کب ڈوبے گا بھتہ خوری کا سفینہ
امن کے لیے حکومت پر بھروسہ نہیں کیاجاسکتا۔
منی پاکستان میں بدامنی بدستور اپنا خراج لے رہی ہے ۔ ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری اور اسٹریٹ کرائمزکے سدباب کے لیے فوری کریک ڈائون یا موثر اقدامات کا قطعی فقدان نظر آتا ہے۔
اس وقت کراچی سمیت پورے ملک میں قانون کی حکمرانی بے رحم عناصر کی طرف سے مسلسل چیلنج کی جارہی ہے،ہلاکتوں کا گراف بڑھتا جارہا ہے ، خدا نہ کرے سنجیدہ حلقے اسے افغانستان کے لرزہ خیز کھیل 'بز کشی' سے تعبیر کریں جس میں بکرے کو ہلاک کرنا کمال سمجھا جاتا ہے ۔جمعے کومنی پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ میں مذہبی و سیاسی کارکنوں سمیت 9 افراد ہلاک کیے گئے جب کہ گزشتہ 6 ماہ میں لاتعداد شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے جس کے باعث تفرقہ بازی، فرقہ وارانہ کشیدگی ، بھتہ خوری کے نام پر منی پاکستان کے مختلف ٹائونز میں یک طرفہ سیاسی بالادستی اور علاقوں پر کنٹرول کی جنگ شدت اختیار کرچکی ہے، مسلح بھتہ خورگروہ اور ٹارگٹ کلرز جن کو تاجر برادری نے سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ کہا ہے در اصل بدامنی کا محور بن گئے ہیں ۔
تاجراور شہری ان کی چیرہ دستی کا شکار ہیں۔ چنانچہ اس اندوہ ناک صورتحال کو روکنے کے لیے تاجروں کی ملک گیر انجمن وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت(ایف پی سی سی آئی) نے جمعے کوایک اہم اجلاس میں کہا کہ کراچی کے حالات کی خرابی اورقتل وغارت میں حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے مسلح ونگ ملوث ہیں،سول انتظامیہ اورحکومت شہرمیں امن قائم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے، پاک فوج شہریوں کو جان ومال کا تحفظ فراہم کرنے کے لیے آئینی کردار ادا کرے، حالات بہتر نہ ہوئے تو 8نومبر کو کراچی میں ہڑتال کی جائے گی ،تاجروںنے اپیل کی کہ آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی حالات کی سنگینی کاادراک کرتے ہوئے کراچی آکر تاجروں اورصنعتکاروں سے ملاقات کریں،جس طرح گزشتہ اگست میں انھوں نے تاجروں کی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے احکامات جاری کیے تھے، جس کے نتیجے میں امن و امان کی صورتحال میں وقتی بہتری آئی تھی۔
تاجروں اورصنعتکاروں کا کہنا ہے کہ انھیں بھتے کی دھمکیاں ملنا معمول بن چکا،اس وقت بھی10سے 12تاجراغوا ہیں ،سڑکوں سے تیارمصنوعات اور خام مال سے لدے ٹرک چھینے جارہے ہیں۔اس لیے وزیر اعظم اپنی کابینہ کے ساتھ کراچی میں اس وقت تک قیام کریں جب تک حالات بہترنہ ہوجائیں، لائسنس شدہ اسلحہ کے لیے دفعہ 144کی پابندی ختم کی جائے ۔ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدرشیخ ہارون رشید نے کہاکہ امن و امان کی مخدوش صورتحال کے سبب معیشت کے ساتھ شہریوں کی زندگیاں بھی خطرات سے دوچارہیں۔
امن کے لیے حکومت پر بھروسہ نہیں کیاجاسکتا۔ ادھرجماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ کراچی میں دہشت گردی امریکا کے گریٹ گیم کا حصہ ہے پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے کے لیے کراچی وبلوچستان میں دہشت گردی کی جارہی ہے جب کہ شہر میں اصل ٹارگٹ تاجر اورصنعتکار ہیں ۔ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق بھتہ خوروں کے خوف سے منی پاکستان کے قدیم تجارتی علاقہ اولڈ سٹی ایریا کے مکینوں نے قربانی کا ارادہ ترک کیا ہے۔ بلاشبہ تاجروں کی صورتحال سے مایوسی اور شہریوں میں خوف وہراس بلاشبہ تشویش ناک ہے تاہم یہ ادراک حقیقت بھی خوش آیند ہے کہ تاجر برادری اور کاروباری طبقہ کو پہلی بار یہ اندازہ ہوگیا کہ جن تنظیموں، سیاسی اور مذہبی عناصر کو وہ ملکی سطح پر بے نیازی سے چندہ اورعطیات دیتے رہے وہی بادی النظر میںانتہا پسندی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے بوتل سے باہر نکلے جن بن کر وطن عزیز پر نازل ہوچکے ہیں۔ اب ضرورت ان سے جرات مندی کے ساتھ نمٹنے کی ہے۔
