دس برس کی عمر میں شعر کہنے لگا تھا ’’فیض کا عاشق ہوں‘‘
غزل دقیق سے دقیق نکتے کا وزن سہہ سکتی ہے، مایۂ ناز شاعر، انور شعور کا عکس زندگی
جب جیون رتھ ''سرکشی'' سنبھالے، ''آوارگی'' کا پرچم لہراتا ہو، ایسے میں سوار کمان پھینک دے، بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے؟
حسد کا گُھن لگ جائے، تو زندگی کا پیڑ سُوکھ جاتا ہے، سو خود کو اِس موذی مرض سے محفوظ رکھا۔ بہ قول اُن کے
بگاڑ سکتی ہے کیا غیر کا یہ خودسوزی
حسد کی آگ میں جلنا نِرا گدھا پن ہے
یہ ذکر ہے، نام وَر شاعر، انور شعور کا، جن کی غزل ناقدین فن کے نزدیک ''مکمل غزل'' قرار پائی، جدید اسلوب، منفرد لب و لہجے کی حامل ٹھہری۔ اُن کے ہاں ایک جادوئی، رواں دواں مکالماتی ڈھنگ ملتا ہے، سنجیدگی اور شگفتگی خوب صورتی سے گُھل مل جاتے ہیں، اور خیال نثر جیسی سہولت سے، گرفت کے ساتھ نظم ہوجاتا ہے۔ انور صاحب کے من پسند شعرا کی فہرست طویل ہے۔ آغاز سراج دکنی سے ہوتا ہے، پھر ولی، میر، غالب، انیس، اقبال، حسرت، حالی اور داغ کا ذکر آتا ہے، آگے بڑھتے ہیں، تو مجاز، فیض، ناصر کاظمی، احمد مشتاق، منیرنیازی، ساحر لدھیانوی اور سیف الدین سیف سے ملاقات ہوتی ہے۔
مذکورہ شعرا سے محبت رکھتے ہیں، اور امکان ظاہر کرتے ہیں کہ اُن سے متاثر بھی ہوئے ہوں گے، البتہ ناقدین اِس بابت واضح ہیں کہ اُن پر کسی ہم عصر شاعر کا اثر نہیں ہے۔ اپنے ہم عصروں کی بابت کہتے ہیں،''یوں تو سب ہی قابل تعریف ہیں، لیکن اُن کے کلام کی قدروقیمت کا حتمی فیصلہ وقتکرے گا۔'' بس، بات اِس موڑ سے آگے نہیں بڑھتی، وہ اختلافات کا ذکر پسند نہیں کرتے، اِس تعلق سے سوالات ہنس کر ٹال جاتے ہیں۔
بے گھری کا کرب سہنے سے قبل ہی شاعری کا مرض اُنھیں گرفت میں لے چکا تھا۔ دس برس کی عمر میں شعر کہنے لگے تھے۔ نعت خوانی کا تجربہ اور پُرتاثیر آواز، ابتداً غزلیں بھی ترنم سے پڑھیں۔ غزلوں پر تنقید بھی ہوئی، مگر اکثریت نے سراہا۔ وقت کے ساتھ شعر کہنے کے ڈھب میں تبدیلی بھی آئی ہوگی، لیکن سامعین کی محبت اور گرم جوشی میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ کہتے ہیں،''لوگوں کو ناقدری کی شکایت ہوتی ہے، مجھے ایسی کوئی شکایت نہیں۔ خدا کا شکر ہے، ابتدا ہی سے میری بہت پزیرائی ہوئی۔ مخالفین مجھ پر کوئی اور الزام تو لگا سکتے ہیں، لیکن یہ کوئی نہیں کہتا، وہ شاعر برا ہے!''
پہچان تو بہ طور شاعر ہی بنائی، البتہ کالم نگاری، رپوتاژ، افسانہ نگاری اور مذہبی شاعری کا بھی تجربہ کیا، ''حروف'' کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی نکالا، لیکن غزل کی صنف نے اُنھیں باندھے رکھا۔ غزل کی قوت اور وسعت کے وہ قائل ہیں، اُن کے مطابق یہ صنف دقیق سے دقیق نکتے کا وزن سہہ سکتی ہے، جس کی سب سے بڑی مثال غالب اور اقبال کے ہاں ملتی ہے، جہاں سائنسی مسائل بھی موضوع بنے۔ غزل نے دل موہ لیا تھا، سو نظم کی جانب نہیں گئے، البتہ نظم کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں۔ خواہش مند ہیں کہ نوجوان اِس صنف کی جانب سنجیدگی سے توجہ دیں۔ نثری نظم کے میدان میں جو مثبت کوششیں ہوئیں، اُنھیں سراہتے ہیں۔ ذیشان ساحل، سارا شگفتہ اور اوپندرناتھ اشک کے کام کی تعریف کرتے ہیں۔ اردو کو رومن اسکرپٹ میں لکھنے کے حامی نہیں۔ کہنا ہے، رسم الخط زبان کا لباس نہیں، بلکہ اُس کی کھال ہے۔ اگر رسم الخط ختم ہوگیا، تو اردو کو شدید نقصان پہنچے گا۔
گو 70 کی دہائی میں وہ اپنا سکہ جما چکے تھے، لیکن قارئین کو اُن کے مجموعے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا، جس کا سبب وہ اپنی کاہلی کو قرار دیتے ہیں۔ ''شعر کہنے میں سستی آڑے نہیں آتی، لیکن اشاعت کے معاملات میں آتی ہے!'' خیر، 95ء میں پہلا مجموعہ ''اندوختہ'' شایع ہوا، جو ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔ دوسرا ایڈیشن فوراً لانا پڑا۔ 2007 میں آرٹس کونسل آف پاکستان نے ''اندوختہ'' کا تیسرا ایڈیشن شایع کیا۔ ''مشق سخن'' دوسرا مجموعہ تھا، جو 99ء میں چھپا۔ 2006 میں ''می رقصم'' کی اشاعت ہوئی، جسے اکیڈمی ادبیات کی جانب سے علامہ اقبال ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اگلے مجموعے کی اشاعت کا ارادہ تو ہے، تاہم کوئی حتمی تاریخ دینے سے قاصر ہیں۔ کہتے ہیں،''غیب کا علم صرف خدا کو ہے!''
