پولیس کی ہوش مندی درجنوں افراد کو اغوا ہونے سے بچالیا
وارداتوں میں ملوث خطرناک گینگ گرفتار، مجرموں کو کڑی سزا ملنی چاہیے۔
دولت کی ہوس نہ صرف انسان کو اندھا بنا دیتی ہے بلکہ وہ لالچ میں آکر ہر حد عبور کر جاتا ہے تاوان کے لیے اغواء ایک گھناؤنا جرم کہلاتا ہے۔
پاکستان میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس جرم کی شرح بڑھی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس دھندے نے ایک منظم کاروبار کی شکل اختیار کر لی ہے اس دھندے میں ایک جیتے جاگتے انسان کو اغواء کر کے اس کے خاندان اور عزیز و اقارب کو بلیک میل کر کے تاوان پر مجبور کیا جاتا ہے اغواء کار مقامی باشندوں کو شامل کر کے ایسے شہریوں کو اغواء کرتے ہیں جو مالدار اور صاحب حیثیت ہوتے ہیں۔ شواہد کے مطابق اغواء کار پہلے خود مغوی کے خاندان سے بھاری تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر مقررہ مدت میں ان کے مطالبات تسلیم نہ کئے جائیں تو وہ مغوی کو دوسرے گروپ کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں۔
اسکے بعد اس گروپ کی باری آجاتی ہے وہ مغوی سے اپنے خاندان والوں کو فون کراتے اور تاوان دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر وہ بھی اپنے مشن میں ناکام ہوجائیں تو اپنی دی ہوئی رقم کو وصول کر کے تیسرے گروہ کے پاس فروخت کر دیتے ہیں پھر اس گروپ کے کارندے مغوی کو قتل کرنے کی دھمکی دیتے اور بھاری تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں اس طرح جو ں جوں مغوی آگے فروخت ہوتا رہتا ہے اس کی قیمت بھی بڑھتی جاتی ہے آخر کار مغوی کے عزیزوں کو تاوان چکا کر ہی اپنے بندے کو آزاد کرانا پڑتا ہے۔
اس دوران پولیس بھی اپنے طور پر سرگرم رہتی ہے اور کئی اہلکار اور پولیس افسران اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر مغویوں کو بازیاب کرانے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں ایسا ہی ایک واقعہ ضلع چکوال میں بھی ہوا، اڑھائی ماہ قبل تلہ گنگ کے علاقہ سکا گائوں میں اغوا ء کاروں نے علاقے کے رہائشی دو حقیقی بھائیوں کو اپنے ساتھ شامل کیا اور ان کی مدد سے ایک بڑے زمیندار کو دن دیہاڑے اغواء کر لیا موضع سکا کا یہ رہائشی دین ماہی ولد امیر خان اپنے خاندان کے ہمراہ خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا ،زمین داری کے ساتھ موٹر مکینک کا کام بھی کرتا تھا وقوعہ کے دن وہ اپنے بڑے بیٹے سعید احمد کے ساتھ اپنے کھیتوں میں ٹریکٹرسے ہل چلا رہا تھا کہ اس دوران اس کا قریبی دوست ساڑھے نو بجے صبح، جس کا نام بختیار الدین ولد صبحان خان سکنہ ملکوال تحصیل تلہ گنگ اس کے پاس آیا اور اسے کہا کہ اس کی موٹر خراب ہو گئی ہے۔
آپ اسے ٹھیک کر دیں دوست کی بات کیسے ٹال سکتا تھا اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تم ٹریکڑچلائو میں ابھی آتا ہوں وہ بختیار الدین کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار ہو کر اس کے ساتھ چل دیا جب وہ پل ڈھوک مساحب پہنچے تو پیچھے سے ایک سفید رنگ کی کار آکر رکی جس میں سعید خان ولد نور دین سکنہ چکڑالہ ، بلقیاس ولد محمد اقبال سکنہ چکڑالہ کلیم الدین ولد صبحان دین سکنہ ملکوال تلہ گنگ مسلح ہو کر باہر آئے اور اسے زبردستی کار میں ڈال کر اغواء کر کے نامعلوم مقام پر لے گئے بعد ازاںاس کے بھتیجے احمد الٰہی نے سعید خان کو 15,60,000 روپے تاوان دے کر چھڑایا، ملزمان نے دھمکی دی کہ کسی قسم کی کارروائی کی تو بچوں سمیت تمہیں پھر اغواء کرکے قتل کر دیں گے اس کارروائی کے بعد اغواء کاروں نے چکوال کے دولت مند افراد کو اغواء کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔
