آزادیٔ موہوم

جنگ عظیم کے دوران وسطی لندن میں فیلڈ مارشل کا گھر بری طرح تباہ ہوگیا تھا

muqtidakhan@hotmail.com

KARACHI:
پہلے ایک واقعہ ۔ فیلڈ مارشل برنارڈ منٹگمری برطانیہ کا مایہ نازجرنیل تھا جس نے دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی کے جرنیل رومیل کو شمالی افریقہ کے صحارا میں شکست سے دور چار کیا۔ جنرل رومیل کی صحرائی جنگ میں مہارت کی وجہ سے اسے صحرا کی لومڑی(Desert Fox)کے نام سے یادکیا جاتا تھا۔ جنرل منٹگمری کو اسی کامیابی کے صلے میں فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔

جنگ عظیم کے دوران وسطی لندن میں فیلڈ مارشل کا گھر بری طرح تباہ ہوگیا تھا۔ برطانیہ میں بادشاہ(یا ملکہ) کا ایک خصوصی فنڈ ہوتا ہے، جو ہر سال اہم کارہائے نمایاں سرانجام دینے والی کسی برطانوی شخصیت کو دیا جاتا ہے۔ فیلڈ مارشل نے بادشاہ کو خط لکھا، جس میں حکومت برطانیہ کے لیے اپنی خدمات گنوانے کے بعد اس نے بادشاہ سے درخواست کی کہ وہ خصوصی فنڈ اسے دیا جائے، تاکہ وہ اپنا گھر دوبارہ تعمیر کرسکے۔

بادشاہ کے سیکریٹری نے جوابی خط میں لکھا کہ جن خدمات کا فیلڈ مارشل نے تذکرہ کیا ہے، وہ ان کی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کا حصہ ہیں لیکن ان کی ہر شاندار خدمت کے صلے میں انھیں اگلے عہدے پر امتیازات کے ساتھ ترقی دی گئی اور تمغوں سے نوازا گیا۔ اس لیے بادشاہ کے صوابدیدی فنڈ پر ان کا کوئی حق نہیں بنتا۔ اس سال وہ فنڈ لوئی پاسچر کو دیا گیا جس نے کتے کے کاٹے کا انجکشن ایجاد کیا تھا۔

اس عمل سے برطانوی حکمرانوں کی سیاسی اور انتظامی بصیرت اور دور اندیشی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر تیسرے درجے کا کوئی پسماندہ ملک ہوتا جہاں جرنیلوں کو سرپر بٹھانے کا رواج ہے، تو نہ صرف یہ صوابدیدی فنڈ اس جرنیل کو بخش دیا جاتا، بلکہ کئی ہزار ایکڑ زمین بھی بطور نذرانہ پیش کردی جاتی ، خواہ اس نے کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہو یا نہیں۔

برطانیہ میں مستحکم جمہوریت اور قانون کی بالادستی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ1215 میں میگناکارٹا پر شاہ جان کے دستخطوں کے بعد سیاسی عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ ان 8سو برسوں کے دوران وہاں ریاستی اداروں کی تشکیل اور استحکام پر خصوصی توجہ دی گئی جس کی وجہ سے ہر ریاستی ادارہ آئین میں متعین کردہ اختیارات سے تجاوز کرنے کا تصور تک نہیں کرسکتا۔

یہی طرز حکمرانی اس نے اپنی نوآبادیات میں متعارف کرائیں۔ دیگر یورپی ممالک کی نوآبادیات کے برعکس برطانوی نوآبادیات میں نظم حکمرانی کا ایک پورا ڈھانچہ ترتیب دیا گیا تھا۔1858میں تاج برطانیہ کے مکمل قبضے کے فوراً بعد ہندوستان کے لیے قانون سازی اور اداروں کی تشکیل کا کام شروع کیا گیا۔ ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں برصغیر کے پورے سیاسی و انتظامی ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کردیا گیا۔ یہی سبب ہے کہ جب برطانیہ اپنی نوآبادیات سے گیا، تو ہر آزاد ہونے والے ملک کے ہر شعبے کے لیے قوانین کے سیٹ کے علاوہ ایک مربوط انتظامی ڈھانچہ موجود تھا۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ جس خطے پر یہ قائم ہے، وہ ہزاروں برس سے حملہ آوروں کی گذر گاہ رہا ہے۔ اکادکا گروہی مزاحمت یا پھر کشمیری نژاد راجہ پورس کی سکندر کے ساتھ جنگ کے علاوہ تاریخ کے کسی بھی دور میں حملہ آوروں کے خلاف کوئی منظم مزاحمت نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے عوام و خواص دونوں کے مزاج میں طاقتور کے آگے جھکنے اور کمزور کو دبانے کا رجحان عام ہوا۔ دوسرا المیہ یہ ہوا کہ مغلوں کے دور ہی سے اس علاقے کو طاقتور جاگیرداروں اور پشتینی پیروں کی مضبوط گرفت میں دیدیا گیا تھا۔ جنہوں نے اپنے تابع رکھنے کی خواہش میں عوام کو علم و آگہی سے دور رکھا۔ انگریز نے مغلوں کی اس پالیسی کو جاری رکھا۔

