برائی کا کوئی وجود نہیں

شاگرد نے کہا ’’نہیں استاد محترم، اندھیرا خود کوئی چیز نہیں بلکہ وہ روشنی کی غیر موجودگی ہے

ایک دن ایک استاد نے شاگرد سے پوچھا ''برائی کیا ہے؟'' شاگرد نے جواب دیا ''استاد محترم میں بتاتا ہوں لیکن پہلے مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔'' استاد نے کہا ''ہاں پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو''۔ تو شاگرد نے پوچھا ''کیا ٹھنڈک کا وجود ہے؟'' استاد بولا ''ہاں بالکل ہے۔'' شاگرد نے جواب دیا ''غلط محترم استاد، ٹھنڈ جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی، بلکہ دراصل یہ گرماہٹ کی غیر موجودگی کا نام ہے۔'' شاگرد نے پھر پوچھا ''بھلا اندھیرا ہوتا ہے؟'' استاد نے جواب دیا ''ہاں بالکل ہوتا ہے۔''

شاگرد نے کہا ''نہیں استاد محترم، اندھیرا خود کوئی چیز نہیں بلکہ وہ روشنی کی غیر موجودگی ہے جس کو ہم اندھیرا کہتے ہیں۔ کیونکہ فزکس کے اصولوں کے مطابق ہم روشنی یا گرماہٹ کا مطالعہ تو کر سکتے ہیں لیکن ٹھنڈک یا اندھیرے کا نہیں۔'' کچھ لمحے ٹھہر کر شاگرد نے پھر کہا ''برائی کا بھی کوئی وجود نہیں، بلکہ یہ دراصل اچھائی، ایمان، محبت، نیکی اور خدا پہ پختہ یقین نہ ہونے کا متبادل نتیجہ ہے، جس کو ہم برائی کہتے ہیں۔'' یہ شاگرد مشہور مسلمان سائنسدان البیرونی تھا۔

حالی ''مسدس مد و جزر اسلام'' میں ہندوستان کے مسلمانوں کے بارے میں لکھتے ہیں، قوم کی حالت تباہ ہے، عزیز ذلیل ہو گئے ہیں، شریف خاک میں مل گئے ہیں، علم کا خاتمہ ہو چکا ہے، دین کا صرف نام باقی ہے، افلاس کی گھر گھر پکار ہے، پیٹ کی چاروں طرف دہائی ہے، اخلاق بالکل بگڑ گئے ہیں، رسم و رواج کی بیڑی ایک ایک پاؤں میں پڑی ہے، جہالت و تقلید سب کی گردن پر سوار ہے، امراء جو قوم کو بہت کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں غافل اور بے پرواہ ہیں، علما جن کا قوم کی اصلاح میں بڑا دخل ہے، زمانہ کی ضرورتوں اور مصلحتوں سے ناواقف ہیں۔

حالی نے مسدس میں عرب میں اسلام سے پہلے دور جاہلیت کا نقشہ کھینچا ہے کہ معاشرے میں تمام اخلاقی برائیاں موجود تھیں مگر اسلام کی آمد کے ساتھ ہی ان کی حالت بدلتی ہے اور عرب کے یہ بدو فاتح کی صورت میں شام و ایران کی بڑی سلطنتوں کو فتح کرتے ہیں اور ایک عظیم سلطنت کی بنیاد کے ساتھ ہی ان کے ہاں تہذیب و تمدن و ثقافت کی ابتدا ہوتی ہے۔

انھوں نے دنیا کو علم و فن سے روشناس کرایا، اپنی عظیم تہذیب کی یادگاریں نہ صرف علم و ادب و فن میں چھوڑیں بلکہ عالیشان عمارات آج بھی ان کی یاد دلاتی ہیں، پھر اس عروج کے بعد زوال آتا ہے، ان کی تمام خوبیاں اور اچھائیاں ایک ایک کر کے رخصت ہوتی ہیں اور وہ دوبارہ سے پھر اسی جاہلیت میں آ جاتے ہیں۔ابھی کچھ ہی عرصے قبل پاکستانی سماج اخلاق، تہذیب، شرافت، اچھائی کے ستونوں پر کھڑا ہوا تھا اور پھر اچانک ایک ایک ستون مسمار ہوتا چلا گیا اور آج دنیا میں ناپید برائیاں اور خرابیاں سب آپ کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں باکثرت اور وافر مقدار میں گلی کوچوں، بازاروں، گھروں، محلوں، ایوانوں میں موجود ملیں گی۔


منافقت، چوربازاری، حسد، جلن، لوٹ مار، فراڈ، دھوکا دہی، ملاوٹ، لالچ، جھوٹ، بے ایمانی، کھینچاتانی، کرپشن، غرض ہر برائی موجود ہونے کا منفرد اعزاز ہمیں حاصل ہو گیا ہے۔ بنیاد پرستی، توہمات، نفرت، انتہاپسندی، وہم، تعصب میں تو ہمارا کوئی ثانی ہی نہیں ہے۔ سارا پاکستان ڈپریشن کا مریض ہو گیا ہے، بے ایمانی اور کرپشن نے ہمیں ایسا دبوچا ہے کہ ہمارا وجود پارہ پارہ ہو کر رہ گیا ہے۔ سب کے سب ایک دوسرے کو کچلتے، روندتے روپوں کی دوڑ میں آگے نکلنے کی کوششوں میں دن رات مصروف ہیں، شرافت ایک گالی بن کر رہ گئی ہے، ایمانداری اس وقت سب سے بڑا جرم ہے۔

