داتا کی نگری
شہر لاہور میں ایک ایسا سحر ہے کہ جس کے چپے چپے میں تاریخ رقم ہے،
شہر لاہور میں ایک ایسا سحر ہے کہ جس کے چپے چپے میں تاریخ رقم ہے،عہد سلاطین ہو یا مغلیہ عہد۔ سکھوں کا عہد حکومت ہو یا انگریز سرکارکا دور یہ بنا بنایا، مہذب شہر اپنے اندر ہزاروں کہانیاں سمیٹے بیٹھا ہے۔
مغلیہ دورکے عہد کی بنی خوبصورت تعمیرات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس شہرکی ہر عہد میں ایک اہمیت رہی ہے۔آج کل کا کچھ گرم، تھوڑا تلخ،کبھی سرد اورکبھی تند معاشرتی رویے بھی اس شہر کی سحرخیزی میں زیادہ تبدیلی نہ لاسکا۔ مادیت پرستی کے اس دور میں گو روایات میں دراڑ سی پڑگئی ہے ،لیکن پھر بھی معاشرتی طور پر لوگوں کے رویے پرجوش اور پراخلاق ہوتے ہیں۔
حالیہ بارشوں نے لاہورشہر کے حسن میں نکھار پیدا کردیا جگہ جگہ سرسبز پودے کھلے کھلے دکھائی دے رہے تھے، حکومت نے شہرکی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کے لیے نئے خوبصورت بڑے بڑے گملے شہرکی بڑی سڑکوں کے اطراف رکھے ہیں۔ لاہور کے میوزیم کے نزدیک سے گزرتے ان خوبصورت گلباشی رنگ کے پھول دیکھ کر بہت اچھا لگا۔
کسی زمانے میں کراچی میں بھی اسی طرح کی خوبصورتی پیدا کرنے کی ایک اچھی کاوش کی گئی تھی جس کے گزشتہ سے پیوستہ اب بھی باقیات ہیں۔ بہرحال لاہور ہو یا کراچی اس کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا حکومتی ذمے داروں کے علاوہ عوام کی بھی ہے کہ کم از کم اسے برباد کرنے کی کوششیں نہ کریں۔ ایک اسی ذمے داری کو نبھالیں تو شہر تو کیا پورا ملک خوبصورت نظر آنے لگے گا۔
داتا دربار پر چند برس قبل بم دھماکے کی وجہ سے حفاظتی انتظامات کا خاصا معقول انتظام کیا گیا ہے اس سلسلے میں مستعدی نظرآئی، داتا دربار کی نسبت سے لاہور شہر کو داتا کی نگری بھی کہا جاتا ہے، اس نگری کی بابت بہت کچھ سن رکھا تھا لیکن اس نگری کے اندر جھانکنے کا موقع اب نصیب ہوا۔ سیکیورٹی کے بھرپور مراحل سے گزرنے کے بعد ہی اندر داخل ہونے کا موقع ملتا ہے سیکیورٹی کی جگہ جگہ رکاوٹیں نظر آرہی تھیں یقینا پہلے اس طرح کا ماحول نہ ہوگا لیکن اب باہر کے علاوہ اندر بھی پولیس کی نگرانی سخت ہوتی ہے۔
لیڈیز پولیس بھی اس ذمے داری میں حصے دار ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور میں پولیس والیاں پینٹ اور شرٹ میں دوپٹے کے ساتھ نظر آئیں انتہائی حیران کن بات یہ بھی تھی کہ خاصی خوش شکل اور مسکراتے چہروں کے ساتھ تھیں۔ ان کی اس خوش اخلاقی کے پیچھے داتا گنج بخش کی محبت کا راز پنہاں تھا یا یہ بھی ان کی ڈیوٹی کا حصہ تھا۔ کئی بار دل میں خیال ابھرا بھی کہ ان سے سوال کروں کہ ان کے اس جدید طرز کے یونیفارم کی کیا وجہ ہے جب کہ کراچی میں خواتین پولیس جب تک ہمیں یاد ہے شلوار قمیض میں ہی نظر آئیں، دربار کے احاطے میں خواتین دیوار سے لگ کر ڈیرے ڈالے بیٹھی تھیں، یقینا چھٹی کے دن یہاں خاصا رش ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں بیٹھ کر آرام سے کھانا پینا مفت دستیاب ہوتا ہے ساتھ میں مٹھائیاں، میٹھی گولیاں، بسکٹ، جلیبیاں، بادام وغیرہ وغیرہ تبرکات ملتے رہتے ہیں لوگ اپنی مرادیں لے کر یہاں آتے ہیں اور پوری ہونے پر اپنی حیثیت کے مطابق نذر ونیاز کی اشیاء تقسیم کرتے ہیں۔
