ہم آہ بھی کرتے ہیں تو…
محض ایک دو خاندان ملکی سیاست پر خاندانی بادشاہت کی طرز پر مسلط ہوگئے اور صرف دولت مند طبقہ ہی ایوانوں پر قابض ہوگیا،
صحافت معزز ہی نہیں بلکہ مقدس پیشہ ہے۔ اس پیشے سے منسلک افراد کو تعلیم یافتہ، وسیع معلومات، روشن خیال، غیر جانبدار اور ہر طرح کے تعصب سے مبرا ہونا چاہیے۔ اگرچہ تمام اخبارات اور برقی ذرایع ابلاغ کے مختلف چینلزکا اپنا اپنا لائحہ عمل (پالیسی) ہوتا ہے مگر ایک مشترکہ ضابطہ اخلاق کی تقریباً سب ہی پاسداری کرتے ہیں۔ کچھ اخبارات اور چینل مختلف سیاسی نظریات کے حامی یا مخالف ہوتے ہیں اور اپنے مواد میں اس کا اظہار بھی کرتے ہیں، مگر خبر کی معروضیت کا سب کو خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مگر ہمارا معاشرہ جب سے افراتفری کا شکار ہوا ہے اور بدعنوانی نے ہر شعبہ زندگی میں قدم جمائے تو اس کا کچھ نہ کچھ اثر ذرایع ابلاغ پہ بھی پڑا۔کوئی معاشرہ بدعنوانی یا بدحالی کا شکار کیوں ہوجاتا ہے؟ یہ سوال اگرچہ بے حد وسیع اور جامع جواب کا متقاضی ہے مگر ہم مختصراً کہہ سکتے ہیں کہ جب افراد قوم تہذیب کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں، اپنی اخلاقی روایات سے روگردانی کرنے لگیں تو پھر ہر معاشرتی برائی سر اٹھانا شروع کردیتی ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ مگر برے سے برے معاشرے میں بھی پڑھے لکھے (تعلیم یافتہ) افراد سے بہرحال مہذب، روشن خیال اورغیر متعصب ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر تعلیم یافتہ مگر دولت مند اپنی دولت کے نشے میں چور چند فیصد افراد کی پہلی کوشش نظام تعلیم پر حملہ کرنا اور بظاہر تعلیم کا فروغ مگر علم کے اثرات کو زائل کرنا ہوتی ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر تقریباً 60، 63 کی دہائی تک قیام پاکستان سے قبل کے تعلیم یافتہ افراد کی موجودگی کے باعث روشن خیالی، مہذب طرز زندگی اور غیر متعصبانہ انداز فکر پروان چڑھتا رہا، ہم بھارت کے مقابلے میں زیادہ سرگرمی سے ترقی کی راہ پر گامزن تھے۔ آزادی کے نشے سے چور سب پاکستانی تھے نہ کوئی سندھی نہ بلوچی نہ پٹھان نہ پنجابی۔ کراچی سے دارالحکومت منتقل ہونے کے بعد وہ سرکاری ملازمین جو ریٹائرمنٹ کے قریب تھے اور متحدہ برصغیر کے تعلیم یافتہ، بااصول اپنے اپنے شعبوں کے ماہر اور کام میں مخلص وہ عبوری دارالحکومت پنڈی منتقل ہوگئے۔
کراچی میں بھارت کے مختلف علاقوں اور شہروں سے ہجرت کرکے آنیوالے اور مقامی آبادی آپس میں شیر و شکر ہوکر ایک خاص ثقافت جس کو ''مشترکہ ثقافت'' کا نام دیا جاسکتا ہے کو پروان چڑھا رہے تھے۔ سب افراد محبت، یکجہتی اور امن و دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مختلف ادبی و ثقافتی تقریبات میں مل جل کر شرکت کرتے۔ کراچی روشنیوں کا ہی نہیں بلکہ رواداری اور محبتوں کا شہر بھی تھا۔ رنگا رنگ معاشرتی رویے ایک دوسرے سے گلے مل کر کراچی کو ہمہ رنگ ثقافت کا مرکز بنا رہے تھے 63-60 کی دہائی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے درمیان صدارتی انتخابات کے بعد نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک میں خود غرضی، اقربا پروری، برادریوں کا نظام سر اٹھانے لگا۔ وجہ یہ تھی کہ نظام تعلیم میں خامیاں رونما ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ طلبا سرگرمیوں پر پابندی عائد ہونے سے روشن خیالی، مقابلے کا رجحان، آگے بڑھنے کی امنگ، کچھ کرنے اور سیکھنے کا امکان معدوم ہوتا گیا طلبا میں قیادت کا فقدان موجودہ سیاسی صورتحال کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔
محض ایک دو خاندان ملکی سیاست پر خاندانی بادشاہت کی طرز پر مسلط ہوگئے اور صرف دولت مند طبقہ ہی ایوانوں پر قابض ہوگیا، عام آدمی جو دراصل ملک و قوم کا اصل معمار تھا وہ مسائل کا شکار ہوتا گیا۔ اچھی ملازمتوں اچھے تعلیمی اداروں سب پر دولتمندوں اور حکمرانوں کا قبضہ ہوگیا لہٰذا امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا گیا۔ عرض ہے کہ کالم کے آغاز میں، میں نے صحافیوں کی خصوصیات اور تعلیم یافتہ افراد سے معاشرے کی توقعات کا ذکر کیا تھا۔ پڑھے لکھے اپنے شعبے کے ماہر اگر صحافت میں بھی طبع آزمائی کریں تو بے حد معلوماتی اور دلچسپ مضامین اور کالم مطالعے میں آتے ہیں۔ مگر ایک معاصر اخبار کے بہت پڑھے لکھے کالم نگار جن کا کالم میں سب سے پہلے پڑھتی ہوں اور متاثر بھی ہوتی ہوں انھوں نے گزشتہ دنوں ایک شخص کے غلط رویے پر تمام اردو بولنے والوں پر نہ صرف طنز کے تیر چلائے بلکہ فرمایا کہ وہ واپس بھارت چلے جائیں یہاں انھیں کون روکتا ہے؟
ان کا فرمانا ہے کہ اردو محض سات فیصد کی زبان ہے مگر بلوچستان کا عطا شاد، کے پی کے کا احمد فراز اور پنجاب کا فیض احمد فیض سب نے اردو کا دامن وسیع کیا۔ میرے خیال میں تو اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ اردو سات فیصد کی نہیں پورے پاکستان بلکہ برصغیر کی مشترکہ زبان ہے۔ جب پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یہ اعزاز قائد اعظم نے اردو کو دیا ہے جن کی اپنی زبان اردو نہ تھی بلکہ وہ اردو بول بھی نہیں پاتے تھے۔ پھر یہ اردو بولنے والے، پنجابی، پشتو، سندھی یا بلوچی بولنے والوں کا شوشہ کیوں چھوڑا گیا؟ مزید فرماتے ہیں کہ کیونکہ میں فرزند زمین ہوں اس لیے میرا فرض ہے کہ اپنے دلائل کا وزن پاکستان کے حق میں ڈالوں۔ اب بتائیے یہ ''فرزند زمین'' کی اصطلاح کس نے ایجاد کی؟ کسی پڑھے لکھے، روشن خیال فرد سے اتنے تعصب کی توقع کی جاسکتی ہے؟ میرا تو خیال ہے کہ تمام سید، تمام قریشی، صدیقی، عثمانی، زبیری، غوری، غزنوی، لودھی، مرزا، ہمدانی، گردیزی، بخاری وغیرہ وغیرہ کوئی بھی فرزند زمین نہیں فرق ہے تو یہ کہ کوئی سات صدی قبل کوئی چھ یا پانچ صدی قبل کوئی آدھی صدی اور کوئی 68 برس قبل اس سرزمین پر وارد ہوا۔
تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اگر لوگوں نے پاکستان بنانے میں اپنے کردار اور قربانیوں کا اظہار کیا تو اپنے آگے کسی کو سر اٹھانے کی اجازت نہ دینے والے بھلا کس طرح برداشت کرتے کہ نہ جاگیردار نہ وڈیرے نہ سردار درمیانہ اور نچلے طبقے کے افراد ہمارے ساتھ ایوانوں میں آکر بیٹھیں، اگر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی یا الگ صوبے کی بات کی تو غدار قرار دے کر دنیا بھر کے عیب و جرائم ان ہی میں نظر آنے لگے۔الگ صوبے کا مطالبہ نہ غیر آئینی ہے نہ غیر اخلاقی نہ باغیانہ۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ غیر مناسب اور غیر ضروری ہے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ آزاد مملکت کی سرزمین کا بخشش یا تحفے کے بدلے سودا کیا جائے، تمام ملکی اداروں کو بزعم خود فرزند زمین ہونے کے ناتے دیوالیہ کرکے لوٹی ہوئی رقم سے ممالک غیر میں جائیدادیں خریدی جائیں اور صنعتیں لگائی جائیں پھر تحفتاً ملنے والی رقم سے عوام کی بہبود کے لیے دمڑی بھی خرچ نہ کی جائے اور کوئی پوچھے بھی نہ کہاں گئی؟ ملکی دولت کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کرنا غداری نہیں۔ ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا ہر اہم عہدے پر اپنے اقربا کو براجمان کرنا بددیانتی نہیں؟
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ہر روز اخبارات مختلف محکموں، اداروں اور منصوبوں میں اربوں کی بدعنوانی کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ شہید ملت کے قاتل اب تک کراچی سے کیوں نہیں برآمد ہوئے؟ نندی پور کے معاملے پر وزیر اعظم نے جرأت مندانہ بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ اس معاملے میں ملوث تمام افراد کو الٹا لٹکایا جائے۔بے شک ایسا ہی ہونا چاہیے۔ معاشرے کے کئی پہلو ایسے ہیں جو غلط ہیں۔ مگر ان پر مکالمے کو رواج دینا چاہیے، گفتگو کھلے دل و دماغ سے کی جائے ہر پہلو پر دوسروں کے نکتہ نظر کا احترام کرتے ہوئے ان کو حقیقت سے آگاہ کرنا ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور خود کو طرم خان ثابت کرنے میں لگے رہے تو صرف دنیا ہمارا تماشا ہی دیکھے گی، ہم پر ہنسے گی کوئی ہمارا ہاتھ تھام کر غار مزلت میں گرنے سے روکے گا نہیں۔ پڑھے لکھے گنتی کے افراد سے دردمندانہ درخواست ہے کہ وہ آگے بڑھیں دوسروں کی غلطیوں سے درگزر کریں اور معاشرے کو درست کرنے کے عمل میں آگے بڑھ کر حصہ لیں۔
یہ حقیقت اپنی جگہ مگر برے سے برے معاشرے میں بھی پڑھے لکھے (تعلیم یافتہ) افراد سے بہرحال مہذب، روشن خیال اورغیر متعصب ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر تعلیم یافتہ مگر دولت مند اپنی دولت کے نشے میں چور چند فیصد افراد کی پہلی کوشش نظام تعلیم پر حملہ کرنا اور بظاہر تعلیم کا فروغ مگر علم کے اثرات کو زائل کرنا ہوتی ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر تقریباً 60، 63 کی دہائی تک قیام پاکستان سے قبل کے تعلیم یافتہ افراد کی موجودگی کے باعث روشن خیالی، مہذب طرز زندگی اور غیر متعصبانہ انداز فکر پروان چڑھتا رہا، ہم بھارت کے مقابلے میں زیادہ سرگرمی سے ترقی کی راہ پر گامزن تھے۔ آزادی کے نشے سے چور سب پاکستانی تھے نہ کوئی سندھی نہ بلوچی نہ پٹھان نہ پنجابی۔ کراچی سے دارالحکومت منتقل ہونے کے بعد وہ سرکاری ملازمین جو ریٹائرمنٹ کے قریب تھے اور متحدہ برصغیر کے تعلیم یافتہ، بااصول اپنے اپنے شعبوں کے ماہر اور کام میں مخلص وہ عبوری دارالحکومت پنڈی منتقل ہوگئے۔
