ہندوستان میں 15 کروڑ مزدوروں کی ہڑتال
عالمی سرمایہ داری کا بحران درحقیقت محنت کشوں کا استحصال ہے۔
DERA ISMAIL KHAN/ISLAMABAD:
عالمی سرمایہ داری کا بحران درحقیقت محنت کشوں کا استحصال ہے۔ جب پیداوار لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے بجائے منافع بٹورنے کے لیے کی جائے گی تو پھر یہی ہوگا۔ جب ایک جانب اربوں ڈالرکا انبار ہو اور دوسری جانب افلاس زدہ عوام کا سمندر تو پھر بھوکے عوام کیا کریں گے۔ دو ہی راستے رہ جاتے ہیں یا تو بھوک سے مر جائیں یا پھر سوشلسٹ انقلاب برپا کرکے تمام ذرایع پیداوار کو اپنے قبضے میں لے لیں۔
آج عالمی سرمایہ داری کے نمایندے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ڈبلیو ٹی او، نیو ورلڈ آرڈر کے تحت کٹوتی، چھانٹی، تالا بندی، گولڈن شیک ہینڈ، رائٹ سائزنگ، ڈاؤن سائزنگ، ٹیکس، بے روزگاری اور مہنگائی عوام پر مسلط کیے ہوئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں دنیا کے 85 ارب پتی آدھی دنیا کو خرید سکتے ہیں۔ اس کرہ ارض میں روزانہ 75 ہزار انسان صرف بھوک سے مر رہے ہیں۔ آج عالمی سرمایہ داری کا بحران زائد پیداوار کا بحران ہے۔
ذخیرہ اندوزی کرکے ملٹی نیشنل کمپنیاں کھرب پتی بنتی جا رہی ہیں اور لوگ بھوک، بے روزگاری، افلاس اور لاعلاجی سے مر رہے ہیں۔ بے روزگاری سے تنگ آکر مزدور اپنے وطن کو خیرباد کہہ کر لاکھوں کی تعداد میں تاریک وطن ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں یورپ میں مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے راستے تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ رواں برس مجموعی طور پر ایک لاکھ 60 ہزار سے زیادہ تارکین وطن نے یونان کا رخ کیا۔ جرمنی کا اندازہ ہے کہ رواں سال ختم ہونے تک 8 لاکھ تارکین وطن جرمنی پہنچیں گے۔
پاکستان سے لاکھوں مزدور تارکین وطن ہوچکے ہیں۔ پاکستان کی حکومت بے شمار اداروں کی آئی ایم ایف کے حکم پر نجکاری کرنے جا رہی ہے۔ مزدور اس نجکاری کے خلاف بڑی جرأت مندی سے ڈٹ گئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے مزدوروں کی کم ازکم تنخواہ 13000 روپے 90 فیصد مزدوروں کو میسر نہیں۔ چینی 70 روپے کلو، تیل 200 روپے، دالیں 200، چاول 150 اور آٹا 50 روپے کلو میں دستیاب ہے۔ 73 روپے لیٹر ایندھن کے تیل میں 33 روپے حکومت ٹیکس وصول کرتی ہے۔
گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اپنے ایک آبزرویشن میں کہہ چکے ہیں کہ ڈیرہ غازی خان میں اسٹون کرشنگ (پتھر توڑنے والے مزدور) کرنے والے مزدور پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہوکر مر چکے ہیں اور حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ بلدیہ کراچی میں آگ میں جل کر شہید ہونے والوں کے قاتلوں کو ابھی تک کوئی سزا ملنا تو درکنار، کون مجرم ہے اس کی بھی نشاندہی نہیں ہوئی۔ مزدوروں کو کبھی ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے، کبھی مشین کی زد میں آجاتا ہے، کبھی انتقاماً ٹرانسفر کردیا جاتا ہے۔
ضلع کونسل بدین کے ملازمین گزشتہ 9 ماہ سے اپنی تنخواہوں سے محروم ہیں۔ جس کے باعث ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی ہے اور ان کے بچے فیسیں نہ ادا کرنے کی وجہ سے اسکول جانے سے قاصر ہیں۔ گزشتہ 2 ستمبر 2015 کو ہندوستان کے 15 کروڑ مزدوروں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہڑتال کی۔ انھوں نے پورے ہندوستان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ مزدوروں کا مطالبہ ہے کہ مودی حکومت نے آئین میں جو ترمیمی بل منظور کیا ہے جس کے تحت ملازمتوں کو ختم کرنے اور غیر پیداواری فیکٹریوں کو بند کرنے میں آسانی پیدا کی گئی ہے۔ پاکستان میں انجمن تاجران ود ہولڈنگ ٹیکس کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔
تاجروں نے ملک بھر میں حکومت کے خلاف ظالمانہ ود ہولڈنگ ٹیکس کے خلاف بینک ٹرانزکشن کا بائیکاٹ کیا اور شٹرڈاؤن ہڑتال کی۔ جولائی 2015 میں بینکوں کے ذریعے لین دین میں 878 ارب روپے کم ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم پر عائد ظالمانہ ٹیکس فوراً واپس لیا جائے۔
ادھر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی سال 2009 سے ٹرن اوور پر 8 فیصد شرح ٹیکس کے خلاف فریٹ فارورڈرز اور ایئر کارگو ایجنٹس کی غیر معینہ مدت کی ہڑتال کے باعث پاکستان ٹیکسٹائل سیکٹر کو یومیہ 4 کروڑ ڈالر کی برآمدات خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ آئل ٹینکروں کی ہڑتال، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور معزور افراد کی ایسوسی ایشن کے احتجاج نے حکومت کی چولیں ہلا دی ہیں۔
عوام تو عوام اب تو چیمبر آف کامرس نے بھی کے الیکٹرک پر سلیب غیر اعلانیہ بدل دینے پر شدید احتجاج کیا ہے۔ چیمبر کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک کی جانب سے غیر اعلانیہ طور پر سابقہ 100 سے 200 یونٹس کے حامل سلیب کی دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ اب اضافی سلیب کی وجہ سے 200 یونٹس سے زائد استعمال کرنے پر ٹیرف میں 26 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ جس کے نتیجے میں فی یونٹس ٹیرف 8.11 روپے سے بڑھا کر 10.20 روپے فی یونٹ کردیا گیا ۔
انھوں نے حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے حکومت نہ صرف یوٹیلیٹی خدمات فراہم کرنے والوں کے منافعوں میں اضافے میں ساتھ دیا بلکہ بجلی کی پیداواری یونٹس کی ناقص کارکردگی اور نقصانات کو پورا کرنے میں بھی تعاون کیا۔ چیمبر آف کامرس نے مکمل طور پر گھریلو صارفین سے لوٹ مار کے لیے صوابدیدی اور غیر قانونی راستہ اختیار کرنے کے عمل کو مسترد کردیا ہے۔ ان تمام مسائل یعنی مزدوروں کو بھوک سے مرنے سے بچانے اور سرمایہ داروں کی لوٹ مار کو بند کرنے کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب اور ساتھ ساتھ امداد باہمی کا آزاد بے ریاستی سماج کی تشکیل میں مضمر ہے۔ فریٹ فارورڈرز کی ہڑتال کے سبب ملک سے پھل اور سبزیوں کی برآمدات معطل ہوکر رہ گئیں ۔
تین روز کے دوران یعنی یکم ستمبر سے 3 ستمبر تک 5 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ پاکستان سے ترسیل بند ہونے کی صورت میں برآمدی آرڈرز بھارت کی جانب منتقل ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ ایسوسی ایشن کے مطابق اس ہڑتال سے پاکستان کو یومیہ 1.5 کروڑ روپے تک خسارے کا سامنا رہا۔ چونکہ سرمایہ داری میں منافعے کے لیے پیداوار اور کاروبار کیا جاتا ہے نہ کہ عوام کی سہولتیں اور ضرورتیں پوری کرنے کے لیے۔ اس لیے تمام ذرایع پیداوار یعنی صنعت، زراعت، جنگلات اور آبی وسائل کو مکمل طور پر عوام کی ملکیت قرار دیا جائے نہ کہ چند سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے قبضے کی ملکیت۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے مکمل نجات اور ذرایع پیداوار کو قومی ملکیت میں لے کر عوام کے سارے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔
