آئی جے آئی کا بھوت اور فوج کی بدنامی

مہران اسکینڈل نے بھی فوج کو ہی بدنام کیا ہے، جن لوگوں نے پیسے بٹورے، ان کا کسی نے کیا بگاڑا۔

ghalib@millat.com

میں عدالتی فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔

یہ توشروع سے ہی لوگوں کو پتہ ہے کہ جنرل اسلم بیگ کے دور میں سیاستدانوں اور صحافیوں میں پی پی پی کو پچھاڑنے کے لیے پیسے بانٹے گئے اور آئی ایس آئی کی مدد سے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا گیا۔کمپیوٹر نتائج یا انجینئر ڈ نتائج کا پردہ محترمہ بے نظیر نے فاش کیا تھا۔ تین عشروں سے اس دھاندلی کی باز گشت سننے میں آتی رہی اور دوسری طرف پیسہ لینے والے یا تو چپ رہے، یا انھوں نے تردید کر دی کیونکہ رشوت میں لیے ہوئے پیسے کا کوئی ثبوت تو مہیا کر نہیں سکتا، موجودہ عدالتی فیصلے کے بعد صورت حال جوں کی توں ہے اور بڑا سوال یہ ہے کہ بلی نہیں، بلکہ باگھڑ بلے کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ مگر میں اس موضوع پر آگے چل کر بات کروں گا۔

ان دنوں کسی نہ کسی بہانے فوج کو لتاڑنے اور رگیدنے کا سلسلہ جاری ہے۔میں کسی کی نیت پر شک نہیں کر سکتا۔ایئر مارشل اصغر خان پر تو ہر گز نہیں اور عدلیہ پر آئینی لحاظ سے نہیں کہ اس کا احترام لازم ہے مگر جو فضا بن رہی ہے اور جو ٹائمنگ ہے ، و ہ فو ج اور آئی ایس آئی اے کے حق میں نہیں جاتی۔ فوج کے خلاف غم و غصہ ماضی کے مارشل لائوں کی وجہ سے ہے،جس کی حکومت، فوج کے ہاتھوں معزول ہوئی ، اس نے ہمیشہ کے لیے فوج کے خلاف دل و دماغ میں کینہ اور بغض پال لیا۔و یسے فوج ہر وقت کٹہرے میں ہے،ایبٹ آباد سانحے کی تحقیقات ایک کمیشن کر رہا ہے، ابھی اس کی گل افشانی سامنے آنی ہے ، پتہ نہیں اس سے کیا بھونچال آئے گا ۔

میں پھر کہتا ہوں کہ فوج کے نقادوں کی نیت بالکل نیک اور صاف ہو سکتی ہے مگر کیا کیا جائے کہ اس وقت بھارت ، اسرائیل، نیٹو اور امریکا ،پاک فوج کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے ہیں اور وہ ہر قیمت پر پاک فوج اور آئی ایس آئی کا ڈنگ نکالنا چاہتے ہیں۔ پاک فوج کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں جو اس کے ناقابل تسخیر ہونے کی علامت ہیں، ان کو ہتھیانے کی کوششیں ماضی میںبہت ہو چکیں، بھارت اور اسرائیل دونوں نے کیں۔اب امریکا کو اس قوت سے پرخاش ہے، عراق میں تو محض اس قوت کا ہوا کھڑا کیا گیا اور عراق کا فلوجہ بنا دیا گیا اور لاکھوں عراقیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

پاکستان کے ایٹمی اسلحے کے بارے میں یہ شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ کسی وقت بھی انتہا پسندوں کے ہاتھ لگا کہ لگا چنانچہ خدشہ یہ ہے کہ امریکا اس پروگرام سے پاک فوج کو محروم کرنے کی کوشش کرے گا۔ پاک فوج کو مزید کمزور کرنے کے لیے اسے دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا گیا ہے اور ہمہ وقت ڈو مور کی گردان کی جاتی ہے، امریکا کا ارادہ یہ ہے کہ پاک فوج قبائلی علاقوں میں ہلکان ہو جائے اور پھر موقع غنیمت جان کر آخری ہلہ بول دیا جائے۔فوج کا آخری سہارا ملک کے عوام ہوتے ہیں ، اس لیے امریکا، اسرائیل اور بھارت کی خواہش اور کوشش ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان خلیج پید اکی جائے، بد اعتمادی میں اضافہ کیا جائے اور فوج کے ساتھ عوام کی ہمدردی کو کم کیا جائے۔یہ باریک کام کرنے میں کچھ عناصر پیش پیش ہیں۔