اُن کا پورا نام انوار حسین خاں ہے۔ یوسف زئی پٹھان ہیں۔ اجداد نے برسوں قبل شمال مغربی سرحدی علاقے سے ہجرت کرکے فرخ آباد، قائم گنج، یوپی اپنا مسکن بنایا، البتہ اُن کی پیدایش11 اپریل 1943 کو، اُن کے اندازے کے مطابق، مدھیہ پردیش کے ایک گائوں، سیونی میں ہوئی۔ والد، اشفاق حسین خاں نے رائل انڈین آرمی میں کمیشن ضرور لیا تھا، لیکن کچھ ہی عرصے بعد نوکری ترک کر کے محکمۂ پولیس سے منسلک ہوگئے۔ وہ انتہائی مذہبی اور اصول پسند آدمی تھے۔ غصے کے تیز تھے۔ اُنھوں نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیگم، مہر النسا سے تین اولادیں ہوئیں، جن میں انور شعور دوسرے ہیں۔ لڑکپن ہی میں اُنھیں شفقت مادری سے محروم ہونا پڑا۔ اِس سانحے سے زندگی میں جو خلا پیدا ہوا، وہ کبھی پُر نہیں ہوسکا۔ پہلی بیگم کے انتقال کے بعد والد نے دوسری شادی کر لی۔ دوسری بیگم سے چھے بچے ہوئے۔ البتہ یہ بہت بعد کا ذکر ہے، اُس وقت کا، جب وہ گھر کی دہلیز عبور کر چکے تھے۔
تقسیم کے بعد اُن کا خاندان ممبئی سے بحری جہاز میں سوار ہوا، کراچی کی بندرگاہ پر اترا، اور بوہرہ پیر کے علاقے میں ڈیرا ڈالا۔ بعد میں ناظم آباد کا رخ کیا۔ پاکستان آنے کے بعد اُن کے والد نے کاروبار کرنے کی کوشش کی، اِس میدان میں ناکامی ہوئی، لہٰذا ملازمتیں کرنی پڑیں۔ قائد اعظم کے انتقال کا پُرہجوم دن انور صاحب کے ذہن میں محفوظ ہے۔ مناظر یادداشت کے پردے پر یوں چلنے لگتے ہیں، جیسے کل کی بات ہو۔ اُن کے مطابق اُس روز ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے شہر کا ہر مکان خالی ہو، ہر شخص سڑک پر آگیا ہو، چاروں جانب سر ہی سر تھے۔
بتاتے ہیں، والدہ کو ابتدا سے مطالعے کا شوق تھا۔ پاکستان آنے کے بعد طویل بیماری نے اُنھیں گھیر لیا، وہ بستر سے لگ گئیں، لیکن اُنھوں نے مطالعہ جاری رکھا۔ انور صاحب ''آنہ لائبریری'' سے اُن کے لیے کتابیں لایا کرتے تھے۔ گھر میں ''عصمت'' اور ''بنات'' جیسے رسائل کے علاوہ اخبارات اور بچوں کے پرچے پابندی سے آیا کرتے تھے، جن سے مطالعے کا شوق گھٹی میں پڑ گیا۔
بوہرہ پیر کی یادیں کھنگالتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ والد کے ساتھ باقاعدگی سے مسجد جایا کرتے تھے۔ کئی مرتبہ اذان بھی دی۔ پھر نعت خوانی کا شوق پیدا ہوا، جس نے شعر کہنے کی تحریک دی۔ صابری مسجد، رنچھوڑ لائن میں مولانا افسر صابری بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے تھے۔ وہ کہنہ مشق شاعر تھے، اُنھیں جانشین بیخود کہا جاتا تھا۔ انورشعور کو مولانا جیسے قابل استاد کی سرپرستی میسر آئی۔ اُنھوں نے شاگرد کا ذوق و شوق دیکھتے ہوئے شاعری کے محاسن و معایب، رموز و قواعد اُنھیں گویا گھول کر پلا دیے۔ یوں وہ انور افسری ہوگئے۔ مولانا نے اُنھیں ایک نعت بھی لکھ کر دی، جو اُن کے ساتھ جا کر شعور صاحب نے ایک مشاعرے میں پڑھی، بعد میں وہ اُن ہی کے نام سے شایع ہوئی۔ رفتہ رفتہ اُن کی نگارشات بچوں کے رسائل اور اخبارات میں شایع ہونے لگیں۔ نعت خوانی نے کچھ یافت کا امکان بھی پیدا کردیا۔
چُوں کہ نعت خوانی کی محافل شام ڈھلے ہوتی تھیں، اِس لیے وہ غروب آفتاب کے بعد اکثر گھر سے غائب رہنے لگے۔ اِس ''جرم'' پر سزا بھی ملی۔ 60ء میں اُنھوں نے بچوں کے لیے لکھنا تقریباً ترک کر دیا۔ مولانا افسر صابری کے انتقال کے بعد کچھ عرصے تابش دہلوی سے اصلاح لی۔ اُن کے آخری استاد، سراج الدین ظفر تھے۔ تابش صاحب اور سراج الدین ظفر سے اصلاح کے زمانے میں وہ گھر چھوڑ چکے تھے۔ وقت بہت تھا، مشق سخن میں لگے رہے۔ کہتے ہیں، وہ آج بھی استاد کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ سیکھنے کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ اِس بات کا دُکھ ہے کہ تقسیم کے بعد شاعری میں استادی شاگردی کا رواج ختم ہوگیا، جس کی وجہ سے آج بے استاد شعرا، سخت محنت اور لگن کے باوجود، اچھا شعر نہیں کہہ پاتے۔ ''سخن شناسی ختم ہوگئی ہے۔ بیش تر شاعری فضول ہورہی ہے۔ ناقص الاول، ناقص الاوسط، ناقص الآخر!''
