی سجاوٹ
ہاتھوں کو صاف کر کے، پہلے ان پر حنا یا منہدی لگتی، انگلیوں کو سرخ رنگ لگایا جاتا اس کے بعد مختلف قسم کے زیورات سے سجانے سنوارنے کا کام ہوتا۔
11۔ پیروں کے لیے
اس مرحلے میں پیروں کی اچھی طرح سے صفائی کرنے کے بعد ان پر منہدی لگائی جاتی، تلوے کو منہدی سے رنگ دیا جاتا، اس کے علاوہ سرخ رنگ بھی پیروں پر نقش بنانے کے لیے استعمال ہوتا، آخر میں پاؤں کے زیور پہنا دیے جاتے۔
12۔ لباس
اب تہوار یا تقریب کے مطابق عالی شان لباس بڑے احترام و مکمل آداب کے ساتھ پہنانے کا کام ہوتا۔
13۔گجرے
بالوں، ہاتھوں یا گلے میں تازہ پھولوں کے گجرے پہنائے جاتے، کلائی کے گرد جوہی یا چنبیلی کے پھولوں سے گندھے گجرے لپیٹے جاتے، بالوں کی چوٹی یا جوڑے کے گرد بھی یہ گجرے لگائے جاتے۔
14۔ زیورات
مختلف قسم کے زیورات سے آراستہ ہونا بھی ایک مرحلہ ہوتا، جس کے بعد حسن کو چار چاند لگ جاتے۔
15۔ منہ کی خوش بو کے لیے
سانسوں یا منہ کو خوش گوار احساس بخشنے کے لیے الائچی والا پان، کھلایا جاتا، مساگ اور مختلف خوش بودار اشیا چبانے کے لیے دی جاتیں، بعض خواتین منہ کو خوش بو دار کرنے کے لیے تمباکو کا استعمال بھی کرتیں۔
16۔ آخری مرحلہ
اختتامی مرحلے میں عورت یا لڑکی کو آئینے کے سامنے لے جا کر کھڑا کر دیا جاتا اور سر تا پا ایک، ایک چیز کا بغور جائزہ لیا جاتا، جہاں کمی دکھائی دیتی، اسے فوراً دور کر دیا جاتا۔ اس کے بعد خاتون یا لڑکی کی تیاری مکمل ہو جاتی۔ سولہ مرحلوں پر مشتمل یہ تیاری زیادہ تر دلہنوں کے لیے کی جاتی تھیں، مگر رانیاں اور امرا کی بیگمات بھی کسی تہوار یا تقریب میں شرکت کرنے سے قبل ان مراحل سے گزرتی تھیں۔ آج کے دور کی خواتین جو کم وقت میں زیادہ کام کرنے کی عادی ہیں، یہ سوچ کر ہی حیرت زدہ رہ جاتی ہیں کہ پہلے کی خواتین اور عورتیں سجنے سنورنے اور سولہ سنگھار کرنے کے لیے اتنا وقت کیسے نکالتی ہوں گی۔