ملزمان نے اغواء برائے تاوان کی دوسری واردات 26 ستمبر کو کی،جس میں معروف تاجر ملک عبدالجلیل اور اس کے کنٹرول شیڈ کی تعمیر کرنے والے انجینئر حافظ کاشف کو اس وقت اغواء کر لیا گیا جب وہ کنٹرول شیڈ مرید سے کام ختم کر کے اپنے گھر تلہ گنگ کار میں سوار ہو کر جا رہے تھے اغواکاروں نے دونوں افراد کو گن پوائنٹ پر اپنی سفید رنگ کی کار نمبر 2563 نوشہرہ میں بٹھا لیا اور ایک ملزم ان کی کار میں سوار ہو گیا دونوں افراد کے اغوا ء ہونے پر ضلعی پولیس کو الرٹ کر دیا گیا لیکن اغواء کار خفیہ مقام پر پہنچ چکے تھے۔
اطلاع ملتے ہی ڈی پی او چکوال محمد کاشف مشتاق کانجو نے فور ی طور پر ضلع کی ناکہ بندی کروا کر ملزمان کی گرفتاری کے لیے ڈی ایس پی صدر سرکل چکوال چوہدری عبدالسلیم اور ایس ایچ او صدر چو ہدری اثر علی اور سپیشل انویسٹی گیشن سیل چکوال کے انچارج سید اعجاز عباس اور ایلیٹ فورس کو ٹاسک دیا کہ دونوں اغواء ہونے والے افراد کو زندہ برآمد کیا جائے پولیس کو خواہ اس کے لیے کوئی بھی قربانی دینی پڑے لیکن دوسری جانب اغوا ء کاروں کو جب یقین ہو گیا کہ وہ پولیس کی پہنچ سے باہر ہوچکے ہیں تو انہوں نے دوسرے دن ملک عبدالجلیل کے ساتھی حافظ کاشف کو اس پر چھوڑ دیا کہ وہ انکی ڈیمانڈ جو دو کروڑ روپے ہے اس کا بندوبست کرے۔
اغواء کاروں نے ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر تاوان کی رقم ادا نہ ہوئی تو وہ ملک عبدالجلیل کو قتل کر دیں گے حافظ کاشف نے رہائی ملتے ہی ڈی پی او چکوال سے ملاقات کر کے تمام صورتحال سے آگاہ کیا اور ملزمان کے حلیے اور خفیہ مقام سے بھی مطلع کر دیا ڈی پی او چکوال نے فوری طور پر تفتیشی ٹیم کو طلب کیا اور پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ فوری ریڈ کا حکم دیا۔ تفتیشی ٹیم نے ڈی پی او کی ہدایات کی روشنی میں تلہ گنگ کے خفیہ مقام پر اغواء کاروں کے ڈیرے کا محاصرہ کر لیا اس وقت ملزمان ملک جلیل کو مردان منتقل کرنے کی تیاری کر رہے تھے اس سے پہلے کہ اغواء کار کوئی مزاحمت کرتے۔
پولیس نے مغوی کو اپنی تحویل میں لے لیا اور چار اغوا ء کاروں جن میں سعید خان ولد زیور دین ، بختیارالدین ولد صبحان دین ، بلقیاس ولد محمد اقبال اور محمد اقبال شاہ سکناے مردان نوشہرہ کو گرفتار کر کے بھری مقدار میں ناجائز اسلحہ اور گاڑی نمبری 2563 نوشہرہ کو بھی قبضہ میں لے لیا، جس میں ملزمان اغوا کر کے لوگوں کو علاقہ غیر لے جاتے تھے دوران تفتیش ملزمان نے اپنے دیگر ساتھیوں کی بھی نشاندہی کی جو پولیس نے مزید تین ملزمان جن میں کلیم اللہ ولد صبحان الدین سکنہ نوشہرہ ، شہزاد اللہ بخش ولد نبی بخش ساکن کھائی ضلع چکوال اور عمیر عرف سمیع اللہ ولد صدرالدین ضلع خوشاب کو گرفتار کر لیا گیا ملزمان نے انکشاف کیا کہ وہ نہ صرف قتل کے مقدمات میں اشتہاری ہیں بلکہ انہوں نے اغواء برائے تاوان کی دس سے زائد وارداتوں میں لوگوں سے کروڑں روپے تاون بھی وصول کیا ہوا ہے۔
