بابائے بلوچستان کی سیاسی بصیرت

بلوچستان میں کئی زبانیں رائج ہیں اور ہر زبان کی اپنی توقیر اور ثقافت ہے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ذوالفقار علی بھٹو کے ٹیلنٹڈ کزن ممتاز بھٹو کے ایک غیر دانشمندانہ اقدام سے کراچی میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا، گوشے گوشے سے ''اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے'' کی فغاں ایک تحریک کی شکل میں ابھر رہی تھی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب بابائے بلوچستان غوث بخش بزنجو بلوچستان کے حاکم اعلیٰ تھے اور میں محکمہ تعمیرات میں سیکشن آفیسر ٹیکنیکل کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔ ایک دن میں ڈیوٹی کے بعد اپنے گھر پہنچا ہی تھا کہ دفتر سے پیغامبر آ گیا اور اس نے مجھے ڈپٹی سیکریٹری کا پیغام دیا کہ آج چھ بجے شام دفتر میں ایک اہم میٹنگ ہے آپ کا آنا اشد ضروری ہے۔

میں شام چھ بجے جب ڈپٹی سیکریٹری کے دفتر گیا تو مجھے بلوچستان سرکار کا ایک حکم ملا کہ کل سے بلوچستان کی سرکاری زبان اردو ہے اور تمام محکمہ تعمیرات کے ذیلی دفتروں کو آج ہی اطلاع دی جائے کہ کل سے سرکاری مراسلات کا اردو زبان میں نفاذ ہر صورت میں عمل پذیر ہو۔ یہ فرمان کسی اور کا نہیں بلکہ بلوچستان کے حاکم اعلیٰ میر غوث بخش بزنجو کا تھا۔ میرے لیے مشکل یہ تھی کہ بلوچستان تعمیرات کے ذیلی دفاتر اتنے دور دراز علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے کہ ایک ہی وقت میں سب کو اتنا اہم آرڈر ارسال کرنا بظاہر ممکن نظر نہیں آ رہا تھا۔ ایسے وقت انسان کا ذہن کچھ زیادہ ہی تیز کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔

میں نے کوئٹہ کے ایکسین کو فون کیا کہ آپ ابھی اپنی گاڑی میں نکلیں اور نہ صرف اپنے ماتحت عملے کو بلکہ دوسرے ایکسین کے عملے کو بھی یہ سرکاری پیغام پہنچا دیں اس کے علاوہ میں نے ایک مضمون اسٹیٹ ٹیلی گرام کا بنایا اور خود پوسٹ آفس جا کر اور آپریٹر کے ساتھ بیٹھ کر پورے بلوچستان کے تمام ایکسین اور اسسٹنٹ انجینئرز کو فرداً فرداً یہ تار ارسال کیا۔ ساتھ ہی ہر ڈسٹرکٹ کے ڈپٹی کمشنر حضرات سے سرکاری تار کے ذریعے یہ درخواست کی کہ آپ محکمہ تعمیرات کے تمام افسران اور ماتحت عملے کو پابند کریں کہ کل سے ہر حال میں سرکاری مراسلات اردو میں کی جائے گی۔

ظاہر ہے یہ پیغام دوسرے محکموں کو بھی ملا ہو گا یہ فرض پورا کر کے جب گھر پہنچا تو میں مطمئن تھا۔ میں نے اپنا کام پورے خلوص سے کیا تھا اور مجھے امید تھی کہ کل صبح کا دن یقینا تاریخی دن ہو گا جب بلوچستان صوبے کے سر پر اردو کا تاج سجا ہو گا۔دوسرے دن صبح بلوچستان کے طول و عرض میں تمام وزارتوں کے محکموں میں اردو کا نفاذ طلسماتی طور پر ہو چکا تھا۔ کسی طرف سے بھی منفی ردعمل سامنے نہیں آیا اور مجھے ایسا لگا جیسے بلوچستان کے لوگ پہلے ہی سے اردو کے شیدائی ہیں۔ بابائے بلوچستان غوث بخش بزنجو کے اس حکم کی جس طرح پذیرائی ہوئی اور جس طرح ہر شخص نے اسے لبیک کہا۔ وہ غوث بخش بزنجو کی کرشماتی شخصیت کا نتیجہ تھا اور اس بات کا ثبوت کہ بلوچستان کے عوام کے دلوں میں ان کی کتنی عزت اور محبت ہے۔

اور ہر دلعزیز سیاستداں کے حکم پر کس طرح لوگ سر تسلیم خم کر دیتے ہیں۔کراچی کے لسانی فسادات کے پیش نظر جب میں نے بابائے بلوچستان غوث بخش بزنجو کے اس طرح یکایک فیصلے پر اپنے طور پر تجزیہ کیا اور جب نتیجے پر پہنچا تو بزنجو صاحب کے سیاسی اور انتظامی بصیرت پر عش عش کر بیٹھا۔ ان کے نزدیک اگر لسانی تضاد کا شکار بلوچستان بھی ہو گیا تو اس علاقے کا بھائی چارہ اور امن خاک میں مل جائے گا۔