مطالعے کے شوق کے باوجود نصاب میں اُن کا دل کبھی نہیں لگا۔ ابتداً این جے وی اسکول میں داخل کروایا گیا، کچھ عرصہ کاسموپولیٹن اسکول میں گزرا، حسینی اسکول کا بھی حصہ رہے، لیکن پڑھ کر نہیں دیا۔ کتابیں لے کر گھرسے نکلتے ضرور، لیکن گھوم پھر کر لوٹ آتے۔ اُس زمانے میں گلیوں میں کرکٹ کھیلی، کنچے اور گلی ڈنڈے کی مشق کی۔ نیٹی جیٹی پہنچ کر تیراکی بھی کرتے رہے، الغرض اسکول سے بھاگنا، رات گئے لوٹنا معمول تھا۔ اِسی عرصے میں والدہ کے انتقال کا سانحہ پیش آیا، جس کے بعد شوق آوارگی راسخ ہوگیا۔ والد اِن سرگرمیوں کے باعث سخت ناراض تھے۔ ایک دن اسکول سے بھاگنے پر اُن کی خوب دُرگت بنائی گئی۔ بلا کے سرکش اور ضدی تھے۔ بس، اس دن کے بعد نہ تو اسکول گئے، نہ ہی گھر کا رخ کیا! خیر، بعد میں والد صاحب سے رابطہ رہا، اِس بات پر افسوس بھی ہے کہ اُن کی آوارگی اور سرکشی والد کے لیے دُکھ کا باعث بنی۔
گھر چھوڑنے کے بعد، بے سروسامانی کے ساتھ ریل میں سوار ہوئے، اور حیدرآباد چلے گئے۔ وہاں دل نہیں لگا، تو کوئٹہ کا رخ کیا، لیکن چند ہفتوں بعد کراچی کی کشش نے کھینچ لیا۔ یہیں ایک معروف تاجر، سیٹھ علی اکبر کی سرپرستی میسر آئی۔ اُن سے ایک مذہبی تقریب میں ملاقات ہوئی تھی، جہاں انور شعور نے منقبت پیش کی تھی۔ تعلقات بڑھے، تو سیٹھ صاحب نے انھیں اپنے پاس رکھ لیا۔ یہ ٹھکانا انور شعور کے لیے تربیت گاہ ثابت ہوا کہ سیٹھ صاحب میر انیس کے مداح تھے، اُن کی ہدایت پر انور صاحب نے اردو کا یہ قادرالکلام شاعر پورے کا پورا پندرہ سولہ سال کی عمر میں پڑھ ڈالا۔ اِسی عرصے میں کراچی کے شاعروں اور ادیبوں سے ملاقات کے سلسلے نے زور پکڑا۔ ریڈیو آنا جانا رہا، کافی ہائوس میں اٹھنے بیٹھنے لگے۔ کوئی بیس برس کی عمر میں اپنی آزاد طبیعت اور نئی، پُرکیف مصروفیات کے باعث اُنھوں نے سیٹھ صاحب کا سائبان چھوڑ دیا، نعت خوانی سے بھی کنارہ کش ہوگئے۔ پہلے پیرکالونی کے ایک کمرے میں ڈیرا ڈالا۔ اُسے چھوڑا، تو طارق روڈ کا رخ کیا۔ وہاں تین منزلہ عمارت کی چھت پر بنی ہوئی کوٹھری میں ٹھہرے۔
ریڈیو اور اخبارات کے لیے لکھا کرتے تھے، جس سے تھوڑی بہت آمدنی ہوجاتی۔ جون ایلیا کے جریدے ''انشا'' سے بھی تعلق رہا، جو بعد میں ''عالمی ڈائجسٹ'' ہوگیا۔ اُس پرچے میں وہ ''یہاں پگڑی اچھلتی ہے'' کے عنوان سےسماجی و ادبی تقریبات کا حال لکھتے رہے۔ کُلی طور پر غزل کی جانب آنے کے بعد نثر نگاری ترک کر دی۔ کہتے ہیں،''طبیعت میں کاہلی ہے، ایک ساتھ کئی کام کرنے کا شوق نہیں تھا، چناں چہ خود کو غزل گوئی تک محدود رکھا۔ وہ بھی موڈ ہوا تو غزل کہہ لی، ورنہ پڑھتا رہا۔ ہر موضوع پر پڑھا۔''
