برطانیہ سوشلسٹ لیڈر منتخب
برطانیہ کی لیبر پارٹی کے سربراہ کے طور پرسوشلسٹ نظریات کے حامل جیرمی کاربن انسٹھ فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے۔
برطانیہ کی لیبر پارٹی کے سربراہ کے طور پرسوشلسٹ نظریات کے حامل جیرمی کاربن انسٹھ فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے۔ یہ پارٹی آجکل برطانیہ کی حزب اختلاف کی پار ٹی ہے ۔ جیرمی کار بن دو سو ایک سے ہی عراق اور افغانستان جنگ مخالف مہم کا سرگرم رکن رہے، اس کے علاوہ سو شلسٹ کیمپین گروپ، فلسطین یکجہتی مہم اور'جوہری ہتھیاروں' کے دنیا سے خاتمے کی مہم میں بھی موجود رہے۔ ان کے حریفوں کو ایک شدید جھٹکا اس و قت لگا جب برطانیہ کی دو بڑی ٹریڈ یونینز 'یونائیٹیڈ' اور 'یونی سن' نے کاربن کی حمایت کا اعلان کردیا۔ ان یونینزکی رکنیت باالترتیب چودہ لا کھ بیس ہزار اور با رہ لاکھ تراسی ہزار ہے۔کاربن کی اس مہم میں برطانیہ کے مختلف بائیں بازو سے تعلق رکھنے وا لے گروپ کمیونسٹ، انار کسٹ اور سو شلسٹ شامل ہیں۔
نومنتخب لیڈرکار بن نے اپنے پہلے بیان میں کہا کہ' میرا پہلا کام پناہ گزینوں کے حق میں ہونے والے مظاہرے میں شرکت ہو گی ۔کاربن نے دو لاکھ اکاون ہزار، چارسو سترہ ووٹ لیے جوکہ کل ڈالے جانے والے ووٹوں کے انسٹھ فیصد تھے جب کہ ان کے قریب ترین حریف اینڈی برنہیم کو صرف انیس فیصد ووٹ مل۔ لیبرپارٹی کے سابقہ وزیراعظم ٹونی بلئیر نے کہا تھا کہ اگرکاربن جیت گیا تو لیبر پارٹی کو تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس نے کاربن کے لیے لکھے گئے مضمون میں لکھا کہ ' اس سے کو ئی فرق نہیں پڑتا کہ آ پ پارٹی کے دائیں بازو یا با ئیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں یا سینٹر سے، چاہے آپ میری حمایت کرتے ہیں یا مخالفت لیکن خدارا اس خطرے کو بھانپ لیں جسکا ہمیں سامنا ہے'۔ کس بات کا سامنا ہے؟ وہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد کو ہلتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔
ایک اور سابق وزیراعظم گورڈن براؤن نے بھی پارٹی کارکنان کو ووٹ دینے سے خبردارکیا تھا اورکہا تھا کہ ارلنگٹن نا رتھ سے یہ امیدوار حزب اللہ، حماس، وینیزویلا اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات استوارکرتے ہوئے عالمی تعلقات میں تباہی کا موجب بنے گا اور پارٹی ایک حکومتی پارٹی کی بجائے محض ایک احتجاجی پارٹی بن کر رہ جائے گی۔ آج ایشیا کی ابھرتی ہوئی تیز ترمعیشت تنزلی کا شکار ہے۔ چین کی اسمبلی میں تیراسی ارب پتی جب کہ ملک میں ستائس کروڑ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں میں چین میں پچاسی ہزار بارمظاہرے وہاں کے مزدوروں اورکسانوں نے کیے جن میں بیشتر مطالبات منوائے بھی۔ حال ہی میں اسٹاک ایکسچینج کے انہدام نے چین کی معیشت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جس کی اپنی معیشت تباہی کی جانب گامزن ہے وہ دوسروں کی کیا مدد کرے گا؟ہاں مگر مدد کے نام پر افریقہ، مشرق وسطی اور بر صغیر میں چینی سرمایہ داروں کی لوٹ جاری ہے۔
