نجی تعلیمی اداروں کی بھاری فیسیں
پرائیویٹ اسکولز کی طرف سے فیسوں میں اضافے کے خلاف والدین کا احتجاج ملک کے مختلف شہروں میں پھیل گیا ہے
پرائیویٹ اسکولز کی طرف سے فیسوں میں اضافے کے خلاف والدین کا احتجاج ملک کے مختلف شہروں میں پھیل گیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ لاہور نے فیسوں میں اضافے سے روکنے کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے اسکولز مالکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ طلبہ و طالبات سے وصول کی گئی اضافی فیس والدین کو واپس کریں جب کہ آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن نے فیسیں کم کرنے سے انکارکرتے ہوئے نوٹیفکیشن کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا مشاورتی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا، انھوں نے صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں کو عوام کی استطاعت کے مطابق کیا جائے تاکہ عام آدمی بھی ان سہولیات سے فائدہ اٹھا سکے، والدین کی پریشانی کو ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
ہر شہری کو سستی اور معیاری تعلیم فراہم کرنا حکومت کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ اپنی اس ذمے داری کو بااحسن نبھا رہی ہے، شاید ایسا نہیں ہے۔ نجکاری پالسی کے تحت تعلیم بھی نجی شعبے کے حوالے کی گئی' یوں اسے کاروبار بنا دیا گیا جب کہ سرکاری شعبے میں چلنے والے اداروں پر توجہ ہٹا دی گئی' اس طرح سرکاری اداروں کا معیار گرنا شروع ہو گیا' اس کے ساتھ ساتھ سرکاری اسکولز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں نشستیں کم ہونے کے باعث طلبا کے داخلے بھی ایک مسئلہ بن چکے ہیں۔ سرکاری اسکولز میں معیار تعلیم گرتا چلا جا رہا بلکہ دیگر سہولیات میں بھی نمایاں کمی آتی چلی جا رہی ہے۔ چونکہ ہر والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلائیں لہٰذا اس صورت حال سے نجی تعلیمی اداروں کے مالکان نے بھرپور فائدہ اٹھایا، وہ معیاری اور اعلیٰ تعلیم کے نام پر والدین کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اس آڑ میں انھوں نے فیسوں کی شرح بھی بہت زیادہ رکھی، والدین اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے حصول کی خاطر بھاری فیسوں کا کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہو گئے۔اس صورت حال کے تناظر میں جا بجا نجی اسکولز کالج اور یونیورسٹیز وجود میں آنے لگیں جس سے تعلیم کے شعبے میں مقابلے بازی کی ایک فضا قائم ہوگئی۔
اس مسابقتی فضا میں اعلیٰ اور معیاری تعلیم کی آڑ میں بعض تعلیمی اداروں کی جانب سے فیسوں کی شرح میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا۔ بیوروکریسی اور حکومتی ارکان نے سرکاری تعلیمی اداروں کے بجائے ان مہنگے اداروں کا رخ کیا تو ان نجی تعلیمی اداروں کو مزید تحفظ ملا اور مناسب توجہ نہ ملنے سے سرکاری اداروں کا معیار مزید گرتا چلا گیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ عام متوسط طبقے سے لے کر اشرافیہ تک کے بچے نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کی جانب سے فیسوں میں حالیہ اضافے کے خلاف والدین سراپا احتجاج بن چکے اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس اضافے کو واپس لیا جائے، ان کا کہنا ہے کہ اس حالیہ اضافے سے اب اوسط درجے کے گھرانوں کی تمام آمدنی بچوں کی فیسوں پر خرچ ہونے لگی ہے جس سے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ سندھ کے سینئر وزیر تعلیم و اطلاعات نثار احمد کھوڑو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکسوں میں اضافے کا جواز بنا کر فیس میں اضافہ کرنے کے عذر کو قبول نہیں کیا جائے گا اور نجی تعلیمی اداروں کو بے لگام ہونے نہیں دیا جائے گا۔
یہ صورت حال اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آج تک نجی تعلیمی اداروں پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہی قائم نہیں کیا گیا اور کبھی یہ جاننے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ بھاری فیسیں وصول کرنے والے اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیاں کیا مطلوبہ معیار کے مطابق تعلیم اور سہولیات بھی فراہم کر رہے ہیں یا نہیں۔ اب جب بڑھتی ہوئی فیسوں کے خلاف والدین نے احتجاج کیا ہے تو حکومت بھی بیدار ہوئی ہے، اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ اگر والدین احتجاج نہ کرتے اور حالیہ اضافے کے بوجھ کو بھی برداشت کر لیتے تو حکومت نے بھی کوئی نوٹس نہیں لینا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ تعلیمی شعبے کی بہتری حکومت کی ترجیحات ہی میں شامل نہیں رہی یہی وجہ ہے کہ اس شعبے کے لیے مطلوبہ ضروریات کے مقابل بہت کم بجٹ مختص کیا جاتا ہے، بڑے اور مہنگے نجی تعلیمی ادارے سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں جس کے باعث انھیں کبھی چیک ہی نہیں کیا گیا جس سے مالکان کے حوصلے بلند ہوگئے اور وہ اپنی من مانی کرنے لگے، کروڑوں روپے ماہانہ کمانے والے یہ ادارے حکومت کو ٹیکس بھی پورا ادا نہیں کرتے۔