جمیل الدین عالی کے توسط سے 64ء میں ''انجمن ترقی اردو'' میں دوسو روپے ماہ وار پر ملازم ہوگئے۔ سستا زمانہ تھا، تن خواہ کافی معلوم ہوتی تھی۔ ان کے بہ قول، مشفق خواجہ نے انجمن میں کام تفویض کرنے سے قبل کڑے امتحان سے گزارا۔ مخطوطات نقل کرنے کی ذمے داری اُنھیں سونپ دی گئی۔ ماہ نامہ ''اردو زبان'' بھی ایڈٹ کرتے رہے۔ دوستوں کا انجمن آنا جانا لگا رہتا تھا، لیکن کبھی کام میں کوئی خلل نہیں پڑا، اِسی باعث مشفق خواجہ نے بھی کوئی روک نہیں لگائی۔ 66ء میں ایک مشہور ہفت روزہ جاری ہوا۔ انور شعور تقریبا ایک سال تک اس سے وابستہ رہے۔ پھر دوبارہ انجمن آگئے۔ ''سب رنگ'' کے اجرا تک وہیں رہے۔ اگلے تیس برس ''سب رنگ'' میں گزرے۔ اب قطعہ نویسی ذریعۂ معاش ہے۔ مشق سخن کل کی طرح آج بھی جاری ہے۔
کہتے ہیں، زندگی خوش گوار ہی گزری، ہمیشہ خوش رہنے کی کوشش کرتے ہیں، آنسو اندر ہی اندر بہا لیتے ہیں۔ ہاں، دوستوں کی جدائی سے دُکھ کا احساس گہرا ہوتا ہے۔
70 ء میں شادی ہوئی۔ بکھرائو کی شکار زندگی میں سدھار آتے آتے خاصا وقت لگا۔ خدا نے ایک بیٹے، تین بیٹیوں سے نوازا۔ چاروں بچوں کی شادی ہوچکی ہے۔ خیر سے اب دادا بھی ہیں، نانا بھی۔ بچوں سے دوستانہ روابط رہے۔ کباب من پسند کھاجا ہے۔ موسم کی بات ہو تو گلابی جاڑا بہت پسند ہے، کھلی ہوا اور اُجالا من کو بھاتا ہے۔ عموماً پتلون قمیص میں نظر آتے ہیں۔ گائیکی میں خصوصاً لتا، نورجہاں اور مہدی حسن کے مداح ہیں۔ بچپن میں خاصی فلمیں دیکھیں۔ دلیپ کمار اور نرگس کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ ''آن'' اور ''میلہ'' اچھی لگیں۔ فکشن میں اُنھیں کرشن چندر، منٹو اور بیدی سمیت کئی ادیبوں نے متاثر کیا۔ ناول میں ''اداس نسلیں'' اور ''آنگن'' خصوصیت سے اچھے لگے۔
قطعہ نگاری
انور صاحب کی شناخت کا ایک مضبوط حوالہ قطعہ نگاری بھی ہے۔ لگ بھگ پندرہ برس سے اردو کے ایک مؤقر روزنامے میں قطعات لکھ رہے ہیں۔ اُن کے مطابق اِس میدان میں شکیل عادل زادہ نے اُنھیں انگلی پکڑ کر چلنا سِکھایا۔
سفر کا آغاز افضل صدیقی کی فرمایش پر روزنامہ ''اعلان'' سے کیا۔ بعد میں ''اعلان'' روزنامہ ''امن'' میں تبدیل ہوگیا، اُن کے قطعات وہاں شایع ہوتے رہے۔ 88ء میں رئیس امرہوی کے انتقال کے بعد شکیل صاحب کے کہنے پر اِس جانب دوبارہ متوجہ ہوئے۔ رئیس صاحب کی گدی سنبھالنا آسان نہیں تھا، پھر مقابلہ بھی سخت تھا، لیکن اُن کے کلام کی قوت نے آخر اپنی جگہ بنا لی۔ اُن کی اِس کاوش کو قتیل شفائی اور منیرنیازی جیسے شعرا نے بھی سراہا۔
قطعات کو کتابی شکل دینے کا ارادہ توہے، لیکن اُن کے بہ قول، کاہلی آڑے آجاتی ہے۔ وہ قطعات نگاری کے مستقبل کی ضمن میں کہتے ہیں، اگر اِس صنف میں اچھا کام ہوا، تو یہ ضرور باقی رہے گی۔
''پنجاب کے اردو پر بہت احسانات ہیں!''
انور شعور کہتے ہیں،''اگر جائزہ لیا جائے، تو تقسیم ہند کے بعد اہل زبان کی تخلیقات میں ہمیں روایتی رنگ نظر آتا ہے، جب کہ پنجاب میں نئے تجربات ہوئے، شاعری اور فکشن، دونوں ہی اصناف میں معیاری کام ہوا۔ پنجاب کے اردو پر بہت احسانات ہیں۔ پاکستان میں اردو پنجاب ہی کی وجہ سے زندہ ہے۔ اردو کے تین اسکول ہیں، دکنی، لکھنوی اور دہلوی اسکول، اِس فہرست میں پنجاب کو بھی ہونا چاہیے، وہ ایک مدت سے اردو کا سب سے بڑا اشاعتی مرکز ہے۔''
قصّہ ''سب رنگ'' کا!