خواتین کے لیے مزار جسے لوگ دربار بھی کہتے ہیں لوہے کی ایک راڈ سے باقاعدہ راستہ بنایا گیا ہے کھلے بندوں نہیں بلکہ قطار بناکر ہی خواتین مزار کا دیدار کرتی ہیں البتہ کچھ خاص قسم کی بڑی بیبیاں جن کے آگے پیچھے وہاں کی خواتین اہلکار پھرتی ہیں شاید اس طریقے میں شامل نہیں ہوتیں۔ اس دیدار کے درمیان خواتین کا داتا صاحب سے ازحد عقیدت کا انداز دیکھنے کو ملا ایک صاحبہ باقاعدہ دیوار چوم رہی تھی جس خاتون کا دل چاہتا نفل ادا کرنے جدھر جگہ ملتی شروع ہوجاتی۔
ایک بزرگ خاتون اہلکار بڑی سی تنکوں کی جھاڑو سے صفائی کرتی گھوم رہی تھیں کہ ایک خاتون قرآن پاک کا نسخہ لے کر آئیں اور ان کو رکھنے کو دیا بزرگ خاتون جھاڑو رکھ کر قرآن لے کر جگہ بنانے کھڑی ہوگئی۔ اس بڑی سی لکڑی کی الماری میں یٰسین شریف کے بے تحاشا نسخے اور کچھ قرآن مجید ہی رکھے تھے۔ جو یقینا اپنے مقاصد کی تکمیل کی امید میں یا مکمل ہوجانے پر رکھے جاتے ہیں۔
ایک خاتون کی آنکھیں اشکبار تھیں اور وہ بادام بانٹے جا رہی تھیں۔ وہ بار بار کہہ رہی تھیں جس طرح میری مراد پوری ہوئی ہے خدا آپ کی بھی مراد پوری کرے۔ ایک صاحبہ نکلیں تو مزار کی جانب پیٹھ نہیں کر رہی تھیں ان کے ساتھ ان کی خوبصورت بہو تھی، بڑا سمجھایا کہ آنٹی! آپ آرام سے سیدھا چلیے۔ فرمانے لگی یہ تو بے ادبی ہوگی ناں۔ میں عقیدت میں ایسا کر رہی ہوں۔
سر پر کیپ لگائے ہری جیکٹ پہنے خواتین اہلکار لمبے لمبے ڈنڈوں میں پونچھ لگاتی گھوم رہی تھیں وہ مزار سے نکلنے والی اکثر خواتین کو پکڑتی سمجھ میں یہ سلسلہ نہ آیا ذرا توجہ دی تو پتہ چلا کہ اسے نذر نیاز یا چائے کا خرچہ کہا جاتا ہے جو زائرین سے پیار محبت سے لیا جاتا ہے۔
یہ اہلکار محکمہ اوقاف کے ملازمین ہیں، جن کی تنخواہیں بی اے پاس لڑکیوں سے کہیں زیادہ ہیں جو کراچی اور لاہور کے چھوٹے موٹے اسکولوں میں سارا دن کی مغز کھپائی کرنے کے بعد حاصل کرتی ہیں جب کہ وہ ادھیڑ عمر کی اور بوڑھی خواتین شاید مڈل بھی پاس نہ ہو، کھانے کو لنگر کا مفت کھانا، پینے کو ٹھنڈا کولر کا پانی، مٹھائی اور تبرکات ڈھیروں پھر ان کے عہدے کا بھی رعب۔ معصوم، غموں کی ماری، دکھوں سے چور مظلوم خواتین جو نہ صرف لاہور سے بلکہ دور دراز کے علاقوں سے اپنی مرادیں لے کر آتی ہیں۔
ان کے دلوں میں جھانکنے ان کا درد بانٹنے کے ساتھ نذر نیاز حاصلکرنا، کیا یہ درست ہے؟ صوبہ پنجاب اس لحاظ سے بڑا دل والا ہے وہ اپنے ملازمین کو ملک بھر کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں اچھی تنخواہیں دیتا ہے لیکن خدا کے ناشکرے لوگ۔ اس کا دوش سرکار کو دینا غلط ہے۔دراصل ہم سب اپنی اپنی خواہشات کی غلام گردش میں ایسے مقید ہیں کہ نکلنا ہی نہیں چاہتے۔