یوں اس خطے میں قبائلیت اور جاگیردارا نہ کلچر کی جڑیں خاصی گہری ہوتی چلی گئیں جس کے اثرات آج بھی قائم ہیں اورجا بجا نظر آتے ہیں۔ ایک ترک پروفیسر نے ترکوں اور اس خطے کے عوام کا موازنہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترکی چونکہ ایک دن بھی کسی دوسرے ملک یا قوم کا غلام نہیں رہا، اس لیے ترکوں کے مزاج میں تلون تلاش کرنا خاصا مشکل ہے جب کہ آپ کا معاشرہ صدیوں سے حملہ آوروں کے پاؤں کی دھول رہا ہے۔ پھر آپ نے کئی صدیوں تک اغیار کی غلامی بھگتی ہے۔ لہٰذا عوام کےGenesمیں طاقتور کے آگے سر تسلیم خم کرنے اورکمزور پر چڑھ دوڑنے کی نفسیات نے گھر کرلیا ہے۔ لیکن بلوچستان اس نوعیت کے حالات سے دوچار نہیں ہوا،اس لیے بلوچستان کے عوام کے اجتماعی مزاج میں ترکوں کی طرح انکساری ضرور پائی جاتی ہے، لیکن خوشامد نہیں۔

لہٰذا جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو انگریز کے قائم کردہ دو انتہائی منظم ادارے یعنی سول بیوروکریسی اور فوج وراثت میں ملے جب کہ خطے میں موجود سیاسی قیادتیں قبائلی اور جاگیردارانہ پس منظر کے باعث جمہوری مزاج سے ناآشنا تھیں، بلکہ آج تک ہیں۔ بنگال ایک ہزار میل کی مسافت پر تھا اور ثقافتی طور پر جداگانہ حیثیت کا حامل تھا۔


جب کہ ہجرت کر کے آنے والا مڈل کلاس سیاسی کیڈر اتنا طاقتور نہیں تھا کہ جمہوری ادارے قائم کرسکتا۔ یوں جلد ہی سول ملٹری بیوروکریسی اور مقامی فیوڈل سیاستدانوں کا گٹھ جوڑ (Nexus) قائم ہوگیا۔ جس نے بنگالی اور ہجرت کرکے آنے والے مڈل کلاس سیاسی کیڈر کو کنارے لگا دیا۔ سجاد ظہیرسمیت کئی رہنما اور دانشور بھارت واپس چلے گئے۔ بنگالیوں نے23 برس تک اس گٹھ جوڑ کا مقابلہ کیا۔ آج وہاں تمامتر کمزوریوں کے باوجود ایک سیکولر جمہوری آئین موجود ہے۔ ریاستی انتظامی ڈھانچہ جدید خطوط پر استوار ہو رہا ہے۔ معیشت مستحکم ہورہی ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد باقی ماندہ پاکستان پر فیوڈل سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ کی گرفت مزید مضبوط ہوگئی۔1948سے جو تیز رفتار صنعتی عمل شروع ہوا تھا جس کی وجہ سے ایک نئی پیداواری مڈل کلاس کے پیدا ہونے کا امکان ابھر رہا تھا۔ 1972میں صنعتوں کے قومیائے جانے کی پالیسی کے باعث اس کا راستہ رک گیا۔ نتیجتاً قبائلیت اور جاگیردارانہ کلچرکی جڑیں مزید گہری ہوگئیں۔ حقیقی مڈل کلاس کلچر پروان نہ چڑھنے کی وجہ سے ہر ریاستی ادارہ جسے ذرا سا بھی اختیار مل جائے، شتر بے مہار بن جاتا ہے اور قانون سے تجاوزاور ماورائے آئین اقدامات کو اپنی طاقت کے اظہار کا ذریعہ سمجھتا ہے ۔