اردو رسائل کی تاریخ مرتب ہو، اور ''سب رنگ'' کا ذکر نہ آئے، بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے؟ اور اِس پرچے کا تذکرہ شکیل عادل زادہ اور انور شعور کے بغیر ادھورا ہے۔ 70ء میں شکیل صاحب کی کوششوں سے اِس ڈائجسٹ کا اجرا ہو۔ انور شعور پرچے کے معاون مدیر ہوگئے۔ معیار اور اشاعت کے نقطۂ نگاہ سے اِس پرچے نے نئی تاریخ رقم کی۔ انور صاحب 2000 تک اپنی ذمے داریاں نبھاتے رہے۔ اِس دور میں اُنھوں نے چند کہانیاں بھی لکھیں۔ یہ عام خیال ہے کہ ''سب رنگ'' کے قارئین پورا پرچہ اُن ہی کی زبان میں پڑھا کرتے تھے، کیوں کہ وہ ہر تحریر پر اتنا کام کرتے کہ آخرکار وہ اُن کی ہوجاتی۔
حسد کا گُھن لگ جائے، تو زندگی کا پیڑ سُوکھ جاتا ہے، سو خود کو اِس موذی مرض سے محفوظ رکھا۔ بہ قول اُن کے
بگاڑ سکتی ہے کیا غیر کا یہ خودسوزی
حسد کی آگ میں جلنا نِرا گدھا پن ہے
یہ ذکر ہے، نام وَر شاعر، انور شعور کا، جن کی غزل ناقدین فن کے نزدیک ''مکمل غزل'' قرار پائی، جدید اسلوب، منفرد لب و لہجے کی حامل ٹھہری۔ اُن کے ہاں ایک جادوئی، رواں دواں مکالماتی ڈھنگ ملتا ہے، سنجیدگی اور شگفتگی خوب صورتی سے گُھل مل جاتے ہیں، اور خیال نثر جیسی سہولت سے، گرفت کے ساتھ نظم ہوجاتا ہے۔ انور صاحب کے من پسند شعرا کی فہرست طویل ہے۔ آغاز سراج دکنی سے ہوتا ہے، پھر ولی، میر، غالب، انیس، اقبال، حسرت، حالی اور داغ کا ذکر آتا ہے، آگے بڑھتے ہیں، تو مجاز، فیض، ناصر کاظمی، احمد مشتاق، منیرنیازی، ساحر لدھیانوی اور سیف الدین سیف سے ملاقات ہوتی ہے۔
مذکورہ شعرا سے محبت رکھتے ہیں، اور امکان ظاہر کرتے ہیں کہ اُن سے متاثر بھی ہوئے ہوں گے، البتہ ناقدین اِس بابت واضح ہیں کہ اُن پر کسی ہم عصر شاعر کا اثر نہیں ہے۔ اپنے ہم عصروں کی بابت کہتے ہیں،''یوں تو سب ہی قابل تعریف ہیں، لیکن اُن کے کلام کی قدروقیمت کا حتمی فیصلہ وقتکرے گا۔'' بس، بات اِس موڑ سے آگے نہیں بڑھتی، وہ اختلافات کا ذکر پسند نہیں کرتے، اِس تعلق سے سوالات ہنس کر ٹال جاتے ہیں۔
بے گھری کا کرب سہنے سے قبل ہی شاعری کا مرض اُنھیں گرفت میں لے چکا تھا۔ دس برس کی عمر میں شعر کہنے لگے تھے۔ نعت خوانی کا تجربہ اور پُرتاثیر آواز، ابتداً غزلیں بھی ترنم سے پڑھیں۔ غزلوں پر تنقید بھی ہوئی، مگر اکثریت نے سراہا۔ وقت کے ساتھ شعر کہنے کے ڈھب میں تبدیلی بھی آئی ہوگی، لیکن سامعین کی محبت اور گرم جوشی میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ کہتے ہیں،''لوگوں کو ناقدری کی شکایت ہوتی ہے، مجھے ایسی کوئی شکایت نہیں۔ خدا کا شکر ہے، ابتدا ہی سے میری بہت پزیرائی ہوئی۔ مخالفین مجھ پر کوئی اور الزام تو لگا سکتے ہیں، لیکن یہ کوئی نہیں کہتا، وہ شاعر برا ہے!''
پہچان تو بہ طور شاعر ہی بنائی، البتہ کالم نگاری، رپوتاژ، افسانہ نگاری اور مذہبی شاعری کا بھی تجربہ کیا، ''حروف'' کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی نکالا، لیکن غزل کی صنف نے اُنھیں باندھے رکھا۔ غزل کی قوت اور وسعت کے وہ قائل ہیں، اُن کے مطابق یہ صنف دقیق سے دقیق نکتے کا وزن سہہ سکتی ہے، جس کی سب سے بڑی مثال غالب اور اقبال کے ہاں ملتی ہے، جہاں سائنسی مسائل بھی موضوع بنے۔ غزل نے دل موہ لیا تھا، سو نظم کی جانب نہیں گئے، البتہ نظم کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں۔ خواہش مند ہیں کہ نوجوان اِس صنف کی جانب سنجیدگی سے توجہ دیں۔ نثری نظم کے میدان میں جو مثبت کوششیں ہوئیں، اُنھیں سراہتے ہیں۔ ذیشان ساحل، سارا شگفتہ اور اوپندرناتھ اشک کے کام کی تعریف کرتے ہیں۔ اردو کو رومن اسکرپٹ میں لکھنے کے حامی نہیں۔ کہنا ہے، رسم الخط زبان کا لباس نہیں، بلکہ اُس کی کھال ہے۔ اگر رسم الخط ختم ہوگیا، تو اردو کو شدید نقصان پہنچے گا۔
گو 70 کی دہائی میں وہ اپنا سکہ جما چکے تھے، لیکن قارئین کو اُن کے مجموعے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا، جس کا سبب وہ اپنی کاہلی کو قرار دیتے ہیں۔ ''شعر کہنے میں سستی آڑے نہیں آتی، لیکن اشاعت کے معاملات میں آتی ہے!'' خیر، 95ء میں پہلا مجموعہ ''اندوختہ'' شایع ہوا، جو ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔ دوسرا ایڈیشن فوراً لانا پڑا۔ 2007 میں آرٹس کونسل آف پاکستان نے ''اندوختہ'' کا تیسرا ایڈیشن شایع کیا۔ ''مشق سخن'' دوسرا مجموعہ تھا، جو 99ء میں چھپا۔ 2006 میں ''می رقصم'' کی اشاعت ہوئی، جسے اکیڈمی ادبیات کی جانب سے علامہ اقبال ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اگلے مجموعے کی اشاعت کا ارادہ تو ہے، تاہم کوئی حتمی تاریخ دینے سے قاصر ہیں۔ کہتے ہیں،''غیب کا علم صرف خدا کو ہے!''