ایک جانب وزیراعظم نے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا مشاورتی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے تو دوسری جانب پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن عدالت میں چلی گئی ہے،دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے مگر جب تک معاملہ کسی نتیجے تک نہیں پہنچتا والدین کو بھاری فیسوں کا یہ بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ دوسری جانب نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کو بھی چاہیے کہ وہ فیسوں کی شرح مناسب حد تک رکھیں اور اس میں اتنا زیادہ اضافہ نہ کریں کہ والدین کے لیے اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا مشکل ہو جائے۔
ہر شہری کو سستی اور معیاری تعلیم فراہم کرنا حکومت کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ اپنی اس ذمے داری کو بااحسن نبھا رہی ہے، شاید ایسا نہیں ہے۔ نجکاری پالسی کے تحت تعلیم بھی نجی شعبے کے حوالے کی گئی' یوں اسے کاروبار بنا دیا گیا جب کہ سرکاری شعبے میں چلنے والے اداروں پر توجہ ہٹا دی گئی' اس طرح سرکاری اداروں کا معیار گرنا شروع ہو گیا' اس کے ساتھ ساتھ سرکاری اسکولز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں نشستیں کم ہونے کے باعث طلبا کے داخلے بھی ایک مسئلہ بن چکے ہیں۔ سرکاری اسکولز میں معیار تعلیم گرتا چلا جا رہا بلکہ دیگر سہولیات میں بھی نمایاں کمی آتی چلی جا رہی ہے۔ چونکہ ہر والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلائیں لہٰذا اس صورت حال سے نجی تعلیمی اداروں کے مالکان نے بھرپور فائدہ اٹھایا، وہ معیاری اور اعلیٰ تعلیم کے نام پر والدین کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اس آڑ میں انھوں نے فیسوں کی شرح بھی بہت زیادہ رکھی، والدین اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے حصول کی خاطر بھاری فیسوں کا کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہو گئے۔اس صورت حال کے تناظر میں جا بجا نجی اسکولز کالج اور یونیورسٹیز وجود میں آنے لگیں جس سے تعلیم کے شعبے میں مقابلے بازی کی ایک فضا قائم ہوگئی۔
اس مسابقتی فضا میں اعلیٰ اور معیاری تعلیم کی آڑ میں بعض تعلیمی اداروں کی جانب سے فیسوں کی شرح میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا۔ بیوروکریسی اور حکومتی ارکان نے سرکاری تعلیمی اداروں کے بجائے ان مہنگے اداروں کا رخ کیا تو ان نجی تعلیمی اداروں کو مزید تحفظ ملا اور مناسب توجہ نہ ملنے سے سرکاری اداروں کا معیار مزید گرتا چلا گیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ عام متوسط طبقے سے لے کر اشرافیہ تک کے بچے نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کی جانب سے فیسوں میں حالیہ اضافے کے خلاف والدین سراپا احتجاج بن چکے اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس اضافے کو واپس لیا جائے، ان کا کہنا ہے کہ اس حالیہ اضافے سے اب اوسط درجے کے گھرانوں کی تمام آمدنی بچوں کی فیسوں پر خرچ ہونے لگی ہے جس سے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ سندھ کے سینئر وزیر تعلیم و اطلاعات نثار احمد کھوڑو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکسوں میں اضافے کا جواز بنا کر فیس میں اضافہ کرنے کے عذر کو قبول نہیں کیا جائے گا اور نجی تعلیمی اداروں کو بے لگام ہونے نہیں دیا جائے گا۔
یہ صورت حال اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آج تک نجی تعلیمی اداروں پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہی قائم نہیں کیا گیا اور کبھی یہ جاننے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ بھاری فیسیں وصول کرنے والے اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیاں کیا مطلوبہ معیار کے مطابق تعلیم اور سہولیات بھی فراہم کر رہے ہیں یا نہیں۔ اب جب بڑھتی ہوئی فیسوں کے خلاف والدین نے احتجاج کیا ہے تو حکومت بھی بیدار ہوئی ہے، اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ اگر والدین احتجاج نہ کرتے اور حالیہ اضافے کے بوجھ کو بھی برداشت کر لیتے تو حکومت نے بھی کوئی نوٹس نہیں لینا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ تعلیمی شعبے کی بہتری حکومت کی ترجیحات ہی میں شامل نہیں رہی یہی وجہ ہے کہ اس شعبے کے لیے مطلوبہ ضروریات کے مقابل بہت کم بجٹ مختص کیا جاتا ہے، بڑے اور مہنگے نجی تعلیمی ادارے سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں جس کے باعث انھیں کبھی چیک ہی نہیں کیا گیا جس سے مالکان کے حوصلے بلند ہوگئے اور وہ اپنی من مانی کرنے لگے، کروڑوں روپے ماہانہ کمانے والے یہ ادارے حکومت کو ٹیکس بھی پورا ادا نہیں کرتے۔
ایک جانب وزیراعظم نے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا مشاورتی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے تو دوسری جانب پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن عدالت میں چلی گئی ہے،دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے مگر جب تک معاملہ کسی نتیجے تک نہیں پہنچتا والدین کو بھاری فیسوں کا یہ بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ دوسری جانب نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کو بھی چاہیے کہ وہ فیسوں کی شرح مناسب حد تک رکھیں اور اس میں اتنا زیادہ اضافہ نہ کریں کہ والدین کے لیے اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا مشکل ہو جائے۔