یہی ہے قانون قدرت
ٹک ٹک کرتی سوئی لمحات کی ترجمانی کرتی ہمیشہ آگے اور آگے بڑھتی رہتی ہے۔
ٹک ٹک کرتی سوئی لمحات کی ترجمانی کرتی ہمیشہ آگے اور آگے بڑھتی رہتی ہے۔ یہ قانون قدرت ہے۔ عدم سے وجود اور پھر وجود سے عدم، بنتے بگڑتے نقوش اور پھر بالآخر ویرانی ہی ویرانی، یہی اس فانی کائنات کی فطرت ہے، ہر وہ لمحہ جو آنے والا ہے، وہ جانے والا ہے، وہ آئے گا ہی گزر جانے کے لیے، قصہ پارینہ و گم گشتہ بن جانے کے لیے۔ یہ ایک ایسی کائناتی حقیقت ہے کہ جس سے انکار تو درکنار اس میں کوئی تبدیلی، رد و بدل محال ہی نہیں ناممکن ہے۔
پس اگر کوئی قوم ان گزرتے لمحات کو ہمیشہ کے لیے حاصل کرنا چاہتی ہے، ان لمحات پر فتح حاصل کرنا چاہتی ہے، انھیں اپنے دستِ قابو میں لانا چاہتی ہے تو یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ ان لمحات کا بالکل درست اور برحق استعمال کیا جائے، کسی بھی زندہ قوم کے وہ نوجوان جو ان لمحات کی قدر کرتے اور ان کا درست استعمال کرتے ہیں، وہی کامیاب و کامران ہوتے ہیں کیونکہ وقت کی اگر کوئی قیمت ہے تو وہ ہے اس کا درست استعمال، ایک ایک لمحہ جو گزر رہا ہے اسے شکست صرف اس طرح دی جا سکتی ہے کہ نوجوان وقت کے درست استعمال کی جامع منصوبہ بندی کریں۔ اپنے لمحات کو ٹائم ٹیبل کی صورت میں ترتیب دیں اور پھر مکمل استقامت کے ساتھ اس پر جمے رہیں۔
یاد رکھیے! اگر ہم نے بھی آج وقت کو فراموش کر دیا تو کل وقت بھی ہمیں فراموش کر دے گا، پھر شکوہ زیر لب مت لانا کیونکہ یہی ہے قانون قدرت اور راز سربستہ بھی۔
آپ نے وقت کی قدر کر لی، وقت بھی آپ کی قدر کرے گا۔ آپ وقت سے محبت کریں، وقت بھی آپ سے محبت کرے گا، آپ وقت کی جانب متوجہ ہوں، وقت بھی آپ کی طرف متوجہ ہو گا، آپ وقت کو مایوس نہ کریں، وقت بھی آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔ یاد رکھیے! دنیا کی تاریخ میں صرف ان ہی روشن دماغ اور زندہ دل عظیم شخصیات کی بدولت ہی قوموں کی تقدیریں بنیں جنھوں نے وقت پر فتح پائی۔ گویا اپنے نفس و اپنی ذات پر فتح پائی اور پھر دنیا پر فتح پائی۔
ترقی، کامیابی و کامرانی اور فتح و نصرت کسی کی میراث نہیں ہے یہ ہر اس قوم کا مقدر بن سکتی ہے، ہر اس قوم کی ملکیت ہو سکتی ہے جو اپنے وقت کو بہترین منصوبہ بندی کے تحت ترتیب دے، ایک ایک لمحے کو انتہائی قیمتی سمجھتے ہوئے اس کا برحق و درست استعمال کرے، لگاتار و مسلسل اور ان تھک محنت کرے اور پھر اپنے رب پر بھروسہ کرے اور کامیابی کے لیے دعا گو ہو۔
وہ لمحات جو لاپرواہی یا شعور ادراک، آگہی، لاعلمی یا عقل و فہم کی کمی کے سبب گزر گئے یا ضایع ہو گئے ان کے غم میں ان لمحات کو بھی گنوا بیٹھنا جو آنے والے ہیں بدترین حماقت ہے۔ زندگی کے ہر ایک لمحے کو درست سمت میں لطف اندوزی اور شعوری ادراک کے ساتھ استعمال کرنا ہی کامیاب و کامران زندگی کا نام ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ لوگ بڑے پیدا نہیں ہوئے بلکہ محنت، عشق اور لگن کے باعث اور وقت کو قابو میں رکھتے ہوئے اپنی جدوجہد کے بعد اپنی شخصیت کا لوہا منوا لیتے ہیں۔ ایسی شخصیات کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرتی اور آنے والی نسلیں ان کے کارناموں پر فخر کرتی ہیں، ایسے افراد بہت کم ہوتے ہیں جن کے سامنے کوئی بلند اور عظیم مقصد ہو اور وہ اس کی خاطر اپنی جان کی بازی لگا دینے میں بھی تامل نہ کریں، ایسے ہی آدمیوں سے ملکوں کی تاریخیں بنتی ہیں۔