اُن کا پورا نام انوار حسین خاں ہے۔ یوسف زئی پٹھان ہیں۔ اجداد نے برسوں قبل شمال مغربی سرحدی علاقے سے ہجرت کرکے فرخ آباد، قائم گنج، یوپی اپنا مسکن بنایا، البتہ اُن کی پیدایش11 اپریل 1943 کو، اُن کے اندازے کے مطابق، مدھیہ پردیش کے ایک گائوں، سیونی میں ہوئی۔ والد، اشفاق حسین خاں نے رائل انڈین آرمی میں کمیشن ضرور لیا تھا، لیکن کچھ ہی عرصے بعد نوکری ترک کر کے محکمۂ پولیس سے منسلک ہوگئے۔ وہ انتہائی مذہبی اور اصول پسند آدمی تھے۔ غصے کے تیز تھے۔ اُنھوں نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیگم، مہر النسا سے تین اولادیں ہوئیں، جن میں انور شعور دوسرے ہیں۔ لڑکپن ہی میں اُنھیں شفقت مادری سے محروم ہونا پڑا۔ اِس سانحے سے زندگی میں جو خلا پیدا ہوا، وہ کبھی پُر نہیں ہوسکا۔ پہلی بیگم کے انتقال کے بعد والد نے دوسری شادی کر لی۔ دوسری بیگم سے چھے بچے ہوئے۔ البتہ یہ بہت بعد کا ذکر ہے، اُس وقت کا، جب وہ گھر کی دہلیز عبور کر چکے تھے۔
تقسیم کے بعد اُن کا خاندان ممبئی سے بحری جہاز میں سوار ہوا، کراچی کی بندرگاہ پر اترا، اور بوہرہ پیر کے علاقے میں ڈیرا ڈالا۔ بعد میں ناظم آباد کا رخ کیا۔ پاکستان آنے کے بعد اُن کے والد نے کاروبار کرنے کی کوشش کی، اِس میدان میں ناکامی ہوئی، لہٰذا ملازمتیں کرنی پڑیں۔ قائد اعظم کے انتقال کا پُرہجوم دن انور صاحب کے ذہن میں محفوظ ہے۔ مناظر یادداشت کے پردے پر یوں چلنے لگتے ہیں، جیسے کل کی بات ہو۔ اُن کے مطابق اُس روز ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے شہر کا ہر مکان خالی ہو، ہر شخص سڑک پر آگیا ہو، چاروں جانب سر ہی سر تھے۔
بتاتے ہیں، والدہ کو ابتدا سے مطالعے کا شوق تھا۔ پاکستان آنے کے بعد طویل بیماری نے اُنھیں گھیر لیا، وہ بستر سے لگ گئیں، لیکن اُنھوں نے مطالعہ جاری رکھا۔ انور صاحب ''آنہ لائبریری'' سے اُن کے لیے کتابیں لایا کرتے تھے۔ گھر میں ''عصمت'' اور ''بنات'' جیسے رسائل کے علاوہ اخبارات اور بچوں کے پرچے پابندی سے آیا کرتے تھے، جن سے مطالعے کا شوق گھٹی میں پڑ گیا۔
بوہرہ پیر کی یادیں کھنگالتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ والد کے ساتھ باقاعدگی سے مسجد جایا کرتے تھے۔ کئی مرتبہ اذان بھی دی۔ پھر نعت خوانی کا شوق پیدا ہوا، جس نے شعر کہنے کی تحریک دی۔ صابری مسجد، رنچھوڑ لائن میں مولانا افسر صابری بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے تھے۔ وہ کہنہ مشق شاعر تھے، اُنھیں جانشین بیخود کہا جاتا تھا۔ انورشعور کو مولانا جیسے قابل استاد کی سرپرستی میسر آئی۔ اُنھوں نے شاگرد کا ذوق و شوق دیکھتے ہوئے شاعری کے محاسن و معایب، رموز و قواعد اُنھیں گویا گھول کر پلا دیے۔ یوں وہ انور افسری ہوگئے۔ مولانا نے اُنھیں ایک نعت بھی لکھ کر دی، جو اُن کے ساتھ جا کر شعور صاحب نے ایک مشاعرے میں پڑھی، بعد میں وہ اُن ہی کے نام سے شایع ہوئی۔ رفتہ رفتہ اُن کی نگارشات بچوں کے رسائل اور اخبارات میں شایع ہونے لگیں۔ نعت خوانی نے کچھ یافت کا امکان بھی پیدا کردیا۔
چُوں کہ نعت خوانی کی محافل شام ڈھلے ہوتی تھیں، اِس لیے وہ غروب آفتاب کے بعد اکثر گھر سے غائب رہنے لگے۔ اِس ''جرم'' پر سزا بھی ملی۔ 60ء میں اُنھوں نے بچوں کے لیے لکھنا تقریباً ترک کر دیا۔ مولانا افسر صابری کے انتقال کے بعد کچھ عرصے تابش دہلوی سے اصلاح لی۔ اُن کے آخری استاد، سراج الدین ظفر تھے۔ تابش صاحب اور سراج الدین ظفر سے اصلاح کے زمانے میں وہ گھر چھوڑ چکے تھے۔ وقت بہت تھا، مشق سخن میں لگے رہے۔ کہتے ہیں، وہ آج بھی استاد کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ سیکھنے کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ اِس بات کا دُکھ ہے کہ تقسیم کے بعد شاعری میں استادی شاگردی کا رواج ختم ہوگیا، جس کی وجہ سے آج بے استاد شعرا، سخت محنت اور لگن کے باوجود، اچھا شعر نہیں کہہ پاتے۔ ''سخن شناسی ختم ہوگئی ہے۔ بیش تر شاعری فضول ہورہی ہے۔ ناقص الاول، ناقص الاوسط، ناقص الآخر!''
