اصغر خان کیس کا فیصلہ
اصغر خان کیس سے ہماری سیاست کی اصل خرابیاں پہلی بار مصدقہ طور پر منظرعام پر آئی ہیں۔
لاہور:
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جمعے کو اصغر خان کیس کی سماعت مکمل ہونے پر مختصر فیصلہ سنا دیا۔
اس فیصلے میں عدالت نے 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی اور سیاسی عمل کو آلودہ کرنے پر سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اسد درانی کے خلاف وفاقی حکومت کو قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ جن سیاست دانوں پر رقوم کی وصولی کا الزام ہے' ان کے بارے میں عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ان کے خلاف مکمل تحقیقات کے بغیر کوئی حکم نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم عدالت نے ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ وہ اس بارے میں تحقیقات کرے اور ثابت ہونے پر سیاست دانوں سے رقوم کو سود سمیت وصول کیا جائے۔ عدالت نے کہا ہے کہ سابق صدر غلام اسحاق نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایوان صدر میں الیکشن سیل قائم کر کے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔ ایوان صدر اور آئی ایس آئی میں اگر اس وقت کوئی سیاسی سیل ہے تو اسے فوری ختم کیا جائے۔ فوج سیاست میں حصہ نہیں لے سکتی۔
ادھر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اصغر خان کیس کے فیصلے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جن سیاست دانوں نے اسٹیبلشمنٹ سے پیسے لیے وہ قوم سے معافی مانگیں۔ تحقیقات کے بعد اصغر خان کیس میں ملوث افراد سے ایک ایک پائی وصول کی جائے گی اور ذمے داروں کو ہر صورت سزا ملے گی۔ انھوں نے واضح کیا کہ موجودہ دور میں ایوان صدر میں کوئی سیاسی سیل نہیں۔
پاکستان کی سیاست میں اصغر خان کیس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے ہماری سیاست کی اصل خرابیاں پہلی بار مصدقہ طور پر منظرعام پر آئی ہیں۔ پاکستان میں سیاست دانوں کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 1977ء میں بھٹو حکومت کے خلاف تشکیل پانے والے پاکستان قومی اتحاد کے بعض رہنماؤں کے بارے میں یہ باتیں گردش کرتی رہی ہیں کہ ان کے درپردہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطے تھے۔ اس دور کے چند سیاست دانوں نے اپنی یادداشتوں میں ان روابط کی جانب اشارہ بھی کیا ہے۔ جب بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر ضیاء الحق برسراقتدار آئے تو قومی اتحاد میں شامل جماعتوں کے بعض رہنما اس حکومت میں شامل بھی ہو گئے تھے' اس سے بھی ان شکوک کو تقویت ملی کہ اسٹیبلشمنٹ اور قومی اتحاد کے درمیان رابطہ موجود تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی یہی صورت حال سامنے آئی۔ بہرحال یہ سب محض قیاس آرائیاں ہی رہیں کیونکہ ہر سیاست دان اور سیاسی جماعت خود کو تمام الزامات سے بری الذمے قرار دیتا رہے۔ عوام کے پاس ان کی باتوں پر یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس تمہید کا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں مداخلت کر کے ایسی سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی سرپرستی کی' جن کا مقصد آئین و قانون کی حکمرانی قائم کرنا نہیں تھا' نہ ہی وہ عوام کی فلاح کے لیے کوئی نظریہ رکھتے تھے۔ ایسی سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کا مقصد اپنے اور اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ اور ایسے سیاست دانوں کے گٹھ جوڑ نے پاکستان میں ریاستی اداروں کو زوال کا شکار کیا۔
اوسط درجے ذہانت کی مالک شخصیات ''رہنماؤں'' کے درجے پر فائز ہو گئیں' ایسے علماء سیاست پر چھا گئے جن کا علمی کام کوئی نہیں تھا اور وہ جیّد عالم کے درجے پر بھی فائز نہیں تھے' اس صورت حال نے ملک میں سیاسی انارکی کو ہوا دی۔ انھی کی وجہ سے پاکستان کو پہلے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا گیا اور اب دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بنا دیا گیا۔ اصغر خان کیس میں تو صرف 1990ء کے الیکشن میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان' آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی چیف اسد درانی کا بعض سیاست دانوں کے ساتھ گٹھ جوڑ سامنے آیا ہے۔
اگر ضیاء الحق اور پرویز مشرف دور کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرائی جائے تو اور بھی بہت کچھ سامنے آ جائے گا۔ اصغر خان کیس نے عوام کے سامنے بہت سے حقائق بے نقاب کر دیے ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں جن شخصیات کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم دیا ہے' دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کیا کرتی ہے؟ پیسے وصول کرنے والے سیاست دانوں کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا' اس حوالے سے بھی عدالت عظمیٰ نے ایف آئی اے سے تحقیقات کرانے کا حکم دیا ہے۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے عزم ظاہر کیا ہے کہ حکومت آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائے گی اور حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں گے۔ ان کے یہ الفاظ حقیقت کا روپ کب دھاریں گے اس کا پتہ تو وقت آنے پر ہی چلے گا لیکن ابھی تک صورت حال یہ ہے کہ ہر سیاست دان اپنے آپ کو ہر قسم کی آلائش سے بری الذمے قرار دے رہا ہے۔ ایک حوالے سے یہ الزامات کی بوچھاڑ جاری ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جمعے کو اصغر خان کیس کی سماعت مکمل ہونے پر مختصر فیصلہ سنا دیا۔