جبکہ گینگ کے تین ملزمان جن میں عبدالرحمن عرف بارو ولد محمد علی سکنہ لئلہ ضلع جہلم تلاوت عرف عبداللہ سکنہ مردان روح الاامین عرف اسماعیل سکنہ مردان کی گرفتار ی کے لیے پولیس پارٹیاں فوری طور پرروانہ کر دی گئی ہیں ملزمان نے مزید انکشاف کیا کہ ان کے ٹارگٹ پر چکوال کے مزید 13 دولت مند تاجر تھے جن کو اغوا ء کر کے تاوان وصول کرنا تھا جبکہ ملزمان نے یہ بھی انکشاف کیا کہ چکوال کے علاوہ راولپنڈی ،اٹک ، مردان گوجرخان ، مندرہ سے لوگوں کو اغواء کر کے تاوان وصول کر چکے ہیں جبکہ تین افراد کو اغوا ء کرنے کی کوشش ناکام ہونے پر ان کو پھر اغوا ء کرنا تھا ملزمان نے دوران تفتیش بتایا کہ انہوں نے مردان کے ایک شو روم سے تین ہزار روپے روزانہ پر کار حاصل کر رکھی تھی جو اب صدر پولیس چکوال نے اغواء برائے تاوان مقدمہ میں قبضہ میں لے رکھی ہے۔
اس ضمن میں ڈی پی او چکوال محمد مشتاق کانجو نے بتایا کہ اگر اغوا ء برائے تاوان کے ملزمان کو بر وقت گرفتار نہ کیا جاتا تو لوگوں کے اغواء کا سلسلہ ختم نہ ہوتا۔ پولیس نے اغواء ہونے والے ملک عبدالجلیل کو بغیر کسی مزاحمت کے برآمد کر کے ملزمان کو گرفتار کیا اس پر وہ مبارک باد اور انعام کی مستحق ہے۔ تفتیشی ٹیم کو نقد انعامات کے ساتھ ساتھ خصوصی سرٹیفکیٹ بھی دیئے جانے چاہئیں۔ چکوال اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ یہاں ڈی پی او کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار افسروں کی ٹیم کام کر رہی ہے اور اگر یہ اغواء کار گرفتار نہ ہوتے تو نہ جانے چکوال سے کتنے افراد ان کا نشانہ بنتے۔ حکومت پنجاب کو بھی تفتیشی ٹیم کے لیے خصوصی انعامات اور ترقی دینے کا فوری حکم جاری کرنا چاہیے تا کہ پولیس مزید دل جمعی سے اپنے فرائض منصبی ادا کرسکے۔
پاکستان میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس جرم کی شرح بڑھی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس دھندے نے ایک منظم کاروبار کی شکل اختیار کر لی ہے اس دھندے میں ایک جیتے جاگتے انسان کو اغواء کر کے اس کے خاندان اور عزیز و اقارب کو بلیک میل کر کے تاوان پر مجبور کیا جاتا ہے اغواء کار مقامی باشندوں کو شامل کر کے ایسے شہریوں کو اغواء کرتے ہیں جو مالدار اور صاحب حیثیت ہوتے ہیں۔ شواہد کے مطابق اغواء کار پہلے خود مغوی کے خاندان سے بھاری تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر مقررہ مدت میں ان کے مطالبات تسلیم نہ کئے جائیں تو وہ مغوی کو دوسرے گروپ کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں۔
اسکے بعد اس گروپ کی باری آجاتی ہے وہ مغوی سے اپنے خاندان والوں کو فون کراتے اور تاوان دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر وہ بھی اپنے مشن میں ناکام ہوجائیں تو اپنی دی ہوئی رقم کو وصول کر کے تیسرے گروہ کے پاس فروخت کر دیتے ہیں پھر اس گروپ کے کارندے مغوی کو قتل کرنے کی دھمکی دیتے اور بھاری تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں اس طرح جو ں جوں مغوی آگے فروخت ہوتا رہتا ہے اس کی قیمت بھی بڑھتی جاتی ہے آخر کار مغوی کے عزیزوں کو تاوان چکا کر ہی اپنے بندے کو آزاد کرانا پڑتا ہے۔