مطالعے کے شوق کے باوجود نصاب میں اُن کا دل کبھی نہیں لگا۔ ابتداً این جے وی اسکول میں داخل کروایا گیا، کچھ عرصہ کاسموپولیٹن اسکول میں گزرا، حسینی اسکول کا بھی حصہ رہے، لیکن پڑھ کر نہیں دیا۔ کتابیں لے کر گھرسے نکلتے ضرور، لیکن گھوم پھر کر لوٹ آتے۔ اُس زمانے میں گلیوں میں کرکٹ کھیلی، کنچے اور گلی ڈنڈے کی مشق کی۔ نیٹی جیٹی پہنچ کر تیراکی بھی کرتے رہے، الغرض اسکول سے بھاگنا، رات گئے لوٹنا معمول تھا۔ اِسی عرصے میں والدہ کے انتقال کا سانحہ پیش آیا، جس کے بعد شوق آوارگی راسخ ہوگیا۔ والد اِن سرگرمیوں کے باعث سخت ناراض تھے۔ ایک دن اسکول سے بھاگنے پر اُن کی خوب دُرگت بنائی گئی۔ بلا کے سرکش اور ضدی تھے۔ بس، اس دن کے بعد نہ تو اسکول گئے، نہ ہی گھر کا رخ کیا! خیر، بعد میں والد صاحب سے رابطہ رہا، اِس بات پر افسوس بھی ہے کہ اُن کی آوارگی اور سرکشی والد کے لیے دُکھ کا باعث بنی۔
گھر چھوڑنے کے بعد، بے سروسامانی کے ساتھ ریل میں سوار ہوئے، اور حیدرآباد چلے گئے۔ وہاں دل نہیں لگا، تو کوئٹہ کا رخ کیا، لیکن چند ہفتوں بعد کراچی کی کشش نے کھینچ لیا۔ یہیں ایک معروف تاجر، سیٹھ علی اکبر کی سرپرستی میسر آئی۔ اُن سے ایک مذہبی تقریب میں ملاقات ہوئی تھی، جہاں انور شعور نے منقبت پیش کی تھی۔ تعلقات بڑھے، تو سیٹھ صاحب نے انھیں اپنے پاس رکھ لیا۔ یہ ٹھکانا انور شعور کے لیے تربیت گاہ ثابت ہوا کہ سیٹھ صاحب میر انیس کے مداح تھے، اُن کی ہدایت پر انور صاحب نے اردو کا یہ قادرالکلام شاعر پورے کا پورا پندرہ سولہ سال کی عمر میں پڑھ ڈالا۔ اِسی عرصے میں کراچی کے شاعروں اور ادیبوں سے ملاقات کے سلسلے نے زور پکڑا۔ ریڈیو آنا جانا رہا، کافی ہائوس میں اٹھنے بیٹھنے لگے۔ کوئی بیس برس کی عمر میں اپنی آزاد طبیعت اور نئی، پُرکیف مصروفیات کے باعث اُنھوں نے سیٹھ صاحب کا سائبان چھوڑ دیا، نعت خوانی سے بھی کنارہ کش ہوگئے۔ پہلے پیرکالونی کے ایک کمرے میں ڈیرا ڈالا۔ اُسے چھوڑا، تو طارق روڈ کا رخ کیا۔ وہاں تین منزلہ عمارت کی چھت پر بنی ہوئی کوٹھری میں ٹھہرے۔
ریڈیو اور اخبارات کے لیے لکھا کرتے تھے، جس سے تھوڑی بہت آمدنی ہوجاتی۔ جون ایلیا کے جریدے ''انشا'' سے بھی تعلق رہا، جو بعد میں ''عالمی ڈائجسٹ'' ہوگیا۔ اُس پرچے میں وہ ''یہاں پگڑی اچھلتی ہے'' کے عنوان سےسماجی و ادبی تقریبات کا حال لکھتے رہے۔ کُلی طور پر غزل کی جانب آنے کے بعد نثر نگاری ترک کر دی۔ کہتے ہیں،''طبیعت میں کاہلی ہے، ایک ساتھ کئی کام کرنے کا شوق نہیں تھا، چناں چہ خود کو غزل گوئی تک محدود رکھا۔ وہ بھی موڈ ہوا تو غزل کہہ لی، ورنہ پڑھتا رہا۔ ہر موضوع پر پڑھا۔''
جمیل الدین عالی کے توسط سے 64ء میں ''انجمن ترقی اردو'' میں دوسو روپے ماہ وار پر ملازم ہوگئے۔ سستا زمانہ تھا، تن خواہ کافی معلوم ہوتی تھی۔ ان کے بہ قول، مشفق خواجہ نے انجمن میں کام تفویض کرنے سے قبل کڑے امتحان سے گزارا۔ مخطوطات نقل کرنے کی ذمے داری اُنھیں سونپ دی گئی۔ ماہ نامہ ''اردو زبان'' بھی ایڈٹ کرتے رہے۔ دوستوں کا انجمن آنا جانا لگا رہتا تھا، لیکن کبھی کام میں کوئی خلل نہیں پڑا، اِسی باعث مشفق خواجہ نے بھی کوئی روک نہیں لگائی۔ 66ء میں ایک مشہور ہفت روزہ جاری ہوا۔ انور شعور تقریبا ایک سال تک اس سے وابستہ رہے۔ پھر دوبارہ انجمن آگئے۔ ''سب رنگ'' کے اجرا تک وہیں رہے۔ اگلے تیس برس ''سب رنگ'' میں گزرے۔ اب قطعہ نویسی ذریعۂ معاش ہے۔ مشق سخن کل کی طرح آج بھی جاری ہے۔