اس فیصلے میں عدالت نے 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی اور سیاسی عمل کو آلودہ کرنے پر سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اسد درانی کے خلاف وفاقی حکومت کو قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ جن سیاست دانوں پر رقوم کی وصولی کا الزام ہے' ان کے بارے میں عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ان کے خلاف مکمل تحقیقات کے بغیر کوئی حکم نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم عدالت نے ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ وہ اس بارے میں تحقیقات کرے اور ثابت ہونے پر سیاست دانوں سے رقوم کو سود سمیت وصول کیا جائے۔ عدالت نے کہا ہے کہ سابق صدر غلام اسحاق نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایوان صدر میں الیکشن سیل قائم کر کے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔ ایوان صدر اور آئی ایس آئی میں اگر اس وقت کوئی سیاسی سیل ہے تو اسے فوری ختم کیا جائے۔ فوج سیاست میں حصہ نہیں لے سکتی۔
ادھر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اصغر خان کیس کے فیصلے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جن سیاست دانوں نے اسٹیبلشمنٹ سے پیسے لیے وہ قوم سے معافی مانگیں۔ تحقیقات کے بعد اصغر خان کیس میں ملوث افراد سے ایک ایک پائی وصول کی جائے گی اور ذمے داروں کو ہر صورت سزا ملے گی۔ انھوں نے واضح کیا کہ موجودہ دور میں ایوان صدر میں کوئی سیاسی سیل نہیں۔
پاکستان کی سیاست میں اصغر خان کیس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے ہماری سیاست کی اصل خرابیاں پہلی بار مصدقہ طور پر منظرعام پر آئی ہیں۔ پاکستان میں سیاست دانوں کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 1977ء میں بھٹو حکومت کے خلاف تشکیل پانے والے پاکستان قومی اتحاد کے بعض رہنماؤں کے بارے میں یہ باتیں گردش کرتی رہی ہیں کہ ان کے درپردہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطے تھے۔ اس دور کے چند سیاست دانوں نے اپنی یادداشتوں میں ان روابط کی جانب اشارہ بھی کیا ہے۔ جب بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر ضیاء الحق برسراقتدار آئے تو قومی اتحاد میں شامل جماعتوں کے بعض رہنما اس حکومت میں شامل بھی ہو گئے تھے' اس سے بھی ان شکوک کو تقویت ملی کہ اسٹیبلشمنٹ اور قومی اتحاد کے درمیان رابطہ موجود تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی یہی صورت حال سامنے آئی۔ بہرحال یہ سب محض قیاس آرائیاں ہی رہیں کیونکہ ہر سیاست دان اور سیاسی جماعت خود کو تمام الزامات سے بری الذمے قرار دیتا رہے۔ عوام کے پاس ان کی باتوں پر یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس تمہید کا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں مداخلت کر کے ایسی سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی سرپرستی کی' جن کا مقصد آئین و قانون کی حکمرانی قائم کرنا نہیں تھا' نہ ہی وہ عوام کی فلاح کے لیے کوئی نظریہ رکھتے تھے۔ ایسی سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کا مقصد اپنے اور اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ اور ایسے سیاست دانوں کے گٹھ جوڑ نے پاکستان میں ریاستی اداروں کو زوال کا شکار کیا۔
اوسط درجے ذہانت کی مالک شخصیات ''رہنماؤں'' کے درجے پر فائز ہو گئیں' ایسے علماء سیاست پر چھا گئے جن کا علمی کام کوئی نہیں تھا اور وہ جیّد عالم کے درجے پر بھی فائز نہیں تھے' اس صورت حال نے ملک میں سیاسی انارکی کو ہوا دی۔ انھی کی وجہ سے پاکستان کو پہلے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا گیا اور اب دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بنا دیا گیا۔ اصغر خان کیس میں تو صرف 1990ء کے الیکشن میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان' آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی چیف اسد درانی کا بعض سیاست دانوں کے ساتھ گٹھ جوڑ سامنے آیا ہے۔
اگر ضیاء الحق اور پرویز مشرف دور کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرائی جائے تو اور بھی بہت کچھ سامنے آ جائے گا۔ اصغر خان کیس نے عوام کے سامنے بہت سے حقائق بے نقاب کر دیے ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں جن شخصیات کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم دیا ہے' دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کیا کرتی ہے؟ پیسے وصول کرنے والے سیاست دانوں کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا' اس حوالے سے بھی عدالت عظمیٰ نے ایف آئی اے سے تحقیقات کرانے کا حکم دیا ہے۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے عزم ظاہر کیا ہے کہ حکومت آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائے گی اور حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں گے۔ ان کے یہ الفاظ حقیقت کا روپ کب دھاریں گے اس کا پتہ تو وقت آنے پر ہی چلے گا لیکن ابھی تک صورت حال یہ ہے کہ ہر سیاست دان اپنے آپ کو ہر قسم کی آلائش سے بری الذمے قرار دے رہا ہے۔ ایک حوالے سے یہ الزامات کی بوچھاڑ جاری ہے۔