بلوچستان میں کئی زبانیں رائج ہیں اور ہر زبان کی اپنی توقیر اور ثقافت ہے۔ یہاں بلوچی، پشتو، ہزارگی، بروہی، فارسی اور اردو سال ہا سال سے رائج ہے اور ہر زبان کا بولنے والا دوسرے کی زبان کا دل سے احترام کرتا ہے۔ ریاست قلات کی سرکاری زبان عرصہ دراز سے اردو رہی ہے حتیٰ کہ ریاست قلات کا آئین بھی اردو میں تحریر ہے جسے ''دستور العمل'' کہتے ہیں۔بلوچستان میں ہر زبان کے بولنے والے کو جب اردو میں بات چیت کرتے دیکھتا تو حیران ہوتا تھا کہ اتنی سلیس اور شگفتہ اردو یہ پشتون، بلوچ، بروہی اور ہزارہ لوگ کس طرح بولتے ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہ ہو تو ٹی وی ٹاک میں حاصل بلوچ، محمود خان اچکزئی اور اختر مینگل کی گفتگو سن لیں تو آپ خود قائل ہو جائیں گے۔

حاصل بزنجو غوث بخش کے صاحبزادے ہیں۔بلوچستان میں جیسے ہی اردو انگریزی کی متبادل ہوئی تمام سرکاری ملازمین کو ڈرافٹ اور سمری لکھنے میں آسانی ہوگئی، اب وہ بہتر طور پر سادہ اور آسان زبان میں اردو ڈرافٹ لکھتے ہوئے خوشی محسوس کرتے تھے۔ اسی دوران مرکزی حکومت کی طرف سے کتابیں ملیں جس میں انگریزی لفظ کے اردو ترجمے لکھے ہوئے تھے جو اصطلاحات انگریزی ڈرافٹ میں پہلے استعمال کیے جاتے تھے۔

یعنی انجینئر کو مہندس اور چیف انجینئر کو مہندس اعلیٰ لکھنے کی ہدایت درج تھیں میرے خیال میں اس قسم کے الفاظ اردو کی ترویج میں رکاوٹ بنیں گے۔ لہٰذا میں پہلے جیسے مانوس الفاظ جیسے اوورسیز ایس ڈی او، ایگزیکٹو انجینئر اور چیف انجینئر ہی اردو ڈرافٹ میں استعمال کرتا رہا اور اپنے ماتحت عملے کو بھی اس پر عمل کرنے کے لیے کہا۔یہ سلسلہ کافی عرصے تک نافذالعمل رہا۔ لیکن جب کالے انگریز CSP افسران کی شکل میں بلوچستان میں آئے جو انگریزی زبان کے شیدائی تھے تو آہستہ آہستہ اردو کی جگہ ایک بار پھر انگریزی قدم جمانے لگی۔ لیکن میں اپنے طور پر اردو میں ہی مراسلت کرتا رہا۔ بحیثیت ڈائریکٹر جنرل کوئٹہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں نے اردو کا تسلسل قائم رکھا۔ تمام فائلوں میں نوٹ اردو میں لکھے جاتے رہے۔

چونکہ وزیر اعلیٰ کو سمری انگریزی میں لکھی جانے لگی تھی اور جو چیف سیکریٹری کے توسط سے اوپر جاتی تھی تو اس کا اہتمام میں نے اس طرح کیا کہ انگریزی سمری کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ بھی منسلک کر دیتا تھا۔ اور یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ میرے چیئرمین اور وزیر سیاسی لوگ تھے اور انگریزی سے نابلد تھے یہ عموماً اس بات کا سہارا لیتے کہ ہمیں انگریزی نہیں آتی جو افسر لکھتا ہے ہم اس پر دستخط کر دیتے ہیں لیکن اردو سمری کو یہ بڑی دلچسپی سے پڑھتے۔ ایک ایک لفظ پر غور کرتے اور مطمئن ہوکر دستخط کرتے تھے۔

غوث بخش بزنجو جیسے سیاستدان کا یہ فرمان آج بھی برقرار ہے اور جسے عمل پذیر ہوئے چالیس برس سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جب دل میں کسی کام کے کرنے کا مصمم ارادہ ہو تو وہ ہو ہی جاتا ہے۔ بزنجو صاحب نے نیک نیتی اور بلوچستان کے صوبے اور یہاں کے عوام کی فلاح کے لیے یہ قدم اٹھایا تو انھیں کامیابی مل ہی گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب سرکاری خط و کتابت بلوچستان میں اردو میں ہو رہی ہے یا انگریزی نے پوری طرح غلبہ پا لیا ہے۔

1973ء کے آئین کے تحت اردو کو 14 اگست 1988ء میں سرکاری محکموں میں انگریزی کی جگہ لے لینی چاہیے تھی لیکن کوئی بھی پاکستان کا سیاستداں میر بزنجو کی طرح یہ جسارت نہیں کر سکا۔اب جب کہ سپریم کورٹ اپنا حتمی فیصلہ دے چکی ہے اور آثار بھی اچھے نظر آ رہے ہیں مجھے ڈر ہے کہ بلوچستان کی طرح یہاں بھی کالے انگریز اردو زبان کے صاف اور شفاف چہرے پر نفرت کی سیاہی نہ مل دیں۔
Load Next Story