کراچی میں بھارت کے مختلف علاقوں اور شہروں سے ہجرت کرکے آنیوالے اور مقامی آبادی آپس میں شیر و شکر ہوکر ایک خاص ثقافت جس کو ''مشترکہ ثقافت'' کا نام دیا جاسکتا ہے کو پروان چڑھا رہے تھے۔ سب افراد محبت، یکجہتی اور امن و دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مختلف ادبی و ثقافتی تقریبات میں مل جل کر شرکت کرتے۔ کراچی روشنیوں کا ہی نہیں بلکہ رواداری اور محبتوں کا شہر بھی تھا۔ رنگا رنگ معاشرتی رویے ایک دوسرے سے گلے مل کر کراچی کو ہمہ رنگ ثقافت کا مرکز بنا رہے تھے 63-60 کی دہائی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے درمیان صدارتی انتخابات کے بعد نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک میں خود غرضی، اقربا پروری، برادریوں کا نظام سر اٹھانے لگا۔ وجہ یہ تھی کہ نظام تعلیم میں خامیاں رونما ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ طلبا سرگرمیوں پر پابندی عائد ہونے سے روشن خیالی، مقابلے کا رجحان، آگے بڑھنے کی امنگ، کچھ کرنے اور سیکھنے کا امکان معدوم ہوتا گیا طلبا میں قیادت کا فقدان موجودہ سیاسی صورتحال کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔
محض ایک دو خاندان ملکی سیاست پر خاندانی بادشاہت کی طرز پر مسلط ہوگئے اور صرف دولت مند طبقہ ہی ایوانوں پر قابض ہوگیا، عام آدمی جو دراصل ملک و قوم کا اصل معمار تھا وہ مسائل کا شکار ہوتا گیا۔ اچھی ملازمتوں اچھے تعلیمی اداروں سب پر دولتمندوں اور حکمرانوں کا قبضہ ہوگیا لہٰذا امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا گیا۔ عرض ہے کہ کالم کے آغاز میں، میں نے صحافیوں کی خصوصیات اور تعلیم یافتہ افراد سے معاشرے کی توقعات کا ذکر کیا تھا۔ پڑھے لکھے اپنے شعبے کے ماہر اگر صحافت میں بھی طبع آزمائی کریں تو بے حد معلوماتی اور دلچسپ مضامین اور کالم مطالعے میں آتے ہیں۔ مگر ایک معاصر اخبار کے بہت پڑھے لکھے کالم نگار جن کا کالم میں سب سے پہلے پڑھتی ہوں اور متاثر بھی ہوتی ہوں انھوں نے گزشتہ دنوں ایک شخص کے غلط رویے پر تمام اردو بولنے والوں پر نہ صرف طنز کے تیر چلائے بلکہ فرمایا کہ وہ واپس بھارت چلے جائیں یہاں انھیں کون روکتا ہے؟
ان کا فرمانا ہے کہ اردو محض سات فیصد کی زبان ہے مگر بلوچستان کا عطا شاد، کے پی کے کا احمد فراز اور پنجاب کا فیض احمد فیض سب نے اردو کا دامن وسیع کیا۔ میرے خیال میں تو اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ اردو سات فیصد کی نہیں پورے پاکستان بلکہ برصغیر کی مشترکہ زبان ہے۔ جب پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یہ اعزاز قائد اعظم نے اردو کو دیا ہے جن کی اپنی زبان اردو نہ تھی بلکہ وہ اردو بول بھی نہیں پاتے تھے۔ پھر یہ اردو بولنے والے، پنجابی، پشتو، سندھی یا بلوچی بولنے والوں کا شوشہ کیوں چھوڑا گیا؟ مزید فرماتے ہیں کہ کیونکہ میں فرزند زمین ہوں اس لیے میرا فرض ہے کہ اپنے دلائل کا وزن پاکستان کے حق میں ڈالوں۔ اب بتائیے یہ ''فرزند زمین'' کی اصطلاح کس نے ایجاد کی؟ کسی پڑھے لکھے، روشن خیال فرد سے اتنے تعصب کی توقع کی جاسکتی ہے؟ میرا تو خیال ہے کہ تمام سید، تمام قریشی، صدیقی، عثمانی، زبیری، غوری، غزنوی، لودھی، مرزا، ہمدانی، گردیزی، بخاری وغیرہ وغیرہ کوئی بھی فرزند زمین نہیں فرق ہے تو یہ کہ کوئی سات صدی قبل کوئی چھ یا پانچ صدی قبل کوئی آدھی صدی اور کوئی 68 برس قبل اس سرزمین پر وارد ہوا۔
تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اگر لوگوں نے پاکستان بنانے میں اپنے کردار اور قربانیوں کا اظہار کیا تو اپنے آگے کسی کو سر اٹھانے کی اجازت نہ دینے والے بھلا کس طرح برداشت کرتے کہ نہ جاگیردار نہ وڈیرے نہ سردار درمیانہ اور نچلے طبقے کے افراد ہمارے ساتھ ایوانوں میں آکر بیٹھیں، اگر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی یا الگ صوبے کی بات کی تو غدار قرار دے کر دنیا بھر کے عیب و جرائم ان ہی میں نظر آنے لگے۔الگ صوبے کا مطالبہ نہ غیر آئینی ہے نہ غیر اخلاقی نہ باغیانہ۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ غیر مناسب اور غیر ضروری ہے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ آزاد مملکت کی سرزمین کا بخشش یا تحفے کے بدلے سودا کیا جائے، تمام ملکی اداروں کو بزعم خود فرزند زمین ہونے کے ناتے دیوالیہ کرکے لوٹی ہوئی رقم سے ممالک غیر میں جائیدادیں خریدی جائیں اور صنعتیں لگائی جائیں پھر تحفتاً ملنے والی رقم سے عوام کی بہبود کے لیے دمڑی بھی خرچ نہ کی جائے اور کوئی پوچھے بھی نہ کہاں گئی؟ ملکی دولت کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کرنا غداری نہیں۔ ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا ہر اہم عہدے پر اپنے اقربا کو براجمان کرنا بددیانتی نہیں؟
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ہر روز اخبارات مختلف محکموں، اداروں اور منصوبوں میں اربوں کی بدعنوانی کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ شہید ملت کے قاتل اب تک کراچی سے کیوں نہیں برآمد ہوئے؟ نندی پور کے معاملے پر وزیر اعظم نے جرأت مندانہ بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ اس معاملے میں ملوث تمام افراد کو الٹا لٹکایا جائے۔بے شک ایسا ہی ہونا چاہیے۔ معاشرے کے کئی پہلو ایسے ہیں جو غلط ہیں۔ مگر ان پر مکالمے کو رواج دینا چاہیے، گفتگو کھلے دل و دماغ سے کی جائے ہر پہلو پر دوسروں کے نکتہ نظر کا احترام کرتے ہوئے ان کو حقیقت سے آگاہ کرنا ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور خود کو طرم خان ثابت کرنے میں لگے رہے تو صرف دنیا ہمارا تماشا ہی دیکھے گی، ہم پر ہنسے گی کوئی ہمارا ہاتھ تھام کر غار مزلت میں گرنے سے روکے گا نہیں۔ پڑھے لکھے گنتی کے افراد سے دردمندانہ درخواست ہے کہ وہ آگے بڑھیں دوسروں کی غلطیوں سے درگزر کریں اور معاشرے کو درست کرنے کے عمل میں آگے بڑھ کر حصہ لیں۔