یہی وہ لوگ ہیں جو درحقیقت وقت پر فتح حاصل کرتے ہیں۔ کسی بھی نوجوان کی زندگی میں وقت کی حیثیت اس بنیادی اینٹ کی سی ہے جس پر اس کی پوری عمارت تعمیر کے لیے کھڑی کی جاتی ہے۔ کامیابی صرف ان ہی کا مقدر بنتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ قدم بہ قدم چلتے ہیں۔ دراصل وقت کسی احساس کا نام نہیں، یہ صرف محسوس کی جانے والی شے نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے، اپنا مکمل وجود رکھتی ہے اور پھر اپنی حقیقت اور وجود کو منوا بھی لیتی ہے۔ چاہے وہ کامیابی کی صورت میں ہو یا ناکامی کی شکل میں۔
بہرحال فلسفیوں اور محققین نے وقت کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں اور ان تعریفوں کی وضاحت اور تشریح کے لیے طرح طرح کی تاویلیں بھی باندھی ہیں، جن کے مطالعے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وقت دراصل بیک وقت دوست بھی ہے اور دشمن بھی، اس بات کا تعین ہمیں کرنا ہے کہ اب ہم اسے کس روپ میں اپنی زندگی میں جگہ دینا چاہتے ہیں۔
آج کا دور بدقسمتی سے اچھی تعلیم و تربیت سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔ اب نوجوان، تجربہ کار اساتذہ و والدین اور بزرگوں کے قیمتی تجربات سے لبریز نادر و نایاب مشوروں اور نصیحتوں سے محروم ہو رہے ہیں۔ زمانے کے نشیب و فراز اور گردش حالات کے باعث ایسے نوجوان جو کہ بوجہ سلیم الفطرت اچھائی کی جانب مائل ہوں، بہت کم یاب ہیں۔
اچھی تعلیم و تربیت کے ذریعے ہی نوجوانوں کی فطرت میں انقلابی روح پیدا کی جا سکتی ہے۔ بزرگ کسی بھی معاشرے کے نوجوانوں کے لیے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں اور ''اولڈ از گولڈ'' کے مثل وہ نوجوانوں کی زندگی سنوارنے اور بنانے میں انھیں وقت کی اہمیت اور قدر و قیمت کا احساس دلانے میں نظری و عملی ہر لحاظ سے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ہمارے نوجوانوں کو بھی ہر قوم کی طرح درست سمت میں اچھی تربیت کی بھرپور ضرورت ہے اور اچھی تربیت ہمارے نوجوانوں کی زندگی میں جس انقلابی پیش رفت کا کردار ادا کرے گی اس کے بارے میں صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔''
بلاشبہ ماں کی گود بچوں کے لیے پہلی نرسری ہوتی ہے، بچے کی شخصیت سازی کا اولین دارومدار والدین کی جانب سے ابتدائی عمر میں فراہم کردہ تربیت ہی پر ہوتا ہے لیکن آج کے جدید دور میں اکثر والدین اپنی اس اولین ذمے داری سے غافل نظر آتے ہیں جب کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ''ایک باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے بہترین عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔'' لیکن آج بچوں کی تربیت تو دور کی بات ہے ان کو اچھی تعلیم اور بہترین ماحول کی فراہمی کے لیے بھی کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کیے جاتے، جس کی وجہ سے تجارتی سطح پر بڑے شہروں میں جگہ جگہ ''بے بی ڈے کیئر سینٹر'' کا قیام عام ہو گیا ہے۔
کئی ترقی یافتہ ممالک بالخصوص یورپ میں بچوں کی تربیت اور پرورش سے متعلق باقاعدہ وزارتیں قائم ہیں جن کا بنیادی مقصد ملک کے نونہالوں کو بہتر تربیت کی فراہمی کے لیے ضروری ماحول فراہم کرنا ہے لیکن مملکت خداداد میں اس کے قیام کے بعد سے اب تک کسی بھی حکومت نے بچوں اور نوجوانوں کی تربیت سے متعلق اہمیت کو وہ حیثیت نہیں دی جس کی اس کو ضرورت تھی۔
