23 دن کا تاریخی سفر
اول نفاذ اردو اب آسانی سے کورٹ میں روداد پیش ہو سکے گی اور فریقین اپنا مدعا تفصیل اور آسانی سے بیان کر سکیں گے۔
پاکستان کی تاریخ میں چیف جسٹس حضرات آتے اور جاتے رہیں گے مگر تاریخ رقم کرنے والے جب قائد اعظم کے اقوال پر عمل کرنے کی داستان رقم کریں گے تو سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر آ کر ایک لمحے کے لیے ٹھہر جائیں گے اور کہیں گے کہ ایک ایسا منصف بھی پاکستان میں گزرا ہے جس نے 23 دن کی قلیل مدت میں 68 سال گزر جانے کے باوجود قائد اعظم کے قول کو ملک میں نافذ کیا۔ قائد کا فرمان ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف ''اردو'' ہوگی۔ یہی وہ زبان ہے جو سارے صوبوں کی زنجیر ہے، اس خوبی کو میر غوث بخش بزنجو نے محسوس کر لیا تھا اور آپ نے بلوچستان میں اردو کی توقیرکی اور بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ اردو قائم کیا۔ ان کے صاحبزادے سینیٹر حاصل بزنجو بھی وسیع النظری کے اسی راستے پر گامزن ہیں، خیر بات کا رخ بدل نہ جائے، چیف جسٹس جواد خواجہ نے قلیل ترین وقت کل 23 دن میں وہ فیصلے کیے جو قابل تحسین ہیں۔
اول نفاذ اردو اب آسانی سے کورٹ میں روداد پیش ہو سکے گی اور فریقین اپنا مدعا تفصیل اور آسانی سے بیان کر سکیں گے۔ درخواست گزار کو ہر قسم کی آسانی ہو گی، پیچیدہ سے پیچیدہ تر معاملات کو پیش کرنا آسان تر اور فیصلے جلد ہو سکیں گے، بشرطیکہ نفاذ اردو عملی طور پر آنے والے وقت میں عمل پیرا ہو۔ خواجہ صاحب درویش صفت خصوصیات کے مالک ہیں، اردو ادب کے ہر محل اور موقعے کے اشعار ان کے ذہن میں نقش ہیں اور گردش کرتے ہیں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اگر وہ چاہیں تو ہر مسئلے کو ایک شعر کی مدد سے بیان کریں، ان کا گھر درویشوں کی آماج گاہ ہے دروازے کھلے اور امارت کی خوشبو تو نزدیک بھی نہیں آتی۔ بچپن سے انگریزی اسکولوں کی تعلیم گھوڑا گلی مری سے پڑھنے والا لڑکا ایچی سن اور پھر بعد میں یونیورسٹی کے پروفیسر، ستمبر 1950ء میں پیدا ہونے والے اس لڑکے کے متعلق کون جانتا تھا کہ اس لڑکے کی روح میں علامہ اقبال بسے ہیں اور یہ لشکر اردو کے اور شعرا کے پھول گلدان میں سجا دے گا۔ بقول میر انیس
کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا
یہ کہنا بجا ہو گا کہ 68 برس کی خشک سالی میں 23 دن جو ابر نیساں برسا۔ اس نے تحقیق اور تجسس کے نئے ابواب کھول دیے، کسی کو کیا علم تھا کہ 17 اگست کو مسند نشین ہونے والا چیف جسٹس ایسا ہو گا کہ جس کو پاکستان کے روحانی ورثے کا مالک کہا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد میں جب غریبوں کے گھر گرائے جانے لگے تا کہ اس جگہ کو کسی طالع آزما بلڈر کو دے کر نئے مواقعے زر پیدا کیے جائیں اور خاک نشین در بدر ہوں ان کا روزگار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ ماسوا ورکرز پارٹی کے کسی نے بھی مزاحمت نہ کی اور مکانوں کو زمین بوس کرتے رہے۔ ظاہر ہے چائنا کٹنگ اور زمین پر قبضے کے ماہرین نے ندی نالے بیچ ڈالے یہ تو اسلام آباد کی زمین تھی مگر جواد خواجہ نے خاک نشینوں کے حقوق کا تحفظ کیا اور سفاکوں کے ہاتھ تھام لیے ورنہ وہاں ایک اعلیٰ رہائشی منصوبہ نظر آتا، ایک اور قابل قدر کام جو جواد خواجہ نے کیا وہ یہ کہ پاکستان گزشتہ 55 برسوں سے عرب شہزادوں کی تفریح گاہ اور شکار گاہ بنا ہوا تھا۔ پاکستان کے نایاب جنگلی حیات ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس پر سے جوق در جوق شہزادوں کا شکار، اس کو روک کر انھوں نے مادر وطن کا اخلاقی دفاع کیا ہے۔
جنگلی حیات بھی پاکستان کا عظیم سرمایہ ہیں، ہمارے دریا، چمن اور صحرا ان کا الگ حسن ہے اگر ملک کے حکمرانوں کو روکا نہ گیا تو سرزمین کو پیسوں کی خاطر نیلام کر دیں۔ یہ حکمران ٹیکس ٹیکس کا شور مچاتے ہیں اگر ٹیکس کی رقم کرپشن میں نہ جاتی تو دیکھتے پاکستان کے عوام کی حالت۔ دنیا کا کون سا ملک ہے جس میں 70 روپے کی چیز پر تقریبا ً35 روپے ٹیکس لگتا ہو، یہ ہے پاکستان کا پٹرول۔ چیف جسٹس جواد خواجہ نے اپنی ایک تقریر میں واضح طور پر بیان کیا تھا کہ حکمران اور حکومت چاہے تو فوری طور پر کرپشن ختم ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے عوام میں ٹیکس سے بچنے کا رجحان اس لیے ہے کہ ٹیکس کی جو رقم خرچ کی جاتی ہے۔
وہ ملک اور عوام کی فلاح پر خرچ نہیں ہوتی آج تک ملک قرضوں میں کیوں جکڑا ہوا ہے؟ ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر کیوں کم ہو جاتے ہیں؟ غیر ملکوں میں پاکستانی حکمرانوں کی جائیدادیں کیوں بڑھتی جا رہی ہیں؟ پاکستان میں خاندانی جمہوریت کیوں ہے؟ پاکستان میں مفاہمت کی سیاست کیا معنی؟ پاکستان کے بیشتر لیڈر منی لانڈرنگ میں کیوں مصروف ہیں؟ یا ان کے گماشتے یہ کام کر رہے ہیں؟ لیاری بد امنی اور گھروں اور زمینوں پر قبضے کس کے ایما پر ہوئے؟ پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کی تعداد میں اضافہ اور عوامی مسائل میں بے تحاشا اضافہ کیوں ہے؟ کیوں پہلے کراچی حکومت کے خلاف عوامی مسائل پر یک لخت سراپا احتجاج ہو جاتا تھا وہ لوگ کیا ہوئے؟ ان کا دور کس نے ختم کیا؟ یہ سب سیاست دانوں کا کارنامہ ہے۔ ہتھیار بند دستے کس نے قائم کیے؟ لوٹ مارکا راج 20 برس سے پرورش پا رہا ہے۔
1986ء سے کراچی عوامی مسائل پر احتجاج نہیں کر پاتا، ملک میں طلبہ یونین کیوں نہیں، جب کہ طلبہ کی پارٹیاں ضرور ہیں۔ نظریہ ضرورت کیوں فروغ پا گیا؟ نظریاتی سیاست کا خاتمہ، یہ سب سوالات ابھی بھی تشنہ ہیں ملک میں نظریاتی سیاست جب جاتی رہے گی اور ملک میں زرگری کی سیاست چلے گی تو فوجی مداخلت ہوتی رہے گی۔ چیف جسٹس جواد خواجہ کو کل 23 دن ملے ان 23 دنوں میں انھوں نے جو کچھ کیا وہ عالم میں انتخاب رہے گا۔ اگر انھیں وقت ملتا تو وہ میرے بہت سے سوالات کا عملی جواب دے چکے ہوتے۔ طلبہ یونین تو بحال کر جاتے جو تحریکوں کی بنیادی قوت ہے۔ گو کہ یہ یونین اپنا بیرونی اثر تعلیمی اداروں پر رکھتی ہیں، مگر اب یہ براہ راست سیاسی پارٹیوں کی آلۂ کار ہیں، اپنی فکری اساس سے محروم۔