اس دوران پولیس بھی اپنے طور پر سرگرم رہتی ہے اور کئی اہلکار اور پولیس افسران اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر مغویوں کو بازیاب کرانے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں ایسا ہی ایک واقعہ ضلع چکوال میں بھی ہوا، اڑھائی ماہ قبل تلہ گنگ کے علاقہ سکا گائوں میں اغوا ء کاروں نے علاقے کے رہائشی دو حقیقی بھائیوں کو اپنے ساتھ شامل کیا اور ان کی مدد سے ایک بڑے زمیندار کو دن دیہاڑے اغواء کر لیا موضع سکا کا یہ رہائشی دین ماہی ولد امیر خان اپنے خاندان کے ہمراہ خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا ،زمین داری کے ساتھ موٹر مکینک کا کام بھی کرتا تھا وقوعہ کے دن وہ اپنے بڑے بیٹے سعید احمد کے ساتھ اپنے کھیتوں میں ٹریکٹرسے ہل چلا رہا تھا کہ اس دوران اس کا قریبی دوست ساڑھے نو بجے صبح، جس کا نام بختیار الدین ولد صبحان خان سکنہ ملکوال تحصیل تلہ گنگ اس کے پاس آیا اور اسے کہا کہ اس کی موٹر خراب ہو گئی ہے۔
آپ اسے ٹھیک کر دیں دوست کی بات کیسے ٹال سکتا تھا اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تم ٹریکڑچلائو میں ابھی آتا ہوں وہ بختیار الدین کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار ہو کر اس کے ساتھ چل دیا جب وہ پل ڈھوک مساحب پہنچے تو پیچھے سے ایک سفید رنگ کی کار آکر رکی جس میں سعید خان ولد نور دین سکنہ چکڑالہ ، بلقیاس ولد محمد اقبال سکنہ چکڑالہ کلیم الدین ولد صبحان دین سکنہ ملکوال تلہ گنگ مسلح ہو کر باہر آئے اور اسے زبردستی کار میں ڈال کر اغواء کر کے نامعلوم مقام پر لے گئے بعد ازاںاس کے بھتیجے احمد الٰہی نے سعید خان کو 15,60,000 روپے تاوان دے کر چھڑایا، ملزمان نے دھمکی دی کہ کسی قسم کی کارروائی کی تو بچوں سمیت تمہیں پھر اغواء کرکے قتل کر دیں گے اس کارروائی کے بعد اغواء کاروں نے چکوال کے دولت مند افراد کو اغواء کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔
ملزمان نے اغواء برائے تاوان کی دوسری واردات 26 ستمبر کو کی،جس میں معروف تاجر ملک عبدالجلیل اور اس کے کنٹرول شیڈ کی تعمیر کرنے والے انجینئر حافظ کاشف کو اس وقت اغواء کر لیا گیا جب وہ کنٹرول شیڈ مرید سے کام ختم کر کے اپنے گھر تلہ گنگ کار میں سوار ہو کر جا رہے تھے اغواکاروں نے دونوں افراد کو گن پوائنٹ پر اپنی سفید رنگ کی کار نمبر 2563 نوشہرہ میں بٹھا لیا اور ایک ملزم ان کی کار میں سوار ہو گیا دونوں افراد کے اغوا ء ہونے پر ضلعی پولیس کو الرٹ کر دیا گیا لیکن اغواء کار خفیہ مقام پر پہنچ چکے تھے۔
اطلاع ملتے ہی ڈی پی او چکوال محمد کاشف مشتاق کانجو نے فور ی طور پر ضلع کی ناکہ بندی کروا کر ملزمان کی گرفتاری کے لیے ڈی ایس پی صدر سرکل چکوال چوہدری عبدالسلیم اور ایس ایچ او صدر چو ہدری اثر علی اور سپیشل انویسٹی گیشن سیل چکوال کے انچارج سید اعجاز عباس اور ایلیٹ فورس کو ٹاسک دیا کہ دونوں اغواء ہونے والے افراد کو زندہ برآمد کیا جائے پولیس کو خواہ اس کے لیے کوئی بھی قربانی دینی پڑے لیکن دوسری جانب اغوا ء کاروں کو جب یقین ہو گیا کہ وہ پولیس کی پہنچ سے باہر ہوچکے ہیں تو انہوں نے دوسرے دن ملک عبدالجلیل کے ساتھی حافظ کاشف کو اس پر چھوڑ دیا کہ وہ انکی ڈیمانڈ جو دو کروڑ روپے ہے اس کا بندوبست کرے۔