ایک دیوار کی دوری تھی قفس
توڑ سکتے تو چمن میں ہوتے
مغلیہ دورکے عہد کی بنی خوبصورت تعمیرات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس شہرکی ہر عہد میں ایک اہمیت رہی ہے۔آج کل کا کچھ گرم، تھوڑا تلخ،کبھی سرد اورکبھی تند معاشرتی رویے بھی اس شہر کی سحرخیزی میں زیادہ تبدیلی نہ لاسکا۔ مادیت پرستی کے اس دور میں گو روایات میں دراڑ سی پڑگئی ہے ،لیکن پھر بھی معاشرتی طور پر لوگوں کے رویے پرجوش اور پراخلاق ہوتے ہیں۔
حالیہ بارشوں نے لاہورشہر کے حسن میں نکھار پیدا کردیا جگہ جگہ سرسبز پودے کھلے کھلے دکھائی دے رہے تھے، حکومت نے شہرکی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کے لیے نئے خوبصورت بڑے بڑے گملے شہرکی بڑی سڑکوں کے اطراف رکھے ہیں۔ لاہور کے میوزیم کے نزدیک سے گزرتے ان خوبصورت گلباشی رنگ کے پھول دیکھ کر بہت اچھا لگا۔
کسی زمانے میں کراچی میں بھی اسی طرح کی خوبصورتی پیدا کرنے کی ایک اچھی کاوش کی گئی تھی جس کے گزشتہ سے پیوستہ اب بھی باقیات ہیں۔ بہرحال لاہور ہو یا کراچی اس کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا حکومتی ذمے داروں کے علاوہ عوام کی بھی ہے کہ کم از کم اسے برباد کرنے کی کوششیں نہ کریں۔ ایک اسی ذمے داری کو نبھالیں تو شہر تو کیا پورا ملک خوبصورت نظر آنے لگے گا۔
داتا دربار پر چند برس قبل بم دھماکے کی وجہ سے حفاظتی انتظامات کا خاصا معقول انتظام کیا گیا ہے اس سلسلے میں مستعدی نظرآئی، داتا دربار کی نسبت سے لاہور شہر کو داتا کی نگری بھی کہا جاتا ہے، اس نگری کی بابت بہت کچھ سن رکھا تھا لیکن اس نگری کے اندر جھانکنے کا موقع اب نصیب ہوا۔ سیکیورٹی کے بھرپور مراحل سے گزرنے کے بعد ہی اندر داخل ہونے کا موقع ملتا ہے سیکیورٹی کی جگہ جگہ رکاوٹیں نظر آرہی تھیں یقینا پہلے اس طرح کا ماحول نہ ہوگا لیکن اب باہر کے علاوہ اندر بھی پولیس کی نگرانی سخت ہوتی ہے۔
لیڈیز پولیس بھی اس ذمے داری میں حصے دار ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور میں پولیس والیاں پینٹ اور شرٹ میں دوپٹے کے ساتھ نظر آئیں انتہائی حیران کن بات یہ بھی تھی کہ خاصی خوش شکل اور مسکراتے چہروں کے ساتھ تھیں۔ ان کی اس خوش اخلاقی کے پیچھے داتا گنج بخش کی محبت کا راز پنہاں تھا یا یہ بھی ان کی ڈیوٹی کا حصہ تھا۔ کئی بار دل میں خیال ابھرا بھی کہ ان سے سوال کروں کہ ان کے اس جدید طرز کے یونیفارم کی کیا وجہ ہے جب کہ کراچی میں خواتین پولیس جب تک ہمیں یاد ہے شلوار قمیض میں ہی نظر آئیں، دربار کے احاطے میں خواتین دیوار سے لگ کر ڈیرے ڈالے بیٹھی تھیں، یقینا چھٹی کے دن یہاں خاصا رش ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں بیٹھ کر آرام سے کھانا پینا مفت دستیاب ہوتا ہے ساتھ میں مٹھائیاں، میٹھی گولیاں، بسکٹ، جلیبیاں، بادام وغیرہ وغیرہ تبرکات ملتے رہتے ہیں لوگ اپنی مرادیں لے کر یہاں آتے ہیں اور پوری ہونے پر اپنی حیثیت کے مطابق نذر ونیاز کی اشیاء تقسیم کرتے ہیں۔