نوجوانوں اور بچوں کی شخصیت سازی میں مدیران رسائل و جرائد اور قومی اخبارات کا کردار بھی اہم ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ اس وقت بچوں کے کئی رسائل و جرائد جو معیاری بھی ہیں شایع ہو رہے ہیں اور تقریباً تمام ہی قومی اخبارات ہفتہ وار بچوں اور نوجوانوں کے صفحات بھی شایع کر رہے ہیں نیز بہت اچھے اچھے لکھنے والے بچوں اور نوجوانوں کے لیے گراں قدر نگارشات قلم بند کر چکے ہیں اور مسلسل کر رہے ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح کو سب سے زیادہ توقعات نوجوانوں سے تھیں، آپ اکثر اپنی تقاریر میں نوجوانوں کو مخاطب فرماتے ان کے فرائض انھیں یاد دلاتے اور ان میں احساس ذمے داری جگاتے تھے، وقت کا بھرپور بہترین اور درست استعمال کرنے کی ہدایت، تلقین و نصیحت فرماتے۔ کام، کام اور کام یہی ہے قائد کا پیغام، قائد کے پیغام کی عملی تعبیر وقت کے درست استعمال اور اس کی قدر و قیمت کا احساس کیے بغیر ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے قائد اعظم خود بھی وقت کے انتہائی پابند تھے۔
قائد اعظم کی تقاریر میں نوجوانوں سے وہ امیدیں بندھیں نظر آتی ہیں، جن میں درحقیقت یہ یقین کامل پوشیدہ ہے کہ نوجوان ہی وہ طاقت و قوت ہیں جو کہ وطن عزیز کی تقدیر بدلنے میں انقلابی پیش رفت کے متحمل ہو سکتے ہیں لیکن یہ یقینا درست تعلیم و تربیت ہی سے ممکن ہے یہی وقت ہے کہ جب ہمیں اپنے نوجوانان قوم کی تعلیم و تربیت کے لیے ہر سطح پر جامع ترین منصوبہ بندی کر لینی چاہیے آج فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے اور وقت ہمارے فیصلے کا انتظار کر رہا ہے، پھر وہ وقت دور نہیں کہ جب فیصلہ وقت کے ہاتھ میں ہو گا اور ہم وقت کے فیصلے کے منتظر سر تسلیم خم ہوں گے۔
پس اگر کوئی قوم ان گزرتے لمحات کو ہمیشہ کے لیے حاصل کرنا چاہتی ہے، ان لمحات پر فتح حاصل کرنا چاہتی ہے، انھیں اپنے دستِ قابو میں لانا چاہتی ہے تو یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ ان لمحات کا بالکل درست اور برحق استعمال کیا جائے، کسی بھی زندہ قوم کے وہ نوجوان جو ان لمحات کی قدر کرتے اور ان کا درست استعمال کرتے ہیں، وہی کامیاب و کامران ہوتے ہیں کیونکہ وقت کی اگر کوئی قیمت ہے تو وہ ہے اس کا درست استعمال، ایک ایک لمحہ جو گزر رہا ہے اسے شکست صرف اس طرح دی جا سکتی ہے کہ نوجوان وقت کے درست استعمال کی جامع منصوبہ بندی کریں۔ اپنے لمحات کو ٹائم ٹیبل کی صورت میں ترتیب دیں اور پھر مکمل استقامت کے ساتھ اس پر جمے رہیں۔
یاد رکھیے! اگر ہم نے بھی آج وقت کو فراموش کر دیا تو کل وقت بھی ہمیں فراموش کر دے گا، پھر شکوہ زیر لب مت لانا کیونکہ یہی ہے قانون قدرت اور راز سربستہ بھی۔
آپ نے وقت کی قدر کر لی، وقت بھی آپ کی قدر کرے گا۔ آپ وقت سے محبت کریں، وقت بھی آپ سے محبت کرے گا، آپ وقت کی جانب متوجہ ہوں، وقت بھی آپ کی طرف متوجہ ہو گا، آپ وقت کو مایوس نہ کریں، وقت بھی آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔ یاد رکھیے! دنیا کی تاریخ میں صرف ان ہی روشن دماغ اور زندہ دل عظیم شخصیات کی بدولت ہی قوموں کی تقدیریں بنیں جنھوں نے وقت پر فتح پائی۔ گویا اپنے نفس و اپنی ذات پر فتح پائی اور پھر دنیا پر فتح پائی۔