دوسرا پڑوسی ملک ہندوستان میں چونتیس کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔ صرف تپ دق سے روزانہ دس ہزار انسان لقمہ اجل بن رہے ہیں، ہر چند کہ وہاں کی حکومت پانچ ہزار رو پے سے کم آمد نی والوں کو دو رو پے کلو آٹا اور تین روپے کلو چاول فراہم کرتی ہے۔ انڈیا میں چون ارب پتی ہیں اور دوسری جا نب ستر فیصد لوگ غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ انھیں ظلم کے جبرکے خلاف ہندوستان کی ایک تہائی زمینی رقبے پر ماؤنوازکمیو نسٹ پارٹی کے باغی قابض ہیں۔ حکومتی اعدادو شمار کے مطابق ساٹھ ہزار اسکوائر میل کے جنگلات پرکمیونسٹوں کا راج ہے۔ دو ستمبر دوہزار پندرہ میں بھارت کے سولہ کروڑ مزدوروں نے ہڑتال کی جس کی رہنمائی کمیونسٹ پار ٹی آف انڈیا کر رہی تھی۔انھیں اثرات کو پا کستان میں روکنے کے لیے عوام کو نان ایشوز میں الجھایا رکھا جا رہا ہے۔
حال ہی میں سپریم کورٹ آف پا کستان کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خوا جہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ڈی جے خان میں اسٹون کریشنگ کے ایک سو تیس مزدور پھیپھڑے کے مرض میں مبتلا ہو کر مرگئے اور حکمرانوں کے کان پہ جوں تک نہ رینگی ۔جاپان کی اسمبلی میں بائیس ارا کین کمیونسٹ پارٹی کے ہیں۔ امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی میں بتیس فیصد اراکین سوشلزم کے حامی ہیں۔اسرائیل، تیونس اور ترکی کی مضبوط حزب اختلاف کمیونسٹ پارٹیاں ہیں، جنوبی امریکاکے پینتیس ملکوں میں سے تینتیس ملکوں میں سوشل ڈیموکریٹ، سو شلسٹ اورکمیو نسٹ حکمرانی کر رہے ہیں۔ ملائیشیا میں سوشلسٹ پارٹی مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ نیپال میں کمیونسٹ پارٹی نے بادشاہت کا خاتمہ کیا اور اب بھی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے۔ بلا روس زمباوے، شمالی کوریا اور بولیویا اپنے کو سوشلسٹ ممالک کہلاتے ہیں۔
برکینا فاسو، جنوبی افریقہ، یونان،پرتگال اور اسپین انقلاب کے دھانے پرکھڑا ہے۔ اس صورتحال کے مدنظر برطانیہ میں لیبر پارٹی کا لیڈراشتراکی نظریات کا حامل کارکن منتخب ہونا کوئی انوکھی بات نہیں، ہاں مگر اس کے اثرات پورے یورپ پر زیادہ پڑیں گے۔اٹلی، فرانس اور جرمنی میں کسی بھی وقت سوشلسٹ کامیاب ہوسکتے ہیں۔ درحقیقت بیسویں صدی انقلابات کی صدی تھی اب اکیسویں صدی ارتقا کی صدی ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والے سارے عوامل ارتقا کی عمل میں ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ انقلابی صورتحال پیدا نہیں ہوسکتی ہے۔بیسویں صدی میں جب روس، چین اور مشرقی یورپ میں انقلابات برپا ہوئے تھے تو اس کے اثرات ایشیا، افریقہ اور لا طینی امریکا پر پڑے اور درجنوں ملکوں میں سوشلسٹ انقلاب آئے۔ لیکن یہ سارے انقلاب ریاستی آلات کے ذریعے چلائے گئے اس لیے یہ انقلابات کمیونسٹ معاشرے میں تبدیل نہ ہوسکے۔ریاستی جبر سے ہٹ کر فطری سماج کی تشکیل کے بغیر طبقاتی سماج کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دنیا بھرکے سوشلسٹوں، انارکسٹوں اورکمیونسٹوں کو اس ارتقائی عمل میں خاموش رہنے کے بجائے کمیونسٹ انقلاب (تبدیلی) کی جانب فوری سفر کی تیاری کرنی ہوگی اور یہ قدم عوام خود اٹھا رہے ہیں۔ سر حدیں ٹوٹتی جا رہی ہیں۔ یورپ میں کہیں بھی احتجاج ہوتا ہے تو دیگر ملکوں کے عوام شریک ہوجاتے ہیں۔ یہی صورتحال افریقہ، وسطی ایشیا، مشرق وسطی اورمشرق بعیدکی ہے۔ جرمنی کی حکو مت نے اعلان کیا ہے کہ اس سال کے اختتام تک جرمنی میں آٹھ لا کھ پناہ گزین آئیں گے۔ بر اعظم آسٹریلیا میں پورے ہندوستان اورکینیڈا میں چین کی ساری آ بادی کو بسایا جاسکتا ہے۔ساری دنیا سارے لو گوں کی ہے۔
نومنتخب لیڈرکار بن نے اپنے پہلے بیان میں کہا کہ' میرا پہلا کام پناہ گزینوں کے حق میں ہونے والے مظاہرے میں شرکت ہو گی ۔کاربن نے دو لاکھ اکاون ہزار، چارسو سترہ ووٹ لیے جوکہ کل ڈالے جانے والے ووٹوں کے انسٹھ فیصد تھے جب کہ ان کے قریب ترین حریف اینڈی برنہیم کو صرف انیس فیصد ووٹ مل۔ لیبرپارٹی کے سابقہ وزیراعظم ٹونی بلئیر نے کہا تھا کہ اگرکاربن جیت گیا تو لیبر پارٹی کو تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس نے کاربن کے لیے لکھے گئے مضمون میں لکھا کہ ' اس سے کو ئی فرق نہیں پڑتا کہ آ پ پارٹی کے دائیں بازو یا با ئیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں یا سینٹر سے، چاہے آپ میری حمایت کرتے ہیں یا مخالفت لیکن خدارا اس خطرے کو بھانپ لیں جسکا ہمیں سامنا ہے'۔ کس بات کا سامنا ہے؟ وہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد کو ہلتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔
ایک اور سابق وزیراعظم گورڈن براؤن نے بھی پارٹی کارکنان کو ووٹ دینے سے خبردارکیا تھا اورکہا تھا کہ ارلنگٹن نا رتھ سے یہ امیدوار حزب اللہ، حماس، وینیزویلا اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات استوارکرتے ہوئے عالمی تعلقات میں تباہی کا موجب بنے گا اور پارٹی ایک حکومتی پارٹی کی بجائے محض ایک احتجاجی پارٹی بن کر رہ جائے گی۔ آج ایشیا کی ابھرتی ہوئی تیز ترمعیشت تنزلی کا شکار ہے۔ چین کی اسمبلی میں تیراسی ارب پتی جب کہ ملک میں ستائس کروڑ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں میں چین میں پچاسی ہزار بارمظاہرے وہاں کے مزدوروں اورکسانوں نے کیے جن میں بیشتر مطالبات منوائے بھی۔ حال ہی میں اسٹاک ایکسچینج کے انہدام نے چین کی معیشت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جس کی اپنی معیشت تباہی کی جانب گامزن ہے وہ دوسروں کی کیا مدد کرے گا؟ہاں مگر مدد کے نام پر افریقہ، مشرق وسطی اور بر صغیر میں چینی سرمایہ داروں کی لوٹ جاری ہے۔
دوسرا پڑوسی ملک ہندوستان میں چونتیس کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔ صرف تپ دق سے روزانہ دس ہزار انسان لقمہ اجل بن رہے ہیں، ہر چند کہ وہاں کی حکومت پانچ ہزار رو پے سے کم آمد نی والوں کو دو رو پے کلو آٹا اور تین روپے کلو چاول فراہم کرتی ہے۔ انڈیا میں چون ارب پتی ہیں اور دوسری جا نب ستر فیصد لوگ غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ انھیں ظلم کے جبرکے خلاف ہندوستان کی ایک تہائی زمینی رقبے پر ماؤنوازکمیو نسٹ پارٹی کے باغی قابض ہیں۔ حکومتی اعدادو شمار کے مطابق ساٹھ ہزار اسکوائر میل کے جنگلات پرکمیونسٹوں کا راج ہے۔ دو ستمبر دوہزار پندرہ میں بھارت کے سولہ کروڑ مزدوروں نے ہڑتال کی جس کی رہنمائی کمیونسٹ پار ٹی آف انڈیا کر رہی تھی۔انھیں اثرات کو پا کستان میں روکنے کے لیے عوام کو نان ایشوز میں الجھایا رکھا جا رہا ہے۔