میڈیا کو یو ایس ایڈکے تحت امریکی عوام کے براہ راست ڈالروں سے رام کیا جارہا ہے ا ور اس طرح مرضی کے نتائج حاصل کرنے کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش ہو رہی ہے ،کبھی لا پتہ افراد کا شور مچایا جاتا ہے، کبھی کسی صحافی کے قتل پر فوج کے خلاف شورو غوغا ہوتا ہے، کبھی بلوچستان کے مسئلے پر آہ و زاری سننے میں آتی ہے، فوج کو بلوچستان سے نکالو، کے نعرے لگتے ہیں ، کیا بھارت کی فوج ، بھارت سے نکالنے کی بھی کبھی بات ہوئی ہے، کیا امریکی فوج کو امریکا سے نکالنے کا مطالبہ بھی سننے میں آتا ہے،میں اکثر کہتا ہوں کہ فوج کے خلاف مذموم پراپیگنڈہ کرنے والے اپنے علاقے کے تھانیدار یا میٹر ریڈر کے خلاف زبان کھولنے کی جرات نہیں کر سکتے ، اپنی زمینوں کے پٹواری سے بھی بگاڑ پیدا کرنے کا نہیں سوچ سکتے لیکن فوج کو گالی دینا ایک فیشن بنتا جا رہا ہے۔

مہران اسکینڈل نے بھی فوج کو ہی بدنام کیا ہے، جن لوگوں نے پیسے بٹورے، ان کا کسی نے کیا بگاڑا، وہ تو اگلے الیکشن میں باری لینے کے منتظر بیٹھے ہیں۔ضیا الحق نے علی الاعلان کہا تھا کہ اپنے کلے مضبوط کرو، ضیا الحق سے قبل ارکان پارلیمنٹ کے تر قیاتی بجٹ کا کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا مگر اچانک ارکان پارلیمنٹ پر ہن برسنے لگا ، چھپر پھاڑ کر ان پر دولت کی بارش برسی اور وہ دن ، آج کا دن، الیکشن کروڑوں کا کھیل بن گیا ہے ، اس کے لیے کروڑوں کمانے کے راستے بھی نکالے گئے۔

کبھی ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے، کبھی مویشیوں کی منڈیاں لگیں،کبھی چھانگا مانگا میں وفاداریوں کا بازار سجا۔طرفہ تماشہ ہے کہ نشانہ ہمیشہ پی پی پی رہی، اسے گاہے پیسے سے چت کیا گیا ، یا کمپیوٹر نتائج سے یا پھانسی سے یا گولی سے یا زہر سے، یا کوڑوں سے ، یا ٹکٹکی سے، یہ سلسلہ اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے بعد اپنے کلائمیکس کو چھونے لگا، سیاستدان اور لیڈر گملوں میں اگائے گئے اور آج ان کو کسی اکھاڑے میں پچھاڑنا، نا ممکن ہے۔ اب ان کی طرف دیکھنے والے کے سر سے دستار زمین پر گر جاتی ہے، یہ شہنشاہ دوراں ہیں۔

اس عالم میں کوئی بھی شکنجہ سیاسی لیڈروں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، وہ حما م میں ننگے بھی ہوں تو کوئی ان کو ننگا کہنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ہاں ، پی پی پی کا نمدا کسا جا سکتا ہے مگر زرداری نے محترمہ شہید کی برسی پر جو دو چار تقریریں کی ہیں ، اور جنونی میڈیا کے سامنے جس طرح مورچے میں قدم جمائے ہیں، اس کے بعد اب پی پی پی کو بھی دیوار سے لگانے کی سوچ تقریبا ختم ہو گئی ہے۔باقی پھر فوج بچتی ہے،اس کے خلاف سارے ادھار چکانے کے لیے ہر کوئی تیار بیٹھا ہے۔اسلم بیگ ہوں یا جنرل درانی ہوں یا حمید گل ہوں یا پاشا ہوں،ان کے سامنے ہر کوئی شیر ہے مگر ایک نام ہے جو نیک نام ہے اور جس نے نیک نامی کا ثبوت اپنے کردار سے فراہم کیا ہے، وہ ہیں جنرل کیانی، ان کے دامن پر کوئی دھبہ نہیں،نہ وہ فوج کے دامن پر کسی کو دھبہ لگانے کی اجازت دینے کو تیار ہوں گے، فوج کی حرمت اور اس کے تقدس کو قائم رکھنے کی ذمے داری چیف کے کندھوں پر آتی ہے۔

احتساب سے کوئی بالا تر نہیں، مگر ایسا احتساب جس سے امریکی ،بھارتی اور اسرائیلی مذموم عزائم کی تکمیل میں آسانی پیدا ہو، اس کے سامنے بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ کٹہرے میں تو سیاستدان اور چوری کھانے والے مجنوں ہونے چاہئیں۔
Load Next Story