کہتے ہیں، زندگی خوش گوار ہی گزری، ہمیشہ خوش رہنے کی کوشش کرتے ہیں، آنسو اندر ہی اندر بہا لیتے ہیں۔ ہاں، دوستوں کی جدائی سے دُکھ کا احساس گہرا ہوتا ہے۔
70 ء میں شادی ہوئی۔ بکھرائو کی شکار زندگی میں سدھار آتے آتے خاصا وقت لگا۔ خدا نے ایک بیٹے، تین بیٹیوں سے نوازا۔ چاروں بچوں کی شادی ہوچکی ہے۔ خیر سے اب دادا بھی ہیں، نانا بھی۔ بچوں سے دوستانہ روابط رہے۔ کباب من پسند کھاجا ہے۔ موسم کی بات ہو تو گلابی جاڑا بہت پسند ہے، کھلی ہوا اور اُجالا من کو بھاتا ہے۔ عموماً پتلون قمیص میں نظر آتے ہیں۔ گائیکی میں خصوصاً لتا، نورجہاں اور مہدی حسن کے مداح ہیں۔ بچپن میں خاصی فلمیں دیکھیں۔ دلیپ کمار اور نرگس کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ ''آن'' اور ''میلہ'' اچھی لگیں۔ فکشن میں اُنھیں کرشن چندر، منٹو اور بیدی سمیت کئی ادیبوں نے متاثر کیا۔ ناول میں ''اداس نسلیں'' اور ''آنگن'' خصوصیت سے اچھے لگے۔
قطعہ نگاری
انور صاحب کی شناخت کا ایک مضبوط حوالہ قطعہ نگاری بھی ہے۔ لگ بھگ پندرہ برس سے اردو کے ایک مؤقر روزنامے میں قطعات لکھ رہے ہیں۔ اُن کے مطابق اِس میدان میں شکیل عادل زادہ نے اُنھیں انگلی پکڑ کر چلنا سِکھایا۔
سفر کا آغاز افضل صدیقی کی فرمایش پر روزنامہ ''اعلان'' سے کیا۔ بعد میں ''اعلان'' روزنامہ ''امن'' میں تبدیل ہوگیا، اُن کے قطعات وہاں شایع ہوتے رہے۔ 88ء میں رئیس امرہوی کے انتقال کے بعد شکیل صاحب کے کہنے پر اِس جانب دوبارہ متوجہ ہوئے۔ رئیس صاحب کی گدی سنبھالنا آسان نہیں تھا، پھر مقابلہ بھی سخت تھا، لیکن اُن کے کلام کی قوت نے آخر اپنی جگہ بنا لی۔ اُن کی اِس کاوش کو قتیل شفائی اور منیرنیازی جیسے شعرا نے بھی سراہا۔
قطعات کو کتابی شکل دینے کا ارادہ توہے، لیکن اُن کے بہ قول، کاہلی آڑے آجاتی ہے۔ وہ قطعات نگاری کے مستقبل کی ضمن میں کہتے ہیں، اگر اِس صنف میں اچھا کام ہوا، تو یہ ضرور باقی رہے گی۔
''پنجاب کے اردو پر بہت احسانات ہیں!''
انور شعور کہتے ہیں،''اگر جائزہ لیا جائے، تو تقسیم ہند کے بعد اہل زبان کی تخلیقات میں ہمیں روایتی رنگ نظر آتا ہے، جب کہ پنجاب میں نئے تجربات ہوئے، شاعری اور فکشن، دونوں ہی اصناف میں معیاری کام ہوا۔ پنجاب کے اردو پر بہت احسانات ہیں۔ پاکستان میں اردو پنجاب ہی کی وجہ سے زندہ ہے۔ اردو کے تین اسکول ہیں، دکنی، لکھنوی اور دہلوی اسکول، اِس فہرست میں پنجاب کو بھی ہونا چاہیے، وہ ایک مدت سے اردو کا سب سے بڑا اشاعتی مرکز ہے۔''
قصّہ ''سب رنگ'' کا!
اردو رسائل کی تاریخ مرتب ہو، اور ''سب رنگ'' کا ذکر نہ آئے، بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے؟ اور اِس پرچے کا تذکرہ شکیل عادل زادہ اور انور شعور کے بغیر ادھورا ہے۔ 70ء میں شکیل صاحب کی کوششوں سے اِس ڈائجسٹ کا اجرا ہو۔ انور شعور پرچے کے معاون مدیر ہوگئے۔ معیار اور اشاعت کے نقطۂ نگاہ سے اِس پرچے نے نئی تاریخ رقم کی۔ انور صاحب 2000 تک اپنی ذمے داریاں نبھاتے رہے۔ اِس دور میں اُنھوں نے چند کہانیاں بھی لکھیں۔ یہ عام خیال ہے کہ ''سب رنگ'' کے قارئین پورا پرچہ اُن ہی کی زبان میں پڑھا کرتے تھے، کیوں کہ وہ ہر تحریر پر اتنا کام کرتے کہ آخرکار وہ اُن کی ہوجاتی۔