سچ کا ہر جگہ مذاق اڑایا جاتا ہے، روپے پیسے نے سب سے بڑے دیوتا کا روپ دھار لیا ہے اور ہم سب اس کے پجاری بن کر رہ گئے ہیں۔ لوئی فشر کہتا ہے کہ ''ایک نئے عالم کی ضرورت ہے۔ نیا عالم کہاں ہے، روشن مستقبل کہاں ہے؟ ان میں سے فی الحال کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا، یہ مقلدین کے ہاتھوں صورت پذیر نہیں ہو گا۔ بلکہ مصلحین اس کی تعمیر کریں گے، وہ باغی جن کے پاس ایک واضح لائحہ عمل ہو گا، وہ افراد جن کے پاس نئے نئے خیالات ہوں گے، وہ لوگ جو دلیرانہ ایک کٹھن راستے پر چل کھڑے ہوں گے، جب کہ دونوں طرف سے ان پر تیروں کی بوچھاڑ پڑ رہی ہو گی''۔

سماجی بے چینی، افراتفری، بے حسی، اخلا قی اور سماجی روایات و اقدار کا ختم ہونا، طاقتور طبقوں کی بدعنوانی و لوٹ مار، اداروں کا کمزور ہو جانا، سیاسی انتشار، یہ سب اس بات کی علامات ہیں کہ ہمارا معاشرہ تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہے اور اس میں صحت مندی کے آثار بالکل ختم ہو چکے ہیں۔ سماج اور افراد بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں، لیکن اگر باریکی کے ساتھ غور کیا جائے اور بغور دیکھا جائے تو اسی انتشار، بے چینی، بے حسی اور ٹوٹ پھوٹ کے عمل میں تعمیر اور ایک نئے صحت مندانہ سماج کے جراثیم موجود ہیں، ایک بالکل نئی صبح کے آثار نظر آ رہے ہیں، کیونکہ اندھیرا جتنا سیاہ ہو گا، صبح اتنی ہی قریب ہو گی۔

ایک واعظ کی یہ نرالی عادت تھی کہ جب وعظ کے لیے منبر پر جاتا گمراہوں، سیاہ کاروں، بدفطرتوں، بدکاروں، ظالموں اور بت پرستوں کے لیے خشو ع و خضوع سے دامن پھیلا پھیلا کر دعائیں کرتا کہ یاالہی ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرما، ان لوگوں کے علاوہ خدا کے پاک اور نیک بندوں کا ذکر اپنی دعا میں لاتا ہی نہ تھا۔ جب لوگ عرصے تک واعظ کہ منہ سے یہ دعائیں برے آدمیوں کے حق میں سنتے رہے تو ان کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور انھوں نے واعظ سے پوچھا مولانا یہ کیا تماشا ہے، آپ کی دعائیں صرف بدکاروں اور ظالموں کے لیے ہوتی ہیں۔

واعظ نے جواب دیا، ان دعاؤں کی حقیقت سمجھو تو اعتراض نہ کرو، واقعہ یہ ہے کہ مجھے ان بدفطرتوں، سیاہ کاروں اور ظالموں سے بہت فائدہ پہنچا ہے، اس لیے ان کے حق میں ہمیشہ دعا کرنا اپنے اوپر فرض سمجھتا ہوں، ان لوگوں نے اللہ کی زمین پر اس قدر ظلم و ستم، ناپاکی اور برائی پھیلائی کہ میرا نفس متوحش ہو گیا اور میں نے حتی الامکان اپنی اصلاح کر کے برائیاں دور کیں اور بھلائیاں چن لیں، جب کبھی میں ہوائے نفس سے مجبور ہو کر دنیا کی طرف لپکا یہ ہی مفسد، سیاہ کار ظالم مجھے اذیتیں پہنچانے کے لیے سامنے آ جاتے تھے، یہاں تک کہ دنیا کی حرص و ہوس میرے اندر سے نکل گئی اور میں سیدھے راستے پر آ گیا۔

یہ سچ ہے کہ ہم سب موجودہ درد انگیز صورتحال کی وجہ سے سخت اذیت میں ہیں اور اس سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہ ہماری منزل نہیں ہے، اس دلدل سے باہر نکلنے کا راستہ موجود ہے، بس ذرا سی ہمت، نئے خیالات، واضح لائحہ عمل، دلیرانہ رویے، مرض کی تشخیص کی ضرورت ہے۔ ہم سب ایک ایسے سماج میں رہنا چاہتے ہیں جہان جھوٹ، دغا بازی، لالچ، حسد، منافقت، انتہاپسندی، ملاوٹ، کرپشن نہ ہو، جہاں صرف سچ کا بول بالا ہو۔ جہاں ایک دوسرے کا احترام ہو، جہاں رواداری ہو، جہاں برداشت ہو، جہاں اخلاقی اقدار و تہذیب کا راج ہو۔ یہ کام کوئی بھی اکیلے نہیں کر سکتا، اس کے لیے ہم سب کو مل کر جدوجہد کرنا ہو گی اور قربانیاں دینا ہوں گی۔
Load Next Story