عالمی سرمایہ داری کا بحران درحقیقت محنت کشوں کا استحصال ہے۔ جب پیداوار لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے بجائے منافع بٹورنے کے لیے کی جائے گی تو پھر یہی ہوگا۔ جب ایک جانب اربوں ڈالرکا انبار ہو اور دوسری جانب افلاس زدہ عوام کا سمندر تو پھر بھوکے عوام کیا کریں گے۔ دو ہی راستے رہ جاتے ہیں یا تو بھوک سے مر جائیں یا پھر سوشلسٹ انقلاب برپا کرکے تمام ذرایع پیداوار کو اپنے قبضے میں لے لیں۔
آج عالمی سرمایہ داری کے نمایندے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ڈبلیو ٹی او، نیو ورلڈ آرڈر کے تحت کٹوتی، چھانٹی، تالا بندی، گولڈن شیک ہینڈ، رائٹ سائزنگ، ڈاؤن سائزنگ، ٹیکس، بے روزگاری اور مہنگائی عوام پر مسلط کیے ہوئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں دنیا کے 85 ارب پتی آدھی دنیا کو خرید سکتے ہیں۔ اس کرہ ارض میں روزانہ 75 ہزار انسان صرف بھوک سے مر رہے ہیں۔ آج عالمی سرمایہ داری کا بحران زائد پیداوار کا بحران ہے۔
ذخیرہ اندوزی کرکے ملٹی نیشنل کمپنیاں کھرب پتی بنتی جا رہی ہیں اور لوگ بھوک، بے روزگاری، افلاس اور لاعلاجی سے مر رہے ہیں۔ بے روزگاری سے تنگ آکر مزدور اپنے وطن کو خیرباد کہہ کر لاکھوں کی تعداد میں تاریک وطن ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں یورپ میں مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے راستے تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ رواں برس مجموعی طور پر ایک لاکھ 60 ہزار سے زیادہ تارکین وطن نے یونان کا رخ کیا۔ جرمنی کا اندازہ ہے کہ رواں سال ختم ہونے تک 8 لاکھ تارکین وطن جرمنی پہنچیں گے۔
پاکستان سے لاکھوں مزدور تارکین وطن ہوچکے ہیں۔ پاکستان کی حکومت بے شمار اداروں کی آئی ایم ایف کے حکم پر نجکاری کرنے جا رہی ہے۔ مزدور اس نجکاری کے خلاف بڑی جرأت مندی سے ڈٹ گئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے مزدوروں کی کم ازکم تنخواہ 13000 روپے 90 فیصد مزدوروں کو میسر نہیں۔ چینی 70 روپے کلو، تیل 200 روپے، دالیں 200، چاول 150 اور آٹا 50 روپے کلو میں دستیاب ہے۔ 73 روپے لیٹر ایندھن کے تیل میں 33 روپے حکومت ٹیکس وصول کرتی ہے۔
گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اپنے ایک آبزرویشن میں کہہ چکے ہیں کہ ڈیرہ غازی خان میں اسٹون کرشنگ (پتھر توڑنے والے مزدور) کرنے والے مزدور پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہوکر مر چکے ہیں اور حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ بلدیہ کراچی میں آگ میں جل کر شہید ہونے والوں کے قاتلوں کو ابھی تک کوئی سزا ملنا تو درکنار، کون مجرم ہے اس کی بھی نشاندہی نہیں ہوئی۔ مزدوروں کو کبھی ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے، کبھی مشین کی زد میں آجاتا ہے، کبھی انتقاماً ٹرانسفر کردیا جاتا ہے۔
ضلع کونسل بدین کے ملازمین گزشتہ 9 ماہ سے اپنی تنخواہوں سے محروم ہیں۔ جس کے باعث ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی ہے اور ان کے بچے فیسیں نہ ادا کرنے کی وجہ سے اسکول جانے سے قاصر ہیں۔ گزشتہ 2 ستمبر 2015 کو ہندوستان کے 15 کروڑ مزدوروں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہڑتال کی۔ انھوں نے پورے ہندوستان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ مزدوروں کا مطالبہ ہے کہ مودی حکومت نے آئین میں جو ترمیمی بل منظور کیا ہے جس کے تحت ملازمتوں کو ختم کرنے اور غیر پیداواری فیکٹریوں کو بند کرنے میں آسانی پیدا کی گئی ہے۔ پاکستان میں انجمن تاجران ود ہولڈنگ ٹیکس کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔
تاجروں نے ملک بھر میں حکومت کے خلاف ظالمانہ ود ہولڈنگ ٹیکس کے خلاف بینک ٹرانزکشن کا بائیکاٹ کیا اور شٹرڈاؤن ہڑتال کی۔ جولائی 2015 میں بینکوں کے ذریعے لین دین میں 878 ارب روپے کم ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم پر عائد ظالمانہ ٹیکس فوراً واپس لیا جائے۔
ادھر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی سال 2009 سے ٹرن اوور پر 8 فیصد شرح ٹیکس کے خلاف فریٹ فارورڈرز اور ایئر کارگو ایجنٹس کی غیر معینہ مدت کی ہڑتال کے باعث پاکستان ٹیکسٹائل سیکٹر کو یومیہ 4 کروڑ ڈالر کی برآمدات خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ آئل ٹینکروں کی ہڑتال، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور معزور افراد کی ایسوسی ایشن کے احتجاج نے حکومت کی چولیں ہلا دی ہیں۔
عوام تو عوام اب تو چیمبر آف کامرس نے بھی کے الیکٹرک پر سلیب غیر اعلانیہ بدل دینے پر شدید احتجاج کیا ہے۔ چیمبر کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک کی جانب سے غیر اعلانیہ طور پر سابقہ 100 سے 200 یونٹس کے حامل سلیب کی دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ اب اضافی سلیب کی وجہ سے 200 یونٹس سے زائد استعمال کرنے پر ٹیرف میں 26 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ جس کے نتیجے میں فی یونٹس ٹیرف 8.11 روپے سے بڑھا کر 10.20 روپے فی یونٹ کردیا گیا ۔
انھوں نے حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے حکومت نہ صرف یوٹیلیٹی خدمات فراہم کرنے والوں کے منافعوں میں اضافے میں ساتھ دیا بلکہ بجلی کی پیداواری یونٹس کی ناقص کارکردگی اور نقصانات کو پورا کرنے میں بھی تعاون کیا۔ چیمبر آف کامرس نے مکمل طور پر گھریلو صارفین سے لوٹ مار کے لیے صوابدیدی اور غیر قانونی راستہ اختیار کرنے کے عمل کو مسترد کردیا ہے۔ ان تمام مسائل یعنی مزدوروں کو بھوک سے مرنے سے بچانے اور سرمایہ داروں کی لوٹ مار کو بند کرنے کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب اور ساتھ ساتھ امداد باہمی کا آزاد بے ریاستی سماج کی تشکیل میں مضمر ہے۔ فریٹ فارورڈرز کی ہڑتال کے سبب ملک سے پھل اور سبزیوں کی برآمدات معطل ہوکر رہ گئیں ۔
تین روز کے دوران یعنی یکم ستمبر سے 3 ستمبر تک 5 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ پاکستان سے ترسیل بند ہونے کی صورت میں برآمدی آرڈرز بھارت کی جانب منتقل ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ ایسوسی ایشن کے مطابق اس ہڑتال سے پاکستان کو یومیہ 1.5 کروڑ روپے تک خسارے کا سامنا رہا۔ چونکہ سرمایہ داری میں منافعے کے لیے پیداوار اور کاروبار کیا جاتا ہے نہ کہ عوام کی سہولتیں اور ضرورتیں پوری کرنے کے لیے۔ اس لیے تمام ذرایع پیداوار یعنی صنعت، زراعت، جنگلات اور آبی وسائل کو مکمل طور پر عوام کی ملکیت قرار دیا جائے نہ کہ چند سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے قبضے کی ملکیت۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے مکمل نجات اور ذرایع پیداوار کو قومی ملکیت میں لے کر عوام کے سارے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