حال ہی میں سپریم کورٹ آف پا کستان کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خوا جہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ڈی جے خان میں اسٹون کریشنگ کے ایک سو تیس مزدور پھیپھڑے کے مرض میں مبتلا ہو کر مرگئے اور حکمرانوں کے کان پہ جوں تک نہ رینگی ۔جاپان کی اسمبلی میں بائیس ارا کین کمیونسٹ پارٹی کے ہیں۔ امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی میں بتیس فیصد اراکین سوشلزم کے حامی ہیں۔اسرائیل، تیونس اور ترکی کی مضبوط حزب اختلاف کمیونسٹ پارٹیاں ہیں، جنوبی امریکاکے پینتیس ملکوں میں سے تینتیس ملکوں میں سوشل ڈیموکریٹ، سو شلسٹ اورکمیو نسٹ حکمرانی کر رہے ہیں۔ ملائیشیا میں سوشلسٹ پارٹی مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ نیپال میں کمیونسٹ پارٹی نے بادشاہت کا خاتمہ کیا اور اب بھی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے۔ بلا روس زمباوے، شمالی کوریا اور بولیویا اپنے کو سوشلسٹ ممالک کہلاتے ہیں۔
برکینا فاسو، جنوبی افریقہ، یونان،پرتگال اور اسپین انقلاب کے دھانے پرکھڑا ہے۔ اس صورتحال کے مدنظر برطانیہ میں لیبر پارٹی کا لیڈراشتراکی نظریات کا حامل کارکن منتخب ہونا کوئی انوکھی بات نہیں، ہاں مگر اس کے اثرات پورے یورپ پر زیادہ پڑیں گے۔اٹلی، فرانس اور جرمنی میں کسی بھی وقت سوشلسٹ کامیاب ہوسکتے ہیں۔ درحقیقت بیسویں صدی انقلابات کی صدی تھی اب اکیسویں صدی ارتقا کی صدی ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والے سارے عوامل ارتقا کی عمل میں ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ انقلابی صورتحال پیدا نہیں ہوسکتی ہے۔بیسویں صدی میں جب روس، چین اور مشرقی یورپ میں انقلابات برپا ہوئے تھے تو اس کے اثرات ایشیا، افریقہ اور لا طینی امریکا پر پڑے اور درجنوں ملکوں میں سوشلسٹ انقلاب آئے۔ لیکن یہ سارے انقلاب ریاستی آلات کے ذریعے چلائے گئے اس لیے یہ انقلابات کمیونسٹ معاشرے میں تبدیل نہ ہوسکے۔ریاستی جبر سے ہٹ کر فطری سماج کی تشکیل کے بغیر طبقاتی سماج کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دنیا بھرکے سوشلسٹوں، انارکسٹوں اورکمیونسٹوں کو اس ارتقائی عمل میں خاموش رہنے کے بجائے کمیونسٹ انقلاب (تبدیلی) کی جانب فوری سفر کی تیاری کرنی ہوگی اور یہ قدم عوام خود اٹھا رہے ہیں۔ سر حدیں ٹوٹتی جا رہی ہیں۔ یورپ میں کہیں بھی احتجاج ہوتا ہے تو دیگر ملکوں کے عوام شریک ہوجاتے ہیں۔ یہی صورتحال افریقہ، وسطی ایشیا، مشرق وسطی اورمشرق بعیدکی ہے۔ جرمنی کی حکو مت نے اعلان کیا ہے کہ اس سال کے اختتام تک جرمنی میں آٹھ لا کھ پناہ گزین آئیں گے۔ بر اعظم آسٹریلیا میں پورے ہندوستان اورکینیڈا میں چین کی ساری آ بادی کو بسایا جاسکتا ہے۔ساری دنیا سارے لو گوں کی ہے۔