ہزاروں افراد کے نام ای سی ایل سے خارج
اخباری خبر ہے کہ وفاقی حکومت نے 65 ہزار افراد کا نام ای سی ایل اور پاسپورٹ بلیک لسٹ سے خارج کر دیا ہے۔
اخباری خبر ہے کہ وفاقی حکومت نے 65 ہزار افراد کا نام ای سی ایل اور پاسپورٹ بلیک لسٹ سے خارج کر دیا ہے۔ اس کا اعلان وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے گزشتہ روز کیا اور بتایا کہ غیر ملکیوں کے لیے جلد ایک علیحدہ پالیسی تشکیل دی جا رہی ہے۔ جہاں تک ای سی ایل یعنی بیرون ملک جانے پر پابندی والوں کی فہرست کا تعلق ہے تو یہ ایک ایسی پابندی یا سزا ہے جس کا ایک شہری پر بہت شدت کے ساتھ منفی اثر ہوتا ہے۔ اگر وہ بیرون ملک روز گار کما رہا ہے تو اس کی نوکری چھوٹ گئی، اگر اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک کا قصد ہے تو تعلیم سے محروم رہ گیا، ہاں البتہ اگر کوئی کسی سنگین مقدمے میں ملوث ہو تو اس کے باہر جانے پر ضرور پابندی لگائی جانی چاہیے لیکن 65 ہزار افراد پر یہ پابندی غلط ثابت ہو گئی ہے جس پر وزیر داخلہ نے ان کے نام خارج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
65 ہزار افراد کی تعداد سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اس قسم کی انتہائی حساس اور اہم فہرستیں مرتب کرتے وقت بھی لاپرواہی اور بے دھیانی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ ایک تو حکومت اپنے مخالفین کو اس پابندی کا نشانہ بناتی ہے اور ایسی صورت میں مخالفین کو بھی علم ہوتا ہے کہ ان کا نام پابندی والی فہرست میں ہے لہٰذا وہ ہوائی یا سمندری سفر کرنے کے بجائے کہ وہاں ان کے نام ہو سکتے ہیں، دیگر متبادل راستے اختیار کرتے ہیں لیکن بسا اوقات کسی معروف ماڈل گرل کی طرح قابو میں بھی آ جاتے ہیں۔ لیکن 65 ہزار افراد کو ایک حساس ترین فہرست میں ڈال دیا جانا یقیناً مضحکہ خیز کارروائی ہے۔ کیا ان لوگوں کو ناجائز طور پر ای سی ایل میں پھنسانے والے سرکاری اہلکاروں سے بھی استفسار کیا جائے گا کہ تم نے کس بنیاد پر اتنے سارے لوگوں کو پابند کر رکھا تھا۔ ان حساس معاملات پر گہری نگاہ رکھنے والوں کو متعین کیا جانا چاہیے نہ کہ ایسے لوگوں کو جو محض خانہ پری کرتے رہیں اور اپنے قلم کی لرزش سے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں تباہ کر دیں۔
وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا آیندہ ای سی ایل اور پاسپورٹ کنٹرول فہرست میں صرف وہ نام ڈالے جائیں گے جن کی انٹیلی جنس ایجنسیاں یا اعلیٰ عدلیہ سفارش کرے گی۔ وزیر داخلہ نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ بعض لوگوں کو محض معمولی سی بات کی وجہ سے ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا۔ وزیر داخلہ نے تسلیم کیا کہ 1980ء کے عشرے کے بعد سے بہت سے قابل عزت لوگ بھی ای سی ایل میں رکھے گئے تھے۔ وزیر داخلہ نے مزید بتایا کہ اب ایک ایسا نظام تیار کیا جا رہا ہے کہ پاسپورٹ لوگوں کو ان کے گھروں پر فراہم کیے جائیں۔ اگر نثار چوہدری فی الواقعی پاسپورٹ کی گھروں پر ڈیلوری کا سسٹم نافذ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے جعلی پاسپورٹ بننے بنانے کا سلسلہ ختم ہو سکے گا کیونکہ یہ بات عام ہے کہ ہمارے کچھ پڑوسی پاکستانی پاسپورٹ پر بیرون ملک جاتے ہیں اور اگر پکڑے جائیں تو بدنامی پاکستان کی ہوتی ہے۔
65 ہزار افراد کی تعداد سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اس قسم کی انتہائی حساس اور اہم فہرستیں مرتب کرتے وقت بھی لاپرواہی اور بے دھیانی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ ایک تو حکومت اپنے مخالفین کو اس پابندی کا نشانہ بناتی ہے اور ایسی صورت میں مخالفین کو بھی علم ہوتا ہے کہ ان کا نام پابندی والی فہرست میں ہے لہٰذا وہ ہوائی یا سمندری سفر کرنے کے بجائے کہ وہاں ان کے نام ہو سکتے ہیں، دیگر متبادل راستے اختیار کرتے ہیں لیکن بسا اوقات کسی معروف ماڈل گرل کی طرح قابو میں بھی آ جاتے ہیں۔ لیکن 65 ہزار افراد کو ایک حساس ترین فہرست میں ڈال دیا جانا یقیناً مضحکہ خیز کارروائی ہے۔ کیا ان لوگوں کو ناجائز طور پر ای سی ایل میں پھنسانے والے سرکاری اہلکاروں سے بھی استفسار کیا جائے گا کہ تم نے کس بنیاد پر اتنے سارے لوگوں کو پابند کر رکھا تھا۔ ان حساس معاملات پر گہری نگاہ رکھنے والوں کو متعین کیا جانا چاہیے نہ کہ ایسے لوگوں کو جو محض خانہ پری کرتے رہیں اور اپنے قلم کی لرزش سے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں تباہ کر دیں۔
وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا آیندہ ای سی ایل اور پاسپورٹ کنٹرول فہرست میں صرف وہ نام ڈالے جائیں گے جن کی انٹیلی جنس ایجنسیاں یا اعلیٰ عدلیہ سفارش کرے گی۔ وزیر داخلہ نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ بعض لوگوں کو محض معمولی سی بات کی وجہ سے ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا۔ وزیر داخلہ نے تسلیم کیا کہ 1980ء کے عشرے کے بعد سے بہت سے قابل عزت لوگ بھی ای سی ایل میں رکھے گئے تھے۔ وزیر داخلہ نے مزید بتایا کہ اب ایک ایسا نظام تیار کیا جا رہا ہے کہ پاسپورٹ لوگوں کو ان کے گھروں پر فراہم کیے جائیں۔ اگر نثار چوہدری فی الواقعی پاسپورٹ کی گھروں پر ڈیلوری کا سسٹم نافذ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے جعلی پاسپورٹ بننے بنانے کا سلسلہ ختم ہو سکے گا کیونکہ یہ بات عام ہے کہ ہمارے کچھ پڑوسی پاکستانی پاسپورٹ پر بیرون ملک جاتے ہیں اور اگر پکڑے جائیں تو بدنامی پاکستان کی ہوتی ہے۔