اس روش اور رویے نے آئین و قانون کے احترام اور پاسداری کے تصورکو ملیامیٹ کردیا ہے۔ پھر اقتدار و اختیارات کی مرکزیت قائم کرنے کی جاگیردارانہ سوچ نے وفاقیت کے تصور کو نقصان پہنچایا ہے جس کی وجہ سے وفاقی یونٹوں کے عوام کے اندر مرکز گریز رجحانات پیدا ہوئے۔ چھوٹے صوبوں کے عوام کے ذہنوں میں یہ تصور جاگزیںہو چکاہے کہ اسلام آباد میں بیٹھی حکومت اور ریاستی اداروں کے ذمے داران اور منصوبہ سازوں کا تعلق چونکہ بڑے صوبے سے ہے، اس لیے وہ چھوٹے صوبوں اور ان کے عوام کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔

آج سندھ سے وفاقی حکومت اور اس کے اداروں کے خلاف جو آوازیں اٹھا رہی ہیں، وہ بے معنی نہیں ہیں۔ بلوچستان میں ہر چند برس بعد ابھرنے والا ابال بھی بے سبب نہیں ہے۔ پختون عوام بھی اکثر و بیشتر صدائے احتجاج بلند کرتے رہتے ہیں۔ اب اسٹبلشمنٹ کی دیرینہ حلیف اردو بولنے والی کمیونٹی بھی احتجاج پر اتر آئی ہے، تو بلاوجہ نہیں ہے۔

مختلف قومیتوں اور لسانی اکائیوں کا احتجاج اپنے اندر وزن رکھتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے جب بھی مسلم لیگ ن کو حکمرانی کا موقع ملتا ہے، تو دیگر صوبوں میں آباد لسانی اکائیوں کی شکایات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس دور میں بظاہر منتخب حکومت ہوتی ہے، مگر جمہوریت کا تصور موہوم ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کے استحصال کے لیے وفاقی حکومت اور ریاستی اداروں میں یگانگت پیدا ہوجاتی ہے۔

اب دوسری طرف آئیے۔ 2002سے نجی شعبے میں متعارف ہونے والے الیکٹرونک میڈیا کے کردار کے جائزہ سے تو کئی تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے آزادی صحافت کے لیے نصف صدی پر محیط طویل جدوجہد کی تھی، اسے الیکٹرونک میڈیا نے اپنی غلط حرکتوں سے ملیامیٹ کردیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ریاستی منصوبہ سازوں نے نجی شعبے میں الیکٹرونک میڈیا کی نشریات کی اجازت دیتے وقت ایسے عناصر اس میں گھسا دیے، جن کا مقصد عوام تک اطلاعات و معلومات کی صحیح اور بروقت رسائی کے بجائے گوئبلزطرز کا پروپیگنڈا کرنا ہے۔ عدلیہ بحالی تحریک کے ابتدائی ایام میں یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی تھی کہ میڈیا مستعد اور فعال ہوکر آزادی اظہار کا موثر ذریعہ بن گیا ہے۔ جلد ہی یہ سحر ٹوٹ گیا اور واضح ہوگیا کہ اس کا مقصد نادیدہ قوتوں کے ایجنڈے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔

نظام عدل اور انتظامی ڈھانچے میں پائی جانے والی کمزوریاں اور ذرایع ابلاغ کی غیر ذمے دارانہ صحافتی کارکردگی اس بات کی غماز ہے کہ پاکستانی معاشرہ جدید طرز حکمرانی کے آداب سے بے بہرہ ہے۔

ایک ایسا معاشرہ جو اپنی سرشت میں قبائلی اور جاگیردارانہ تنگ نظری کا شکار ہو، اس سے فکری تکثریت، آزادی اظہار اور آزادی صحافت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں بندوق کی نال پر اقلیتوں کے حقوق سلب کیے جاتے ہوں۔ عورتوں کو عزت کے نام پر سفاکی کے ساتھ قتل کیاجاتا ہو جو دوسروں کے عقائد، ان کے قومیتی تشخص اور لسانی حیثیت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہو۔ کسی بھی طور جمہوری کہلانے کا حق دار نہیں ہے۔ لہٰذا پاکستان میں فی الوقت جمہوریت اور آزادیِ اظہار کا تصور موہوم ہے۔
Load Next Story