جواد خواجہ چونکہ خود اردو شاعری کے مزاج، روح ، کیفیت، فکر و فن سے واقف تھے اور روح اقبال کے ترجمان تھے اس لیے وہ جاتے جاتے یہ احسان کر کے چلے گئے کہ اردو زبان کو ایک مسند دے گئے۔ اردو زبان کا بھارت میں بھی آج کل زور ہے۔ فروغ اردو کے لیے حکومتی رقم دی جا رہی ہے مگر اردو یہاں تو ضرورت ہے۔ دیکھیں صوبائی حکومتیں کس طرح اردو زبان پر عمل کرتی ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ حکمران اب بدیسی سفر میں کس زبان میں تقریریں کرتے ہیں سب کو معلوم ہے ہمارے حکمران انگریزی کے مساوی علم تو نہیں رکھتے، لہٰذا ان کو خود اس زبان میں تقریر سے اجتناب کرنا چاہیے تا کہ یہ آسانی سے اپنا مفہوم دنیا کو بتا سکیں۔ جواد ایس خواجہ تو اپنا کام کر گئے اب دیکھنا ہے کہ حکمران طبقات جن کی اولاد بیرونی یونیورسٹیوں کی مد میں وہاں سے آئے ہوئے لوگوں کو مسند نشین کرتی رہی ہے ان کا عمل اب کیا ہوتا ہے۔
سول سروسز کے امتحانات کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے، صوبائی اور مرکزی حکومتیں اب اپنے احکامات کس زبان میں جاری کرتی ہیں، نفاذ اردو کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ انگریزی کا دیس نکالا ہو بلکہ اچھی شستہ درست فصیح و بلیغ اردو ہر ملازمت کے لیے ضروری ہو، مختلف مدارج پر اب یہ اردو زبان کے اساتذہ کے امتحان کی گھڑی آن پہنچی ہے کہ وہ واضح پالیسیاں وضع کریں اور درجہ بہ درجہ قدم بہ قدم، کوچہ بہ کوچہ، کو بہ کو اردو زبان کو رائج کریں۔ خواجہ صاحب نے تو ساغر اردو کو مئے اردو سے لبریز کر کے زمین پاکستان کو سیراب کر دیا۔ روح اقبال کو عملی جامہ 23 دن میں زیب تن کر دیا اور اپنی جرأت اور سرعت سے یہ ثابت کر دیا کہ:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
اب نئے چیف جسٹس محترم جمالی صاحب کا یہ فرض بنتا ہے کہ اپنے پیش رو کی فصل کو مزید تر و تازہ رکھیں اور نفاذ اردو میں فوٹو سیشن والا ٹولا کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔
اول نفاذ اردو اب آسانی سے کورٹ میں روداد پیش ہو سکے گی اور فریقین اپنا مدعا تفصیل اور آسانی سے بیان کر سکیں گے۔ درخواست گزار کو ہر قسم کی آسانی ہو گی، پیچیدہ سے پیچیدہ تر معاملات کو پیش کرنا آسان تر اور فیصلے جلد ہو سکیں گے، بشرطیکہ نفاذ اردو عملی طور پر آنے والے وقت میں عمل پیرا ہو۔ خواجہ صاحب درویش صفت خصوصیات کے مالک ہیں، اردو ادب کے ہر محل اور موقعے کے اشعار ان کے ذہن میں نقش ہیں اور گردش کرتے ہیں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اگر وہ چاہیں تو ہر مسئلے کو ایک شعر کی مدد سے بیان کریں، ان کا گھر درویشوں کی آماج گاہ ہے دروازے کھلے اور امارت کی خوشبو تو نزدیک بھی نہیں آتی۔ بچپن سے انگریزی اسکولوں کی تعلیم گھوڑا گلی مری سے پڑھنے والا لڑکا ایچی سن اور پھر بعد میں یونیورسٹی کے پروفیسر، ستمبر 1950ء میں پیدا ہونے والے اس لڑکے کے متعلق کون جانتا تھا کہ اس لڑکے کی روح میں علامہ اقبال بسے ہیں اور یہ لشکر اردو کے اور شعرا کے پھول گلدان میں سجا دے گا۔ بقول میر انیس
کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا
یہ کہنا بجا ہو گا کہ 68 برس کی خشک سالی میں 23 دن جو ابر نیساں برسا۔ اس نے تحقیق اور تجسس کے نئے ابواب کھول دیے، کسی کو کیا علم تھا کہ 17 اگست کو مسند نشین ہونے والا چیف جسٹس ایسا ہو گا کہ جس کو پاکستان کے روحانی ورثے کا مالک کہا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد میں جب غریبوں کے گھر گرائے جانے لگے تا کہ اس جگہ کو کسی طالع آزما بلڈر کو دے کر نئے مواقعے زر پیدا کیے جائیں اور خاک نشین در بدر ہوں ان کا روزگار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ ماسوا ورکرز پارٹی کے کسی نے بھی مزاحمت نہ کی اور مکانوں کو زمین بوس کرتے رہے۔ ظاہر ہے چائنا کٹنگ اور زمین پر قبضے کے ماہرین نے ندی نالے بیچ ڈالے یہ تو اسلام آباد کی زمین تھی مگر جواد خواجہ نے خاک نشینوں کے حقوق کا تحفظ کیا اور سفاکوں کے ہاتھ تھام لیے ورنہ وہاں ایک اعلیٰ رہائشی منصوبہ نظر آتا، ایک اور قابل قدر کام جو جواد خواجہ نے کیا وہ یہ کہ پاکستان گزشتہ 55 برسوں سے عرب شہزادوں کی تفریح گاہ اور شکار گاہ بنا ہوا تھا۔ پاکستان کے نایاب جنگلی حیات ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس پر سے جوق در جوق شہزادوں کا شکار، اس کو روک کر انھوں نے مادر وطن کا اخلاقی دفاع کیا ہے۔
جنگلی حیات بھی پاکستان کا عظیم سرمایہ ہیں، ہمارے دریا، چمن اور صحرا ان کا الگ حسن ہے اگر ملک کے حکمرانوں کو روکا نہ گیا تو سرزمین کو پیسوں کی خاطر نیلام کر دیں۔ یہ حکمران ٹیکس ٹیکس کا شور مچاتے ہیں اگر ٹیکس کی رقم کرپشن میں نہ جاتی تو دیکھتے پاکستان کے عوام کی حالت۔ دنیا کا کون سا ملک ہے جس میں 70 روپے کی چیز پر تقریبا ً35 روپے ٹیکس لگتا ہو، یہ ہے پاکستان کا پٹرول۔ چیف جسٹس جواد خواجہ نے اپنی ایک تقریر میں واضح طور پر بیان کیا تھا کہ حکمران اور حکومت چاہے تو فوری طور پر کرپشن ختم ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے عوام میں ٹیکس سے بچنے کا رجحان اس لیے ہے کہ ٹیکس کی جو رقم خرچ کی جاتی ہے۔
وہ ملک اور عوام کی فلاح پر خرچ نہیں ہوتی آج تک ملک قرضوں میں کیوں جکڑا ہوا ہے؟ ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر کیوں کم ہو جاتے ہیں؟ غیر ملکوں میں پاکستانی حکمرانوں کی جائیدادیں کیوں بڑھتی جا رہی ہیں؟ پاکستان میں خاندانی جمہوریت کیوں ہے؟ پاکستان میں مفاہمت کی سیاست کیا معنی؟ پاکستان کے بیشتر لیڈر منی لانڈرنگ میں کیوں مصروف ہیں؟ یا ان کے گماشتے یہ کام کر رہے ہیں؟ لیاری بد امنی اور گھروں اور زمینوں پر قبضے کس کے ایما پر ہوئے؟ پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کی تعداد میں اضافہ اور عوامی مسائل میں بے تحاشا اضافہ کیوں ہے؟ کیوں پہلے کراچی حکومت کے خلاف عوامی مسائل پر یک لخت سراپا احتجاج ہو جاتا تھا وہ لوگ کیا ہوئے؟ ان کا دور کس نے ختم کیا؟ یہ سب سیاست دانوں کا کارنامہ ہے۔ ہتھیار بند دستے کس نے قائم کیے؟ لوٹ مارکا راج 20 برس سے پرورش پا رہا ہے۔