ترقی، کامیابی و کامرانی اور فتح و نصرت کسی کی میراث نہیں ہے یہ ہر اس قوم کا مقدر بن سکتی ہے، ہر اس قوم کی ملکیت ہو سکتی ہے جو اپنے وقت کو بہترین منصوبہ بندی کے تحت ترتیب دے، ایک ایک لمحے کو انتہائی قیمتی سمجھتے ہوئے اس کا برحق و درست استعمال کرے، لگاتار و مسلسل اور ان تھک محنت کرے اور پھر اپنے رب پر بھروسہ کرے اور کامیابی کے لیے دعا گو ہو۔
وہ لمحات جو لاپرواہی یا شعور ادراک، آگہی، لاعلمی یا عقل و فہم کی کمی کے سبب گزر گئے یا ضایع ہو گئے ان کے غم میں ان لمحات کو بھی گنوا بیٹھنا جو آنے والے ہیں بدترین حماقت ہے۔ زندگی کے ہر ایک لمحے کو درست سمت میں لطف اندوزی اور شعوری ادراک کے ساتھ استعمال کرنا ہی کامیاب و کامران زندگی کا نام ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ لوگ بڑے پیدا نہیں ہوئے بلکہ محنت، عشق اور لگن کے باعث اور وقت کو قابو میں رکھتے ہوئے اپنی جدوجہد کے بعد اپنی شخصیت کا لوہا منوا لیتے ہیں۔ ایسی شخصیات کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرتی اور آنے والی نسلیں ان کے کارناموں پر فخر کرتی ہیں، ایسے افراد بہت کم ہوتے ہیں جن کے سامنے کوئی بلند اور عظیم مقصد ہو اور وہ اس کی خاطر اپنی جان کی بازی لگا دینے میں بھی تامل نہ کریں، ایسے ہی آدمیوں سے ملکوں کی تاریخیں بنتی ہیں۔
یہی وہ لوگ ہیں جو درحقیقت وقت پر فتح حاصل کرتے ہیں۔ کسی بھی نوجوان کی زندگی میں وقت کی حیثیت اس بنیادی اینٹ کی سی ہے جس پر اس کی پوری عمارت تعمیر کے لیے کھڑی کی جاتی ہے۔ کامیابی صرف ان ہی کا مقدر بنتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ قدم بہ قدم چلتے ہیں۔ دراصل وقت کسی احساس کا نام نہیں، یہ صرف محسوس کی جانے والی شے نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے، اپنا مکمل وجود رکھتی ہے اور پھر اپنی حقیقت اور وجود کو منوا بھی لیتی ہے۔ چاہے وہ کامیابی کی صورت میں ہو یا ناکامی کی شکل میں۔
بہرحال فلسفیوں اور محققین نے وقت کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں اور ان تعریفوں کی وضاحت اور تشریح کے لیے طرح طرح کی تاویلیں بھی باندھی ہیں، جن کے مطالعے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وقت دراصل بیک وقت دوست بھی ہے اور دشمن بھی، اس بات کا تعین ہمیں کرنا ہے کہ اب ہم اسے کس روپ میں اپنی زندگی میں جگہ دینا چاہتے ہیں۔
آج کا دور بدقسمتی سے اچھی تعلیم و تربیت سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔ اب نوجوان، تجربہ کار اساتذہ و والدین اور بزرگوں کے قیمتی تجربات سے لبریز نادر و نایاب مشوروں اور نصیحتوں سے محروم ہو رہے ہیں۔ زمانے کے نشیب و فراز اور گردش حالات کے باعث ایسے نوجوان جو کہ بوجہ سلیم الفطرت اچھائی کی جانب مائل ہوں، بہت کم یاب ہیں۔
اچھی تعلیم و تربیت کے ذریعے ہی نوجوانوں کی فطرت میں انقلابی روح پیدا کی جا سکتی ہے۔ بزرگ کسی بھی معاشرے کے نوجوانوں کے لیے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں اور ''اولڈ از گولڈ'' کے مثل وہ نوجوانوں کی زندگی سنوارنے اور بنانے میں انھیں وقت کی اہمیت اور قدر و قیمت کا احساس دلانے میں نظری و عملی ہر لحاظ سے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ہمارے نوجوانوں کو بھی ہر قوم کی طرح درست سمت میں اچھی تربیت کی بھرپور ضرورت ہے اور اچھی تربیت ہمارے نوجوانوں کی زندگی میں جس انقلابی پیش رفت کا کردار ادا کرے گی اس کے بارے میں صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔''