اغواء کاروں نے ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر تاوان کی رقم ادا نہ ہوئی تو وہ ملک عبدالجلیل کو قتل کر دیں گے حافظ کاشف نے رہائی ملتے ہی ڈی پی او چکوال سے ملاقات کر کے تمام صورتحال سے آگاہ کیا اور ملزمان کے حلیے اور خفیہ مقام سے بھی مطلع کر دیا ڈی پی او چکوال نے فوری طور پر تفتیشی ٹیم کو طلب کیا اور پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ فوری ریڈ کا حکم دیا۔ تفتیشی ٹیم نے ڈی پی او کی ہدایات کی روشنی میں تلہ گنگ کے خفیہ مقام پر اغواء کاروں کے ڈیرے کا محاصرہ کر لیا اس وقت ملزمان ملک جلیل کو مردان منتقل کرنے کی تیاری کر رہے تھے اس سے پہلے کہ اغواء کار کوئی مزاحمت کرتے۔
پولیس نے مغوی کو اپنی تحویل میں لے لیا اور چار اغوا ء کاروں جن میں سعید خان ولد زیور دین ، بختیارالدین ولد صبحان دین ، بلقیاس ولد محمد اقبال اور محمد اقبال شاہ سکناے مردان نوشہرہ کو گرفتار کر کے بھری مقدار میں ناجائز اسلحہ اور گاڑی نمبری 2563 نوشہرہ کو بھی قبضہ میں لے لیا، جس میں ملزمان اغوا کر کے لوگوں کو علاقہ غیر لے جاتے تھے دوران تفتیش ملزمان نے اپنے دیگر ساتھیوں کی بھی نشاندہی کی جو پولیس نے مزید تین ملزمان جن میں کلیم اللہ ولد صبحان الدین سکنہ نوشہرہ ، شہزاد اللہ بخش ولد نبی بخش ساکن کھائی ضلع چکوال اور عمیر عرف سمیع اللہ ولد صدرالدین ضلع خوشاب کو گرفتار کر لیا گیا ملزمان نے انکشاف کیا کہ وہ نہ صرف قتل کے مقدمات میں اشتہاری ہیں بلکہ انہوں نے اغواء برائے تاوان کی دس سے زائد وارداتوں میں لوگوں سے کروڑں روپے تاون بھی وصول کیا ہوا ہے۔
جبکہ گینگ کے تین ملزمان جن میں عبدالرحمن عرف بارو ولد محمد علی سکنہ لئلہ ضلع جہلم تلاوت عرف عبداللہ سکنہ مردان روح الاامین عرف اسماعیل سکنہ مردان کی گرفتار ی کے لیے پولیس پارٹیاں فوری طور پرروانہ کر دی گئی ہیں ملزمان نے مزید انکشاف کیا کہ ان کے ٹارگٹ پر چکوال کے مزید 13 دولت مند تاجر تھے جن کو اغوا ء کر کے تاوان وصول کرنا تھا جبکہ ملزمان نے یہ بھی انکشاف کیا کہ چکوال کے علاوہ راولپنڈی ،اٹک ، مردان گوجرخان ، مندرہ سے لوگوں کو اغواء کر کے تاوان وصول کر چکے ہیں جبکہ تین افراد کو اغوا ء کرنے کی کوشش ناکام ہونے پر ان کو پھر اغوا ء کرنا تھا ملزمان نے دوران تفتیش بتایا کہ انہوں نے مردان کے ایک شو روم سے تین ہزار روپے روزانہ پر کار حاصل کر رکھی تھی جو اب صدر پولیس چکوال نے اغواء برائے تاوان مقدمہ میں قبضہ میں لے رکھی ہے۔
اس ضمن میں ڈی پی او چکوال محمد مشتاق کانجو نے بتایا کہ اگر اغوا ء برائے تاوان کے ملزمان کو بر وقت گرفتار نہ کیا جاتا تو لوگوں کے اغواء کا سلسلہ ختم نہ ہوتا۔ پولیس نے اغواء ہونے والے ملک عبدالجلیل کو بغیر کسی مزاحمت کے برآمد کر کے ملزمان کو گرفتار کیا اس پر وہ مبارک باد اور انعام کی مستحق ہے۔ تفتیشی ٹیم کو نقد انعامات کے ساتھ ساتھ خصوصی سرٹیفکیٹ بھی دیئے جانے چاہئیں۔ چکوال اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ یہاں ڈی پی او کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار افسروں کی ٹیم کام کر رہی ہے اور اگر یہ اغواء کار گرفتار نہ ہوتے تو نہ جانے چکوال سے کتنے افراد ان کا نشانہ بنتے۔ حکومت پنجاب کو بھی تفتیشی ٹیم کے لیے خصوصی انعامات اور ترقی دینے کا فوری حکم جاری کرنا چاہیے تا کہ پولیس مزید دل جمعی سے اپنے فرائض منصبی ادا کرسکے۔