1986ء سے کراچی عوامی مسائل پر احتجاج نہیں کر پاتا، ملک میں طلبہ یونین کیوں نہیں، جب کہ طلبہ کی پارٹیاں ضرور ہیں۔ نظریہ ضرورت کیوں فروغ پا گیا؟ نظریاتی سیاست کا خاتمہ، یہ سب سوالات ابھی بھی تشنہ ہیں ملک میں نظریاتی سیاست جب جاتی رہے گی اور ملک میں زرگری کی سیاست چلے گی تو فوجی مداخلت ہوتی رہے گی۔ چیف جسٹس جواد خواجہ کو کل 23 دن ملے ان 23 دنوں میں انھوں نے جو کچھ کیا وہ عالم میں انتخاب رہے گا۔ اگر انھیں وقت ملتا تو وہ میرے بہت سے سوالات کا عملی جواب دے چکے ہوتے۔ طلبہ یونین تو بحال کر جاتے جو تحریکوں کی بنیادی قوت ہے۔ گو کہ یہ یونین اپنا بیرونی اثر تعلیمی اداروں پر رکھتی ہیں، مگر اب یہ براہ راست سیاسی پارٹیوں کی آلۂ کار ہیں، اپنی فکری اساس سے محروم۔
جواد خواجہ چونکہ خود اردو شاعری کے مزاج، روح ، کیفیت، فکر و فن سے واقف تھے اور روح اقبال کے ترجمان تھے اس لیے وہ جاتے جاتے یہ احسان کر کے چلے گئے کہ اردو زبان کو ایک مسند دے گئے۔ اردو زبان کا بھارت میں بھی آج کل زور ہے۔ فروغ اردو کے لیے حکومتی رقم دی جا رہی ہے مگر اردو یہاں تو ضرورت ہے۔ دیکھیں صوبائی حکومتیں کس طرح اردو زبان پر عمل کرتی ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ حکمران اب بدیسی سفر میں کس زبان میں تقریریں کرتے ہیں سب کو معلوم ہے ہمارے حکمران انگریزی کے مساوی علم تو نہیں رکھتے، لہٰذا ان کو خود اس زبان میں تقریر سے اجتناب کرنا چاہیے تا کہ یہ آسانی سے اپنا مفہوم دنیا کو بتا سکیں۔ جواد ایس خواجہ تو اپنا کام کر گئے اب دیکھنا ہے کہ حکمران طبقات جن کی اولاد بیرونی یونیورسٹیوں کی مد میں وہاں سے آئے ہوئے لوگوں کو مسند نشین کرتی رہی ہے ان کا عمل اب کیا ہوتا ہے۔
سول سروسز کے امتحانات کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے، صوبائی اور مرکزی حکومتیں اب اپنے احکامات کس زبان میں جاری کرتی ہیں، نفاذ اردو کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ انگریزی کا دیس نکالا ہو بلکہ اچھی شستہ درست فصیح و بلیغ اردو ہر ملازمت کے لیے ضروری ہو، مختلف مدارج پر اب یہ اردو زبان کے اساتذہ کے امتحان کی گھڑی آن پہنچی ہے کہ وہ واضح پالیسیاں وضع کریں اور درجہ بہ درجہ قدم بہ قدم، کوچہ بہ کوچہ، کو بہ کو اردو زبان کو رائج کریں۔ خواجہ صاحب نے تو ساغر اردو کو مئے اردو سے لبریز کر کے زمین پاکستان کو سیراب کر دیا۔ روح اقبال کو عملی جامہ 23 دن میں زیب تن کر دیا اور اپنی جرأت اور سرعت سے یہ ثابت کر دیا کہ:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
اب نئے چیف جسٹس محترم جمالی صاحب کا یہ فرض بنتا ہے کہ اپنے پیش رو کی فصل کو مزید تر و تازہ رکھیں اور نفاذ اردو میں فوٹو سیشن والا ٹولا کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