بلاشبہ ماں کی گود بچوں کے لیے پہلی نرسری ہوتی ہے، بچے کی شخصیت سازی کا اولین دارومدار والدین کی جانب سے ابتدائی عمر میں فراہم کردہ تربیت ہی پر ہوتا ہے لیکن آج کے جدید دور میں اکثر والدین اپنی اس اولین ذمے داری سے غافل نظر آتے ہیں جب کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ''ایک باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے بہترین عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔'' لیکن آج بچوں کی تربیت تو دور کی بات ہے ان کو اچھی تعلیم اور بہترین ماحول کی فراہمی کے لیے بھی کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کیے جاتے، جس کی وجہ سے تجارتی سطح پر بڑے شہروں میں جگہ جگہ ''بے بی ڈے کیئر سینٹر'' کا قیام عام ہو گیا ہے۔
کئی ترقی یافتہ ممالک بالخصوص یورپ میں بچوں کی تربیت اور پرورش سے متعلق باقاعدہ وزارتیں قائم ہیں جن کا بنیادی مقصد ملک کے نونہالوں کو بہتر تربیت کی فراہمی کے لیے ضروری ماحول فراہم کرنا ہے لیکن مملکت خداداد میں اس کے قیام کے بعد سے اب تک کسی بھی حکومت نے بچوں اور نوجوانوں کی تربیت سے متعلق اہمیت کو وہ حیثیت نہیں دی جس کی اس کو ضرورت تھی۔
نوجوانوں اور بچوں کی شخصیت سازی میں مدیران رسائل و جرائد اور قومی اخبارات کا کردار بھی اہم ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ اس وقت بچوں کے کئی رسائل و جرائد جو معیاری بھی ہیں شایع ہو رہے ہیں اور تقریباً تمام ہی قومی اخبارات ہفتہ وار بچوں اور نوجوانوں کے صفحات بھی شایع کر رہے ہیں نیز بہت اچھے اچھے لکھنے والے بچوں اور نوجوانوں کے لیے گراں قدر نگارشات قلم بند کر چکے ہیں اور مسلسل کر رہے ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح کو سب سے زیادہ توقعات نوجوانوں سے تھیں، آپ اکثر اپنی تقاریر میں نوجوانوں کو مخاطب فرماتے ان کے فرائض انھیں یاد دلاتے اور ان میں احساس ذمے داری جگاتے تھے، وقت کا بھرپور بہترین اور درست استعمال کرنے کی ہدایت، تلقین و نصیحت فرماتے۔ کام، کام اور کام یہی ہے قائد کا پیغام، قائد کے پیغام کی عملی تعبیر وقت کے درست استعمال اور اس کی قدر و قیمت کا احساس کیے بغیر ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے قائد اعظم خود بھی وقت کے انتہائی پابند تھے۔
قائد اعظم کی تقاریر میں نوجوانوں سے وہ امیدیں بندھیں نظر آتی ہیں، جن میں درحقیقت یہ یقین کامل پوشیدہ ہے کہ نوجوان ہی وہ طاقت و قوت ہیں جو کہ وطن عزیز کی تقدیر بدلنے میں انقلابی پیش رفت کے متحمل ہو سکتے ہیں لیکن یہ یقینا درست تعلیم و تربیت ہی سے ممکن ہے یہی وقت ہے کہ جب ہمیں اپنے نوجوانان قوم کی تعلیم و تربیت کے لیے ہر سطح پر جامع ترین منصوبہ بندی کر لینی چاہیے آج فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے اور وقت ہمارے فیصلے کا انتظار کر رہا ہے، پھر وہ وقت دور نہیں کہ جب فیصلہ وقت کے ہاتھ میں ہو گا اور ہم وقت کے فیصلے کے منتظر سر تسلیم خم ہوں گے۔