اس وقت کراچی سمیت پورے ملک میں قانون کی حکمرانی بے رحم عناصر کی طرف سے مسلسل چیلنج کی جارہی ہے،ہلاکتوں کا گراف بڑھتا جارہا ہے ، خدا نہ کرے سنجیدہ حلقے اسے افغانستان کے لرزہ خیز کھیل 'بز کشی' سے تعبیر کریں جس میں بکرے کو ہلاک کرنا کمال سمجھا جاتا ہے ۔جمعے کومنی پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ میں مذہبی و سیاسی کارکنوں سمیت 9 افراد ہلاک کیے گئے جب کہ گزشتہ 6 ماہ میں لاتعداد شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے جس کے باعث تفرقہ بازی، فرقہ وارانہ کشیدگی ، بھتہ خوری کے نام پر منی پاکستان کے مختلف ٹائونز میں یک طرفہ سیاسی بالادستی اور علاقوں پر کنٹرول کی جنگ شدت اختیار کرچکی ہے، مسلح بھتہ خورگروہ اور ٹارگٹ کلرز جن کو تاجر برادری نے سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ کہا ہے در اصل بدامنی کا محور بن گئے ہیں ۔
تاجراور شہری ان کی چیرہ دستی کا شکار ہیں۔ چنانچہ اس اندوہ ناک صورتحال کو روکنے کے لیے تاجروں کی ملک گیر انجمن وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت(ایف پی سی سی آئی) نے جمعے کوایک اہم اجلاس میں کہا کہ کراچی کے حالات کی خرابی اورقتل وغارت میں حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے مسلح ونگ ملوث ہیں،سول انتظامیہ اورحکومت شہرمیں امن قائم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے، پاک فوج شہریوں کو جان ومال کا تحفظ فراہم کرنے کے لیے آئینی کردار ادا کرے، حالات بہتر نہ ہوئے تو 8نومبر کو کراچی میں ہڑتال کی جائے گی ،تاجروںنے اپیل کی کہ آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی حالات کی سنگینی کاادراک کرتے ہوئے کراچی آکر تاجروں اورصنعتکاروں سے ملاقات کریں،جس طرح گزشتہ اگست میں انھوں نے تاجروں کی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے احکامات جاری کیے تھے، جس کے نتیجے میں امن و امان کی صورتحال میں وقتی بہتری آئی تھی۔
تاجروں اورصنعتکاروں کا کہنا ہے کہ انھیں بھتے کی دھمکیاں ملنا معمول بن چکا،اس وقت بھی10سے 12تاجراغوا ہیں ،سڑکوں سے تیارمصنوعات اور خام مال سے لدے ٹرک چھینے جارہے ہیں۔اس لیے وزیر اعظم اپنی کابینہ کے ساتھ کراچی میں اس وقت تک قیام کریں جب تک حالات بہترنہ ہوجائیں، لائسنس شدہ اسلحہ کے لیے دفعہ 144کی پابندی ختم کی جائے ۔ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدرشیخ ہارون رشید نے کہاکہ امن و امان کی مخدوش صورتحال کے سبب معیشت کے ساتھ شہریوں کی زندگیاں بھی خطرات سے دوچارہیں۔
امن کے لیے حکومت پر بھروسہ نہیں کیاجاسکتا۔ ادھرجماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ کراچی میں دہشت گردی امریکا کے گریٹ گیم کا حصہ ہے پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے کے لیے کراچی وبلوچستان میں دہشت گردی کی جارہی ہے جب کہ شہر میں اصل ٹارگٹ تاجر اورصنعتکار ہیں ۔ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق بھتہ خوروں کے خوف سے منی پاکستان کے قدیم تجارتی علاقہ اولڈ سٹی ایریا کے مکینوں نے قربانی کا ارادہ ترک کیا ہے۔ بلاشبہ تاجروں کی صورتحال سے مایوسی اور شہریوں میں خوف وہراس بلاشبہ تشویش ناک ہے تاہم یہ ادراک حقیقت بھی خوش آیند ہے کہ تاجر برادری اور کاروباری طبقہ کو پہلی بار یہ اندازہ ہوگیا کہ جن تنظیموں، سیاسی اور مذہبی عناصر کو وہ ملکی سطح پر بے نیازی سے چندہ اورعطیات دیتے رہے وہی بادی النظر میںانتہا پسندی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے بوتل سے باہر نکلے جن بن کر وطن عزیز پر نازل ہوچکے ہیں۔ اب ضرورت ان سے جرات مندی کے ساتھ نمٹنے کی ہے۔