خواتین کے لیے مزار جسے لوگ دربار بھی کہتے ہیں لوہے کی ایک راڈ سے باقاعدہ راستہ بنایا گیا ہے کھلے بندوں نہیں بلکہ قطار بناکر ہی خواتین مزار کا دیدار کرتی ہیں البتہ کچھ خاص قسم کی بڑی بیبیاں جن کے آگے پیچھے وہاں کی خواتین اہلکار پھرتی ہیں شاید اس طریقے میں شامل نہیں ہوتیں۔ اس دیدار کے درمیان خواتین کا داتا صاحب سے ازحد عقیدت کا انداز دیکھنے کو ملا ایک صاحبہ باقاعدہ دیوار چوم رہی تھی جس خاتون کا دل چاہتا نفل ادا کرنے جدھر جگہ ملتی شروع ہوجاتی۔
ایک بزرگ خاتون اہلکار بڑی سی تنکوں کی جھاڑو سے صفائی کرتی گھوم رہی تھیں کہ ایک خاتون قرآن پاک کا نسخہ لے کر آئیں اور ان کو رکھنے کو دیا بزرگ خاتون جھاڑو رکھ کر قرآن لے کر جگہ بنانے کھڑی ہوگئی۔ اس بڑی سی لکڑی کی الماری میں یٰسین شریف کے بے تحاشا نسخے اور کچھ قرآن مجید ہی رکھے تھے۔ جو یقینا اپنے مقاصد کی تکمیل کی امید میں یا مکمل ہوجانے پر رکھے جاتے ہیں۔
ایک خاتون کی آنکھیں اشکبار تھیں اور وہ بادام بانٹے جا رہی تھیں۔ وہ بار بار کہہ رہی تھیں جس طرح میری مراد پوری ہوئی ہے خدا آپ کی بھی مراد پوری کرے۔ ایک صاحبہ نکلیں تو مزار کی جانب پیٹھ نہیں کر رہی تھیں ان کے ساتھ ان کی خوبصورت بہو تھی، بڑا سمجھایا کہ آنٹی! آپ آرام سے سیدھا چلیے۔ فرمانے لگی یہ تو بے ادبی ہوگی ناں۔ میں عقیدت میں ایسا کر رہی ہوں۔
سر پر کیپ لگائے ہری جیکٹ پہنے خواتین اہلکار لمبے لمبے ڈنڈوں میں پونچھ لگاتی گھوم رہی تھیں وہ مزار سے نکلنے والی اکثر خواتین کو پکڑتی سمجھ میں یہ سلسلہ نہ آیا ذرا توجہ دی تو پتہ چلا کہ اسے نذر نیاز یا چائے کا خرچہ کہا جاتا ہے جو زائرین سے پیار محبت سے لیا جاتا ہے۔
یہ اہلکار محکمہ اوقاف کے ملازمین ہیں، جن کی تنخواہیں بی اے پاس لڑکیوں سے کہیں زیادہ ہیں جو کراچی اور لاہور کے چھوٹے موٹے اسکولوں میں سارا دن کی مغز کھپائی کرنے کے بعد حاصل کرتی ہیں جب کہ وہ ادھیڑ عمر کی اور بوڑھی خواتین شاید مڈل بھی پاس نہ ہو، کھانے کو لنگر کا مفت کھانا، پینے کو ٹھنڈا کولر کا پانی، مٹھائی اور تبرکات ڈھیروں پھر ان کے عہدے کا بھی رعب۔ معصوم، غموں کی ماری، دکھوں سے چور مظلوم خواتین جو نہ صرف لاہور سے بلکہ دور دراز کے علاقوں سے اپنی مرادیں لے کر آتی ہیں۔
ان کے دلوں میں جھانکنے ان کا درد بانٹنے کے ساتھ نذر نیاز حاصلکرنا، کیا یہ درست ہے؟ صوبہ پنجاب اس لحاظ سے بڑا دل والا ہے وہ اپنے ملازمین کو ملک بھر کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں اچھی تنخواہیں دیتا ہے لیکن خدا کے ناشکرے لوگ۔ اس کا دوش سرکار کو دینا غلط ہے۔دراصل ہم سب اپنی اپنی خواہشات کی غلام گردش میں ایسے مقید ہیں کہ نکلنا ہی نہیں چاہتے۔
ایک دیوار کی دوری تھی قفس
توڑ سکتے تو چمن میں ہوتے